میلاد کے جواز اور عدم جواز کی لاحاصل بحث / ڈاکٹرعلی اکبر الازہری


برصغیر پاک وہند کے دوبڑے سنی حنفی مسلمان گروہ “دیوبندیت “اور”بریلویت” کی تقسیم میں بٹنے کے بعد کچھ ایسی کلامی اور اعتقادی مباحث میں الجھتے چلے گئے کہ آج تقریبا سوسال بعد بھی فریقین باھمی نفرت کے احساسات کے علاؤہ ٹھوس علمی و اعتقادی تفریق یاتفوق ثابت نہیں کرسکے۔۔۔۔یہ دورانیہ میں نے سوسالہ اسلیے لکھا ھے کیونکہ امام احمد رضا محدث بریلوی کی وفات اکتوبر 1921میں ہوئی۔۔جبکہ انکے نظریاتی مدمقابل مولانا اشرف علی تھانوی کا وصال 1943 میں ہوا ۔۔ان دونوں بزرگوں سے قبل برصغیر میں اعتقادی بحث مباحثہ سب سے پہلے شاہ اسماعیل کی کتاب “صراط مستقیم ” کی اشاعت کے ساتھ ہی شروع ہو چکا تھا۔۔۔شاہ اسماعیل حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے تھے۔۔۔سفر حرمین میں وہ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی تحریک وہابیت اور انکے اختلافی لٹریچر سے متاثر ہوکر وطن واپس لوٹے تھے۔۔۔۔اپنے جد امجد کے معتدل افکار وخیالات کے برعکس انکے نواموختہ اعتقادی افکار وہی تھے جو پورے عالم عرب وعجم میں تب بھی متنازعہ تھے اور وقت نے ثابت بھی کردیا کہ اب بھی سخت متنازعہ ہیں۔۔۔ عثمانی ترکوں کے خلاف اسلام مخالف برطانوی مشنری اداروں کا جال روضہ رسول اور گنبد خضرا کے خلاف ہرزہ سرائی سے لیکر عالم اسلام کے اداروں کی مخالفت میں کیا کیا کرتا رہا ۔۔۔اب تو مستند کتب میں اسلام مخالف سازشوں کو طشت ازبام کردیا گیا ھے۔۔۔اس تاریخی سازش کی تفصیلات انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہیں۔۔۔۔اور دیوبند محققین کی اکثریت نےنجدی برانڈ اسلام کی مخالفت ظاھر کردی ھے۔۔۔۔
خیر یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔۔۔۔سردست ھم میلاد کے چھوٹے سے اختلافی مسئلے پر اھل فکر ونظر کو دعوت تفکیر دے رہے ہیں۔۔۔۔۔
۔۔137 سال جی ہاں !!!!!!!! 1885 سے یہ بحث شروع ہوتی ہے اور آج 2022 میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ میلاد منانا جائز ہے یا نہیں!!!!!! حالانکہ عالم ارواح سے لے کر قیامت کے بعد تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا ،،،، ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندی کا وعدہ جب رب کائنات نے فرمایا تو ہم انسانوں کی کیا اوقات کہ ہم نہ کریں؟؟؟؟؟ لیکن بدقسمتی سے برصغیر میں یہ بحث شروع ہوئی !!!!!!!!!!!!!بہت اچھا تھا اگر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مشورہ پر عمل کر لیا جاتا اور مسلمانوں کے وسائل میلاد کے جواز اور عدم جواز پر صرف ہونے کی بجائے اسلامی نظام کی طرف بڑھا جاتا,,,,,, مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا جو اعتراض براہین قاطعہ میں اٹھائے گئے اور جو جوابات انوار ساطعہ میں دیئے گئے!!!!! نہ اعتراض بدلے نہ جواب,,, لیکن پھر بھی ہزاروں کی تعداد میں میلاد پر کتب لکھی گئیں اور لاکھوں کی تعداد میں تقریریں ۔۔۔۔۔ اس پوری مشق میں جو بات ابھر کر سامنے آئی وہ یہ کہ عدم جواز والے اپنی بات بحثیت مجموعی نہ منوا سکے,,,,, بلکہ بادل ناخواستہ خواہی نخواہی انہیں کسی نہ کسی حثیت سے ایسی محافل میں شامل ہونا ہی پڑتا ہے ,,,,کیونکہ جو معمول پوری دنیا کے مسلمان ممالک میں رائج ہو ! آپ کی اپنی حکومتی سطح پر رائج ہو اور پھر عوامی سطح پر رائج ہو وہ کام چند فتویٰ کی بنا پر نہ تو رکے ہیں !!!!! اور نہ روکے جا سکتے ہیں ,,,,,اس لیے جو ادکا دکا آوازیں عدم جواز کی اٹھتی ہیں ان شاءاللہ وہ بھی مائل بہ خاموشی ہو جائیں گے ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ ان کے مائل ہونے میں جو بڑی رکاوٹ سامنے آ رہی ہے وہ مجالس میلاد کی بعض غیر شرعی شکلیں ہیں,, ,,جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے,,,,
اب آپ آ جائیے ان خواص کی طرف جو میلاد کے جواز کے قائل ہیں ان کے موضوعات کی طرف !!!!!!!!!!!! اور انداز بیاں کی طرف ،،،،،،ایک سو سینتیس سال کے اشتہارات کے موضوعات دیکھ لیں ،،،،،،جس میں آپ کو 95 فیصد موضوع جشن عیدمیلاد النبی ملے گا ،،،،،،اور اس میں تقریر میلاد کے جواز پر ہو گی اور ساتھ عدم جواز والوں کو رگڑا لگایا گیا ہو گا ۔۔۔۔۔ میں تو پہلے ہی اقرار کر چکا ہوں کہ کاش یہ بحث شروع ہی نہ ہوتی اور مسلمان اپنے نبی اعظم کی محبت میں عقیدت سے میلاد مناتے اور ہر مجلس میں اسلامی نظام پر بات ہوتی،،،، لیکن یہاں تو جواز اور عدم جواز کا منفی ٹرینڈ ہی چلتا رہا،،،،، جس کی وجہ سے مسلمان اصل مقصد ہی سے دور ہوتے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ایک نقصان میلاد منانے والوں کا ضرور ہؤا کہ ان کے بے پناہ وسائل محافل کے انعقاد پر خرچ ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں،،،، لیکن فریق مخالف وہی وسائل اپنے مسلکی اداروں کے فروغ پر خرچ کرتا رہا اور ان اداروں سے فارغ کلیدی عہدوں پر براجمان ہوتے گئے ،،،،،،جس کی وجہ سے عوام تو جواز والوں کے ساتھ ہے،،،،،،،، مگر خواص کا جھکاؤ دوسری طرف ہے،جو بجاے خود ایک عجیب زھنی خلا اور الجھن ھے،،، اس عدم توازن کا علاج مجوزین اور مانعین میلاد کے پاس کم از کم پاکستان کی حد تک تو نظر نہیں آتا ،،،،،،،، آج جن حضرات نے جوش جذبے سے دن منایا کیا وہ تھکن دور کرتے ہوئے اس بات پر غور فرمائیں گے؟؟؟؟؟؟؟ کہ کیا اگلے ایک سو سینتیس سال بھی اسی طرح بحث مباحثے میں گزریں گے یا سرکار صلی علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے نفاذ کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل پر غور ہو گا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ مجھے ڈر ہے کہیں اس تفرقہ پروری میں گھری نوجوان نسل کے سامنے کمال اتاترک کا راستہ ہموار نہ ہو جائے اور ہم ابھی بحثوں میں الجھے رہی۔۔۔۔۔۔
You must log in to post a comment.