افسانہ

شوھدا / عامر انور

 

میں اس ملک کے بیشتر خاندانوں کی طرح مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہوں ، جو اپنا سر ڈھانپے تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں ، اور پاؤں پر چادر دراز کرے تو سر ننگا ہو جاتا ہے۔

گھر کی ذمہ داریاں میرے سر تھیں۔
سراج تو صرف اتنے پیسے ہی اپنے پاس رکھتے کہ ان کا آنے جانے کا کرایہ پورا ہوتا۔ باقی پیسے وہ میری ہتھیلی پر رکھ دیتے تھے۔ شادی کے ابتدائی سال تو بہتر گزرے لیکن پھر تو مہنگائی نے ایسا وار کیا کہ اکثر لوگوں کی طرح ہمیں بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا۔

ہمارے بچے بھی دو ہی تھے۔ بڑی بیٹی تھی اور پھر بیٹا۔ ان کی پرورش ، تعلیم و تربیت اور کھانے پینے کا سامان پورا کرتے کرتے تنخواہ کا حجم سکڑ کر اتنا رہ جاتا کہ گھر کے بجلی ، گیس کے بل بمشکل ادا کر پاتے۔

اس صورتحال میں ، میں نے ایک محلے کے اسکول میں بطور ٹیچر نوکری کر لی۔ اسکول چھوٹا سا تھا اس لیے تنخواہ بھی کم تھی۔ لیکن اتنا ضرور ہونے لگا کہ کبھی ہفتے بھر میں کوئی موسم کا پھل لے لیا تو کبھی مہینے میں ایک آدھ مرتبہ باہر سے ہلکا پھلکا کھانا کھالیا۔

محرومیاں ہوں تو چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل بھی آپ کو عیاشی محسوس ہوتی ہے۔ زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔ بیٹی قد کاٹھ نکال رہی تھی تو اس کے ساتھ ہی میں اور سراج کچھ پس انداز کرنے لگے تاکہ بیٹی کے جہیز کا سامان تیار کیا جا سکے۔

اس سوچ نے ہماری چھوٹی سی عیاشی پر بھی تالا لگا دیا۔ اب ہم اپنی معمولی خواہشات کو بھی پیروں تلے مسلنے لگے۔ بچے بڑے ہو گئے تھے اور وہ اس بات کو سمجھنے لگے تھے۔ اکثر وہ ہم میاں بیوی کو سمجھاتے کہ زندگی ایک ہی ملتی ہے۔ اس طرح گھٹ گھٹ کر نہ جیئں۔ جب وقت آئے گا تو اللہ انتظام کی کوئی سبیل پیدا کردے گا۔

بیٹی کہتی کہ میں بھی کسی اسکول میں ٹیچر لگ جاؤں گی اور چھوٹا بھائی بھی چند سالوں میں کمانے کے قابل ہو جائے گا اور سب سے بڑھ کر اللہ پر توکل کرنا سیکھیں ۔
ان کی باتیں سن کر میں زیرِ لب مسکرا دیتی کہ واقعی بچے بڑے ہو گئے ہیں لیکن انہیں کیا معلوم کہ اسباب کا دور ہے۔ آسمان سے کبھی ہمارے لیے من و سلویٰ نازل نہیں ہوگا۔

اسکول میں پڑھانے کا تجربہ ہوا تو کچھ بہتر اسکولوں میں بطور ٹیچر نوکری کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ جلد ہی گھر سے
قریب ایک اچھے اسکول میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
تنخواہ بہتر ملنا شروع ہو گئی۔ اس اسکول میں چھوٹی عمر کے بچوں کو واش روم لانے لیجانے اور چھوٹی موٹی صفائی کے لیے ایک آیا رکھی ہوئی تھی۔ اس کا نام زرینہ تھا۔

بڑھاپے میں اس کو نوکری کرتا دیکھ کر بعض اوقات دل بھر آتا ۔ اس سے میری اچھی دعا سلام ہو گئی تھی۔ باقی ٹیچرز تو اس کو کوئی خاص منہ نہ لگاتی تھیں لیکن میری توجہ اور محبت سے جیسے وہ جی سی اٹھی۔
ہر وقت خاموش رہنے والی اور گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی زرینہ مجھے فارغ دیکھ کر دل کی باتیں کرنے لگ جاتی ۔

اس کے حالات جان کر میں دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کرتی کہ واقعی درست حکم دیا گیا ہے کہ اپنے سے نیچے دیکھو تاکہ شکر گزاری پیدا ہو۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی اور پھر اس کا بچہ ہی اس کا سب کچھ بن گیا ۔
شوہر کی صورت میں جوان موت دیکھ چکی تھی تو ہر وقت اپنے بیٹے کے متعلق فکر مند رہتی۔ تین سال پہلے اس کی شادی کر دی۔

غریبوں کے بچے بھی اپنی حیثیت میں رہتے ہوئے ناز و نعم میں پلتے ہیں اس بات کا مجھے زرینہ سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا۔ اس کی حد سے زیادہ محبت نے اس کے بیٹے کو پہلے آرام طلب اور پھر ہڈ حرام بنا دیا تھا۔ یہ بات زرینہ نے مجھے نہیں بتائی تھی بلکہ میں نے اس کی باتوں سے یہ نتیجہ خود ہی اخذ کیا تھا۔

وہ اپنے بیٹے کو بڑے ناز سے شوھدا کہتی تھی۔ اور جب وہ اسے شوھدا کہتی تو اس کے چہرے پر ایک حقیقی مسکراہٹ ہوتی۔ شاید اس لیے کہ وہ ہی اس کی کل کائنات تھا۔ اس کی محرومیاں جان کر اب میں کچھ نہ کچھ اس کی مدد کر دیتی۔ کیونکہ میرا ایمان تھا کہ کسی کی مدد کرنے سے اللہ آپ کے مال میں برکت دیتا ہے۔

میں اس کے کمزور ، نحیف و نزار جسم کو دیکھ کر اکثر اسے تاکید کرتی کہ میرے دیئے ہوئے پیسوں سے کوئی ایک آدھ سیب لے لیا کرو۔ تاکہ تمھارے بدن میں بھی کچھ جان پیدا ہو لیکن اگلے دن جب میں پوچھتی تو وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہ دیتی کہ شوھدا آج کل کمزور ہو گیا ہے، اس کے لیے لے گئی تھی۔ وہ بچاری جھوٹ بول ہی نہ پاتی۔

اس کی بہو نے بھی اسکول میں نوکری شروع کر دی تھی۔
اس کا کام بچوں کے آنے سے پہلے کلاسوں کی صفائی کرنا تھا۔ وہ بھی اپنی ساس کے توسط سے مجھ سے جلد ہی شناسا ہو گئی۔ اس کے اپنے دکھ تھے ۔ وہ کہتی تھی کہ میری ساس نے اپنے بچے کو ایسا بگاڑا ہے کہ کبھی اس میں ذمہ داری پیدا نہیں ہونے دی۔ اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ باہر کام کرنے سے کہیں یہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے۔ اپنے شوہر کی موت نے اسے ڈرپوک بنا دیا ہے۔

وہ بچاری مجھ سے التجا کرتی کہ میں اس کی ساس کو سمجھاؤں کہ وہ اپنے بیٹے کو کام کرنے کا کہے۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں جلد اس بارے میں اس سے بات کروں گی۔ لیکن ارادہ ، ارادہ ہی رہ گیا۔ زرینہ اسکول میں کام کرتے کرتے گر گئی۔ اس کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ دم توڑ چکی تھی۔

اس کا نحیف و نزار جسم صرف حرکت کرنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس میں روح موجود ہے۔ اب وہ اسٹریچر پر بےجان لیٹی ہوئی تھی۔ شاید اس کی مشقت کے دن ختم ہو چکے تھے۔ اسکول والوں نے چندہ اکھٹا کر کے اس کی تجہیز و تکفین کے انتظامات مکمل کیے۔ میں بہت زیادہ افسردہ تھی۔ اس کی موت کے بعد میں تین دن تک ان کے گھر جاتی رہی۔ سوئم کے انتظامات کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔

میں نے اسکول والوں سے بات کی تو ان کی جانب سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ ملا۔ میں نے چند خدا ترس ٹیچرز سے درخواست کر کے کچھ پیسے اکٹھے کر لیے۔ سوئم والے دن مارکیٹ سے فروٹ لے کر میں ان کے گھر پہنچی۔

چند محلے والے آئے ہوئے تھے۔ محلے کی مسجد کے مولوی کو دعا کے لیے بلایا گیا۔ زرینہ کی بہو نے ایک بڑے تھال میں فروٹ رکھ کر اپنے میاں کے ہاتھوں مولوی صاحب کے سامنے رکھوا دیا۔ مولوی صاحب نے فروٹ بھرے تھال کو گہری نگاہ سے دیکھا اور پھر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا شروع کر دی۔
میں کمرے میں بیٹھی دیوار کی اوٹ سے زرینہ کے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ شوہدی نظروں سے فروٹ بھرے تھال کو دیکھ رہا تھا۔

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button