افسانہ

نئی روایات کے امین / کرن نعمان

 

اپنی ہتھیلی سے دانہ کھلا کر میں نے ہلکے گلابی پروں والے کبوتر کو آزاد کیا تو وہ فضائے بسیط کی بلندیوں میں پرواز کرنے لگا ۔ اڑتے کبوتر ہمیشہ میری حسرتوں میں اضافہ کرتے تھے۔ کچھ دیر ان کا نظارہ کر کے میں چھت سے اتر آئی ۔شام کے جھٹپٹے اب سیاہی میں بدلنے لگے تھے ۔ پھوپھی اماں کے کمرے کا دروازہ ہنوز بند تھا ۔ مجھے کبھی ان کے بند دروازے کو کھولنے میں مشکل نہ ہوئی تھی لیکن آج تو دستک کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی دو بھر ہو رہا تھا ۔ کاش یہ درد بھری صبح ہماری زندگی میں نہ آئی ہوتی ۔ میں نے بارہا انعم سے کہا تھا کہ
” بے سود کوشش مت کرو ”
مگر وہ تو خود اعتمادی کے غرور میں فتح کو اپنا مقدر ہی جان بیٹھی تھی ۔

سن پچھتر میں جب دادا جان ہندو مسلم کشمکش سے گھبرا کر ہندوستان کو خیرآباد کہہ آئے تب پھوپی اماں اپنا دل اپنے خالہ زاد سید رفیع احمد شاہ کی دہلیز پر چھوڑ آئی تھیں ۔ چھوٹی پھوپھی ابا جان اور ضعیم چچا گو کے بہت چھوٹے نہ تھے پر اتنے بڑے بھی نہ تھے کہ بڑوں کے فیصلوں میں شریک ہو پاتے ۔ کراچی آ کر دادا جان نے بہت کوشش کی کہ کسی سید خاندان میں پھوپی اماں کی شادی ہو جائے مگر ان کی تمام کوششوں نے پھوپی اماں کی دعاؤں کے سامنے دم توڑ دیا۔ وہ دادا جان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتی تھیں اس لیے انہوں نے خدا کے حضور سر جھکا دیا اور گڑگڑا گڑگڑا کر عرض کرتی رہیں کہ
” مالک میں دل رفیع کو دے بیٹھی اب تن کسی اور کو نہیں دے سکتی یا تو رفیق کو سامنے لے آ یا پھر میرا پردہ ڈھک لے ”
رب نے ان کا تن کسی اور کے حوالے نہ کیا لیکن نہ تو رفیع ان کے سامنے آئے اور نہ ہی وہ راہ عدم کی مسافر ہوئیں۔ چھوٹی پھوپی کے لیے رشتوں کا مسئلہ بنا رہا اسی لیے ہندوستان سے انے والے ایک سید مگر غریب خاندان میں بیاہی گئیں۔ ابا جان اور چچا جان کے سروں پر بھی سہرے سج گئے مگر پھوپی اماں کا نصیب مہر بند ہی رہا ۔

دادا اپنے پاکستان آنے کے فیصلے پر پچھتاتے حسرت سے پھوپی اماں کا نورانی چہرہ تکتے جہان فانی سے گزر گئے ۔ ان کے بعد پھوپی اماں ان کے کمرے میں ایسے مقیم ہوئیں گویا گدی نشین ہو گئیں ۔ چھوٹی پھوپی ابا اور ضعیم چچا ان کے حضور ایسے بیٹھتے جیسے مرید ہوں ۔ کسی کو ان کے حکم سے سرتابی کی جرآت نہ تھی تو پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ان کی گود میں پروان چڑھنے والی انعم ان کے روبرو کھڑے ہو کر بحث کرتی اور گھر کی خاموش فضا میں طوفان نہ اٹھتا ۔

شعور کی دنیا میں انکھ کھولتے ہی میں نے یہ جانا تھا کہ دنیا میں سید کہلانے والے تو لاکھوں تھے مگر سیدوں کی روایات نبھانے والے میرے خاندان جیسے گھرانے خال خال ہی تھے۔ تعلیم کے در ہم پر بند نہیں تھے لیکن رشتوں کے لیے ہمارے دروازے غیر سید خاندانوں پر بند تھے ۔
یہی برا ہو گیا
کاش ہمیں بھی گھر کی چار دیواری کے اندر ہی مصلوب کر دیا جاتا تو دل ناداں کو ایسی آزمائشوں سے نہ گزرنا پڑتا ۔

ابا جان کی دو ہی اولادیں تھیں میں اور انعم ۔ انعم کی پیدائش کے ساتھ ہی اماں جان دنیا سے منہ موڑ گئیں تب پھوپھی اماں نے ہمیں اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ۔ دوسری طرف ضعیم چچا کی بھی دو ہی اولادیں تھیں فہیم اور عائشہ ۔ مستقبل میں رشتوں کی خواری کم ہو اس لیے بہت بچپن میں ہی فہیم اور انعم کا رشتہ طے کر دیا گیا۔ یہ بھی خدا کا کرم ہی تھا کہ رشتے کے ساتھ ساتھ دونوں کے دل بھی جڑ گئے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں کے رشتے کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑے گا یہ کون جانتا تھا ۔

ابا اور زعیم چچا کی اولادوں میں سب سے بڑی عائشہ تھی اور اس کے بعد میں اور میرے بعد فہیم اور انعم گریجویشن کے بعد عائشہ کے لیے رشتے کی تلاش شروع کر دی گئی تھی ۔ نجیب ال۔ طرفین سید گھرانے کا رشتہ درکار تھا جن کے مالی حالات بھی مضبوط ہوں ۔ یہ شرط چھوٹی پھوپی کے حالات زندگی سامنے رکھتے ہوئے پھوپی اماں نے لگائی تھی ۔ چھوٹی پھوپھی نے ایک طویل مدت کسمپرسی میں گزاری تھی اور اب کہیں جا کر پھوپا جان کے حالات کچھ بہتر ہوئے تھے ۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف دو ہی بار چھوٹی پھوپھی کو پاکستان آتے دیکھا تھا مگر وہ جب بھی آئیں ان کی حالت دیکھ کر دل دکھی ہی ہوا تھا ۔گریجویشن کے بعد عائشہ نے تعلیم چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے جہیز کے لیے چادریں کاڑھنا شروع کر دیں ۔

کاش میں نے بھی یہی کیا ہوتا تو آج شاید میں بھی گھر گرہستی والی ہوتی مگر حمدان کی محبت میرا مقدر تھی ۔ لاکھوں نصیحتوں کے پہروں میں مجھے یونیورسٹی بھیجا گیا تھا لیکن یہ نگوڑی محبت کب کسی نصیحت کو خاطر میں لاتی ہے اس نے میرے من کو گلزار کیا اور تن کو خارزار۔ یونیورسٹی کے دو سال کیسے گزرے پتہ ہی نہ چلا لیکن جب یونیورسٹی ختم ہونے کا وقت آیا تب محبت بھی ہوش میں آئی ۔ حمدان نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جیسے ہی اس کی جاب ہوئی وہ گھر والوں کے ساتھ رشتہ لینے آئے گا اور اس نے وعدہ پورا بھی کیا لیکن اس سے پہلے ہی وہ ہو گیا جس کا تصور بھی محال تھا ۔ رشتوں کا انتظار کرتے کرتے عائشہ کا دل مایوسی سے بھر گیا تھا چھوٹی پھوپی نے انڈیا کا ایک رشتہ پھوپی اماں کو بتایا لیکن عائشہ انڈیا کا سوچ کر ہی لرز گئی ۔ انڈیا جانے کا مطلب یہ تھا کہ حالات کی چکی میں پس کر برسوں اپنوں سے دوری جھیلنا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی قسمت بھی چھوٹی پھوپی جیسی ہو اس لیے نہ جانے کب اس نے ضعیم چچا کے کارخانے میں کام کرنے والے ملازم کے ساتھ مراسم بڑھا لیے ۔ کسی کو اس بات کا پتہ ہی نہ چلا ۔ خدشوں کی آندھی نے اس کی انکھوں میں مٹی بھر دی تھی ۔ اندھے جذبوں نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ جس دن حمدان نے اپنے گھر والوں کے ساتھ رشتہ مانگنے آنا تھا اس سے ایک رات پہلے عائشہ نے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے کہ اس کے قدم دہلیز پار کرتے وہ پکڑی گئی ۔ گھر کی فضا شدید سراسیمہ ہو گئی تھی ایسے میں غیر سید خاندان سے انے والا حمدان کا رشتہ بھی بغاوت کی ایک کڑی سمجھ کر رد کر دیا گیا ۔ ایک ہی چھت تلے عائشہ اور میں دو الگ طرح کی قیامتیں جھیل رہے تھے ۔ عائشہ کو اسی کے کمرے میں بند کر دیا گیا تھا اور مجھے میرے دل میں۔ حمدان کے گھر والے تین بار آئے لیکن ہر بار نامراد لوٹا دیے گئے ۔ اسی دوران انڈیا والا رشتہ عائشہ کے لیے قبول کر لیا گیا تھا۔ چند ہی مہینوں میں ساری تیاریاں مکمل کر کے اسے جلا وطنی کی سزا دے دی گئی ۔مجھے بھی اپنا کوئی ایسا ہی مستقبل سامنے کھڑا دکھائی دے رہا تھا ۔

زندگی میں ہر آنے والا دن میرا دم گھونٹتا رہتا تھا. مجھے خوشی تھی کہ میرے بعد انعم کو یہ سب نہیں جھیلنا پڑے گا ۔ نہ تو وطن سے دوری ہوگی اور نہ ہی سید غیر سید کے جھمیلے ہوں گے لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ بے وقوف خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار بیٹھے گی ۔ میری ڈائری سے اس نے میرے دل کا احوال جان لیا تھا اور بار بار حمدان کے انے والے رشتے کی حقیقت بھی ۔ پہلے تو وہ مجھ سے کچھ نہ بتانے پر شکوہ کناں رہی بعد میں کہنے لگی کہ
” اپیا حمدان بھائی کے گھر والوں کو ایک بار پھر بلا لیں. اس بار میں انہیں خالی ہاتھ واپس جانے نہیں دوں گی ”
اس کی بات مجھے دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ نہیں لگی تھی ۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میں اس کی بات کو اہمیت نہیں دوں گی تو وہ خود چوری چھپے حمدان کو فون کر کے اسے ایک بار پھر آنے پر راضی کر لے گی ۔ جس دن اس کے گھر والوں نے آنا تھا اس سے ایک رات پہلے انعم میرا مقدمہ لڑنے پھوپی اماں کے حضور روبرو ہونے چل پڑی ۔ میں نے اسے لاکھ اپنے ارادوں سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر وہ تو ٹھان چکی تھی ۔ عائشہ کے ساتھ پیش آنے والے حالات نے اس کا ذہن بھی بری طرح متاثر کیا تھا اب وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بہن بھی ویسے ہی کڑے حالات سے گزرے ۔پھوپی اماں عشاء کی نماز سے فارغ ہوئیں تو اپنے پیچھے انعم کو ہاتھ مسلتے دیکھ کر حیران ہوئیں ۔ پورے گھر میں ان سے اختلاف کی ہمت کسی کو نہیں تھی لیکن انعم کو لگا تھا کہ شاید پھوپی اماں نے ہمیں ماں بن کر پالا ہے اسی لیے وہ ہمارا درد بھی ایک ماں کی طرح ہی محسوس کریں گی مگر نہیں جانتی تھی کہ وہ تو دل ہی سے عاری تھیں ۔ پچھلے صحن میں کھلنے والی ان کی کھڑکی کے قریب کھڑے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں جب وہ ان سے کہہ رہی تھی
” ہمارا مذہب تو ہمیں سید اور غیر سید کی تقسیم نہیں بانٹتا پھوپی اماں تو پھر ہمارا خاندان کیوں لڑکیوں کی قسمت کا فیصلہ اس تناظر میں کرتا ہے جبکہ یہ سراسر تہمات ہیں قران اور حدیث میں ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں ملتا ”
کچھ دیر تک پھوپی اماں کی آواز نہیں آئی ۔ یقینا یہ بات ان کو ناگوار گزری تھی
” یہ ٹھیک ہے کہ قران اور حدیث میں یہ بات نہیں ہے لیکن ایک چیز ہے جسے اجتہاد کہتے ہیں , ایک چیز ہے جسے روایت کہا جاتا ہے۔ صدیوں سے ہمارے بزرگ ان روایات کا پاس کرتے چلے آرہے ہیں ۔ سادات کا اپنا ایک بلند مقام ہے ہم ان کے بنائے ہوئے اصولوں پر کاربند ہیں اور ہمیشہ ان کا احترام کرتے رہیں گے ”
انم نے زہر خند ہنکارہ بھرا
” ہونہہ ! خواہ یہ اصول و ضوابط آپ کی بیٹیوں کی زندگیوں کو ہی نگل جائیں ، ان کی خوشیوں میں آگ لگا دیں ۔ پھوپی اماں کیا ملا اپ کو، کیا ملا چھوٹی پھوپھی کو کیا ملا عائشہ کو اور کیا ملے گا اپیا کو اپنی خوشیوں کی قربانی دے کر ”
٫” اپنی حد میں رہو انعم ”
پھوپی اماں کی آواز میں غصے کی کپکپاہٹ واضح تھی ۔
” پھوپی اماں جس کا اپنا دل لٹ چکا ہو وہ کیسے اپنی ہی اولاد کے دل کا خون کر سکتا ہے ۔ آپ اپنی محرومیوں کا بدلہ اس گھرانے کی بیٹیوں سے نہ لیں ”
” انعم ”
غصے میں پھٹتی ضعیم چچا کی آواز سن کر میں پوری جان سے کانپ اٹھی اور پھر شاید انہوں نے پوری قوت سے انعم کو تھپڑ دے مارا تھا ۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے دیکھا انعم کا ہونٹ اور انکھیں دونوں پھٹی ہوئی تھیں ۔ میرا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ۔ آج تک اس گھر کی کسی عورت کو پھول کی چھڑی سے بھی نہیں مارا گیا تھا لیکن اج ضعیم چچا کا اٹھا ہوا ہاتھ انعم کے چہرے پر ہی نہیں اس کے رشتے پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا تھا ۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اگلے چند دنوں میں چچا نے باقاعدہ اعلان کر دیا تھا کہ پھوپی اماں کے سامنے زبان چلانے والی لڑکی کو وہ اپنی بہو نہیں بنائیں گے ۔ فہیم بھی انعم کو دکھ بھری نگاہوں سے دیکھتا گزر جاتا تھا باوجود اس کے کہ وہ انعم سے محبت کرتا تھا بڑوں کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا ۔ انعم کی حالت عجیب ہو کر رہ گئی تھی زرد رنگت لیے وہ ہر وقت گم صم سی کیفیت میں بیٹھی رہتی تھی ۔ میں جب بھی اسے دیکھتی کلیجہ کٹنے لگتا ۔ خوامخواہ ہی میری بلا اپنے سر لے لی ۔ میرا مقدمہ لڑنے گئی تھی اپنا مستقبل بھی داؤ پر لگا آئی ۔
جس رات یہ واقعہ ہوا اس سے اگلے دن حمدان کے گھر والے آئے تھے لیکن انہیں دہلیز پر چڑھنے ہی نہیں دیا گیا ۔ باہر کے باہر ہی رخصت کر دیا گیا اس دن میری زندگی سے حمدان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل گیا ۔ چند ماہ بعد فہیم بھی بظاہر اعلیٰ تعلیم کے لیے لیکن درحقیقت معاملات کو نہ سنبھلتا دیکھ کر اٹلی چلا گیا ۔ انعم کی حالت دیکھ کر میں اپنا دکھ بھی بھولنے لگتی تھی۔ دوسری طرف پھوپی اماں کے سجدے اور چپ بھی بڑھ گئی تھی نہ جانے کیا ہوا تھا کہ اب مجھے دیکھنے کا ان کا انداز بدل گیا تھا ان کی نگاہیں میری ہڈیوں تک کا ایکسرے کرنے لگی تھیں ۔ کتنی کتنی دیر مجھے تکتی رہتیں ۔کبھی کبھی مجھے ان پر بہت غصہ آتا اور کبھی کبھی ترس ۔ دو سال کس تکلیف میں گزرے یہ ہمارے دل ہی جانتے تھے ۔
ان دنوں اچانک پھوپی اماں کی حالت بگڑ گئی دل کا جان لیوا دورہ ان کی زندگی کا چراغ گل کر گیا۔ جاتے سمے انہوں نے ابا سے کہا تھا کہ حمدان کا پتہ کریں اور میرے ہاتھ پیلے کر دیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اس بات پر ہنسوں یا روؤں ۔ رشتے سے انکار کے چھ ماہ بعد ہی حمدان کے گھر والوں نے اس کے سر پر سہرا سجا دیا تھا ۔ بہرحال پھوپی اماں کی انکھیں مجھے تکتے تکتے بند ہو گئیں۔ فہیم کو ان کا آخری دیدار مل گیا تھا جبکہ چھوٹی پھوپی اور عائشہ محروم رہیں۔ انڈیا سے پاکستان آنے میں انہیں دو ماہ لگے ۔ ان کے آنے کے بعد فہیم واپس جانے کو تھا تبھی گھر میں ہلچل شروع ہوئی فہیم کو دیکھ کر انعم کے چہرے پر کچھ زندگی کے آثار دکھائی دینے لگے تھے لیکن اس کے جانے کا سن کر پھر سے مردنی چھانے لگی ۔
ضعیم چچا کے کمرے میں بار بار اجلاس منعقد ہو رہا تھا ہم دونوں بہنوں کو چھوڑ کر جس میں سبھی شامل ہوتے تھے اور پھر اس رات عائشہ اور چھوٹی پھوپی دھاڑ سے دروازہ کھولتی کمرے میں چلی آئیں ۔ ان کے ہاتھ میں گوٹا کناری سے سجا وہ سرخ دوپٹہ تھا جو کبھی پھوپی اماں نے میرے لیے بنوایا تھا اب وہ دوپٹہ انعم کے سر پر ڈال دیا گیا تھا ۔ وہ گھبرائی ہوئی بے یقین نگاہوں سے باری باری سب کو دیکھ رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ابا اور ضعیم چچا قاضی صاحب کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے اور انعم کے جملہ حقوق فہیم کے نام کر کے چلے گئے۔ رخصتی چند دن بعد طے ہوئی تھی لیکن بالآخر فہیم کی بات بھی مان لی گئی اور نکاح کے دو گھنٹے بعد ہی انعم کو فہیم کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا ۔ولیمے کے تین ہفتے بعد چھوٹی پھوپھی اور عائشہ بھی انکھوں میں آنسو لیے لوٹ گئیں ۔ چھ ماہ بعد فہیم بھی انعم کو اٹلی ساتھ لے گی

آج بھی میری ہتھیلی سے دانہ کھا کر کتنے ہی کبوتر اڑ گئے . سرمئی شام کے دھندلکے گہرے سایوں میں بدلنے لگے تو میں چھت سے نیچے اتر آئی ۔ پھوپھی اماں کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا ۔ اب اس کمرے میں میں منتقل ہو گئی ہوں پھوپھی اماں نے نئی روایات کی ریت ڈال دی تھی اب ان کی پاسبانی مجھے ہی تو کرنی ہے ۔ عائشہ اور انعم کے بچوں کو نئے رواجوں سے روشناس کروانا ہے۔

 

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button