fbpx
خبریں

ڈیڈ لائن کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اور وزارت داخلہ کے مطابق اب تک ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ایک لاکھ 40 ہزار 322 غیر ملکی رضاکارانہ طور پر اپنے ممالک واپس جا چکے ہیں۔

حکومت نے ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کا اعلان کر رکھا ہے، جس کے تحت ایسے افراد کی گرفتاری اور بعد ازاں ملک بدری کا عمل شروع ہو گیا ہے، تاہم غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی بھی جاری رہے گی اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

حکومت نے ملک بھر میں 49 ہولڈنگ سینٹرز قائم کر رکھے ہیں، جہاں دستاویزات نہ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کو رکھا جائے گا اور پھر وہاں سے انہیں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گذشتہ روز (یکم نومبر) ہزاروں افراد طورخم بارڈر کراسنگ سے افغانستان داخل ہونے کے لیے سات کلومیٹر تک پھیلی ہوئی طویل قطار میں کھڑے تھے جہاں حکام کے مطابق پہلے روز کم از کم 29 ہزار افراد افغانستان میں داخل ہوئے۔

وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا: ’یکم نومبر سے غیر قانونی غیر ملکیوں کی گرفتاری اور بعد ازاں ملک بدری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ تاہم غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی بھی جاری رہے گی اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ لوگ پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق بلوچستان کے نگراں و زیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ غیر قانونی مقیم تارکین وطن کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے کارروائی کر تے ہوئے غیر قانونی طور پر مقیم 100 غیر ملکیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

کوئٹہ میں بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب تک بلوچستان سے رضاکارانہ طور پر 35 ہزار افغان باشندے واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔

اگست 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد اندازے کے مطابق مزید چھ لاکھ افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے تھے جبکہ پاکستان میں 17 لاکھ کے قریب افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

پاکستان نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ملک بدری ملک کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

دوسری جانب امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو زبردستی بے دخل نہ کرے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا: ’ہم پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسی ممالک کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی تحفظ کے خواہاں افغان شہریوں کو داخلے کی اجازت دیں اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی انسانی تنظیموں کے ساتھ رابطہ قائم کریں۔‘

اس کے جواب میں نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا میں محروم طبقات خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے گا۔

بدھ کو پارلیمنٹ میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کی ’ولنرایبل کمیونیٹیز‘ سے متعلق نرمی اختیار کی جائے گی۔

’خطرے سے دوچار (ولنرایبل) کمیونٹیز، جن میں اقلیتیں یا کوئی اس قسم کے لوگ ہیں، جن کو کوئی تشویش ہے کہ وہاں جا کر ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کے بارے میں بھی ہم نرم رویہ اختیار کریں گے۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی کئی اقسام ہیں اور اسی لیے ان سے متعلق غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔

وفاقی وزیر خارجہ نے کہا کہ جن افغان پناہ گزینوں کے پاس رجسٹریشن کارڈ یا قانونی دستاویزات موجود ہیں انہیں پاکستان سے بے دخل نہیں کیا جا رہا۔

’جن کے پاس بالکل بھی دستاویزات نہیں، انہیں کہا ہے کہ عزت اور احترام سے چلے جائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جن افغان باشندوں کے پاس پاکستانی دستاویزات ہیں انہیں رہنے کی اجازت ہو گی۔

ہنگامی صورت حال

ادھر طورخم بارڈر پر امیگریشن رجسٹریشن میں کام کرنے والے سمیع اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومتی فیصلے کے بعد اس سرحدی گزرگاہ کو ’ہنگامی صورت حال‘ کا سامنا ہے۔

35 سالہ حاملہ خاتون بینفشہ اپنے چھ بچوں او خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ اپنے آبائی صوبے قندوز جانے سے پہلے طور خم پر سفری کارروائی کے منتظر تھی۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ ’قندوز میں ہمارے پاس زمین ہے، نہ رہنے کو گھر اور کوئی روزگار بھی میسر نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہاں کچھ نہیں ہے۔‘

افغانستان لوٹنے والے 32 سالہ عرفان اللہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرا دل واقعی افغانستان واپس جانے کو نہیں چاہتا لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘

طالبان کا افغانوں کو وقت دینے پر زور

طالبان کی حکومت نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں موجود قانونی دستاویز نہ رکھنے والے افغانوں کو وہاں سے نکلنے کے لیے مزید وقت دے کیونکہ سرحدی گزرگاہوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

وکلا اور انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی پاکستانی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیاں، بدسلوکی اور حراست کا استعمال کر رہی ہے جب کہ گرفتاریوں اور بھتہ خوری کی رپورٹس بھی سامنے آ رہی ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ نے کہا: ’پاکستان کا آئین اس سرزمین پر موجود ہر فرد کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے لیکن ان پناہ گزینوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘

صوبہ خیبر پختونخواہ میں طورخم بارڈر کے قریب لنڈی کوتل میں بدھ کو ہزاروں خاندان رضاکارانہ طور پر ایک ہولڈنگ سینٹر پہنچے جہاں افغان تارکین وطن کی اکثریت مقیم ہے۔

دیگر شہروں میں حراست میں لیے گئے افغانوں کے ساتھ پولیس کی گاڑیوں کو بھی ایسے ہولڈنگ سینٹرز میں آتے دیکھا گیا۔

حکام نے ایسے گھروں اور کاروباروں کو بھی نشانہ بنایا ہے جنہیں وہ غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی پاکستانیوں پر بھی غیر قانونی افغانوں کو گھر کرائے پر دینے کے خلاف قانونی کارروائی کی وارننگ دی جا رہی ہے۔




Source link

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button