جامعہ عباسیہ چند یادداشتیں/ تحریر : اسلم ملک


یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی عمارت ہے. میں پانچویں جماعت تک اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے کمرے میں پڑھا.
اس زمانے میں اس پر یہ “اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور” نہیں لکھا ہوتا تھا.
آج کل تو دو تین سال کے بچے کو پلے گروپ، نرسری، ریسیپشن، کچی پہلی جماعت میں بھیجنے کا رواج ہے. میرے والدین نے سات سال کی عمر تک مجھے سکول نہیں جانے دیا کہ ابھی چھوٹا ہے. اس کے بعد گھر سے قریب ترین سکول کا سوچا گیا(خیال ہے اپریل 1958 میں) تو جامعہ عباسیہ قریب ترین تھی. اس میں ایک شعبہ ورود تھا، جس کا مقصد تو یہ تھا کہ بچے جامعہ سے واقف ہوجائیں، پھر اس میں دینی علوم کی تعلیم حاصل کرکے عالم فاضل، علامہ بن جائیں. لیکن بہت کم ایسے تھے جنہوں نے پانچویں کے بعد یہیں تعلیم جاری رکھی.
ورود شعبے میں کلاسیں اولہ، ثانیہ، ثالثہ، رابعہ، خامسہ کہلاتی تھیں. میں گھر میں قاعدہ وغیرہ پڑھتا رہا تھا، سو مجھے ڈائریکٹ دوسری میں داخل کرلیا گیا. لیکن ایک بات پہلے دن ہی ایسی ہوگئی جس کا زندگی بھر افسوس رہا. اس کے باوجود کہ والد صاحب نے سارے کوائف لکھ کر دئیے، میری تاریخ پیدائش اندازے سے لکھ دی گئی. اس طرح صحیح تاریخ معلوم ہونے کے باوجود مجھے ہمیشہ وہ فرضی تاریخ ہی لکھنا پڑی.
بہت عرصے بعد ایک دلچسپ بات کا پتہ چلا. شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی کی ایک سینئر دوست بعد میں کولیگ بنی اور ملاقات رہنے لگی تو پتہ چلا کہ اس کی تاریخ پیدائش کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوا ہے. یہ تو عام بات ہے. خاص یہ ہے کہ میری جو فرضی لکھی گئی ہے، وہ اس کی اصلی ہے اور ریکارڈ میں غلطی سے وہ چلی آرہی ہے جو میری اصلی ہے.
شعبہ ورود کے تین کمرے تھے(جن میں اب وائس چانسلر اور ان کا سٹاف بیٹھتا ہے ) اور چار استاد. پہلی جماعت کا الگ کمرہ تھا(شاید وہاں کچی پکی دو جماعتیں ہوں) دوسرے کمرے میں دوسری اور تیسری جماعت اور تیسرے میں چوتھی اور پانچویں جماعت تھیں.
اساتذہ کرام قاری محمد اسد، قاری عبدالرحیم، ملک محمد صدیق اور نذیر الدین عثمانی تھے.
عثمانی صاحب کو کرکٹ سے بہت دلچسپی تھی. جب ٹیسٹ ہورہے ہوتے، چپڑاسی کو اپنی سائیکل پر بیکانیری دروازے(جو اب فرید دروازہ کہلاتا ہے) ایک پان والے کی دکان پر بھیجتے جو سکور اور دوسری تفصیلات معلوم کرکے آتا. ان کے بچے بھی کرکٹ کھیلتے رہے. ایک یتیم بھانجا بھی انہوں نے پالا، وہ کرکٹ کا اچھا کھلاڑی، اچھا مقرر اور کالج یونین کا صدر/سیکریٹری بنا. وہ محمود جعفری امروز میں میرے سینئیر کولیگ بنے. ایڈیٹر بھی بن گئے لیکن صرف چند روز. اسلام آباد ایک میٹنگ میں شریک ہوکر واپس آرہے تھے کہ حادثے کا شکار ہوگئے. جعفری صاحب کے بیٹوں علی سلمان نے بھی صحافت کا پیشہ اختیار کیا. نوائے وقت میں رپورٹر رہے، پھر بی بی سی کے لاہور بیور میں چلے گئے. کئی سال سے امریکہ میں رہتے ہیں. پچھلے دنوں ایک بڑا مکان خریدا، جس کا مطلب ہے کہ settled ہیں.
عثمانی صاحب کا ایک بیٹا نعیم واحد میرا کلاس فیلو تھا، اس کی اور چھوٹے کی خبر نہیں ملی. بڑے وسیم خالد میڈیا میں رہے. ایک کلاس فیلو زئیر اللہ تھے، جن کی والدہ تھوڑے فاصلے پر واقع گرلز سکول میں پڑھاتی تھیں. زئیر سے پھر رابطہ نہیں ہوا. ایک کلاس فیلو نواب بہاولپور کے نواسے قمرالزماں عباسی تھے. ان سے رابطہ رہا. ان کے والد کی میرے والد سے میل ملاقات تھی. بہت شریف آدمی تھے. نواب کے داماد ہونے کے باوجود کوئی خوبو نہیں تھی. سائیکل پر آتے جاتے تھے. غریب لوگوں کا ہومیوپیتھک علاج بھی کرتے تھے.
جامعہ عباسیہ کی عمارت ایسی نہیں تھی جیسی یہ اب نظر آتی ہے. اس وقت صرف اینٹوں کا خوبصورت رنگ تھا جیسا ایس ای کالج کی عمارت کا ہے. یہ دو تیز رنگ پھیر دینے کی بد ذوقی پتہ نہیں کس نے کی.
یہ، ایس ای کالج، ڈرنگ سٹیڈیم اور شاید صادق پبلک سکول کی عمارتیں بہاولپور کے وزیراعظم مخدوم زادہ حسن محمود کے دور میں تعمیر ہوئیں.
تو میں اپنے زمانے کا ذکر کر رہا تھا. ایک کلاس فیلو محمد غوث تھے، جو بعد میں حافظ محمد غوث کہلائے. ان کے ماموں علامہ منظور احمد رحمت صاحبِ طرز صحافی تھے. ان کے انتقال کے بعد ان کا ہفت روزہ “مدینہ” حافظ غوث نے سنبھالا. اسی طرز میں لکھتے رہے، اپنا مدرسہ بھی قائم کیا. “مدینہ” کو انہوں نے پندرہ روزہ کردیا اور سائز بھی بدل دیا. کافی عرصہ مجھے ڈاک سے بھیجتے رہے. میں ملاقات کے ارادے باندھتا رہا لیکن ایک دن خبر ملی کہ شاید گولڑہ سے واپسی پر چلتی ٹرین سے گرکر دم توڑ گئے.
استاد قاری عبدالرحیم صاحب کا ایک بیٹا سعید احمد بھی کلاس فیلو یا ایک سال آگے پیچھے تھا. سعید احمد بعد میں فارسی کے لیکچرر ہوئے. پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے تھے لیکن موت نے مہلت نہیں دی. ان کے بڑے بھائی مشرف احمد بھی جلد رخصت ہوگئے. ڈاکٹر مشرف احمد کراچی کے نبی باغ کالج میں اردو کے استاد رہے، تحقیق کے علاوہ افسانے بھی لکھے اور اہم افسانہ نگاروں میں شمار ہوئے. ادبی تقریبات کی رودادیں بھی بہت لکھیں. عمر کے کافی فرق کے باوجود ان سے بہت دوستی رہی. خط کتابت بھی ہوتی اور چھٹیوں میں بہاولپور آتے تو ملاقاتیں بھی. ہم نے مل کر فسادات پر افسانوں کا انتخاب کیا. وہ تو نہ چھپ سکا لیکن بہت بعد میں ایک صاحب کا ایسا انتخاب چھپا، تو ایک آدھ کے فرق کے ساتھ وہی افسانے تھے. مشرف احمد کے چھوٹے بھائی انیس احمد بھی جامعہ عباسیہ میں پڑھے. ان کی کچھ خبر نہیں.
قاری اسداللہ صاحب بہت شاندار قرآت کرتے تھے. ان کا بیٹا انوار اللہ بھی وہیں پڑھتا تھا. انوار بعد میں فٹ بال کے عمدہ کھلاڑی اور بنک افسر بنے. ان سے طویل عرصے بعد تب ملاقات ہوئی جب ان کے بیٹے نعمان کا میری اہلیہ کی بھتیجی سے نکاح ہوا.
ہماری کلاسوں میں بنچ اور ڈیسک تھے لیکن جامعہ عباسیہ کی بڑی کلاسوں میں قالین اور چوکیاں تھیں. بڑے اساتذہ شیخ کہلاتے تھے. شیخ التفسیر، شیخ الحدیث.
مولانا شمس الحق افغانی مشہور استاد تھے. وہ مدرسہ فاروقیہ میں بھی درس دیتے تھے.
شیخ الجامعہ مولانا محمد ناظم ندوی تھے جو عربی ادب کے بڑے استاد مانے جاتے تھے. وہ کراچی چلے گئے لیکن بہاولپور سے تعلق ٹوٹا نہیں. ان کی اور جناب شہاب دہلوی کے خاندانوں میں رشتہ داری ہوئی.
ہمارے ایک بزرگ پڑوسی اکثر میرے والد کو تاکید کرتے رہتے کہ بچے کو وہاں سے نکالو، مولوی نہ بنا دینا (یعنی میرے علامہ بننے میں وہ حائل ہوئے) پانچویں پاس کرنے پر سرٹیفیکیٹ لیا تو اس پر شیخ الجامعہ ناظم ندوی صاحب کے ہی دستخط تھے.
اس عمارت میں عباسیہ طبیہ کالج اور محکمہ امور مذہبیہ بھی تھا. محکمہ امور مذہبیہ طلاق، نکاح وغیرہ کے فتوے دیتا تھا، جائیداد کی شرعی تقسیم کے فیصلے کرتا تھا. یہ ریاست کے وقت سے چلا آرہا تھا.
طبیہ کالج میں بیرونی مریضوں کا شعبہ بھی تھا. ہم بچے “آدھی چھٹی” میں وہاں جاتے، حکیم صاحب سے کہتے، پڑھتے ہیں تو سر میں درد ہوتا ہے، سبق یاد نہیں ہوتا… وہ سب سمجھتے تھے. خمیرہ گاؤزبان عنبریں لکھ دیتے. وہ مزیدار خمیرہ وہیں مطب سے مل جاتا اور ہم سارا چاٹ جاتے. بعض اوقات نزلہ کھانسی بتاتے تو جوشاندے کا پُڑا ملتا. اس میں سے عناب، منقی’، انجیر نکال کر کھاتے اور باقی پھینک دیتے.
گھر سےایک آنہ (روپے کا سولہواں حصہ) خرچی ملتی تھی. اس سے چار چیزیں کھائی جاسکتی تھیں.
ایک چھولے(چنے) والا روز آتا تھا. وہ ایک آنے کی بڑی سی پلیٹ چھولے اور چاول کی دیتا تھا جو مولی کے لچھوں سے ڈھکی ہوتی تھی. اساتذہ بھی اس سے چھولے چاول کھاتے. ایک آنے کا اور مصرف بھی تھا.بلڈنگ کی پچھلی طرف طبیہ کالج کا بوٹینیکل گارڈن تھا. وہاں سے دو چار فالسے توڑ کر کھالیتے تو کوئی کچھ نہیں کہتا تھا. ایک آنے کے لیتے تو باغبان پاؤ ڈیڑھ پاؤ دے دیتا.
3
سب سے شریف بچہ، کتے کا گوشت اور استنجے کے ڈھیلے
ایک دفعہ جامعہ عباسیہ کے پی ٹی آئی( ڈرل ماسٹر.. پتہ نہیں ان کی ڈیوٹی کیا تھی کہ وہاں پی ٹی، ڈرل یا گیمز کا تو کوئی ذکر بھی کبھی نہیں ہوا) رب نواز صاحب بہت سنجیدہ شکل بنائے ہمارے کلاس رومز کی طرف آئے. عثمانی صاحب سے جو بات کی، اس سے پتہ چلا کہ ایک بہت شریف بچے کی تلاش ہے. انہوں نے تینوں کمروں کا چکر لگا کر، بسوں میں مسافروں کی ویڈیو بنانے والے کی طرح سب کا جائزہ لے کر بالآخر مجھے شریف ترین بچہ ڈیکلیر کیا.
مجھے الگ لے جاکر بریف کیا کہ کل وزیر صاحب نے آنا ہے. میں اچھے کپڑے پہن کر آؤں، مجھے ان کی آمد پر بالکونی سے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنی ہوں گی.
اگلے دن تصویر میں نظر آرہی بالکونی سے ایسا ہی کیا. یہ وزیر صاحب ایوب خان کے وزیر تعلیم تھے.
جامعہ عباسیہ کا ہوسٹل بڑے ڈاک خانے اور ڈی سی ہاؤس کے درمیان تھا. ایک دفعہ وہاں خاصی توڑ پھوڑ ہوئی لڑکوں کا الزام تھا کہ میس کا ٹھیکیدار حافظ مشتاق کتے کا گوشت کھلا رہا ہے.
اس ہوسٹل میں بعد میں وی سی کی رہائش گاہ بنی. جامعہ عباسیہ اب جامعہ اسلامیہ بنادیا گیا تھا. یعنی ایک دینی یونیورسٹی یا دارالعلوم. اس زمانے کے وائس چانسلرز ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی اور قاری نورالحق ندوی کے نام یاد ہیں.
اب نیا ہوسٹل جامعہ کے ساتھ ہی باغ والی جگہ تعمیر ہوا. یہاں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا. ہر دوسرے دن سیوریج بند ہونے سے پانی پھیل جاتا. پتہ چلا کہ اکثر طلباء واش روم میں استنجے کیلئے پانی ہوتے ہوئے بھی ڈھیلے کا استعمال شرعاً لازمی سمجھتے ہیں، اس لیے کموڈ ڈھیلوں سے بھر جانے سے پانی بند ہوجاتا ہے.
*****
میری بیوی نے اسی یونیورسٹی سے ایم اے کیا، کچھ لا بھی پڑھا، میں اسے کہتا ہوں، تمہاری یونیورسٹی مجھے تو صرف چار جماعتیں پڑھانے کے قابل تھی.
You must log in to post a comment.