منتخب کالم

مقابلہ گوشت خوری/ میاں حبیب


عید کے بعد یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ عید کیا تھی ہرطرف پھڑلو پھڑلو والا معاملہ تھا۔ پہلے جانوروں کی خریداری پر افراتفری تھی ہر طرف جانور ہی وی آئی پی بنے ہوئے تھے۔ اس بار لوگوں کی قوت خرید تھوڑی کمزور نظر آئی پورا سال جنھوں نے بڑی محنت سے جانور پالے تھے اور خیال ان کا یہ تھا کہ عید پر منہ مانگے دام وصول کریں گے ان کے سارے ارمان لوگوں کی قوت خرید میں بہہ گئے۔ وہ بیوپاری بہت اچھے رہے جنھوں نے عید سے 3دن قبل اپنے جانور فروخت کر دیے تھے۔ عید پر جانور زیادہ اور گاہک کم ہونے کی وجہ سے ریٹس ایسے گرے کہ بیوپاریوں نے اونے پونے ہی میں بیچنے میں عافیت سمجھی۔ عید تک جانور خریدنے کی ریس لگی ہوئی تھی عید والے دن قصابوں کے نخرے آسمانوں کو چھو رہے تھے۔ اصل قصاب کم اور موسمی پرندے زیادہ نظر آ رہے تھے پھر بھی بیشمار لوگ پہلے دن قربانی نہ دے سکے۔ انھوں نے دوسرے دن قربانی دی۔ کئی لوگ تو آرام سے جان بوجھ کر تیسرے دن کو ترجیح دیتے ہیں اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو لگاتار تین دن قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کے موقع پر ہر طرف مقابلہ بازی کی فضا برقرار رہی پہلے جانور خریدنے کا مقابلہ تھا پھر جانور ذبح کروانے کا معرکہ تھا پھر گوشت سٹور کرنے کا مقابلہ تھا 
اور آخری مقابلہ گوشت خوری کا تھا۔ کئی لوگوں تو اتنے بیصبرے تھے کہ انھوں نے پورے سال کی کسر پہلے دن ہی نکالنے کی کوشش کی اور اس مقابلہ بازی میں بیمار ہو کر ہسپتال جا پہنچے۔ شدید گرمی کے موسم میں بسیار خوری کے سبب ہسپتالوں میں گیسٹرو پیٹ درد بلڈ پریشر کے ہزاروں مریض ہسپتال لائے گئے۔ ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں مریضوں سے اس قدر بھری ہوئی تھیں جیسے کوئی وبا پھیل گئی ہو۔ دراصل ہر چیز اعتدال میں ہی صحیح رہتی ہے اور جب اعتدال سے انتہا کی طرف کوئی جاتا ہے تو اس کے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ یہی حال بسیار خوروں کا تھا ایک اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں 37 ہزار سے 45 ہزار افراد عید کے دنوں میں بیمار ہو کر ہسپتالوں نجی کلینکس اور ڈاکٹروں کے پاس پہنچے۔ اسی طرح گرمی میں باہر پھرنے والے بیشمار لوگ لو لگنے سے بھی بیمار ہو گئے۔ ہمارا تو اب بھی یہی مشورہ ہے آپ نے جتنا گوشت سٹور کرنا تھا کر لیا اب آرام آرام سے کھائیں۔ پانی کا استعمال زیادہ کریں، دہی کھائیں اور کھانا اتنا کھائیں جتنا آسانی سے ہضم کر لیں۔ ابھی بھی کوشش کریں جو گوشت سٹور کیا ہوا ہے وہ ان غریبوں تک پہنچائیں جنھوں نے قربانی نہیں کی اور جو زیادہ حقدار ہیں۔
یقین کریں ان غرباء کو دیا ہوا گوشت قیامت تک سٹور ہو جائیگا اور خراب بھی نہیں ہوگا۔ عید پر سنت ابراہیمیؑ کی ادائیگی ایک افضل عبادت ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس میں اللہ نے کئی ساری حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔ اس کا ایک پہلو معاشی سرگرمیاں ہیں۔ عیدالاضحی پر ایک اندازے کے مطابق چار کھرب روپے سے زیادہ کا مویشیوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ تقریباً 23 ارب روپے قصائی مزدوری کے طور پر کماتے ہیں۔ 3ارب روپے سے زیادہ چارے کا کاروبار کرنے والے لوگ کما جاتے ہیں۔ دنیا میں ایک ہی وقت میں اتنا بڑا کاروبار صرف عید پر ہی ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں غریبوں کو تزدوری ملتی ہے‘ کسانوں کا چارہ فروخت ہوتا ہے‘ دیہاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملتی ہے۔ اربوں روپے گاڑیوں میں جانور لانے لے جانے والے کماتے ہیں۔ بعدازاں غریبوں کو کھانے کیلئے مہنگا گوشت مفت ملتا ہے۔ کھالوں کا ایک علیحدہ کاروبار ہے۔ چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو مزید کام ملتا ہے۔ چمڑے کی کھالوں‘ جانوروں کی انتڑیوں‘ چربی سے نہ جانے کون کون سی صنعت کو را میٹریل میسر آتا ہے اور پورا سال تک مختلف پراڈکٹس قربانی کی وجہ سے عمل میں آتی ہیں۔ یہ قربانی غریب کو صرف گوشت نہیں کھلاتی‘ بلکہ آئندہ سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک کروڑوں روپے امیروں پر ٹیکس لگا کر پیسہ غریبوں میں بانٹنا شروع کردے تب بھی غریبوں اور ملک کو اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا اللہ کے اس ایک حکم کو ماننے سے ایک مسلمان ملک کو فائدہ ہوتا ہے۔ اکنامکس کی زبان میں سرکولیشن آف ویلتھ کا ایک ایسا چکر شروع ہوتا ہے کہ اس کا حساب لگانے پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ 
٭…٭…٭




Source link

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button