داستان گوئی اور حیوانی کہانیاں / ڈاکٹر حنا جمشید


ہندوستان
ہندوستان کی قدیم فکری دانش پر مبنی حکایات و قصّہ کہانیوں سے لے کر، رُڈیارڈ کپلنگ کی ”جنگل بک“ سے ہوتے ہوئے جارج آرویل کے ”اینیمل فارم“ تک، جانوروں کی علامتی صورت میں، انسان کو سکھائے جانے والے عقل و تدبر کے قصّوں میں، دانائی کی حکمت و بصیرت آج بھی وہیں کھڑی دکھائی دیتی ہے، جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ شاید اس کی وجہ انسانی سرشت کی وہ نفسیاتی پیچیدگیاں اور رویوں کے وہ اُلجھاؤ ہیں، جن میں اس کی برتری کا زعم اور اقتدار و اختیار کی خواہش، اپنے اردگرد موجود لوگوں پر اجارہ داری یا غلبے کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔ فردِ واحد کا یہ رویہ جب کسی اجتماعی قوم، نسل یا گروہ کے زعم، برتری یا احساسِ تفاخر کی صورت اُبھرتا ہے تو دنیا بھر کے امن و آشتی کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
دنیا کی قدیم ترین دانش اور قصہ کہانی میں، جانوروں کی زبانی انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کو کھولنے کی سعی ہندوستان کی لوک دانش میں سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی حکمت آمیز قدیم داستانوں کے دنیا بھر کی قدیم حکایات اور قصوں پر واضح اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ دانش و بینش کا ایسا ہی ایک نادر و نایاب حوالہ ’’کلیلہ و دِمنہ‘‘ ہے جس کی عالمگیر شہرت نے ماضی میں ایک طویل عرصے تک دنیا بھر کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔
عہدِ قدیم میں قصّہ گوئی حکایات کی شکل میں موجود تھی جس نے قصّہ در قصّہ اپنے پھیلاؤ کے باعث بعد میں داستان کی شکل اختیار کر لی۔ ماضی کا جفا کش انسان، جب کھیتوں میں دن بھر کی مشقت سے تھکا ہارا گھر لوٹتا تو اپنی شام کی محفل میں دلچسپ قصہ کہانیوں کی صورت پناہ ڈھونڈتا، جہاں داستان گو اس کے اردگرد کے ماحول سے نت نئی کہانیاں اور قصّے، کسی دلچسپ داستان کے جال کی مانند، بُن کر اسے سُناتا جاتا۔ یہی نہیں راجا، مہاراجاؤں کے دربار میں بھی راجدھانی کے گُر اور سیاست کے جوہر و رموز ان ہی قصّہ کہانیوں کی صورت سکھائے جاتے۔
انسان کا زرخیز تخیل اپنے اردگرد موجود جنگلوں، جانوروں اور پرندوں کے طاقت ور، کمزور، ذہین، دلیر اور چالاک کرداروں کے گرد کہانی بُنتا جاتا اور ان سے ایسے ایسے اخلاقی، سماجی اور من پسند نتائج اخذ کرتا جاتا جو جانوروں کی علامتی کہانی کی صورت کسی بھی سیاسی و سماجی صورتحال میں اپنی بات کی دلیل یا سند کی صورت پیش کیے جا سکتے۔
قصّہ در قصّہ ان حکمت آمیز کہانیوں کی وسعتِ بیان نے آہستہ آہستہ داستان کی صورت اختیار کر لی۔ رفتہ رفتہ یہ داستانیں پرندوں اور جانوروں کے ہی نہیں، حُسن و عشق کے قصّوں اور اساطیری کرداروں کی کثرت کے باعث مزید طوالت اور ضخامت اختیار کرتی چلی گئیں۔ تاہم ان داستانوں میں آج بھی جو داستانیں اپنے بیان کے اختصار اور اپنے اندر موجود شناسا جانوروں کی دانائی، حکمت اور بصیرت آمیز باتوں کے سبب معتبر رہیں، ان میں ”کلیلہ و دِمنہ“ کا نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔
دُنیا بھر کے قدیم مہذب و غیر مہذب قبائل اور تہذیب و تمدن سے آراستہ بستیوں میں حیوانی کہانیوں کے آثار ملتے ہیں۔ یہ کہانیاں اپنے ناصحانہ انجام اور اپنی سبق آموز روایات کے باعث سینہ بہ سینہ ماضی سے مستقبل کا سفر طے کرتی رہیں۔ یقینی طور پر منتقلی کے اس طویل اور پیچیدہ عمل میں جو سراسر انسانی یادداشت اور ذکر پر اپنا انحصار کیے ہوئے ہوں، ان قدیم حیوانی قصّوں اور حکایات کا ایک بہت بڑا سرمایہ وقت کے ہاتھوں خورد برد ہوا ہو گا، تاہم آج بھی افریقہ اور لائبیریا کے حبشی قبائل کے قدیم قصوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے بیشتر حیوانی کہانیوں پر ہی مشتمل نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین اُردو کی نثری داستانوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
”جنوبی افریقہ کے بشن قبائل میں اب بھی اس قسم کی کہانیاں بالکل سادہ شکل میں ملتی ہیں۔ ان میں خرگوش ہمیشہ چالاک ہوتا ہے۔ لائبیریا کے حبشیوں کے دائی قبیلے کو 1830ء کے قریب جب ابجد سکھایا گیا تو انھوں نے سب سے پہلے جانوروں کی بھونڈی کہانیاں ہی لکھیں۔“
جانوروں کے یہ حکایاتی قصّے سب سے پہلے مصر کی سرزمین میں نظر آتے ہیں جہاں انسان جانوروں کی پرستش کیا کرتا تھا۔ وہ انھیں دیوی دیوتاؤں کی مانند مقدس جانتے، فراعنۂ مصر کے خاندانوں میں ان کی پرستش کی روایت کی بدولت، پالتو جانوروں کے مردہ اجسام بھی ان اہراموں میں بڑی عقیدت اور محبّت سے دفن نظر آتے ہیں۔ مصر کی سرزمین سے جانوروں کے بہت سے قصوں نے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ یہ قصے جب بابل اور مشرقی ایشیا پہنچے تو انھیں ”ایسوپ کہانیاں“ یا ”حکایاتِ لقمان“ کہا جانے لگا۔
ایسوپ (620 تا 564 ق م) وہ غلام تھا جو آزاد کر دئیے جانے کے بعد اعلیٰ طبقات کے لوگوں میں اپنی حیوانی کہانیوں کے باعث معروف تھا۔ اگرچہ طب میں کمال حاصل کرنے کے بعد حکمت اس کا پیشہ رہی، تاہم قصّہ کہانی کہنے اور سُنانے کا شوق اس کا پھر بھی باقی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیلفی کے لوگوں نے اسے محض ایک غلط فہمی کی وجہ سے قتل کر دیا۔
پانچویں صدی عیسوی میں ایتھنز میں زبان زد ہونے والی ایسوپ کی کہانیوں کو مرتبہ صورت میں سامنے لانے کی کاوشیں کی گئیں۔ ان حکایات کے قدیم نسخہ جات اب بھی پرانی مصری زبان سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بقول افلاطون، سقراط جیسے عظیم فلسفی نے قید خانے میں اس کتاب کو نظم کرنے کی کوشش کی، یہی نہیں خود افلاطون نے ایسوپ کی کئی حکایات کو اپنے ہاں درج کیا۔ چودھویں صدی کے نصف اوّل میں قسطنطنیہ کے پادری پلانڈیز نے 231 کہانیاں اکٹھی کیں، ایسوپ کی بعد میں مرتب کی جانے والی بہت سی کہانیوں میں سے اکثر اسی مجموعے سے ماخوذ ہیں۔
چودھویں صدی تک یورپ میں زیادہ تر حکایات، ”جاتک کہانیوں“، عرب کی ”الف لیلہ“ اور ہندوستان کی ”کلیلہ و دِمنہ“ سے ماخوذ ملتی ہیں۔ معروف برطانوی شاعر ڈرائڈن کے ہاں بھی بہت سی حیوانی کہانیاں نظموں کی صورت رقم ہوئی ملتی ہیں۔ ہندوستان میں جانوروں کی کہانیوں کی روایت نہایت قدیم ہے۔ قدیم ”اپنشد“ اور ”مہا بھارت“ کی کئی تمثیلوں میں جانوروں کی حکایات موجود ہیں۔
مہا بھارت کے بعد ہندوستان میں جانوروں کی یہ حکایات بودھ جاتک کہانیوں کی صورت بکثرت ملتی ہیں۔ یہ جاتک کہانیاں بودھ سے منسوب کی جاتی ہیں، جنھیں اس نے اپنے فرمودات اور افکار کے پرچار کے لیے بطور تمثیل استعمال کیا۔ یہ بودھ جاتک کہانیاں 547 حکایات کی شکل میں 22 جلدوں میں مدون کی گئیں، انھیں گاتھا کہا جاتا ہے اور درس و تبلیغ میں انھیں دوہوں کی شکل میں پڑھا جاتا ہے۔ تاہم ان میں سے بیشتر کو بودھ کی پیدائش سے قبل کی جنم کتھائیں بھی کہا جاتا ہے۔
ہندوستان کی قدیم ترین دانش کتھاؤں میں دیکھا جائے تو ”پنج تنتر“ دُنیا کی مقبول ترین قصّہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ ”کلیلہ و دِمنہ“ کا ماخذ بھی یہی سنسکرتی کتھائیں قرار دی جاتی ہیں۔ ”پنج تنتر“ کہانیوں میں کوتلیہ اچاریہ چانکیہ کا ذکر ہونے کی وجہ سے اس کا زمانہ تصنیف 300 ق م مانا جاتا ہے۔ کچھ تھوڑی بہت ترمیم یا ردّ و بدل کے ساتھ اس کے کئی قدیم نسخے دکنی ہند، نیپال اور کشمیر وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ پنج تنتریات کے عالم بین فرے، ڈاکٹر ہر ٹل اور پروفیسر ایڈگرٹن نے، پنج تنتر کہانیوں کے بودھ جاتک کہانیوں سے قبل کے نسخے بھی دریافت کیے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں پنپنے والی کئی حیوانی و جاتک کہانیوں پر پنج تنتر کے اثرات بہت واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ”کتھا سرت ساگر“ اور ”ہتوپدیش“ اس کی واضح مثال ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ”مہا بھارت“، ایسوپ کے قصوں اور بودھ کی کئی جاتک کہانیوں پر بھی پنج تنتر کہانیوں کے اثرات بہت گہرے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً مہا بھارت میں درج اس شخص کی حکایت جو ایک گھنے جنگل میں، ایک کنوئیں میں گرتے وقت برگد کے پیڑ کی شاخیں تھام لیتا ہے اور کنوئیں میں لٹک جاتا ہے، جہاں کنوئیں کی تہ میں بیٹھا اژدھا، پیڑ پر بیٹھا ریچھ اور درخت کی شاخ کترتے دو سفید کالے، دن رات کے علامتی چوہے اور شہد کے چھتے سے گرتا شہد اور لٹکے ہوئے شخص کی غفلت کا قصہ مثنوی مولانا روم، ابن المقفع کی ترجمہ کی گئی ”کلیلہ و دِمنہ“، ”بہارِ دانش“، ”بوستانِ خیال“، بودھ کی جاتک کہانیوں اور ”خرد افروز“ جیسی حکایات میں بھی ملتا ہے۔
اس طرح ایک بات تو طے ہو جاتی ہے کہ ہندوستان کی پنج تنتر کہانیوں کے اثرات دُنیا بھر کی حیوانی کہانیوں پر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ ان قوموں کا تجارتی امور کے سلسلے میں وہ تعلق تھا جس کی بدولت وہ ایشیائے کوچک میں دیگر اقوامِ عالم کے ساتھ ایک خاص قسم کی کاروباری وضع داری رکھتے تھے۔
یونان، مصر، عراق اور ہند کی تہذیبوں میں تھوڑے بہت ردّ و بدل کے ساتھ تقریباً سبھی جانوروں کی کہانیوں کے عزائم و مقاصد ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کہانیوں کے جانور اکثر انسانوں کی طرح بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کئی جانوروں کو ان کی خصلت کی مانند دکھایا جاتا ہے مثلاً شیر کو جنگل کا بادشاہ اور بہادر جب کہ کوّا اور لومڑی کو چالاک اور عیار دکھایا جاتا ہے۔ تاہم ہندوستان میں ان جانوروں کو بالکل انسانوں کی مانند زندگی گزارتے دکھایا جاتا ہے۔ مثلاً یہاں شیر جو جنگل کا تنہا اور زبردست جانور ہے، وہ ان کہانیوں میں دربار بھی لگاتا دکھائی دیتا ہے، یہی نہیں جنگل کے کچھ جانور اپنی اپنی خصلت یا عادات کے مطابق اس دربار کے کچھ عہدوں مثلاً وزیر اور مشیر کے مرتبوں پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔
ان کہانیوں میں یہ اور ان کے ساتھ آنے والے دیگر جانوروں کے کردار بصیرت اور دانائی کی وہ باتیں ایک دوسرے کو سُناتے ہیں جو جنگل کے بادشاہ کے لیے زندگی کے اہم فیصلوں کو اپنی حکمت کے سبب آسان بنا دیتی ہیں۔ یوں انسانی فہم و دانش کو جانوروں کی بصیرت کے تابع کر کے اُسے بہتر انداز میں سکھایا جاتا ہے۔
ہندوستان کی سرزمین میں جنم لینے والی ”کلیلہ و دِمنہ“ دُنیا بھر کی حیوانی کہانیوں کا قابلِ قدر مخزن سمجھی جاتی ہے۔ اس داستان کا سب سے اہم اور بنیادی ماخذ ہندوستان کی قدیم سنسکرتی کتھا ”پنج تنتر“ کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس سنسکرتی کتھا کی تحقیق کرنے والے کئی مستشرقین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنج تنتر کہانیوں کے مصنف وشنو شرما نے ان میں سے کچھ کہانیاں خود تصنیف کیں جب کہ بیشتر کہانیوں کے لیے انھوں نے اپنے عہد میں رائج قدیم سنسکرتی کہانیوں کی طرف رجوع کیا۔
”مہا بھارت“، ”رامائن“، ”شنکر سنگیت“ اور کئی گرنتھوں سے قصّوں اور اشعار کو معمولی ردّ و بدل کے بعد ان پنج تنتر کہانیوں کا حصّہ بنا دیا گیا۔ یہ پنج تنتر کہانیاں ابتدا میں پانچ ابواب پر مشتمل تھیں، اسی وجہ سے انھیں پنج تنتر یعنی پانچ کتھاؤں پر مشتمل کہانیاں کہا جاتا ہے اور ”کلیلہ و دِمنہ“ کو بھی اسی داستان سے ماخوذ قرار دیا جاتا ہے۔
”کلیلہ و دِمنہ“ جس کا قدیم سنسکرتی نام ”کرتک و دمنک“ ہے، ہندوستان کی وہ قدیم دانش ہے جس کی جڑیں ہندوستانی سماج میں آج بھی بہت گہری ہیں۔ اصل سنسکرتی داستان کے بنیادی ابواب کی تعداد دس ہے۔ ”کلیلہ و دِمنہ“ کو ہندوستان کے قدیم اور مقبول دانش کہانیوں ”پنج تنتر“، ”ہتوپدیش“ اور ”سرت ساگر“ کا انتخابی مجموعہ بھی کہا گیا۔ جس کا عربی، فارسی، ترکی اور عبرانی سمیت دُنیا کی کئی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
خسرو نوشیرواں عادل (579ء ― 531ء) جسے اہلِ عرب کسریٰ کے نام سے یاد کرتے ہیں، نے اس قدیم سنسکرتی کتاب ”کرتک و دمنک“ کی شہرت سُن کر، اسے اپنے دانا وزیر بزرگ مہر جسے بزرجمہر بھی کہا جاتا تھا، کے ذریعے بڑی چالبازی سے شطرنج کے کھیل کے ہمراہ، اسے ہندوستان سے ایران منگوایا۔ جہاں 539ء میں اس کا پہلوی میں ترجمہ کیا گیا۔ کتاب کے ابتدائی مندرجات میں اصل داستان سے قبل شامل ابواب مثلاً حکیم برزویہ کی ہندوستان روانگی اور بزرجمہر کے قلم سے نکلے تاثراتی افکار داستان کے قصوں میں الگ دکھائی دیتے ہیں، تاہم ان کی توضیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ نوشیرواں کے وزیر بزرجمہر کی درخواست پر اس کارنامے کو سرانجام دینے والے حکیم برزویہ کی یہ خواہش تھی کہ اس کا احوال اصل داستان سے قبل کسی باب کی صورت درج کر دیا جائے۔
جب کہ ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق ”کلیلہ و دِمنہ“ کا سب سے قدیم پہلوی ترجمہ جو 570ء میں ایک ایرانی مسیحی پادری بود نے قدیم سریانی میں کیا تھا اور جسے بعد میں بنیفے نے 1871ء میں دو سو صفحوں کے پُر مغز مقدمے کے ساتھ شائع کیا اور جو پہلوی کا سب سے قدیم اور اصل ترجمہ ہونے کے باعث نہایت اہم ہے۔ اس میں حکیم برزویہ کی مہم اور وزیر بزرجمہر کے تاثرات کا کہیں ذکر نہیں۔ تاہم جب اموی خلیفہ ابو الجعفر منصور عباسی کے حکم پر دربار کے میر منشی عبداللّٰہ ابن مقفع نے جو پارسی زادہ نو مسلم تھا، 750ء میں عربی ”کلیلہ و دِمنہ“ لکھا جو پہلوی کا دوسرا ترجمہ تھا، تب اس میں حکیم برزویہ اور بزرجمہر کی یہ روایات شامل کر دی گئیں۔´
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکیم برزویہ کی مہم کا افسانہ ابن مقفع کے تخیل کی پیداوار تھا تو اسے یہ تمثیل گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ نیز یہ بھی کہ ”کلیلہ و دِمنہ“ کی ابتدا میں پیش کیے جانے والے مکالمے کے دو بنیادی کردار راجا رائے دابشلیم اور برہمن فلسفی بیدپا کون تھے؟ نیز ان کا تعلق کس زمانے سے رہا ہو گا؟ درحقیقت رائے کے معنی بادشاہ، سردار یا راجا کے ہیں، نیز ہندوؤں میں یہ لفظ خطاب کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ یوں اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب راجا پورس کو سکندر اعظم نے شکست دی تو اس کی جگہ ہندوستان میں اپنا نائب ایک یونانی گورنر چھوڑ دیا۔
سکندر کے جاتے ہی عوام نے بغاوت کر دی اور اس یونانی گورنر کی جگہ بادشاہ رائے دابشلیم کو اپنا راجا منتخب کیا۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں کہ رائے دابشلیم گجرات کے چاؤڑہ خاندان کا قدیم راجا تھا، جس نے محمودغزنوی کے حملوں سے پہلے تک سومنات پر حکومت کی۔
راج پاٹ کی شان ہی ایسی ہے کہ اچھے اچھوں کی عقل میں تکبّر بھر دیتی ہے۔ سو ایسا ہی معاملہ بادشاہ رائے دابشلیم کے ساتھ ہوا، جس کے تکبّر کو ٹوکنے اور اس کی سختی پر گرفت کرنے کو ایک برہمن بیدپا فیلسوف کو، لوگوں کی منت سماجت پر اس کے دربار میں جانا پڑا اور اسے کچھ تلخ نصیحتیں کرنا پڑیں۔ کچھ روایات کے مطابق راجا کو جب برہمن کی نصیحتیں گراں گزریں تو اس نے برہمن فلسفی کو قید کر دیا، تاہم اسی رات تاروں کی گردش نے جب اُسے کچھ سوچنے پر مجبور کیا تو اس نے بوڑھے برہمن فلسفی کو قید خانے سے بلایا اور دھیان سے اس کی تمام نصیحتیں سنیں جو قصہ کہانیوں کی صورت تھیں اور جن میں ایسے ایسے رموزِ سلطنت پوشیدہ تھے جو کسی بھی راجا کو سلطنت پہ کامیابی سے حکمرانی کا گُر سکھاتے ہیں۔
بادشاہ نے ان اخلاقی نصائح پر مبنی قصوں کو کتاب کی شکل میں محفوظ کرنے کی خواہش کی۔ برہمن بیدپا نے بادشاہ کی خواہش کے احترام میں ایک سال میں یہ کتاب مکمل کی اور صلے میں صرف یہ خواہش ظاہر کی، کتاب کی ایسی حفاظت کی جائے کہ یہ ہندوستان سے باہر نہ نکلے خاص طور پر ایرانیوں کے ہاتھ کبھی نہ لگے۔
یہ کہانی عام سادہ لوح لوگوں کو تو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے، تاہم ایک باشعور ذہن کو اسے تسلیم کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ ہندوستان کی قدیم سنسکرتی کہانیوں، خاص کر ”پنچ تنتر“ کہانیوں سے جنم لینے والی یہ ”کلیلہ و دِمنہ“ ہندوستان کی قدیم دانش کی وہ شکل تھی جو سینہ بہ سینہ مختلف قصوں اور کہانیوں کی صورت منتقل ہوتی رہی۔ سینکڑوں سال پرانی یہ کتھا محض ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دکنی ہند اور کشمیر وغیرہ تک بھی پہنچ چکی تھی۔
یقینی طور پر ابنِ مقفع نے اس زمانے کے شاہناموں کے دستور کے مطابق، قصے کی مزید تزئین و آرائش کے لیےحکیم برزویہ کی ہندوستان روانگی اورعیاری و دانشمندی سے کتاب کے حصول کی مہم اور وزیر بزرجمہر کے افکارِ عالی شان کے بیان پر مشتمل ابواب فقط زیبِ داستاں کے لیے شامل کیے۔ مزید قیاس یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ابنِ مقفع ہی وہ شخص تھا جس نے اپنے زمانے کے سیاسی و سماجی حالات، شورشوں اور درباری سازشوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان ابواب کے اضافہ جات دانستہ اس کتاب میں اس لیےکیے تاکہ وہ نہ صرف شاہِ ایران کو درباری سازشوں اور خوشامدی گروہوں سے خبردار کر سکے بلکہ انسان کے درست فلسفۂ حیات، درباری منصب کے لیے اہلِ افراد کے فوائد اور منافقت، چالبازی اور محلاتی مکارانہ رویوں کے بارے میں بھی اپنے افکار و خیالات کو ایک دانا وزیر بزرجمہر کی زبانی کہلوا سکے۔ تاہم اس سب کے باوجود بھی ابنِ مقفع خود کو درباری سازشوں سے بچا نہ سکا۔
ابنِ مقفع کے حالاتِ زندگی مزید کھنگالے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں پیدا ہونے والا یہ عالم شخص ابتدا میں زرتشی مذہب کا پیروکار تھا جو عمر کے آخری حصے میں مسلمان ہو گیا تھا۔ فارسی علم و ادب پر اس کی گرفت ابتدا ہی سے تھی تاہم عربی زبان اور اس کے بنیادی رموز اس نے بعد میں آلِ ہاشم سے سیکھے اور ان میں خوب مشق سے کمال حاصل کیا۔ عباسیوں کے عہد میں عباسی خلیفہ منصور کی جانب سے عبداللّٰہ ابنِ علی کے لیے ایک جامع امان نامہ لکھنے پر اس کی گرفت کی گئی، جس کی وجہ سے خلیفہ وقت چاہنے کے باوجود عبداللّٰہ ابنِ علی کو قانونی طور پر قتل نہ کروا سکا۔ سو اس نے اپنے غضب کا رخ ابنِ مقفع کی طرف پھیر دیا اور علم کے اس روشن چراغ کو ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا۔
ابنِ مقفع کے قتل کی توجیہات میں ایک یہ وجہ بھی شامل رہی کہ اس نے ”کلیلہ و دِمنہ“ کے اصل پہلوی متن میں ترمیم و تنسیخ کی اور اسے عربی میں منتقل کرتے ہوئے، وزیر بزرجمہر کے خودساختہ اقوال کی صورت خلیفہ منصور عباسی کے اقتدار پر سخت تنقید کی تھی۔ چوںکہ اسلام لانے سے قبل اس کی عمر ایک بڑا حصہ زرتشی مذہب کی پیروکاری پر گزرا تھا، اس لیے اسلام لانے کے بعد ایک نئے مذہب اور اس کی اخلاقیات کو قائم و جاری رکھنے میں اسے جس تردد کا سامنا کرنا پڑا، اس نے بھی خلیفہ وقت کے حواریوں کو اس کے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط کرنے میں مدد دی۔ عربی ادب و تاریخ کی قدیم اہم کتابوں ”الادب الصغیر“، ”الادب الکبیر“، ”رسالۃ الصحابہ“ کے مؤلف و مرتب اور ”کلیلہ و دِمنہ“ کے مترجم ابنِ مقفع کی موت اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی دربار سے وابستہ حواری، عالموں سے ہمیشہ حسد و رقابت کا معاملہ رکھتے ہیں۔
غور کیا جائے تو ”الف لیلہ“، ”قابوس نامہ“، ”چہار مقالہ“، ”گلستان“، ”بہارستان“ اور ”خارستان“ جیسے معروف مشرقی شاہکاروں پر قصّہ در قصّہ کہانی بننے کے انداز سے، ”کلیلہ و دِمنہ“ کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم ایرانی شاعر رودکی نے اس داستان کو منظوم بھی کیا۔
اس کے بعد کے زمانے میں جب عربوں نے ایران کو فتح کیا تب فارسی کو بھی عربی رسم الخط میں لکھا جانے لگا۔ تب ابنِ مقفع کے عربی نسخے کو سامنے رکھتے ہوئے اس داستان کو دوبارہ فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ ان ہی تراجم کو سامنے رکھ کر حسین واعظ کاشفی نے ”انوار سہیلی“ مدون کی۔ ”انوار سہیلی“ میں عربی الفاظ کی کثرت کی بدولت فارسی نسخے کی ضرورت پیش آئی۔
جلال الدین اکبر کی ایما پر ابو الفضل نے 1587ء بمطابق 996ھ میں اس کی تلخیص کی اور اسے آسان زبان میں پیش کرتے ہوئے اس کا نام ”بہارِ دانش“ رکھا۔ اس ترجمے میں ابو الفضل نے حُسین واعظ کاشفی کے چھوڑے گئے وہ دو ابواب بھی شامل کر لیے جو ابنِ مقفع نے اپنے ترجمے میں شامل کیے تھے۔ فارسی میں لکھی جانے والی اس کتاب ”بہارِ دانش“ کے بھی متعدد اُردو تراجم ہوئے۔ ان سب میں زیادہ مقبول حفیظ الدین احمد کا ترجمہ ”خرد افروز“ ہوا۔ ”بہارِ دانش“ کا ”خرد افروز“ کے نام سے کیا جانے والا ”کلیلہ و دِمنہ“ کا یہ ترجمہ انھوں نے فورٹ ولیم کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جان گِل کرسٹ کے کہنے پر کیا جو 1803ء میں فورٹ ولیم کالج سے ہی شائع ہوا۔ 1815ء میں کاظم علی جوان نے اس پر نظرِ ثانی کی۔ بعد ازاں فقیر محمد خان گوؔیا، شاگردِ ناسخ نے 1836ء میں ”انوار سہیلی“ کا ترجمہ ”بستانِ حکمت“ کے نام سے کیا۔ ”انوار سہیلی“ کے کئی دکنی تراجم بھی ہوئے۔ 1872ء میں محمد علی خان نے ”انوار سہیلی“ کا ترجمہ ”ضیائے حکمت“ کے نام سے کیا۔
معروف محقّق سیّد عابد علی عابد نے اگست 1963ء میں ”خرد افروز“ کے ترجمے کو از سرِ نو مرتّب کرتے ہوئے، اس کا ایک مفصل اور جامع مقدمہ لکھا اور مجلس ترقی اَدب جیسے علمی ادارے سے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اسی ترجمے کو بنیاد بناتے ہوئے ارشد رازی نے 2021ء میں اس قصّے کی بارِ دگر تدوین کی جس میں زیادہ تر استفادہ ”خرد افروز“ کے بنیادی متن اور سیّد عابد علی عابد کے مقدمے سے ہی کیا گیا ہے۔· یہ بات اپنی جگہ پُر لطف ہے کہ انتظار حُسین جیسے معروف اور بڑے اَدیب نے 2002ء میں ”کلیلہ و دِمنہ“ کو بچوں سے متعارف کرانے کے لیے اس کے دو ابتدائی ابواب قصّہ شیر اور بیل کا اور دِمنہ کے معاملے میں غور و حوض کو آسان اُردو زبان میں اختصار کے ساتھ بچوں کے لیے مرتب کیا۔ ستار طاہر نے ”دُنیا کی سو عظیم کتابیں“ کے نام سے دُنیا بھر کی معروف و مشہور کتب کے ذکر میں، اس داستان کا ابتدا ہی میں بڑے مفصل انداز میں ذکر کرتے ہوئے اس کی مختصر حکایات و اقتباسات کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔
زیرِ نظر ترجمے کی بنیاد مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی کا وہ ترجمہ ہے جو انھوں نے ”کلیلہ و دِمنہ“ کے اُس عربی متن کو سامنے رکھتے ہوئے، عربی سے براہِ راست اُردو میں کیا، جو ابنِ مقفع سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس ترجمے میں اصل سنسکرتی داستان کے دس ابواب کے ساتھ پانچ مزید ابواب کا اضافہ کیا گیا، ابتدائی دو ابواب کے علاوہ پانچ ذیلی ابواب داستان میں شامل کیے گئے۔ یہ ابواب پہلوی نسخہ کے بمطابق ہی درج کیے گئے ہیں، جنھیں اس نسخے کے مترجم نے ہندوستانی بادشاہ رائے دابشلیم اور اس کے برہمن فلسفی بیدپا فیلسوف کے درمیان ہونے والے عقل و دانش کے مکالموں اور قصوں پر محمول کیا ہے۔
”کلیلہ و دِمنہ“ کے مختلف قصّوں کا تقابل کیا جائے تو ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ اصل سنسکرتی داستان کی ابتدا میں درج کیے جانے والے ابواب ہمیشہ ترمیم و تنسیخ کے مرحلے سے گزرتے رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سیاسی اور سماجی حالات و واقعات رہے جو ان مترجمین کو اپنے اپنے زمانے میں درپیش رہے۔ یہاں بارِ دگر خسرو نوشیرواں کے زمانے کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جس کی فرمائش پر اس کے دربار کا دانا اور معروف طبیب ہندوستان سے اس دانش کتھا کو لانے کا وعدہ کرتا ہے اور کافی تلاش بسیار کے بعد، جان جوکھم میں ڈال کر، مختلف حیلوں اور بہانوں سے ہندوستان کے ایک شاہی خزانچی تک پہنچتا ہے اسے اپنی باتوں کے جال میں پھانستا ہے اور حیلوں بہانوں سے ہندوستان کے اس اہم فکری سرمائے کی نقل تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اپنے مقصد کے حصول کے فوری بعد جب وہ اس دانش کو ایران پہنچاتا ہے تو شاہِ ایران خسرو نوشیرواں کی جانب سے ملنے والی پذیرائی اور قدر افزائی پر ایک فرمائش کر بیٹھتا ہے کہ اس کے جوکھم بھرے سفر کا ذکر ایک ابتدائی باب میں کر کے اس کا نام بھی دانش کے اس سرمائے میں شامل کر دیا جائے۔ بادشاہ کی جانب سے اس فرمائش کو قبول کیے جانے پر وزیر بزرجمہر کو یہ باب لکھنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے جو برزویہ کے اس داستان کو ہندوستان سے لانے کے کٹھن سفر کے ساتھ ساتھ خود بھی بادشاہ کے لیے اشاروں، کنایوں اور قصوں سے کچھ نصیحتیں لکھتا ہے۔
پہلوی ترجمے کے مفقود ہو جانے اور تاریخ سے خسرو نوشیرواں کے وزیر با تدبیر بزر جمہر کے حقیقی کردار کے ثابت نہ ہونے پر اس بات کا واضح ہو جانا کہ ابنِ مقفع نے یہ ابواب محض خلیفۂ وقت کو عصری سازشوں سے خبردار کرنے کے لیے تحریر کیے۔ بالکل اسی طرح سے مزید دیکھا جائے تو جلال الدین اکبر کا زمانہ بھی مذہبی انتشار، درباری شورشوں، سیاسی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کافی ہنگامہ خیز تھا۔ دینِ الٰہی کے اجرا نے اکبر اور اس کے احکامات پر عوام میں مذہبی بحثوں کا بازار گرم رکھا۔ تاہم اس موقع پر ابوالفضل کی تائید کے حوالے سے ارشد رازی لکھتے ہیں:
”اگرچہ ابو الفضل نے اکبر کے دینِ الٰہی کی تائید کی لیکن اگر دیکھا جائے کہ یہ سب کن حالات میں ہوا تو اس کا فعل قابلِ درگزر نظر آتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ ابنِ مقفع کی طرح ابو الفضل نے بھی اپنے حسبِ حالات ابتدائی ابواب میں بیان شدہ اخلاقیات میں ترمیم کی ہو اور پھر زمانے کی خرابی اور گوشہ نشینی میں زندگی گزارنے کی خواہش تو اس کی باقی تحریروں سے بھی جھلکتی ہے۔“
اسی طرح سے حکایتِ کلیلہ و دِمنہ کے ایک اور مترجم شیخ حفیظ الدین احمد کے زمانے کی جانب نظر کی جائے تو وہ زمانہ بھی اضطراب و تلاطم سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ جہاں مسلمان اپنے ماضی و حال کے درمیان مسمار ہوتی اقدار کا نوحہ پڑھنے میں مشغول ہیں۔ آگے کا راستہ دکھائی نہیں دیتا اور واپسی کی راہ کوئی باقی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ”خرد افروز“ کے نام سے کیے جانے والے اس ترجمے میں شیخ حفیظ الدین نے بھی اپنے ذاتی خیالات کو پہلے دو ابواب میں قصہ و حکایت کی شرح اور توجیہ میں ترمیم کی صورت مجتمع کیا ہے۔
مدبری کے داؤ پیچ بتانے والی اس داستان کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ قصّہ در قصّہ کہانیاں بھی کسی خاص مفکر، حکیم یا ادیب کی مرصع بیانی معلوم ہوتی ہیں، جنھیں بڑی چالاکی اور صفائی سے فطرتِ انسانی کے معاملات اور رموزِ سلطنت سے مشروط کر کے جِلا بخشی گئی ہے۔
آج بھی یورپ میں ”کلیلہ و دِمنہ“ کو ہندوستان کی لوک کہانیوں کے زاویہ نگاہ سے ہی دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ مغربی مستشرقین اسے ہندوستان کی قدیم دانش کا قیمتی سرمایہ قرار دیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو دنیا میں مدبری، اخلاقیات اور رموزِ سلطنت کے کوئی بندھے ٹکے اصول موجود نہیں تاہم کچھ بنیادی و آفاقی سچائیاں آج بھی اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہیں اور لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں۔ ایک بادشاہ کے لیے اربابِ حسد کی شکوہ فرسائی پر کان نہ دھرنا، خیر خواہی سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانا اور مشکل معاملات میں تدبر، فکر اور صبر کے دامن کو تھامے رکھنا آج بھی نہایت گُر کی باتیں ہیں۔
تدوین کے لیے منتخب کیا گیا، ہندوستان سے شائع ہونے والا مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی کا یہ ترجمہ نہ صرف سہل اور آسان ہے بلکہ عربی سے اصل پہلوی ماخذ کے قریب تر ہونے کے باعث اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ محاورات، ضرب الامثال اور خیالات کو اُردو زبان میں منقلب کرتے وقت اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ عصری زبان کی چاشنی، مفہوم اور خیال کے ساتھ اَدب کی مٹھاس بھی برقرار رہے۔ کتاب کے آغاز میں درج مترجم کی داستان کے طویل اور مفصل تعارف اور مقدمے میں کئی باتوں کی تکرار، تفصیل اور طوالت کے سبب اس پیش بندی کو ”عرضِ مترجم“ کے عنوان سے تلخیص کی شکل میں پیش کر دیا گیا ہے۔
تسہیل و تدوین کے اس ادق عمل کے دوران مختلف الفاظ کی قدیم اُردو اِملا کو عصرِ حاضر کی موجودہ اِملا سے تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین کو الفاظ کی تفہیم میں کہیں دقت پیش نہ آئے۔ قدیم عربی، فارسی یا مشکل، مبہم، متروک الفاظ یا نامانوس ضرب الامثال و محاورات کی جگہ آسان اور رائج الوقت اُردو الفاظ، اِملا اور مانوس ضرب الامثال و محاورات کو اس احتیاط کے ساتھ تبدیل کیا گیا ہے کہ متن کا اصل مفہوم، معانی اور خیال کہیں متاثر نہ ہو۔
اس کارِ لائقہ کا بنیادی مقصد ہندوستان کی اس قدیم دانش کی، ماضی کے کثیر نسخوں میں گُم ہوتی اصل شناخت کو بازیاب و بحال کرنا اور عصرِ حاضر میں امنِ عالم کے پیغام کی صورت سامنے لانا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ ”کلیلہ و دِمنہ“ کی حکمت، بصیرت اور دانائی کا ماضی سے حال تک کا یہ سفر، انسان کے سیاسی شعور اور معاشرتی رویوں کے حقیقی ادراک کے سبب، ایک نئے معنوی جہان کا پیش باب ثابت ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
?”کرتک و دمنک” ہندوستان کی قدیم فکری دانش کا ماخذ
? مشمولہ: کتاب کلیلہ و دِمنہ (صفحہ نمبر 13 ― 23)
⭐ ہندوستان کی قدیم دانش کا قیمتی سرمایہ
✍? تالیف: بیدپا فیلسوف
✍? پہلوی سے عربی ترجمہ: ابن المقفع
✍? عربی سے اُردو ترجمہ: رفیع الدین حنیف قاسمی
✍? تسہیل و تدوین: ڈاکٹر حنا جمشید
?ناشر: بک کارنر جہلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال دستیاب ڈی لکس ایڈیشن کے حصول اور تعارفی صفحات کو ملاحظہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے:
You must log in to post a comment.