fbpx
بلاگ

محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خُرافات/حافظ محمد زبیر

محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خُرافات/حافظ محمد زبیر
سن 2011 کی یہ بات ہے جب کامیاب سوات آپریشن کے بعد علاقہ کلئیرنس مراحل میں تھا تو والد صاحب کے ساتھ سوات جانا ہوا۔
تب وہاں کی زندگی بہت عجیب تھی، پاکستان آرمی وہاں کے لوگوں کو طالبانوں کے دیے ہوئے صدمے بھلانے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرتی ۔ جیسے کے سپورٹ فیسٹیول ، فیملیز کے لیے مختلف پروگراموں اور مزاحیہ ڈراموں کا انعقاد کرنا شامل تھا۔
انہی دنوں علاقائی میوزیکل شو کا انعقاد کیا گیا جس میں گلوکار رحیم شاہ اور سوات کے علاقائی رباب بجانے والوں کو مدعو کیا گیا ۔
اس پروگرام میں شرکت کرنے کے بعد لوگوں کے تاثرات دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ دشمن ممالک کے پالے ہوئے ناسوروں نے کس قدر خوف اور دہشت کے سائے میں ان لوگوں کو رکھا ہوا تھا۔ جس سے پاکستان آرمی کے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ان پالتو دہشتگردوں سے چھٹکارا دلایا۔
آج ہم پھر سے دشمنان پاکستان کے پھیلائے ہوئے ایجنڈوں کی زد میں آ کر سیاسی سماجی معاشرتی فکری نظریاتی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اس بار نشانہ کوئی خاص علاقہ نہیں بلکہ پوری قوم ہے۔ اب کی بار اس ذہنی خوف و ہراس سے نکلنے کے لیے یہ قوم پھر کسی مسیحا کی منتظر ہے ۔ یا پھر مسیحا اس قوم کے اٹھنے کے انتظار میں ہو۔ یا پھر شاید عوام الناس کا یہ نظریہ بن چکا ہو کہ 1947 میں لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر ہم اس ملک کا قرض ادا کر چکے ہیں،
 جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، بحثیت مسلمان ہم نظریاتی اور فکری طور پر اس قدر محکوم ہو گئے ہیں کہ ہم اپنی غلامی کو آزادی میں بدلنے کے لیے حکمرانوں، سیاستدانوں کا سہارا تو لیتے ہیں لیکن کتاب اللّٰہ سے رہنمائی نہیں لیتے۔ بطور مسلمان اور پاکستانی ہم نے ذہنی غلامی کی وجہ سے خود کو اس قدر بیچ ڈالا ہے کہ دیکھنے اور سننے کے باوجود بھی ہم سحر زدہ اور کاہل ہو چکے ہیں کہ شریعت اور قانون الٰہی کو کندھوں کا بوجھ سمجھتے ہیں –
 علامہ اقبال کے نزدیک محکوم کے اوپر غلامی اتنی اثر انداز ہوجاتی ہے کہ “وہ کبھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو حکمرانوں کی جادو گری انہیں پھر سے غفلت کی نیند سُلا دیتی ہے اور وہ اپنے وجود پہ پڑے غلامی کے طوق کو باعثِ افتخار سمجھتا ہے”
ذہنی غلامی اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ قوم اس سے چھٹکارا پانے کے لیے آسان سے آسان حربوں کی تلاش کرتی ہے ، اور اپنی آزادی کی ذمہ داری کسی لیڈر پر سونپ دیتی ہے اور پھر اس لیڈر سے والہانہ محبت اور اسکا دفاع کر کہ اپنی آزادی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
آج ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس قدر محکوم اور غلام قوم ہیں کہ ہماری اشیاء خوردونوش ، پٹرول ڈیزل بجلی ، گیس کی قیمتیں بھی کہیں اور سے لگ کر آتی ہیں اور ہم اس ظلم عظیم کو کسی نہ کسی طرح قبول کر بیٹھے ہیں۔ ہمیں حقیقی آزادی کے لیے ام الکتاب اور حکیم الامت کے فلسفے پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب ملک پاکستان دنیا کا باعزت ملک تصور کیا جائے گا۔
بقول حکیم الامت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
اقبالؔ! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزُوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سَیر ہیں محکوم کے اوقات!
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ اَبدیّت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منوّر
محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خُرافات
محکوم کو پِیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم کے حق میں ہے یہی تربِیَت اچھی
موسیقی و صُورت گری و علمِ نباتات!

Facebook Comments

Back to top button