منتخب کالم

دنانیر کا قتل… سوال صرف ایک لاش کا نہیں!/ بابر خاقان غلزئی


  اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت، اقتدار کا گڑھ، قانون کا مرکز، اور جدید تعلیم کا مینار، آج وہ شہر ہے جہاں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ایک میڈیکل کی طالبہ، دنانیر، کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ صرف ایک طالبہ کی جان لینے کا واقعہ نہیں، یہ ہم سب کے لیے آئینہ ہے۔ یہ ہمارا چہرہ دکھاتا ہے، بگڑا ہوا، زنگ آلود، اور ضمیر سے خالی چہرہ۔
دنانیر کے ماں باپ نے اسے خوابوں کے ساتھ روانہ کیا ہوگا، ایک سفید کوٹ، ایک ڈاکٹر، ایک قوم کی خدمت گزار بیٹی۔ لیکن دارالحکومت نے اسے لاش کی صورت میں واپس بھیجا۔ کیا یہی ہے ہمارے شہروں کا استقبال؟ کیا یہی ہے تعلیم یافتہ معاشرے کی شناخت؟
یہ صرف جرم نہیں، یہ ہماری اخلاقی تباہی کا سرٹیفکیٹ ہے۔ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو انسان کو اس کی شخصیت، عہدے، پیسوں، فالوورز یا شہرت سے پہچانتی ہے، نہ کہ اس کے انسان ہونے سے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشرہ اپنی قبر خود کھودنا شروع کر دیتا ہے۔
سماجی زوال کی شکل میں نیا کربلا جو شاید ہماری اپنی غفلت اور اخلاقی انحطاط سے وجود میں آرہا ہے. ہماری نوجوان نسل دو انتہاؤں میں تقسیم ہو چکی ہے، یا وہ شدید احساسِ کمتری کا شکار ہیں یا پھر خود کو دنیا سے برتر سمجھ بیٹھے ہیں۔ نتیجہ: اندر ہی اندر سلگتا ذہن، باہر نکلتی ہوئی نفرت، اور پھر ایسے المناک واقعات۔
سوشل میڈیا جہاں اظہار کی آزادی کی علامت تھا، آج وہ شہرت، تصنع، اور ذہنی انتشار کا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ تعلیم، تربیت، ضبط نفس، اور سوچ کا توازن، سب کچھ اس ‘‘وائرل کلچر’’ کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف دنانیر کی مظلومیت پر آنسو بہا کر ہم بری الذمہ ہو گئے؟
کیا ہم صرف مذمتی بیانات، سوشل میڈیا ہیش ٹیگ اور ایک دن کی موم بتی مہم کے ذریعے اپنی قومی ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں؟ نہیں! اب وقت ہے کہ ہم سنجیدہ، قومی سطح کی پالیسی سازی کریں، وہ بھی صرف فائلوں میں نہیں، زمینی حقیقت پر۔ میری دانست میں یہ چار نکات اگر نافذ نہ کیے گئے، تو ہم ہر روز ایک نئی دنانیر کھو دیں گے:
1. نصاب میں اخلاقیات، کردار سازی، اور باہمی احترام کا باقاعدہ مضمون شامل کیا جائے۔
2. ہر تعلیمی ادارے میں کلینیکل سائیکالوجسٹ اور سائیکو تھراپسٹ کی موجودگی یقینی بنائی جائے تاکہ نوجوانوں کی جذباتی الجھنیں سنبھالی جا سکیں۔
3. ڈیجیٹل لٹریسی اور سوشل میڈیا کے استعمال پر اخلاقی تربیت کا آغاز کیا جائے تاکہ نوجوان validation  virtualکی دوڑ سے نکل سکیں۔
4. فوری انصاف، قانونی تربیت، اور مظلوم کی ریاستی سطح پر حفاظت کا نظام فعال بنایا جائے۔
جب تک ہم اپنی درسگاہوں سے لے کر پارلیمان تک، ایک آواز ہو کر نہ کہیں کہ گلگت بلتستان، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، سب برابر ہیں، تب تک ہم دنانیر جیسے خواب دیکھنے والے اپنے مستقبل کے معماروں  کو تحفظ نہیں دے سکتے۔
قومیں ٹینکوں یا میزائلوں یا صرف جنگوں سے نہیں، اخلاقی زوال سے برباد ہوتی ہیں۔ دنانیر واپس نہیں آ سکتی، لیکن اگر ہم نے آنکھیں نہ کھولیں، تو اگلا جنازہ شاید ہمارے اپنے دروازے سے اْٹھے۔




Source link

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button