کیا انسان خسارے میں ہے / ارسلان احمد


ان الانسان لفی الخسر
(بے شک انسان خسارےمیں ہے )(القرآن )
قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ پڑھنے کہ بعد بچپن میں سوچتا تھا اس کا کیا مطلب ہے ۔ کیسا خسارہ؟ انسان خسارے میں کیسے ہے؟
۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ جب زندگی کے اصل حقائق خود آشکار ہوئے تو یہ راز کھلتا گیا۔ زندگی کے اکثر مواقع پر جب خود کو بے بس محسوس کیا تو اندازہ ہوا کہ ہم اس ذات (اللہ تبارک و تعالی) کے ‘کن’ کے محتاج ہیں۔ انسان بہت بے بس اور کمزور ہے لیکن اللہ تعالی ہمیں طاقت عزت دولت شہرت وسائل دے کر ہمارا ظرف دیکھتا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں ساتھ ہی اللہ تعالی ہمیں دنیا میں ہی بعض اوقات بتاتا ہے جب آپ کی کوئی بھی شے آپ کے کام نہیں آسکتی اور پھر ہم اسی ذات کے آگے جھکتے ہیں ۔ 18000 قسم کی مخلوقات میں انسان کا بچہ سب سے زیادہ دیر میں بولنا چلنا اور سنبھالنا سیکھتا ہے۔ اور انسان واحد مخلوق جو اپنی زندگی تک خود ختم کر لیتا ہے ۔
کبھی آپ نے انسان کی کمزوری کا عملی ثبوت دیکھنا ہو تو کسی بڑے ہسپتال جا کر دیکھ لیں تو پتہ لگے ایسے لوگ بیمار پڑے ہیں جو سمجھتے تھے ہم نہ ہوں گے سارا نظام رک جائے گا اور وہ اپنے ناک سے مکھی نہیں اڑا سکتے۔ انکا مال پیسہ بھی نہیں بچا سکتا انکو۔
پھر اگر کسی کے اولاد نہیں ہے تو وہ بھی بے بس ہے اسکی کوئی چالاکی ہوشیاری مال دولت کام نہیں آسکتے
پھر اگر آپ موت سے بچنا چاہتے ہیں تو جو بھی کر لیں وہ آتی ہے اور انسان کو اچک لیتی ہے ۔ یہ سارا نظام اس کے ایک ‘کن’ کے گرد گھومتا ہے اور سرکشی میں ڈوبا انسان ساری زندگی ‘میں ‘ ‘میں ‘ کرتے گزار دیتا ہے اور پھر یہ بات نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ‘ انسان خسارے میں ہے ۔
You must log in to post a comment.