ماسٹر سٹروک / تبصرہ : عارفین یوسف

تبصرہ کتاب: میرے محترم
مصنف: جاوید صدیقی
کتابوں سے ازلی رغبت کے باوجود جب ایک کرم فرما نے ملاقات میں بتایاکہ وہ "میرے محترم” بطورِ خاص میرے مطالعہ کے لیے لائے ہیں تو میں نے اُس پر ایک سرسری نظر ڈالی اور ایک طرف رکھ دیا۔ ملاقات کے اختتام پر میں نے چلتے چلتے اُن کے ہاتھ سے وہ کتاب اُچک لی اورکہاکہ مطالعہ کے بعد لوٹا دوں گا۔اس ارادے کے پس منظر میں قابل قدر اور مایہ نازلکھاری بنتِ قمر مفتی صاحبہ کی چند روز قبل "میرے محترم "کو پڑھنے کی تاکید کا بھی بڑا عمل دخل تھا جواُس لمحے میرے شعور نے تحت الشعور سے اُچک لی۔انھوں نے ایک ادبی گروپ کے ساتھ قلعہ روہتاس کے مطالعاتی دورہ کے دوران یہ فن پارہ بطورِ خاص بک کارنر جہلم کے سٹال سے خریدا تھا اور نہایت خلوص کے ساتھ مجھے بھی اِسے پڑھنے کی تاکید کی۔
پہلے دِن کتاب کو اُٹھایا توگویا زمان و مکان کی قید سے آزاد اور دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر ایک ایسے طلسم ہوشربا کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا جہاں ہر قدم پر حیرت کدوں نے میرا استقبال کیا۔پہلے یہ گمان ہوا کہ شاید جاوید صدیقی صاحب کی شان میں رطب اللسان ضیاء محی الدین،انتظار حسین، شمیم حنفی، گلزاراور زہرا نگاہ جیسی مشہور و معروف ادبی شخصیات نے اُن سے اپنی دوستی نبھانے کی خاطر اپنے قلم کو تکلفاً زحمت دی ہے مگر جب "اک بنجارہ” اور”حجیانی” ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے تو کتاب کے سرورق کو غور سے دیکھا، بارہا جاوید صدیقی صاحب کے نام کو پڑھا تبھی دل بے ایمان ہو گیا اور اپنے کرم فرم کی خدمت میں بصدِ احترام مگر ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا کہ یہ کتاب واپس نہیں کی جائے گی۔جاوید صاحب نے ان شخصی خاکوں کے ذریعے کتنے ہی جیتے جاگتے ادوار سے متعارف کرا دیا۔ایک پوری تہذیب اور مکمل تمدن سے روشناس کرا دیا۔ زہرا نگاہ صاحبہ کا کہنا برحق ہے، ” یہ خاکے تاریخ کا خلاصہ بھی ہیں اور تہذیب کا مرثیہ بھی۔ خستہ حالی کا تذکرہ شہرِ آشوب کا نظارہ ہے۔ بعض جگہ جملوں میں طنزو مزاح کا امتزاج اور اختصار غزل لگتا ہے۔ کہیں کہیں بیان کی بے ترتیبی ایک لطف کے ساتھ نظم آزاد کا احساس دلاتی ہے”۔
ایسے سبھاو سے یہ خاکے سپردِ قلم کیے گئے ہیں کہ میں نے خود کو ان تمام شخصیات کے ہمراہ پایا۔ حد تو یہ ہے کہ جب بھی کسی خاکے کے اختتام پر اُس شخصیت کی وفات کا ذکر کیا گیا تو دل یوں اداسی میں ڈوب گیا جیسے کوئی بہت ہی اپنا ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا ہو۔ معروف شخصیات کے انتقال کا پہلے سے علم ہونے کے باوجود جاوید صاحب نے وہ سماں باندھا کہ خاکوں میں اُن کی وفات کے تذکرے پر دوبارہ مگر شدت کے ساتھ سوگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ سلیبریٹیز تو ایک طرف جاوید صاحب نے اپنے اہلِ خانہ یا نجی حلقہ احباب میں سے جن خواتین و حضرات کا تذکرہ کیا اُن سے بھی بے پایاں اپنائیت محسوس ہوئی۔ اپنی نانی کے بارے میں کیا ہی خوبصورت جملہ لکھا، ” میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حوریں بوڑھی ہو جائیں تو بالکل میری نانی جیسی نظر آئیں گی”، اس ایک جملے کو نہ جانے کتنی بار پڑھا اور وہیں رک کر لطف اندوز ہوتا رہا۔اب اگر ایسے خوبصورت خاکے کے بارے میں ضیاء محی الدین صاحب یہ فرمائیں، "بی حٖضور پڑھ کر تو گھگھی بندھ گئی” تو کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو گی بلکہ یہ تو قارئین کے دلی جذبات کی ترجمانی ہے۔
ایسی نابغہ روزگارشخصیات جن کے کمالات دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے اُن کے بارے میں جان کر تو اردگرد چاندنی بکھر گئی۔ بنسی چندر گپت جیسی باکمال ہستی کے احوال نے تو دل موہ لیا۔ ہمہ وقت بیدارجمالیاتی حس کے تحت انھوں نے مٹی کی پڑیاں اچھال اچھال کر تصاویر پر وقت کی گرد جما کر فلم میں اس منظر کو ہمیشہ کے لیے یوں امر کر دیاکہ جدید ٹیکنالوجی بھی ایسا کمال نہ دکھا سکے۔ وہ اپنے فن کے آئن سٹائن ثابت ہوئے۔”اکبری بوا” اور”آفت کی پڑیا” کی آصفہ فاروقی افسانوی کردار لگے جو شاید اس مادی دنیا سے الگ کسی اور ہی کائنات کی باسی تھیں۔ "صاحب” کے دلیپ کمار اور "تھوڑا سا فرشتہ” کے فاروق شیخ کی زندگی کے وہ پہلو منکشف ہوئے کہ حیرت کے در وا ہو گئے۔ شمع زیدی اور عبدالحمید بیکس کی بے غرضی اور بے نیازی نے ان کو ملکوتی درجے پر فائز کر دیا ہے۔ اب کس کس نگینے کا ذکر کیاجائے۔ جاوید صدیقی صاحب نے تو انمول ہیروں کی ایک ایسی مالا پرو کر ہمیں تھما دی جس کی آب و تاب کے سامنے کہکشاوں کی ضوفشانی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔اس شہکار کی موجودگی میں جاوید صاحب کو اپنی سوانح عمری مرتب کرنے کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔اس باب میں ضیاء محی الدین صاحب نے صحیح فرمایا، "۔۔۔جنھیں آپ خاکے کہتے ہیں، یہ آپ کی آپ بیتی ہی تو ہے۔ آپ کا بچپن، لڑکپن، آپ کی جوانی، آپ کی شدید عسرت کا زمانہ، آپ کی ان تھک محنت اور سب سے بڑھ کر آپ کا والہانہ عجز، یہ سب کچھ دل مسوس کر کے رکھ دیتا ہے”.
"اک بنجارہ” سے شروع ہونے والا حسین سفر”ذکرایک مسکراہٹ کا” پر منتج ہوا لیکن نہیں یہ تو ایک لامتناہی سہانی راہگزر ہے جس میں جابجا کھلے پھول قاری کو تھکنے دیتے ہیں نہ بھٹکنے دیتے ہیں۔ اس دور میں چاشنی سے لبریز، اپنے اندر بھرپور اپنائیت سموئے ایک مسحور کن اندازِ بیان نہایت گرم جوشی کے ساتھ دل کی گہرائیوں کا مکین ہو جاتا ہے بقول گلزار صاحب، ” اسے ماسٹر سٹروک کہتے ہیں۔ ایک برش میں پورا پورا سٹروک کھڑا کر دیا”۔
کتاب کا مطالعہ مکمل ہوتے ہی ایک بے نام سی اداسی طاری ہو گئی کیونکہ دل یہی چاہ رہا تھاکہ مطالعہ کے یہ خوبصورت لمحات کبھی ختم نہ ہوں۔ اس کیفیت سے نمٹنے کے لیے مصمم ارادہ کر لیا کہ دوبارہ پڑھا جائے مگرکتاب ندارد۔ پورے گھر میں تلاش بسیار شروع ہو گئی۔ اس مہم کے دوران والدہ محترمہ کے کمرے میں داخل ہوا تو ان کو اس کتاب کے مطالعہ میں اس قدر مستغرق پایا کہ انھوں نے میری آمد کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ ماں جی نے سر اٹھایا، مسکرا کر دیکھا اور دوبارہ مطالعہ میں مشغول ہو گئیں۔ میں نے پوچھا یہ کتاب کیسی ہے؟ مختصر جواب ملا ” بہت اچھی”۔ ہمارے مابین اتنا مختصر مکالمہ پہلی دفعہ ہوا اور میں سمجھ گیا وہ نہیں چاہتیں کہ میں اُن کے اور "میرے محترم” کے مطالعہ میں حائل ہوں لہذا اُن کو کتاب کے ساتھ چھوڑ کر کمرے سے نکل آیا۔