شخصیت پرستی، ایک فکری زوال/ توقیر احمد۔۔

شخصیت پرستی ہمارے معاشرے میں ایک ایسی فکری بیماری بن چکی ہے جو نہ صرف سچائی کو دھندلا دیتی ہے بلکہ عقل و شعور کو بھی زنگ آلود کر دیتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر ناقص اور غلطی کا پتلا ہے، اس میں کمال صرف رب ذوالجلال کا ہے۔ کسی ایک فرد کی کسی ایک میدان میں مہارت، اسے ہر شعبے کا ماہر نہیں بناتی۔ اگر ہم کسی ایک شخص کو کامل، ہر بات میں حق پر اور ناقابل تنقید سمجھ بیٹھیں تو یہ رویہ نہ صرف ہماری سوچ کی بندش ہے بلکہ سچ اور جھوٹ کی پہچان کے درمیان ایک دیوار بھی بن جاتا ہے۔
آج کل معاشرے میں یہ رجحان عام ہو چکا ہے کہ لوگ کسی ایک شخصیت سے متاثر ہو کر اس کی ہر بات کو حرف آخر سمجھ لیتے ہیں۔ چاہے وہ بات درست ہو یا غلط، عقل و دلیل سے خالی ہو یا حقیقت سے دور، وہ آنکھیں بند کر کے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ پھر یہی لوگ اس شخصیت کی ہر لغزش کا دفاع بھی کرنے لگتے ہیں، محض اس لیے کہ وہ ان کے پسندیدہ ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف حق کو دبانے کا باعث بنتا ہے بلکہ معاشرتی فتنوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ فہم و فراست رکھنے والے افراد کا فرض ہے کہ وہ اندھی تقلید سے اجتناب کریں، دلیل اور تحقیق کی راہ اپنائیں اور ہر بات کو صرف اس کے درست یا غلط ہونے کے معیار پر پرکھیں۔
شخصیت پرستی کے یہ بت ہمیں ہر طبقے اور ہر شعبے میں دکھائی دیتے ہیں، چاہے وہ کوئی مذہبی پیشوا ہوں، سیاسی رہنما، مشہور دانشور یا کوئی فنکار۔ ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہر انسان، چاہے وہ کتنی ہی بلند حیثیت رکھتا ہو، خطا سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ سچائی کا معیار افراد نہیں بلکہ اصول اور دلیل ہونے چاہئیں۔ کسی شخصیت کو پسند کرنا بری بات نہیں، لیکن اسے حق و باطل کا پیمانہ بنا لینا دانشمندی نہیں، بلکہ فکری غلامی کی علامت ہے۔
اس کائنات میں اگر کوئی شخصیت ہے جس کی ہر بات، ہر عمل، اور ہر فیصلہ لائق تقلید ہے، تو وہ صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ وہی ہستی ہے جو سراپا حق، سراپا عدل اور کامل انسانیت کی مجسم تصویر ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی کے جال سے نکل کر سچائی کی طرف لوٹیں، سوال کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، اور فہم و بصیرت کے چراغ روشن کریں، کیونکہ یہی ایک باشعور معاشرے کی بنیاد ہے۔