یازو کمپنی کا ڈائریکٹر ہوں، انضمام الحق کا اعتراف

پلیئرز ایجنٹ کمپنی اسکینڈل کے بعد جاری ورلڈ کپ کے دوران چیف سلیکٹر کے عہدے سے مستعفی انضمام الحق نے یازو کمپنی کا ڈائریکٹر ہونے کا اعتراف کر لیا۔
بھارت میں جاری ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کرکٹ میں پلیئرز ایجنٹ کمپنی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد گزشتہ ہفتے قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جب کہ پی سی بی نے اس معاملے پر تحقیقات کے لیے 5 رکنی کمیٹی قائم بھی کر دی ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں۔
اس اسکینڈل کی گونج اور الزامات کی بوچھاڑ کے دوران سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں خود کے یازو کمپنی کا ڈائریکٹر ہونے کا اعتراف کر لیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی کھلاڑی مینیج نہیں کرتی بلکہ اس کے ذریعے ایمازون پر سائیکلوں کے ہیلمٹ بیچنا چاہتے تھے لیکن یہ بزنس ہم سے ہو نہیں سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ یازو کمپنی ہم نے کورونا کے دنوں میں بنائی تھی، ہم اس کے ذریعے ایمازون پر سائیکلوں کے ہیلمٹ بیچنا چاہتے تھے اور بزنس کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہم سے یہ ہو نہیں سکا۔
انضمام نے کہا کہ سایہ کارپوریشن کھلاڑیوں کے کنٹریکٹ مینج کرتی ہے، مجھے بھی مینج کرتی ہے، برانڈ اینڈورسمنٹ کا بھی کام کرتی ہے۔ سایہ کارپوریشن کا سارا ریکارڈ تو بورڈ کے پاس ہوتا ہے، یہ کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے، اس نے ٹیکس دیا ہوا ہے۔
انضمام نے کہا کہ طلحہ رحمانی دونوں کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں، ان کو کیوں نہیں بلایا کر پوچھا جاتا؟ میں نے اپنے وکیل کے ذریعے 2 روز قبل بورڈ کو خط لکھا ہے کہ جو کمیٹی بنائی گئی اس نے ابھی تک مجھے بلایا نہیں ہے، مجھے بلا کر پوچھا جائے۔
انضمام الحق نے کہا کہ چیئرمین اور پھر سی او او سلمان نصیر نے بھی اس حوالے سے مجھ سے پوچھا تھا، میری یہ کمپنی جیسی بھی ہے 4 سال سے چل رہی ہے، سایہ کے پاس جو کرکٹرز ہیں وہ پہلے بھی تھے، کیا بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی یا دیگر کرکٹرز میری وجہ سے کھیلتے ہیں، جب میں چیف سلیکٹر نہیں تھا یہ تب بھی کھیل رہے تھے، ثابت کیا جائے ہم نے کس طرح کھلاڑی قابو کیے ہوئے ہیں؟
انھوں نے کہا کہ اگر بورڈ میں مجھے عہدہ دینے سے پہلے کچھ بھی ڈیکلئیر کرنے کا کہا جاتا تو میں ضرورکرتا، مجھے علم تھا کہ اس کمپنی کی کوئی ٹرانزیکشن ہی نہیں ہے۔
انضمام الحق نے دوبارہ چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے حوالے سے کہا کہ مجھے لوگوں نے کہا تھا کہ سب نے انکار کر دیا تو آپ نے چیف سلیکٹر کا عہدہ کیوں قبول کیا، اب مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی۔
سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ استعفی اس لیے دیا کہ انکوائری ہوسکے۔ جب بھی ٹیم ہارتی ہے، نان کرکٹرز، کرکٹرز پر ملبہ ڈال کر نکل جاتے ہیں، بورڈ کی پالیسیز میں تسلسل نہیں ہوگا تو اس طرح کے مسائل سامنے آئیں گے۔ میں چیف سلیکٹر نہیں تھا تب بھی کرکٹرز میری عزت کرتے تھے، میں نے کسی کو قابو نہیں کیا ہوا، مجھے رسوا کرنے کی کوشش نہ کریں۔
انضمام الحق نے کہا کہ کھلاڑیوں کے سینٹرل کنٹریکٹ کیلیے فیصلہ جون میں ہوا، میں اس وقت بورڈ میں نہیں تھا، اگست میں آیا تھا، میرے آنے سے پہلے نام فائنل ہو چکے تھے، کیٹیگریز بھی طے ہو چکی تھیں، کئی ماہ تک سینٹرل کنٹرکٹ پر دستخط ہی نہیں ہوئے تھے، معاہدے پر راضی نامہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ ہوا میں معلق تھا، مجھے بورڈ نے مداخلت کا کہا جس کے بعد میری، بابر اعظم اور ذکا اشرف کی ملاقات میں معاملہ طے ہوا۔ میں نے ہی آئی سی سی ریونیو کے بارے میں کپتان سے کہا کہ ابھی حصے پر مت جاؤ، آئندہ بڑھ بھی جائیں گے، مجھے تو کریڈٹ دینا چاہیے تھا کہ مسئلہ حل کردیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پلیئرز منیجمنٹ کمپنی اسکینڈل سامنے آیا تھا جس کے دیگر ڈائریکٹر وکٹ کیپر محمد رضوان اور پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی ہیں اور انضمام پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگا تھا۔ جس کے بعد پی سی بی سربراہ نے 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی تھی جب کہ انضمام الحق نے شفاف تحقیقات کے لیے چیف سلیکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
Facebook Comments