ترجمہ افسانہ

شہید : کینیا کے مشہور ادیب گوگی وا تھیونگو کا افسانہ

اردو ترجمہ : خالد فرہاد دھاریوال (سیالکوٹ)

مسٹر اور مِسز گیرسٹون کو  چند نامعلوم غنڈوں کے ہاتھوں گھر میں گھس کر قتل کر دیے جانے کے واقعہ نے ہر طرف سنسنی پھیلا دی تھی۔ اخبارات نے اسے صفحہ اول  پر شائع کیا اور ریڈیو کےخبرنامے میں بھی اس کا بہ طورِخاص ذکر تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ پورے ملک میں تشدد کی جو لہر چل پڑی تھی، اس کی لپیٹ میں آنے والے یہ پہلے یوروپی باشندے تھے۔ اس تشدد کےمحرکات سیاسی بتائے جا رہے تھے۔ آپ چاہے جہاں بھی جائیں، بازار  ہو، ہندوستانیوں کا علاقہ یا  دُور افتادہ افریقیوں کی دکان، ہر جگہ کسی نہ کسی طرح اسی  قتل کا ذکر ہو رہا تھا۔ جتنے منہ اتنی باتیں، لوگ طرح طرح سے پورے واقع کو بیان کر رہے تھے۔

لیکن اس معاملے کا  مِسز ہِل کے یہاں جتنی گہرائی سے جائزہ لیا جا  رہا تھا، ویسی بات چیت شاید ہی کہیں ہوئی  ہو۔ مِسز ہِل کا مکان ایک سنسان پہاڑی پر تھا۔ اُن کا خاوند کینیا کا پرانا  آبادکار تھا اور گزشتہ سال وہ یوگنڈا کی سیاحت کے دوران ملیریا میں مبتلا ہو کر مر گیا تھا۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی اور دونوں  ’وطن‘ یعنی انگلستان میں زیرِتعلیم تھے۔ مِسز ہِل یہاں کی پرانی آبادکار تھیں۔ ان کے پاس بے شمار زمین تھی اور ملک بھر میں ان کے چائے کےکئی باغات تھے۔ ان کی کافی عزت تھی، یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔

شاید اس کی وجہ یہاں کے ’مقامی‘ باشندوں یعنی سیاہ فام لوگوں کے ساتھ مِسز ہِل کا ’فراخ دِلی‘ والا رویہ تھا۔ قتل والے واقع کے دو دِن بعد جب مِسز اسمائلز اور مِسز ہارڈی اس پر گفتگو کرنے کے لیے مِسز ہِل کے گھر پہنچیں تو اُن کے چہروں پر دُکھ کے ساتھ فاتحانہ جھلک  بھی دکھائی دے رہی تھی۔ دُکھ اِس لیے کہ اُن کے ہم نسل یورپی افراد قتل ہوئے تھے اور فتح اِس لیے کہ وہ مسلسل کہتی آئی تھیں کہ اِن سیاہ فام مقامی لوگوں پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے، جو اِس واقعے سے ثابت ہو گیا تھا۔ اب دیکھیں مِسز ہِل کیسے کہتی ہیں کہ اگر مقامی افراد  سے خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے تو انہیں مہذب بنایا جا سکتا ہے۔

مِسز اسمائلز دُبلی پتلی ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔ اُن کی تیکھی ناک اور بھنچے ہوئے ہونٹوں کو دیکھ کر کسی کٹر مبلغ کی یاد آتی تھی۔ ویسے دیکھا جائے تو وہ اپنے خیالات میں کٹر تھیں بھی۔ اپنے بارے میں انہیں یقین تھا کہ ان جیسے چند لوگوں نے ہی اِس جنگلی لوگوں کےدیس میں تہذیب کےنخلستان اُگا رکھے ہیں۔  اپنی چال ڈھال، بات چیت اور  عمومی رویے سے وہ یہاں کے مقامی باشندوں کو اس کا احساس دلاتی رہتی تھیں۔

مِسز ہارڈی بوئر نسل کی تھیں اور کافی عرصہ پہلےجنوبی افریقہ سے آ کر یہاں بس گئی تھیں۔ کسی بھی چیز کے بارے میں بے شک ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی تھی۔ وہ ہر اُس رائے سےاتفاق کرتی تھیں، جو ان کے خاوند اور اُن کی نسل کےنظریے سے میل کھاتی ہو۔ آج ہی کی مثال لیں تو مِسز اسمائلز کی ہر بات سے وہ اتفاق کر رہی تھیں۔ مِسز ہِل پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اپنی رائے پر اڑی ہوئی تھیں کہ سیاہ فام لوگ بڑے اطاعت شعار ہوتے ہیں اور ضرورت ہے تو بس یہ کہ اِن سے حُسنِ سلوک کیا جائے۔

’’بس انہیں اور کچھ نہیں چاہیئے۔ ان کے ساتھ پیار سے رہو تو وہ بھی پیار سے رہیں گے۔ میرے ’لڑکوں‘ ہی کو دیکھو، وہ مجھے کتنا پیار کرتے ہیں۔ میں اُن سے کچھ بھی کہہ دوں، وہ انکار نہیں کرتے!‘‘ یہی اُن کا فلسفہ تھا اور اِسے ماننے والے لبرل اور ترقی پسند قسم کے کچھ اور گورے بھی تھے۔ مِسز ہِل نے اپنے ’لڑکوں‘ کے لیے بعض لِبرل قسم کے کام بھی کیے تھے۔ انہوں نے نہ صرف ان کے لیے پختہ اینٹوں کے (غور کیجئے اینٹوں کے) کوارٹر بنوائے تھے، بلکہ اُن کے بچوں کے لیے ایک اسکول بھی کھول رکھا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اسکول میں اساتذہ ہی نہیں تھے یا بچے آدھا دِن اسکول میں سیکھتے اور آدھا دِن چائے کے باغوں میں بیگار کرکے بتا دیتے تھے؛ لیکن دیگر آبادکار  گوروں نے تو اتنا  کرنے کابھی حوصلہ نہیں دکھایا۔

’’جو بھی ہوا یہ بہت بھیانک ہے، بیحد بھیانک۔‘‘ مِسز اسمائلز نے اپنا فیصلہ صادر کیا۔ مِسز ہارڈی نے ’ہاں‘ میں ’ہاں‘ ملائی۔ تاہم  مِسز ہِل غیر جانبدار رہیں۔

’’آخر وہ ایسا  کیوں کرتے ہیں؟ ہم نے انہیں مہذب بنایا۔ انہیں غلامی سےنجات دلائی، ان کےقبیلوں میں آئے دِن ہونے والی مار دھاڑ ختم کرائی۔ ہماری آمد سےقبل  اِن کی زندگی جہنم تھی۔‘‘ مِسز اسمائلز نے پُرجوش انداز میں سخن آرائی کی۔ پھر وہ افسوس میں سر ہلاتے ہوئے بولیں، ’’لیکن میں نے مسلسل کہا ہے کہ یہ کبھی مہذب نہیں ہو سکتے، کبھی بھی نہیں۔‘‘

’’ہمیں رواداری سے کام لینا چاہیئے۔‘‘ مِسز ہِل نے مِسز اسمائلز کےبرعکس بہت دھیمے لہجے میں تجویز دی۔

’’رواداری! برداشت! اور کب تک ہم رواداری کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟ گیرسٹون جوڑے سے زیادہ برداشت والا کون ہوگا؟ ان سے بڑا مشفق کون تھا؟ اور ذرا سوچو، انہوں نے اپنے آس پاس کتنے لوگوں کو آباد کر رکھا تھا ۔  ضرور انہیں  لوگوں نے….۔‘‘

’’نہیں، انہوں نے ایسا نہیں کیا ہوگا۔‘‘ مِسز ہِل نے کہا۔

’’پھر کس نے کیا؟ کس نے کیا؟‘‘

’’ان سب کو پھانسی دے دینی چاہیئے۔‘‘ مِسز ہارڈی نے فتویٰ دیا۔

’’اور ذرا سوچو تو، ان بیچاروں کو گھر کے نوکر نے آواز دےکر نیند سے جگایا۔‘‘

’’سچ؟‘‘

’’بالکل۔ گھر کےنوکر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ وہ جلدی دروازہ کھولیں۔  وہ بولا کہ کچھ لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’شاید  ہوں….۔‘‘

’’نہیں۔ یہ ایک سازش تھی۔ بہت بڑی چال تھی۔ جیسے ہی دروازہ کھلا بدمعاشوں کا گروہ اندر گھس آیا اور ان پر ٹوٹ پڑا۔ سب تو  اخباروں میں چھپا ہے۔ ‘‘

مِسز ہِل  خطاکار سی خلا میں دیکھتی رہیں۔ انہوں نے اخبار بھی ٹھیک سے نہیں پڑھا تھا۔

چائے کا وقت ہو گیا تھا۔ مِسز ہِل اُٹھیں اور دروازے تک جاکر بڑے ملائم لہجے میں انہوں نے آواز دی، ’’نجوروگ! نجوروگ!‘‘

نجوروگ ان کا گھریلو خادم تھا۔ وہ لمبے قد کا چوڑے شانوں والا جوان تھا۔ پچھلے دس سال سے بھی زیادہ عرصے سے وہ ہِل خاندان کے یہاں نوکری کر رہا تھا۔ وہ اکثر ہرے رنگ کی پتلون پہنتا اور کمر میں سرخ رنگ کی پٹی باندھے رکھتا اور سر پر تُرکی ٹوپی پہنے رہتا تھا۔  وہ دروازے پر نمودار ہوا اورسوالیہ انداز میں  اپنے ابرو اچکائےجوکہ’’جی میم صاحب؟‘‘ کہنے کے مترادف تھا۔

’’چائے۔‘‘ میم صاحب نے حکم دیا۔

’’جی میم صاحب۔‘‘ وہاں اکٹھی ہوئیں دیگر میم صاحبان پر سرسری نگاہ ڈالتاوہ چائے لانے چلا گیا۔ نجوروگ کے آنے سے گفتگو  کا سلسلہ رُک گیا تھا، لیکن اب پھر شروع ہو گیا۔

’’دیکھنے میں یہ کتنے بھولے بھالے لگتے ہیں۔‘‘ مِسز ہارڈی نے کہا۔

’’جی ہاں۔ ایک معصوم پھول کی طرح، جن کے اندر سانپ چھپا ہوتا ہے۔‘‘ مِسز اسمائلز نے شیکسپیئر کا جملہ دہراتے ہوئے اپنی ادب شناسی  ظاہر کی۔

’’گذشتہ دس سال سےبھی زیادہ عرصے سےیہ ہمارے ساتھ ہے۔ بہت ہی وفادار ہے۔ مجھے بہت پسند کرتا ہے۔‘‘ مِسز ہِل نے نجوروگ کی طرفداری کی۔

’’جو بھی ہو، میں اسے نہیں پسند کرتی۔ مجھے اس کی شکل سے ہی نفرت ہے۔‘‘

’’میں بھی پسند نہیں کرتی۔‘‘

چائے آ گئی تھی۔ چائے کی چسکیوں کےساتھ اس قتل کے واقعے، سرکاری حکمت عملی اور سیاسی عوامل جو اس خوبصورت ملک کو جہنم بنانے پر تُلے ہوئےتھے، موضوع گفتگو بنے رہے۔ مِسز ہِل اپنے اصولوں پر اڑی رہیں اور انہوں نے بتایا کہ یہ مقتدر لوگ جو برطانیہ میں کچھ دِن رہ کر خود کو بہت پڑھا لکھا سمجھنے لگے ہیں، دراصل عوامی خواہشات کو ہرگز نہیں سمجھتے۔ اپنے مشفقانہ رویے سے آپ ان لوگوں کے دِل جیت سکتے ہیں۔

اِس کےباوجود ، مِسز اسمائلز اور مِسز ہارڈی کےجانے کے بعد مِسز ہِل کافی دیر تک ساری بات چیت اور اس قتل پر غور و خوض کرتی رہیں۔ انہیں بےچینی محسوس ہونے لگی اور پہلی بار انہوں نے خیال کیا کہ وہ آبادی سے کتنی دُور رہ رہی ہیں ،اتنی دُور کہ اگر   حملہ ہو تو کوئی مدد بھی نہ پہنچ سکے۔  تاہم یہ سوچ کر دِل کو تسلی ہوئی کہ اُن کے پاس پستول ہے۔

رات کےکھانے کے بعد نجوروگ کی ڈیوٹی ختم ہو گئی۔ اب وہ اپنے کوارٹر میں جاکر آرام کرےگا۔ روشنی سے جگمگاتے مکان سےباہر نکل کر اندھیرے کی چادر چیرتے ہوئے وہ اپنے کوارٹر کی طرف بڑھا۔ اس کا کوارٹر پہاڑی سےتھوڑا نیچے ڈھلان پر تھا۔ اس نے منہ سےسیٹی بجاکر رات کی خاموشی اور اکیلےپن سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ اسے کامیابی نہیں ملی۔ اچانک اسے پرندے کی تیز چیخ سنائی دی۔ رات کے وقت ایک اُلو کی عجیب چیخ ۔

وہ رُک گیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ نیچے گھور اندھیرا تھا۔ پیچھے میم صاحب کا  شاندار بنگلہ روشنی میں ڈوبا دکھائی دے رہا تھا۔ ایک عجیب قسم کے غصے سے دہکتی اس کی آنکھیں بنگلے پر ٹکی رہ گئیں۔ اچانک اسے لگا جیسے وہ بوڑھا ہو رہا ہے۔

’’تم، تم….۔ اتنے عرصے سے تمہارے ساتھ ہوں، اور تم نے میری یہ حالت کر دی!‘‘ نجوروگ کا جی چاہا کہ وہ خوب زور سے اس بنگلے سے یہ سب اور نہ جانے کیا کیا پوچھے جو برسوں سے اس نے اپنے دِل میں جمع کر رکھا ہے۔ لیکن اس بنگلے سے کوئی جواب تو ملےگا نہیں۔ اس نے اپنی بیوقوفی محسوس کی اور آگے بڑھ گیا۔

اُلو کی چیخ پھر سنائی دی۔ دوسری بار۔

’’میم صاحب کے لیے انتباہ۔‘‘ نجوروگ نے سوچا۔ ایک بار پھر اُس کی رُوح غصے سےتلملا اُٹھی، سبھی گوری چمڑی والوں کےخلاف، سبھی غیر ملکیوں کے خلاف، جنہوں نے خدا سے ملی جاگیرسے اس جیسےحقیقی زمین زادوں کو بےدخل کر دیا ہے۔ آخر خدا نے گیکویو سےوعدہ نہیں کیا تھا کہ یہ ساری زمین ہمیشہ کے لیے تمہاری ہے۔  تمہاری آئندہ نسلیں بھی اس کی وارث ہوں گی۔ پھر  کیوں ہماری ساری زمین چھین لی گئی؟

اس نے اپنے باپ کو یاد کیا، اکثر غصے اور تلخ لمحوں میں وہ باپ کو یاد کرتا ہے۔ اس کے والد کی موت جدوجہد کے دوران ہوئی تھی، یہ  مسمار عبادت گاہوں کی تعمیرِ نو کی لڑائی تھی۔ یہ تھا 1923 کا مشہور نیروبی قتلِ عام، جب  اپنے حقوق کے لیے پُرامن مظاہرہ کر رہے سیاہ فام لوگوں پر پولیس نےگولی چلائی تھی۔  مرنے والوں میں اس کا باپ بھی شامل تھا۔ تب سے نجوروگ کو اپنی روزی روٹی کے لیےکتنا خوار ہونا پڑا ہے۔ کبھی یہاں تو کبھی وہاں نوکری کی تلاش میں گوروں کے ڈیروں کی خاک چھانی ہے۔ یوں طرح طرح کے لوگوں سے اس کا سابقہ پڑا، کوئی بہت رُوکھا تھا تو کوئی بیحد بھلا، لیکن سبھی رعب جھاڑنے والے تھے اور اپنی مرضی سے جتنی مناسب سمجھتے، تنخواہ دیتے تھے۔ پھر ایک دِن وہ  ہِلز خاندان کےیہاں نوکری کرنے لگا۔ یہاں آنا بھی ایک عجیب اتفاق تھا۔ ہِلز خاندان کے پاس جو زمین تھی، اس کا بہت بڑا حصہ وہی تھا، جسے دکھاکر اس کا باپ بتایا کرتا تھا کہ یہ زمین ان کے کنبے کی ہے۔ والد کی وفات سے پہلے قحط پڑا تھا اور انہیں چند  دوسرے لوگوں کے ساتھ کچھ عرصے کے لیے مورانگا جاکر رہنا پڑا تھا۔ جب وہ لوٹے، اُن کی ساری زمین پر  قبضہ ہو چکا تھا۔

’’اس انجیر کے درخت کو دیکھ رہے ہو ! وہ ساری زمین تمہاری ہے۔ حوصلہ رکھو، گوروں کےجانے کے بعد ہم پھر اپنی زمین حاصل کر لیں گے۔‘‘اس کا والد اکثر تسلی دیتا۔

اُن دِنوں وہ چھوٹا تھا۔ باپ کی موت کے بعد یہ باتیں اسے بھول  گئی تھیں۔ آج اس درخت کے پاس کھڑے ہونے پر اچانک سب کچھ یاد آ گیا۔ وہ سب جان گیا۔  ان کی حد کہاں تک تھی ، اسے معلوم تھا۔

نجوروگ نے مِسز ہِل کو کبھی پسند نہیں کیا۔ دراصل مِسز ہِل کو یہ تکبر تھا کہ اُس نے مزدوروں کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور نجوروگ کو اسی لیےچِڑھ تھی۔ اس نے مِسز اسمائلز اور مِسز ہارڈی جیسی سنگدِل عورتوں کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اُن کےساتھ اسے ہمیشہ اپنی حیثیت کا احساس رہتا۔ مِسز ہِل کی فیاضی تو سچ مچ دم گھونٹنے والی تھی۔ نجوروگ کو سبھی آبادکار گوروں سےنفرت تھی۔ وہ سب سے زیادہ ان کی ریاکاری اور خودپسندی سے بیزار تھا۔ مِسز ہِل بھی اوروں کی  طرح  ہی تھیں، لیکن اپنی ممتا کےسبب وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتی تھیں۔ دراصل وہ اوروں سے بدتر تھیں، کیونکہ ان کےپاس ہونے پر آپ جان ہی نہیں پاتے تھے کہ تمہارا  اصل مقام کیا ہے۔

اچانک نجوروگ چیخ پڑا، ’مجھے تم سب سے نفرت ہے! نفرت ہے!‘ پھر اسے ایک کٹھور تسلی ہوئی۔ بہرحال آج  رات مِسز ہِل کو مرنا ہی ہوگا، اسے اپنی خودپسندانہ فراخ دِلی، ممتا اور اپنے ہم نسل آبادکاروں  کے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا ہی ہوگا۔  کم از کم اس ملک سے ایک گورا تو کم ہوگا۔

وہ اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ پڑوسیوں کے کمرے بند ہو چکے تھے۔ بعض کے کمرے کی تو بتی بھی بجھ چکی تھی۔ یا تو سب سو گئے تھے یا شراب نوشی کے لیےڈھابے پر چلے گئے تھے۔ اس نے لالٹین جلائی اور بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کا کمرا بہت چھوٹا تھا۔ اتنا چھوٹا  کہ اگر کوئی بستر پر بیٹھ کر بازو پھیلائے تو  ہر کونے کو چھو لے۔ تو بھی اسے اپنی دو بیویوں  اور کئی بچوں کے ساتھ اِس کوٹھری میں، جی ہاں اسی کوٹھری میں رہنا پڑتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی حال میں اس نے پانچ سال سے بھی زیادہ عرصہ گزار دیا ہے، لگ بھگ رینگتے ہوئے! لیکن مِسز ہِل سمجھتی ہیں کہ اینٹ گارے کی ان کوٹھریوں کو بنواکر انہوں نے بہت بڑا احسان کیا ہے۔

مِسز ہِل پوچھتی رہتی ہیں ،’مزوری سانا، اے؟‘ (مزے میں ہو نہ؟) ۔ دراصل یہ ان کا تکیہ کلام ہے۔ جب بھی ان کے یہاں کوئی مہمان آتا ہے، وہ اسےپہاڑی کےکونے تک لے جاتی ہیں اور اشارے سے ان کوٹھریوں کو دکھاتی ہیں۔

ایک بار پھر نجوروگ کے چہرے پر بے رحم مسکان پھیل گئی۔ اس نے سوچا کہ اب اس بیچاری کو اپنی منافقانہ فیاضی اور جھوٹے احسانوں کی قیمت چکانا ہی پڑےگی۔ اسے خود بھی پورا حساب کرنا تھا۔ باپ کی موت کا  اور  پشتینی زمین کےچھین لیے جانے کا حساب۔ اچھا ہی ہوا جو اس نے پچھلے دِنوں بیوی بچوں کو واپس بھیج دیا تھا۔ ان کی یہاں موجودگی سےاس کے لیے مشکل کھڑی ہو سکتی تھی۔ کام پورا ہونے کے بعد اگر اُسے فرار ہونا پڑا تو اب کوئی فکر نہیں ہو گی۔

اب کسی بھی وقت سارے ’جھئی‘ (حریت پسند لڑکے) آ سکتے ہیں۔ وہ انہیں مِسز ہِل کے گھر تک پہنچا آئےگا۔ یہ اعتماد کو ٹھیس ہے تو   ٹھیس ہی سہی۔ لیکن  یہ اب کتنا ضروری ہو گیا ہے۔

اُلو کی چیخ کانوں میں پڑی، جو اب پچھلی بار سے بھی تیز تھی۔ یہ تو بد شگونی ہے۔ موت کی پیشنگوئی، مِسز ہِل کی موت کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مِسز ہِل کا چہرہ گھوم گیا۔ دس سال سے بھی زیادہ عرصہ وہ میم صاحب اور بوانا کے ساتھ گزار چکا ہے۔ میم صاحب اپنے خاوند  کو بہت چاہتی تھیں۔  اِس میں کوئی شک نہیں۔ جب انہیں یوگنڈا میں شوہر کے مرنے کا پتہ چلا  تو وہ غم کے مارے خود مرتی مرتی بچی تھیں۔ دُکھ کی اُس گھڑی میں میم صاحب کی’تحکم پسندی‘   ایک دم غائب ہو گئی تھی اور نجوروگ نے ہی انہیں ڈھارس بندھائی تھی۔ پھر میم صاحب کے بچے!   اس نے انہیں دوسرے بچوں کی طرح بڑا ہوتے دیکھا ہے۔تقریباً اپنے بچوں کے جیسا ہی۔ وہ اپنے والدین سے بہت محبت کرتے تھے اور مِسز ہِل بھی ان سے کتنی شفقت اور نرمی سے پیش آتی تھیں۔ اس نے اُن کے بارے میں سوچا کہ اب وہ انگلستان میں  ماں باپ  کے بغیر، بیچارےیتیم!

اور تب اسے  لگا کہ اس سے یہ کام نہیں ہوگا۔ ایسا کیوں محسوس ہوا؟ معلوم نہیں۔ مگر اچانک مِسز ہِل ایک عورت، ایک بیوی،  نجیری یا ویمبوی جیسی ہی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ماں کے رُوپ میں اُس کے ذہن پر چھا گئیں۔ نہیں! وہ کسی عورت کو قتل نہیں کر سکتا۔ وہ کسی ماں کو نہیں مار سکتا۔ اپنے اندر آئی اِس تبدیلی سےوہ بے چین ہو اُٹھا۔ وہ باربار کوشش کرنے لگا کہ وہ مِسز ہِل کو ایک آبادکار کے طور پر  دیکھے، محض ایک قبضہ گیر گوری عورت کےرُوپ میں۔ اگر ایسا ہو سکتا تو اُس کا کام آسان ہو جاتا۔ بِلا جھجک وہ کر گزرتا۔ کیونکہ وہ گورے لوگوں سے سچ مچ نفرت کرتا تھا۔ لاکھ چاہنے پر بھی وہ دس سالوں کے تعلق کو بھلا نہیں پا رہا تھا۔ حالانکہ یہ سال اس کے لیے دردناک اور ہتک آمیز رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ مِسز ہِل اگر بچ گئیں تو بھی سیاہ فاموں کے بارے میں اُن کی ریاکارانہ ہمدردی جاری رہے گی۔ وہ مِسز ہِل کو محض ایک غیرملکی کے طور پر  کیوں نہیں دیکھ پا رہا ؟ وہ دُعا کرنے لگا ، خدایا!دُنیا سے ظلم ختم کر دے۔ اگر ناانصافی اور ظلم ختم ہو جائے تو کالے گورے کا جھگڑا ہی نہ رہے اور اس کے سامنے کبھی ایسی دردناک صورتحال پیدا ہی نہ ہو۔

اب وہ کیا کرے؟ اس نے اُن چھاپہ مار ’لڑکوں‘ کو خبر کر دی تھی ۔ وہ اب آتے ہی ہوں گے۔ اُسےکچھ سمجھ  نہیں آ رہا تھا۔ جہاں تک سفید فام آبادکاروں کی بات ہے، اُس کے دِل میں کوئی مخمصہ نہیں تھا، مگر دو بچوں کی ماں کا وہ کیسے خاتمہ کرے؟

بے چین دِل سے وہ  اپنی کوٹھری سے نکل آیا۔

باہر گہرا اندھیرا تھا۔ آسمان میں تارے ایک ٹک اُسے دیکھ رہے تھے، یوں لگتا تھا گویا انہیں بھی نجوروگ کے فیصلے کا انتظار ہو۔ وہ تاروں سے آنکھیں نہیں ملا سکا اور آہستہ آہستہ مِسز ہِل کے بنگلے کی طرف چل پڑا۔ میم صاحب کو بچانا ہی ہوگا، اُس نے طے کر لیا تھا۔ شاید اس کے بعد وہ جنگل کی طرف نکل جائے۔ جہاں وہ آزاد ضمیر کے ساتھ ہمیشہ لڑتا رہے۔ یہی بہتر محسوس ہوتا تھا۔ یوں دوسرے ’لڑکوں‘ کو دغا دینے کا کفارہ بھی ادا ہو جائے گا۔

وقت برباد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ وہ ’لڑکے‘ آتے ہی ہوں گے۔ اب وہ دوڑ رہا تھا۔ ایک عورت کی جان بچانے کے لیے دوڑ رہا تھا۔ سڑک پر اُسے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور وہ جھاڑی میں چُھپ گیا۔ اُس نے دیکھا، وہی لڑکے آ رہےتھے۔ انہیں دھوکا دیتے ہوئے اُسے عجیب لگا۔ اُن کے گزر جانے کے بعد وہ بھاگ نکلا۔ دوڑنا ضروری  تھا کیونکہ  اگر ’لڑکوں‘ کو غداری کا پتہ چل گیا تو وہ اُسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن کوئی بات نہیں، ایک عورت کو بچانے کےلیے اُس کی جان بھی چلی جائے تو کوئی پرواہ نہیں ۔ بس وہ یہ دوسرا کام سرانجام دینا چاہتا تھا۔

آخرکار پسینے میں شرابور اور ہانپتا کانپتا  وہ مِسز ہِل کے بنگلے تک پہنچ گیا اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے چلایا، ’’میم صاحب! میم صاحب!‘‘

مِسز ہِل ابھی سوئی نہیں تھیں۔ ان کے ذہن میں خیالات کا تلاطم برپا تھا۔  دوپہر کی بات چیت کے بعد سے ہی انہیں عجیب سی دہشت محسوس ہو رہی تھی۔ نجوروگ کے جانے کے بعد ایک دم سناٹا  چھا گیا تھا اور انہوں نے الماری سے پستول نکال کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اپنی طرف سےتیار رہنے میں کیا حرج ہے۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ آج خاوند زندہ ہوتا تو یہ اکیلاپن محسوس نہیں ہوتا۔

وہ اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرکے سسکیاں بھرنے لگیں۔ خود انہوں نے، ان کے شوہر اور دوسروں نے مل کر  اس ملک کے بیابانوں کو  قابلِ کاشت بنایا تھا۔ نجوروگ جیسے لوگ اب قبائلی جنگوں کی فکر کیے بغیر مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں تو  یورپیوں کا شکرگزار ہونا چاہئیے تھا۔

ہاں وہ ان سیاستدانوں کو پسند نہیں کرتی تھیں جو فرمانبردار اور محنتی مردوں کو بگاڑ دیتے تھے۔ خاص طور پر جب وہ ان سیاہ فام لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔  گیرسٹون جوڑے کے قتل کا انہیں بھی دُکھ تھا۔ انہیں تنہا ہونے کا احساس دہشت ذدہ کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ شاید قلیل مدت کے لیے وہ  اپنے دوستوں کے ہاں نیروبی یا کینانگوپ چلی جائیں۔   لیکن ان کے نوکروں کا کیا بنے گا؟ کیا وہ انہیں فارغ کر دیں؟ وہ سوچ میں پڑ گئیں۔ انہیں نجوروگ کا معصوم چہرہ یاد آ رہا تھا۔ کیا اس کے بیوی بچے بھی ہیں؟ کتنی بیویاں ہیں؟ کنبہ کتنا بڑا ہے؟ انہیں حیرانی ہوئی کہ اب سے پہلے انہوں نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب ان کے ذہن میں نجوروگ کی تصویر ایک کنبے والے آدمی کے طور پر اُبھری تھی، ورنہ  تو وہ اُسے ایک نوکر کے علاوہ کچھ سمجھ ہی نہیں پاتی تھیں۔اب بھی انہیں گھر کے ملازم کو کسی کے باپ کے طور پر دیکھنا عجیب لگ رہا تھا۔  انہیں اپنی اِس غفلت پر دِل ہی دِل میں دُکھ ہوا۔ اس کوتاہی کا مستقبل میں ازالہ کرنا ضروری تھا۔

وہ  انہیں خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھیں کہ انہیں دروازے پر دستک اور  پکار  سنائی دی،’’میم صاحب! میم صاحب!‘‘

ارے یہ تو نجوروگ کی آواز ہے، ان کے نوکر کی۔ ان کے پسینے چھوٹ گئے۔ اچانک گیرسٹون جوڑے کی موت کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جانے سےوہ لڑکے کی آواز سننے سے قاصر تھیں۔  اب ان کا بھی اختتام ہونے والا ہے۔ زندگی کے سفر کا آخری پڑاؤ۔ آخر نجوروگ قاتلوں کو یہاں تک لے ہی آیا۔ وہ خوف سے کانپنے لگیں۔

اچانک ان میں طاقت عود کر آئی۔ ۔ بیشک وہ اکیلی ہیں اور ابھی وہ دروازہ توڑ کر اندر گھس آئیں گے۔ لیکن نہیں، وہ بزدلوں کی طرح نہیں مریں گی۔ انہوں نے پستول کو کس کر پکڑ لیا، دروازہ کھولا اور گولی چلا دی۔  انہوں نے زندگی میں پہلی بار ایک مرد کو مار ڈالا تھا، انہیں متلی ہونے لگی۔ وہ نقاہت محسوس کرنے لگیں اور ’’آؤ، مجھے مار ڈالو!‘‘ کہتے ہوئے بیہوش ہوکر گر پڑیں۔ وہ جان نہیں پائیں کہ انہوں نے اس شخص کو مار ڈالا ہے، جو ان کی جان بچانے آیا تھا۔

اگلے دِن اخباروں میں پورا واقعہ چھپا کہ ایک تنہا عورت نے پچاس بدمعاشوں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور کمال تو یہ ہے کہ ایک کو مار بھی ڈالا۔

مِسز اسمائلز اور مِسز ہارڈی نے خاص طور پر مبارک باد دی۔

’’ہم تو کہتی تھیں کہ وہ سب ایک جیسے بُرےہیں۔‘‘

’’سبھی بدمعاش ہیں۔‘‘ مِسز ہارڈی نے اتفاق کیا۔ مِسز ہِل خاموش رہیں۔نجوروگ کی موت کے حالات نے انہیں پریشان کر دیا تھا۔  انہیں سمجھ  نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیسے ہوا۔ جتنا وہ اس بارے میں سوچتیں، الجھن بڑھتی جاتی۔ وہ خلا میں گھورتی رہیں۔ پھر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔

’’مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا۔‘‘ آخر کار مِسز ہِل نے کہا۔

’’کیا واقعی؟‘‘ مِسز ہارڈی نے استفسار کیا۔

’’ہاں، یہ ہے ہی ناقابلِ فہم ۔‘‘ مِسز  اسمائلز نے فاتحانہ لہجے میں کہا، ’’ان سبھی کو کوڑے لگنے چاہئیں۔‘‘

’’بالکل لگنے چاہئیں۔‘‘ مِسز ہارڈی نے بھی  اتفاق کیا۔

 

(انگریزی سے ترجمہ: خالد فرہاد)

 

“The Martyr”

By

Ngugi wa Thiong’o

(From: Secret Lives and Other Stories)

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button