کہانی

رنگ بیتی / روبینہ یوسف

 

اس قدر ہنگامہ تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ لڑکے آپس میں گتھم گتھا تھے ۔کسی نے اساتذہ کو خبر کر دی۔
سرزمان، سر نوید اور سر ابراہیم بھاگے بھاگے آئے ۔بمشکل ان لڑکوں کو الگ کیا۔ ایک نیا داخل ہونے والا گونگا بہرا بچہ بہزاد شدید اشتعال میں نظر آ رہا تھا ۔
اس کے ہونٹوں کا کنارہ زخمی ہو چکا تھا۔ ماتھے پر نیل کا نشان تھا ۔اس نے جس لڑکے کو مارا تھا وہ بری طرح سے سسک رہا تھا۔ اس کا چہرہ لہو لہان ہو چکا تھا۔ قمیض پھٹ چکی تھی۔ اب تینوں پرنسپل کے آفس میں سر جھکائے کھڑے تھے۔ پرنسپل جاوید رحمان ایک سلجھے ہوئے، متحمل مزاج انسان تھے مگر وہ اس صورتحال سے خاصے پریشان نظر آرہے تھے ۔
زخمی لڑکا تو کچھ بولنے کے قابل نہیں تھا مگر دوسرا لڑکا اقبال جو کہ ان دونوں کو چھڑانے کی کوشش میں گونگے کی ضربات کا شکار ہو چکا تھا، اس نے بتایا کہ گونگا لڑکا بہزاد اپنے ساتھ ایک چمڑے کا نسبتًا بڑا بیگ ہمہ وقت رکھتا ہے۔
آج ایک لڑکے ظفر نے شرارتًا اس کا بیگ کھولنے کا پروگرام بنایا صرف تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ آخر اس میں ایسا کیا ہے جو گونگا اسے اپنی جان سے لگائے پھرتا ہے۔ گونگا واش روم گیا تو ظفر اس کے بیگ سے زور آزمائی کرنے لگا جس کی زپ میں ایک چھوٹا سا تالا لگا تھا۔ مگر بدقسمتی سے عین موقع پر گونگا وہاں آگیا ۔
بس اس کے بعد وہاں ایک ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔
اصل صورتحال جان کر جاوید رحمان صاحب کے چہرے پر غصے کی سرخ نمودار ہونے لگی۔ انہوں نے سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے ظفر کو ایک ہفتے کے لیے انسٹیٹیوٹ سے خارج کر دیا ساتھ ہی اس کے والد کو بھی اس کی اطلاع کر دی۔ ظفر اب گڑگڑا کر پرنسپل اور گونگے بہزاد سے معافی مانگ رہا تھا۔
معاملہ رفع دفع تو ہو گیا مگر جاوید رحمان کے دل میں بھی تجسس جاگا کہ آخر بیگ میں ایسی کیا چیز ہے جو گونگا اسے ہر وقت اپنی جان سے لگائے رکھتا ہے۔
قیمتی چیزیں تو انسٹیٹیوٹ میں لانا ویسے ہی منع تھا۔ انہوں نے لڑکوں کو رخصت کرنے کے بعد گونگے کے ماموں کا نمبر اپنے فون سے ڈائل کیا جو اسے وہاں انسٹیٹیوٹ میں داخل کروا کے گئے تھے مگر کافی دیر بیل بجنے کے بعد بھی ان کی کال ریسیو نہیں ہوئی ۔
وہ متفکر سے اٹھ کر آفس سے باہر آگئے ۔
ان کا ادارہ صرف مصوری سکھانے کی جگہ نہیں بلکہ ایک روحانی پناہ گاہ بھی تھی جہاں رنگوں کے ذریعے خوابوں کو شکل دی جاتی تھی ۔
پرفضاء مقام پر واقع مصوری کا مرکز "نقاش گر” ہریالی سے گھرا ہوا تھا ۔
عمارت جدید اور قدیم طرز تعمیر کا انوکھا امتزاج تھی۔ بیرونی دیواریں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں جن پر ہلکے گلابی رنگ کے پھولوں کی بیلیں لپٹی ہوئی تھیں۔
اندر داخل ہوں تو وسیع ہال میں لکڑی کے سٹینڈز، کینوس اور رنگوں کی بہار آنے والے کو خوش آمدید کہتی تھی ۔
دیواروں پر طلبہ کے بنائے ہوئے فن پارے آویزاں تھے۔
اس نگری میں داخل ہونے والا کھوسا جاتا تھا کیونکہ مصوری محض رنگوں کا کھیل نہیں بلکہ فکر ، فلسفہ اور جمالیات کا گہرا احساس ہے۔
گونگا بچہ بہزاد جس کی عمر تقریبًا 19 برس تھی قوت سماعت و گویائی سے محروم تھا مگر اس کے ہاتھوں میں برش جب آتا تھا تو رنگوں کا آہنگ بولنے لگتا تھا۔
بہزاد کے رنگوں میں ایک شور تھا جو خاموشی سے بات کرتا ہے اور وہ تھا زندگی کا
شور۔
وہ جلد ہی انسٹیٹیوٹ میں مشہور ہو گیا۔
خود کسی یونانی دیوتا جیسا لگتا تھا کہ سماعت و گویائی سے محرومی نے رنگوں کو اس کے ساتھ ایک جذباتی سفر میں باندھ دیا تھا ۔
سر نوید کو اچھی طرح یاد تھا کہ جب وہ نیا نیا آیا تھا تو کلاس میں سب کو ان کی پسندیدہ ترین پینٹنگ بنانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
تمام بچوں کی پینٹنگز بہت کمال کی تھیں مگر بہزاد نے ونسٹ وین گوہ کا مشہور ترین فن پارہ سٹاری نائٹ بنا کر سر نوید کو سوچ میں ڈال دیا تھا۔ ستاروں بھری رات کا انتخاب ایک کچلی ہوئی روح کا خواب محسوس ہوا۔
جو تاریکی میں امید کے سہارے تلاش کر رہی ہے۔ چمکتا ہوا چاند اور دمکتے ستارے گونگے کی ایسی بصری شاعری بن گئی جو زبان کے سکوت کی بولی بولتی ہے ۔
گھومتا ہوا آسمان ایسا ِِدکھ رہا تھا جیسے جذبات بادلوں کی شکل میں رواں دواں ہوں۔ چند مہینوں کے بعد پھر ایک واقعہ رونما ہوا ۔
سالانہ ٹرپ پر نقاش گر کے مصوروں کو لے جایا گیا۔
اس دن طلبہ کا جوش و خروش دیدنی تھا
خوشی سے تمتماتے چہروں کے ساتھ سب طلبہ ہلا گلا کر رہے تھے۔ کوسٹرز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھیں۔
گونگا حسب معمول اپنے بیگ کو سینے سے لگائے کھڑکی سے باہر نظاروں میں محو تھا
باقی لڑکے گانے گا رہے تھے۔ خوش فعلیاں کر رہے تھے ۔
منزل پر پہنچ کر بہت خوشگوار وقت گزرا ۔فن مصوری کا مقابلہ بھی ہوا جو کہ گونگے نے جیت لیا۔ واپسی پر یہ بظاہر تھکا ہارا مگر تازہ دم کارواں اگلے ٹرپ کے پروگرام بناتا رہا ۔
ابھی آدھے سے کچھ زیادہ سفر گزرا ہوگا کہ گونگے کی لایعنی چیخ و پکار سے سب اس کی طرف متوجہ ہوگۓ۔
وہ زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا۔
ہاتھوں کے اشاروں سے کچھ سمجھا رہا تھا۔ بس کو روک دیا گیا۔
اس نے گیٹ کھول کر بھاگنے کی کوشش کی مگر لڑکوں نے قابو کر لیا ۔آخر عقدہ کھلا کہ اپنا جان سے عزیز بیگ وہ کسی درخت کے سائے میں بھول آیا ہے۔ گونگے کی حالت مرنے جیسی ہو رہی تھی۔
وہ پرنسپل اور اساتذہ کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا تھا کہ کوسٹر کو واپس لے جائیں بہر کیف کوسٹر کو واپس موڑ لیا گیا۔ مطلوبہ میدان میں درخت کے نیچے بیگ جوں کا توں دھرا تھا۔ گونگے نے دوڑ کر اسے اٹھا لیا سینے سے لگایا، چوما۔
کافی تاخیر سے کوسٹر اپنے مقام پہ واپس پہنچی۔
اب معاملہ حد سے گزر گیا تھا جاوید رحمان صاحب نے سٹاف سے مشورے کے بعد یہ ٹھان لی کہ گونگے کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ یہ بیگ گھر چھوڑ کر آیا کرے۔ اس کے ماموں جو اسے داخل کرا کے گئے تھے بار بار رابطہ کرنے پر بھی فون نہیں اٹھا رہے تھے۔
بہرحال اگلے دن گونگے کو کلاس میں سب کے سامنے بیک کھولنے کا کہا گیا تو وہ دم بخود رہ گیا۔
کلاس میں اس وقت تمام اساتذہ،طلبہ اور پرنسپل صاحب موجود تھے۔ گونگے نے بیگ کھولنے سے صاف انکار کر دیا ۔
اسے اشاروں سے بتایا گیا کہ اگر اس نے ان کا کہا نہ مانا تو اسے انسٹیٹیوٹ سے رخصت کر دیا جائے گا ۔
گونگے کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ ہونٹ کانپنے لگے۔ چہرہ کینوس بن گیا۔ سرخی کی جگہ پیلاہٹ آگئی۔
اس کے اشارے وہاں چند ایک کے سوا شاید کوئی نہ سمجھ سکتا مگر رنگوں کی بولی سب سمجھتے تھے سو اس نے اپنی زندگی کی کہانی سنانی شروع کی سب سے پہلے اس نے ایک خوبصورت عورت کے نقوش کو زبان دی۔ سارا پس منظر سرخ اور گلابی رنگوں میں نہا رہا تھا ۔کلاس میں بلا کی خاموشی تھی۔ سب کی نظریں گونگے کے کینوس پر داستان رقم کرتے ہوئے ہاتھوں پر تھیں۔
عورت کے آس پاس سے دل فریب رنگوں والے پھول نکل کر شرارت سے مسکرا رہے تھے۔ عورت کی بانہوں میں ایک ننھا سا جاندار سبز پتوں والا پودا تھا۔
ان دونوں کے قریب ایک گھنا درخت اپنی شاخوں کو مثل بانہوں کے دونوں کے گرد لپیٹے ہوئے تھا۔
ایسا لگ رہا ہے کہ یہ درخت بہزاد کے بابا رنگوں اور خوشبو میں ڈوبی عورت اس کی ماما اور ماں کی بانہوں میں ننھا پودا یہ خود ہے
سناٹے کو توڑتی ہوئی سر ابراہیم کی آواز گونجی تو گونگے نے پلٹ کر چمکتی آنکھوں سے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا دکھا کر ان کو داد دی۔
چلو ایک سرا تو ہاتھ آ گیا۔ کمرے کا ماحول یک دم پرجوش اور دلچسپ ہو گیا۔ سب گونگے کی زندگی کے اگلے ورق کے منتظر تھے۔
اگلی تصویر جو رنگوں نے بیان کی وہ بہت جاندار تھی۔ درخت مزید گھنا اور مضبوط ہو گیا ۔عورت کے وجود سے پاکیزگی اور تقدس کو گونگے نے نیلے اور سفید بیک گراؤنڈ سے بیان کیا اور خود وہ اب ایک کونپل کی جگہ پھلتے پھولتے پودے کا روپ دھار چکا تھا۔
یہاں تک پہنچ کر اس نے برش کو سائیڈ پر رکھ دیا اور اپنے آنسو پونچھنے لگا۔
ایک لڑکے نے پرنسپل کے اشارے پر اسے پانی کا گلاس پیش کیا جسے وہ غٹا غٹ پی گیا
رنگوں اور کینوس کی زبانی کسی کی عمر کہانی پڑھنے کا یہ بہت انوکھا تجربہ تھا ۔
سب لوگوں کی تمام تر حسیات سمٹ کر ان کی آنکھوں میں آگئ تھیں گویا آنکھیں کان بن گۓ تھے۔
گونگے نے ورق پلٹا ۔
اب گھنا درخت ٹنڈ منڈ شاخوں کی شکل اختیار کر گیا۔
عورت کے نقوش بھی پھیکے سے ہو گئے
کینوس کا سارا ماحول زرد پیراہن میں ڈھل گیا۔ پھولدار شاخوں نے سر نیہوڑا لیا ۔
جاوید رحمان نے معنی خیز نظروں سے سر نوید اور سر ابراہیم کو دیکھ کر کہا کہ لگتا ہے اس بچے کے والدین کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا تھا ۔
لمحے خاموشی کے سمندر میں اترتے رہے۔ اگلی گھڑی میں کینوس پر سیاہ رنگ پھیلا ہوا تھا۔
زمین پر دو ِمٹی ہوئی قبروں کے نشان تھے اور دونوں پر تناور پودا گرا ہوا تھا۔
اس کے ہر پتے سے آنسو نکل رہے تھے۔ اف ان کا انتقال ہو گیا؟ تاسف میں ڈوبی یہ سر نوید کی آواز تھی۔ گونگا ویران آنکھوں سے قبروں کو گھورنے لگا

جاوید رحمان نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اپنے آنسو پونچھنے لگا
کمرے میں موجود ہر ذی نفس گونگے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات میں پور پور ڈوب چکا تھا ۔
دو تین اوراق مایوسی اور کم ہمتی کو بیان کر رہے تھے۔ پھر ایک ورق آیا جہاں پر امید اسمان سے برستی سفید روشنی کی صورت مسکرا رہی تھی۔اوہ۔۔۔ لگتا ہے کہ اس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ بیچارا اور کیا کرتا؟ کلاس میں بھنبھناہٹ سرگوشوں کی شکل میں شروع ہو گئی۔ سب کو اگلے ورق کا شدت سے انتظار تھا۔ اب کینوس پر پرسکون ماحول تھا مگر پیلاہٹ کی ملگجی روشنی پھر بھی نظر آرہی تھی
گونگے نے تمام صفحات کو احتیاط سے ایک دوسرے کے ساتھ رکھ دیا۔ سوچ میں پڑ گیا جیسے اپنی زندگی کے سب سے دردناک لمحہ کینوس کے سپرد کرنے جا رہا ہو۔
سب کی بے چین نظریں اس پر جمی تھیں۔ آخر کار اس نے برش اٹھایا ۔پرسکون اور قدر ٹھنڈے ماحول پر اچانک ایک بڑا سا تھوہر کا پودا نمودار ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب پر اپنی زہر ناک شاہیں پھیلا دیں۔ جوں جوں گونگا تھوہر کے پودے کو پورے کینوس پر پھیلا رہا تھا، اس کے انداز میں جنونی پن آ رہا تھا۔ یہ مرحلہ بھی ختم ہو گیا۔ گویا اس کی پرسکون زندگی میں کسی زہر نے ہلچل مچا دی۔
لگتا ہے اس کا ماموں جو اسے یہاں داخل کروا کے گیا تھا یہ تھوہر کا پودا وہی ہے۔ اگلی تصویر کے بنانے سے پہلے گونگا سسکنے لگا ۔سر نوید نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔ اپنے رومال سے اس کے آنسو پونچھے۔ ذرا سا حوصلہ پا کر گونگا پھر سرگرم ہو گیا۔
اب کینوس پر آگ کے شعلے تھے اور اس میں رنگ جل رہے تھے اور تھوہر کے پودے کے چہرے پر ایک مکروہ سی مسکراہٹ تھی
رنگوں کی کہانی، وقت کی چاپ، ہر تصویر ایک یاد، ہر لکیر ایک کہانی
گونگے کا کینوس اپنی داستان سنا کر خاموش ہو گیا۔
اچانک وہ پلٹا ۔
تیزی سے اپنا بیگ اٹھا کر اس کی زپ کھولی اور اسے فرش پر الٹ دیا۔
سب کے سامنے زمین پر کالی سیاہ راکھ پڑی تھی۔

اپنی رائے دیں
Back to top button