کھلونا / کنول بہزاد

” آخر سمیر کی ریموٹ کنٹرول کار کہاں جاسکتی ہے۔۔۔گھر میں اس دوران کوئی آیا گیا بھی نہیں ۔۔۔اور سب سے بڑی بات کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔۔۔کہ یوں کوئی چیز غائب ہوئی ہو۔۔۔”
سمیر کی امی فکر مند ہو کر بولیں ۔
” اتنی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ۔۔۔چیزیں ادھر ادھر ہو جاتی ہیں ۔۔۔مل جائے گی ۔۔۔” سمیر کے ابو چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولے ۔۔۔
آج اتوار تھا اس لیے وہ گھر پر ہی تھے ۔۔۔مگر امی کی پریشانی کم نہ ہوئی ۔۔۔وہ گمشدہ کار ناصرف خاصی مہنگی تھی بلکہ سمیر کو اس کی خالہ نے سالگرہ کے تحفے کے طور پر دی تھی ۔۔۔سمیر بھی کار کے کھو جانے پر خاصا اداس تھا ۔۔۔
وہ دوستوں کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیل کر واپس آیا تو آتے ہی سوال کیا ۔۔۔
” میری گاڑی ملی امی ۔۔۔؟ ”
” مل جائے گی بیٹا ۔۔۔کل حمیداں آئے گی۔۔۔تو اس کے ساتھ مل کر دوبارہ تلاش کروں گی ۔۔۔”
امی نے اپنی گھریلو ملازمہ کا نام لیا ۔
سمیر کا منھ لٹک گیا ۔۔۔کافی دیر یونہی بیٹھا رہا ۔۔۔پھر اچانک بولا:
” مجھے تو حمیداں آنٹی پر شک ہے۔۔۔کچھ دن پہلے ان کے ساتھ ان کا بیٹا آیا تھا نا۔۔۔تو بار بار میری کار کو چھونے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔مجھ سے چلانے کے لیے بھی مانگی مگر میں نے نہیں دی۔۔۔”
” بری بات ۔۔۔بغیر تحقیق کے کسی پر الزام نہیں لگاتے۔۔۔پھر حمیداں کئی برسوں سے ہمارے ہاں کام کر رہی ہیں ۔۔۔کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا ۔۔۔وہ ایک ایماندار خاتون ہیں ۔۔۔”
ابو نے فوراً سمیر کو ٹوکا۔۔۔
مگر ۔۔۔سمیر کی بات نے اس کی امی کے ذہن میں بھی شک کا بیج بو دیا۔۔۔
اگلے دن حسب معمول حمیداں آئی تو سمیر کی امی نے پوچھا:
"حمیداں ۔۔۔سمیر کی ریموٹ کنٹرول کار گم ہو گئی ہے ۔۔۔کیا آپ نے کہیں دیکھی ؟ ”
"نہیں بی بی ۔۔۔پرسوں تو سمیر بابا اس کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔۔۔”
حمیداں نے جواب دیا ۔
” چلیں ذرا میرے ساتھ تلاش کروائیں ۔۔۔سمیر نے سکول سے آتے ہی اپنی کار کے بارے میں پوچھنا ہے ۔۔۔”
پھر دونوں نے مل کر گھر کا کونا کونا چھان مارا۔۔۔مگر کار نہ ملنی تھی نہ ملی۔۔۔
” آخر کہاں جاسکتی ہے ۔۔۔گھر میں باہر سے آپ کے علاؤہ کوئی بھی نہیں آتا ۔۔۔”
نہ چاہتے ہوئے بھی امی کے منھ سے پھسل گیا ۔
حمیداں ایک دم ساکت سی ہوکر سمیر کی امی کو دیکھنے لگیں ۔۔۔ان کے چہرے پر دکھ کے سائے صاف دیکھے جا سکتے تھے ۔
” بی بی! کیا آپ مجھ پر شک کر رہی ہیں ۔۔۔اتنے سال ہو گئے مجھے یہاں کام کرتے ہوئے ۔۔۔میں نے کبھی کسی چیز کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ۔۔۔البتہ جو آپ نے اپنی مرضی سے دیا۔۔۔بخوشی رکھ لیا ۔۔۔میں سمجھتی تھی میں بھی آپ کے گھر کا فرد ہوں مگر آپ نے مجھے غیر بنا دیا ۔۔۔”
حمیداں کا گلا رندھ گیا ۔
امی نے بات سنبھالنے کی کوشش کی مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔۔۔اتنے میں سمیر بھی سکول سے واپس آ گیا اور آتے ہی بولا:
"امی ! حمیداں آنٹی سے پوچھیں انہوں نے میری کار کا کیا کیا ؟ ”
اب تو حمیداں اور بھی دکھی ہو گئیں ۔۔۔
” مجھے اجازت دیں بی بی جی۔۔۔میں اب یہاں کام نہ کر سکوں گی ۔۔۔جہاں اعتبار اور بھروسا ختم ہو جائے وہاں ٹھہرے رہنا ٹھیک نہیں ہوتا… اور ہاں اس مہینے کی تنخواہ بھی آپ رکھ لیں ۔۔۔شاید ان پیسوں سے سمیر بابا کے لیے اورگاڑی خریدی جاسکے۔۔۔”
یہ کہہ کر حمیداں تیزی باہر نکل گئیں ۔۔۔سمیر کی امی آوازیں دیتی رہ گئیں ۔
شام کو سمیر کے ابو کو ساری بات پتہ چلی تو وہ بہت ناراض ہوئے ۔۔۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔حمیداں تو ناراض اور دکھی ہو کر جا چکی تھیں ۔۔۔
اس بات کو کئی ماہ گزر گئے ۔۔۔گرمیوں کا موسم شروع ہوا تو گھر میں سفیدیاں کروانے کا پروگرام بننے لگا ۔۔۔اس دوران گھر کا سارا سامان ادھر ادھر ہوا۔۔۔دادا ابا کا پرانا صندوق بھی سٹور روم سےہٹایا گیا جس میں ان کی قیمتی اور نایاب کتابیں تھیں ۔۔۔صندوق ہٹتے ہی سمیر کے ابو کی جس چیز پر نظر پڑی وہ سمیر کی ریموٹ کنٹرول کار تھی۔۔۔انہوں نے فوراً سمیر اور اس کی امی کو بلایا ۔۔۔امی بھی گاڑی کو سامنے پاکر گنگ سی ہوگئیں اور سمیر بھی ازحد شرمندہ نظر آتا تھا ۔۔۔
” میں نے سمجھایا تھا نا کہ بغیر تحقیق کے کسی پر الزام نہیں لگاتے۔۔۔یہ کار محض ایک کھلونا ہی تو تھا ۔۔۔جس کی خاطر آپ لوگوں نے ایک انسان کا دل توڑا۔۔۔ جس کی تلافی شاید کبھی نہ ہو سکے ۔۔۔”
سمیر کے ابو دکھی ہو کر بولے۔
” میں بہت شرمندہ ہوں ابو ۔۔۔میں حمیداں آنٹی کے پاس معافی مانگنے کے لیے جاؤں گا ۔۔۔”
سمیر نے کہا ۔
” میں بھی ساتھ چلوں گی ۔۔۔امید ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دیں گی”
سمیر کی امی بولیں ۔۔۔
” ہاں۔۔۔خدا کرے ایسا ہی ہو۔۔۔اپنی غلطی ماننے اور معافی مانگ لینے سے انسان کا مرتبہ ہمیشہ بلند ہی ہوتا ہے ۔۔۔”
سمیر کے ابو نے رسان سے کہا ۔