بلاگ

یادیں, گرما کی چھٹیوں کی/ اسد اللہ اعجاز

(اس تحریر میں بیان کیے گئے مشاہدات و تجربات پنجاب باسیوں کو اپنی آپ بیتی لگیں گے)

 

پنجاب کا موسم گرما سرکاری سکولوں کے تقریباً تمام طلباء کے لیے ایک سا ہی ہوتا ہے۔ جون سے لے کر وسط اگست تک سکولوں سے مکمل چھٹیاں اور ان چھٹیوں میں ننھیال جانا، دن بھر ٹیوب ویلوں پہ نہانا اور جو تھوڑا بہت وقت بچ رہے اس میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ملنے والا "ہوم ورک” مکمل کرنے کی "بظاہر” سر توڑ کوشش کرنا۔ یہ ایسی کوشش ہوا کرتی تھی جس میں ننانوے فیصد بچے ناکام ہی رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں آج تک کسی نے بھی سرکاری سکولوں میں چھٹیوں کے بعد نہ ہی ہوم ورک اساتذہ کو دکھانے کی جراءت کی اور نہ ہی کسی استاد نے کبھی ہوم ورک چیک کرنے میں حقیقی دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہی تھی کہ "استاد بھی کبھی طالب علم تھے "..

اس مضمون کے ذریعے میں اپنی گرمیوں کی چھٹیوں اور ان میں ملنے والے ہوم ورک کی کچھ بھولی بسری یادیں بانٹنا چاہتا ہوں۔

کچھ دیر قبل نہانے کے لیے جب ٹیوب ویل کے حوض میں اترا تو پانی کی بھاری بھرکم پھواڑ جسم پر پڑنے کے بعد ہوا کا جھونکا جسم سے ٹکرایا تو اچانک نجانے دماغ کیوں سالوں پر محیط ماضی کا سفر لمحوں میں طے کر کے زندگی کے اس حصے میں لے گیا جب مابدولت ایلیمنٹری سکول میں پڑھا کرتے تھے۔

گرمیوں کی چھٹیوں کا آغاز ہمیشہ اس جوش اور ولولے کے ساتھ ہوتا تھا کہ اب کی بار کچھ بھی ہو جائے روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے پہلے ماہ میں ہی چھٹیوں کا سارا کام لکھ کے فارغ ہو جانا ہے۔

اس سلسلے میں چھٹیوں کے پہلے ہی ہفتے میں ہر مضمون کا کام لکھنے کے لیے الگ سے نیا رجسٹر، لکھنے کے لیے نئے قلم اور جیومیٹری سمیت دیگر ضروری لوازمات خرید لیے جاتے۔

ابھی ٹیوب ویل کے حوض میں بیٹھے ہوئے میں اپنے ان نئے رجسٹرز کے اندر سے اٹھنے والی کاغذ کی سوندھی سوندھی مہک محسوس کر سکتا ہوں۔ میرے چاروں طرف کتابیں، کاپیاں، قلم اور جیومیٹری کا سامان بکھرا نظر آ رہا ہے۔

چھٹیوں کا کام پہلے ماہ میں مکمل کرنے کا جوش بھرا عہد بمشکل دس بارہ دن ہی نکال پاتا اور پھر اس کے بعد ہم ہوتے، گرمیوں کے لمبے دن ہوتے ، گاؤں کی گلیاں ہوتیں اور ہمارے ہاتھ میں ہر وقت گیند اور بلا ہوتا۔

وہ چند دن جن میں یہ عہد برقرار ہوتا اس میں ہم چھٹیوں کا کام لکھنے کے لیے باقاعدہ اہتمام کیا کرتے تھے۔

علی الصبح ناشتہ کرنے کے بعد گھر سے اپنی چارپائی ،کتابوں والا بستہ اور ایک عدد تکیہ اٹھاتے اور گاؤں کے قریب ہی اپنی زمین میں موجود درختوں کے ایک جُھنڈ کے نیچے جا کر ڈیرہ لگاتے اور کوشش کرتے کہ دوپہر تک وہیں جم کر کام لکھا جائے ۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہمارے آباد کردہ ڈیرے پر چارپائیوں کی تعداد میں اصافہ اور لکھنے کا کام کرنے کی رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوتی رہتی۔ گھر والے سمجھ رہے ہوتے کہ ہمارے "پڑھاکو” بچے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑھائی لکھائی میں مگن ہیں۔ جب کہ فی الحقیقت ہم میں سے ہر کوئی گپیں ہانکنے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے مقابلے میں شریک ہوتا۔ درختوں کے اس جھنڈ کے نیچے بیٹھ کر ہم اپنی سمجھ اور دانست کے مطابق مقامی سے لے کر بین الاقومی ہر طرح کے حالات اور واقعات زیرِ بحث لاتے اور ہر کوئی ان پر اپنی اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑتا۔

کوئی پھرتیلا اور چاک و چوبند جسم والا جوان ہوتا تو وہ عام طور پر پاک فوج کا گرویدہ ہوتا اور وہ اپنے سنے سنائے علم کے موتی بکھیرتے ہوئے پاک فوج کی عظمت میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا۔

کسی پر اگر گھر سے روک ٹوک ذرا کم ہوتی تو اسے رات کو بڑوں کی بیٹھک میں بیٹھ کر فلم دیکھنے کا موقع ملتا اور وہ پھر دن میں ہمیں اس فلم کی پوری کہانی بارہ مصالحے لگا کر اس انداز میں سناتا کہ ہم سب جو گھر والوں کے ڈر سے فلم دیکھنے سے محروم رہ گئے ہوتے تھے اپنی قسمت کو کوستے ہوئے کفِ افسوس ملتے کہ ہم کیوں اس سعادت سے محروم رہ گئے۔

چھٹیوں کا کام لکھنے کی نیت سے برپا کی گئی اس محفل میں کرکٹ پر تبصروں کو بھلا کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ اس کام میں تو قریب قریب ہر کوئی ماہر ہوا کرتا تھا۔ کوئی پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ رکی پونٹنگ کے بلے میں موجود اسپرنگ کا اس طرح ذکر کرتا جیسے دنیا میں اس سے بڑی کوئی آفاقی سچائی موجود ہی نہ ہو۔

اسی طرح وہیں بیٹھ کر اس روز عصر کے بعد ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں پر شرطیں لگائی جاتیں اور ایک دوسرے کو مختلف طریقوں سے جوش دلایا جاتا ۔

کسی منچلے کے پاس پاکٹ سائز ٹیپ ریکارڈر ہوتا تو وہ اس میں نوے کی دہائی کے سدا بہار فلمی گانے لگا کر محفل کی رونق دوبالا کرتا۔

یوں جب محفل عین عروج پہ ہوتی تو آہستہ آہستہ سب کے گھروں سے دوپہر کے کھانے کا بلاوا آنے لگتا اور یوں ایک ایک کر کے سب اس دن کی "پڑھائی لکھائی” مکمل کر کے گھر کی راہ لیتے۔

دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد گھر والوں کی دھمکیوں اور منتوں کو نظر انداز کر کے پھر سے باہر کی راہ لیتے اور وہی کچھ دیر قبل برخاست ہونے والی محفل اسی ٹیوب ویل کے حوض پہ دوبارہ جمتی جہاں بیٹھ کر آج میں نے ماضی کا یہ تمام سفر طے کر کے ان دنوں کی یادیں آپ سب کے ساتھ سانجھی کی ہیں۔

اسی طرح ایک ایک دن کر کے چھٹیوں کے ڈھائی ماہ بیت جاتے اور پھر آخری ہفتے میں ہم کام مکمل نہ ہونے کے مستند بہانے سوچ کر مطمئن ہو جاتے کہ اساتذہ بھی ان بہانوں کو سن کر ہمیں "بخش” دیں گے ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ اکثر ہم "بخش” دئیے جاتے رہے۔۔۔۔

 

اگر آپ کو اس تحریر میں بیان کی گئی گرمیوں کی چھٹیوں کا حال اپنا "ماضی” لگے تو ضرور بتائیے گا۔۔

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button