fbpx
کالم

تصدیقی تعصب / تحریر :صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی

تصدیقی تعصب / تحریر :صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی

confirmation bias

صاحبو ! تصدیقی تعصب یا confirmation bias کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایسی معلومات اور شواہد یعنی evidence تلاش کرتے ہیں جو ہمارے پہلے سے موجود پختہ موقف یا belief کو تقویت دیتے ہیں اور reinforce کرتے ہیں۔ اور اُن تمام معلومات یا شواہد ( evidence) کو جو ہمارے مؤقف سے متصادم ہو اسے جھوٹ گردانتے ہوئے قابل سماعت ہی نہیں سمجھتے اور رد کر دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی نے پختہ یقین کر لیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت سے بہتر ہے۔ یا پھر کسی شخص کے متعلق منفی یا مثبت رائے پختگی سے قائم کر لی ہے کہ وہ چور ہے یا ایماندار ۔۔۔ تو اب آپ صرف ایسی ہی معلومات، دلائل اور خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں جو آپ کے اس belief کو مزید پختہ کرنے میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔ امریکہ کے گزشتہ انتخابات میں یہ confirmation bias یوں دیکھنے میں آیا کہ ٹرمپ کے حمایتی ووٹرز نے سیاسی معلومات کے حصول کا واحد زریعہ فوکس نیوز اور بائیڈن کے حمایتیوں نے سی این این کو ، اور اُن تمام اخبارات اور نیوز اینکرز کو بنا رکھا تھا جو اُنہیں صرف وہی سناتے تھے جو وہ سننا چاہتے تھے۔ صرف اسی کی تصدیق کرتے رہتے تھے جن کے متعلق ووٹرز نے اپنی رائے پہلے سے ہی بنا رکھی تھی۔ اور امریکہ جیسے ملک میں سوسائٹی کی سوچ میں اتنی پولرآئزیشن  آ گئی کہ کانگریس کی عمارت میں احتجاجی گھس گئے اور اسپیکر کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔
نفسیات دانوں اور لسانیات کے ماہرین کے نزدیک ایک انسان کے لیے کسی بھی چیز پر یقین کرنے یا اس چیز سے متعلق پختہ یقین استوار کرنے کے پیچھے دو ممکنہ عوامل ہو سکتے ہیں۔ جن میں سے ایک عمل تو یہ ہے کہ جس چیز کو آپ گہرائی تک جانتے ہیں ، اسکے متعلق مکمل سچ آپ پر واضح ہو چکا ہوتا ہے۔دوسرا عمل جس سے یقین پختہ ہوتا ہے وہ repetition ہے یا جسے ہم دہرایا جانا کہتےہیں ۔ یہ دوسرا طریقہ یعنی کسی بھی چیز کا بار بار دہرایا جانا اتنا پراثر ہوتا ہے کہ بار بار دہرائی جانے والی معلومات کو سننے والا اپنا ذاتی علم سمجھنے لگتا ہے۔ یہ repetitive یا دہرائی جانے والی معلومات چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہوں اس عمل کے تسلسل سے سچ سمجھی جانے لگتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے یہ پراپگینڈا prpoganda کا اہم ہتھیار تسلیم کیا جاتا ہے۔
صاحبو ! کچھ دیر کو ہی سہی لیکن اسکے بارے میں غور ضرور کیجے گا ۔
کیا آپ صرف ان معلومات کو ہی بطور ثبوت یا evidence کے قبول کرتے ہیں جو آپ کے عقیدہ  یا پختہ رائے کی تائید کرتے ہیں؟
کیا آپ واقعی ان معلومات یا evidence کو قابل سماعت ہی نہیں سمجھتے یا سرے سے رد کر دیتے ہیں جو آپ کے پختہ مؤقف سے متصادم ہوتا ہے؟
صاحبو! ہمارے خیالات ہماری زندگیوں پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ واصف صاحب کا کیا ہی حکمت بھرا جملہ ہے کہ پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔ تو اس تناظر میں خیال کا ‘ خیال ” تو رکھنا پڑے گا۔ وہ کیا عوامل ہیں جو میرے خیالات پر اثرانداز ہو رہے ہیں ، ان کو بنا رہے ہیں، انہیں پختہ کر رہے ہیں۔
ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم صرف وہی معلومات پڑھنے، سننے اور دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ہمارے پہلے سے موجود belief کو اتنا زیادہ reinforce کر دیتا ہے کہ ہم معروضی ثبوت objective evidence کی موجودگی میں بھی اسے رد کر دیتے ہیں اور اپنے موقف میں رتی بھر تبدیلی نہیں کرتے۔
محتاط رہیے اور دھیان دیجے کہیں آپ کی سوچ مشروط یا conditioned تو نہیں ہو چکی کیونکہ جب آپ اپنی رائے پر یقین پختہ کر لیتے ہیں تو پھر خیال بدلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اپنے خیال کو کٹہرے میں لانے کی جرات کریں۔یہ بہت اہم ہے کیونکہ آپ کا خیال ہی آپ کی driving force ہوتی ۔ اگر آپ اختلافی رائے کو سننے کی ہی اجازت نہیں دیتے، دوسرے نکتہ نظر رکھنے والے کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتے تو اپنے ہی خیال کی درستگی ، اسکی صحت اور توانائی کے لیے دوسروں کو وہ کہنے کی اجازت دیں جو وہ سوچتے ہیں اور اسے کھلے ذہن کے ساتھ سنیں ، گہرائی سے غور کریں ان کے بیانات مکمل طور پر نہ سہی جزوی طور پر درست ہو سکتے ہیں۔آپ کو اپنا خیال بدلنے اور سب کے ساتھ متفق ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کم از کم اتنا تو ضرور ہو گا کہ خود آپ پر اپنے موقف کی شفافیت واضح ہو جائے گی۔ کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ تصدیقی تعصب confirmation bias کا شکار ہیں۔
یاد رکھیے ، کان سننے کے لیے، آنکھیں دیکھنے کے لیے اور زبان بولنے کے لیے ہوتی ہے ، یہ فیصلہ کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔

Facebook Comments

Back to top button