تراجمترجمہ افسانہ

گُوگی وا تھیانگو کا افسانہ "واپسی”

اردو ترجمہ : رومانیہ نور

راستہ طویل تھا۔ جب بھی وہ ایک قدم آگے بڑھاتا، دھول کے ننھے بادل اٹھتے، غصے سے اس کے پیچھے منڈلاتے، اور پھر آہستہ آہستہ بیٹھ جاتے۔ لیکن فضا میں دھوئیں کی مانند حرکت پذیر٬ گرد کی ایک پتلی سی لکیر باقی رہتی ۔ مگر وہ چلتا رہا، مٹی اور زمین کی سختی کی پروا کیے بغیر۔ پھر بھی ہر قدم کے ساتھ اسے راستے کی سختی اور اس کی بے رحمی کا زیادہ احساس ہونے لگا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ نیچے دیکھ رہا تھا؛ بلکہ اس کے برعکس، اس کی نظریں سامنے جمی ہوئی تھیں، جیسے کوئی مانوس منظر اسے آواز دے گا، کہے گا کہ وہ اب گھر کے قریب ہے۔ مگر راستہ بڑھتا گیا۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا، اس کا بایاں ہاتھ ایک طرف آزادانہ جھول رہا تھا، اور اس کا کوٹ جو کبھی سفید رہا ہو گا٬ اب بوسیدہ اور اس کے جسم پر ڈھلکا ہوا تھا۔ دایاں ہاتھ کہنی سے مڑا ہوا تھا، جس میں ایک ڈوری تھی جو اس کی کمر پر رکھی ایک چھوٹی سے گٹھری سے بندھی تھی۔ گٹھری جس کپڑے میں بندھی تھی اس پر کبھی سرخ پھول چھپے ہوئے تھے، اب وہ بھی ماند پڑ چکے تھے۔ یہی گٹھری ان سالوں کی تلخی اور اذیتوں کی گواہ تھی، جو اس نے قید و بند میں گزارے تھے۔ کبھی کبھار وہ سورج کی طرف دیکھتا، جو اب افق کی سمت جھک رہا تھا۔ وہ کبھی ادھوری نگاہوں سے کھیتوں کے چھوٹے چھوٹے قطعات  کو دیکھتا، جو کانٹوں کی باڑھ سے گِھرے ہوئے تھے اور جن میں مکئی، پھلیاں اور مٹر جیسی کمزور فصلیں اگی ہوئی تھیں، سب کچھ اسے اجنبی اور سرد محسوس ہوا۔ سارا منظر بے رونق اور تھکا تھکا سا تھا۔ کماؤ کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔ اسے یاد تھا کہ *ماؤ ماؤ بغاوت کے زمانے سے پہلے بھی کِکُویُو( کینیا کا ایک بڑا قبیلہ) کی زمینیں تھکی ہاری اور ضرورت سے زیادہ کاشت شدہ معلوم ہوتی تھیں، جب کہ سفید فام آبادکاروں کے کھیت سرسبز و شاداب ہوتے۔

راستے میں ایک پگڈنڈی بائیں طرف مڑتی تھی۔ وہ ایک لمحے کو رکا، پھر فیصلہ کر لیا۔ پہلی بار اس کی آنکھوں میں کچھ چمک سی پیدا ہوئی، کیونکہ یہ وہی راستہ تھا جو وادی میں نیچے لے جاتا اور پھر گاؤں کی طرف۔ اب آخرکار گھر قریب تھا، اور اس خیال کے ساتھ ہی ایک تھکے ہوئے مسافر کا سا تاثر اس کے چہرے سے کچھ دیر کو رخصت ہوا۔وادی اور اس کے اطراف کی جھاڑیاں، اردگرد کے علاقے سے بالکل مختلف تھیں۔ یہاں ہریالی باقی تھی۔ اس کا مطلب صاف تھا: ہونیا ندی اب بھی بہہ رہی تھی۔ اس نے اپنے قدم تیز کیے، جیسے جب تک وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے، یقین نہ آئے کہ ندی واقعی موجود ہے۔ وہ وہاں تھی؛ اب بھی بہہ رہی تھی۔ ہونیا—جہاں وہ اکثر نہایا کرتا، برہنہ جسم لیے، ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگاتا—اب بھی اسی طرح چٹانوں کے گرد بل کھاتی تھی، مدھم سرسراہٹ کے ساتھ بہتی ایک دردناک سی خوشی نے اسے چھو لیا۔ ایک لمحے کے لیے وہ انھی دنوں کی طرف لوٹ جانا چاہتا تھا۔اس نے آہ بھری۔ شاید یہ ندی اس کے بدلے ہوئے چہرے میں اسی لڑکے کو نہ پہچان سکے جس کے لیے یہ کنارا ہی سب کچھ تھا۔ پھر بھی جب وہ ہونیا کے قریب پہنچا، تو اسے ایک تعلق سا محسوس ہوا—ایسا تعلق، جو اس کی رہائی کے بعد کسی شے سے محسوس نہیں ہوا تھا۔

چند عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ وہ خوش ہوا، کیونکہ وہ ایک دو کو پہچانتا تھا، وہ اسی کی پگڈنڈی سے تھیں۔ان میں ایک درمیانی عمر کی وانجیکو بھی تھی، جس کا بہرا بیٹا سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا،  اس واقعہ سے عین پہلے جب وہ خود گرفتار ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ گاؤں کی لاڈلی رہی تھی—ہر ایک کے لیے ایک مسکراہٹ، اور سب کے لیے کھانے کا کوئی نہ کوئی بندوبست رکھتی تھی۔ کیا وہ لوگ اُسے قبول کریں گے؟ کیا اُس کا ’’ہیرو‘‘ جیسا خیرمقدم کریں گے؟ اُس کا خیال تھا کہ کریں گے۔ کیا وہ ہمیشہ سے ہی پہاڑی کے کنارے سب کا پسندیدہ نہیں رہا تھا؟اور کیا اس نے زمین کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی؟ اُس کا جی چاہا کہ دوڑ پڑے اور پکارے: ’’لوٹ آیا ہوں میں! میں تمہارے پاس واپس آ گیا ہوں!‘‘ لیکن اُس نے ضبط کیا۔ وہ ایک مرد تھا۔

’’سب خیریت ہے؟‘‘چند مدھم سی آوازیں ابھریں۔باقی عورتیں، جن کے چہرے تھکن اور وقت کی عطا کردہ جھریوں سے بھرے تھے، خاموشی سے اُسے تکتی رہیں، گویا اُس کی آواز بے معنی ہو، یا جیسے اُس کی موجودگی ہی بلا ضرورت ہو۔ کیوں؟ کیا وہ واقعی اتنے برس کیمپ میں رہا تھا؟ اُس کا حوصلہ بیٹھنے لگا۔ اُس نے دھیمی آواز میں پوچھا: ’’کیا تم مجھے نہیں پہچانتیں؟ ‘‘ پھر وہی خالی خالی نظریں۔ ٹھنڈی، سخت نگاہیں،جیسے وہ سب کچھ جان بوجھ کر اُسے نہ پہچاننے کا عہد کر چکی ہوں

آخرکار ونجیکو نے اُسے پہچانا۔ مگر اُس کی آواز میں نہ تو کوئی گرمی تھی، نہ جوش۔’’اوہ، تم ہو، کَماؤ؟ ہم نے تو سمجھا کہ تم…‘‘ وہ جملہ ادھورا رہ گیا۔ اب جا کے اُس نے کچھ اور محسوس کیا—حیرت؟ خوف؟ وہ ٹھیک سے سمجھ نہ سکا۔

مگر وہ ان عورتوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کی طرف لپکتے ہوئے  اشارے دیکھ سکتا تھا، اور اسے یقین ہوگیا کہ کوئی راز ہے، کوئی ایسی بات جس سے اُسے باہر رکھا گیا ہے، اور جو ان سب کو آپس میں باندھتی ہے۔

’’شاید اب میں اُن میں سے نہیں رہا!‘‘ اُس نے تلخی سے سوچا۔ پھر انھوں نے اُسے نئے گاؤں کے بارے میں بتایا۔ پرانا گاؤں، جو جھونپڑیوں کی صورت پہاڑی پر پھیلا ہوا تھا، اب اس کا وجود باقی نہ رہا تھا۔

وہ دل شکستہ اور خود کو فریب خوردہ محسوس کرتے ہوئےان کے پاس سے اُٹھ آیا۔ پرانے گاؤں نے تو اُس کا انتظار بھی نہ کیا تھا! اور یکایک اُسے اپنے پرانے گھر،دوستوں اور مناظر کی شدید یاد ستانے لگی۔اُس نے اپنے باپ، ماں، اور…اور..۔

نہیں، اُس کا دل مٹھونی کے بارے میں سوچنے کی ہمت نہ کر پایا۔ مگر تب بھی، مٹھونی، اسی طرح جیسی وہ پرانے دنوں میں تھی، اُس کے دل میں لوٹ آئی۔اُس کا دل دھڑکنے لگا ایک خواہش اور گرمجوشی اُس کی رگوں میں دوڑ گئی۔اُس نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ وہ گاؤں کی عورتوں کو بھول گیا، کیونکہ اب اُسے صرف اپنی بیوی یاد آ رہی تھی۔ وہ محض دو ہفتے اُس کے ساتھ رہا تھا؛ پھرنوآبادیاتی افواج اُسے اچانک گرفتارکر کے لے گئی تھیں۔باقیوں کی طرح، اُس کی بھی جلدی جلدی چھان بین کی گئی اور بغیر مقدمے کے قید میں ڈال دیا گیا۔ان سب برسوں میں اُس نے صرف ایک ہی چیز کے بارے میں سوچا: اپنا گاؤں، اور اپنی خوبصورت عورت۔

دوسرے قیدی بھی اُسی جیسے تھے۔ وہ دن بھر صرف اپنے گھروں   کی باتیں کرتے۔ ایک دن، جب وہ      مرنگا کے ایک قیدی، نجوروگے      کےساتھ پتھر توڑ رہا تھا،اچانک نجوروگے نے کام روک دیا۔اُس نے ایک گہری سانس لی۔اُس کی تھکی ہوئی آنکھوں میں ایک کھویا یوا تاثر اور بے چینی تھی۔

’’کیا ہوا، یار؟ خیریت ہے؟‘‘ کَماؤ نے پوچھا۔’’میری بیوی۔ میں اُسے بچے کی امید کے عالم میں چھوڑ آیا تھا۔

مجھے کچھ نہیں معلوم کہ اُس پر کیا گزری۔‘‘

ایک اور قیدی بول اٹھا:’’میں تو اپنی عورت کو ایک بچے کے ساتھ چھوڑ آیا تھا۔ وہ بس پیدا ہی ہوا تھا۔ہم سب خوش تھے۔ لیکن اُسی دن مجھے گرفتار کر لیا گیا…‘‘

اور یوں باتیں چلتی رہتیں۔ سب کے سب صرف ایک دن کا خواب دیکھتے تھے—’’واپسی کا دن۔‘‘وہ دن جب زندگی ازسرِنو شروع ہوگی۔

کَماؤ نے تو مٹھونی کو بغیر بچے کے چھوڑا تھا۔ یہاں تک کہ اُس نے مکمل ہدیۂ دلہن بھی ادا نہیں کیا تھا۔ مگر اب وہ جائے گا، نیروبی میں کام ڈھونڈے گا، مٹھونی کے والدین کو باقی ہدیۂ دلہن ادا کرے گا۔ زندگی واقعی نئے سرے سے شروع ہو گی۔ان کا ایک بیٹا ہوگا، اور وہ اُسے اپنے گھر میں پالیں گے۔اِن امیدوں کے تصور میں اُس نے اپنی چال اور تیز کر دی۔اُس کا جی چاہا کہ دوڑے—نہیں، اُڑے، تاکہ اپنی واپسی کو تیز کر سکے۔وہ اب پہاڑی کی چوٹی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ کاش وہ اچانک اپنے بھائیوں اور بہنوں سے جا ملے۔ کیا وہ اُس سے سوال کریں گے؟ ویسے بھی وہ سب کچھ نہیں بتائے گا: نہ مار پیٹ کا ذکر، نہ چھان بین کی رسوائیاں، نہ سڑکوں اور پتھروں کی کانوں میں کام کرنے کی اذیت، جہاں ہر وقت ایک سپاہی اُس پر نظر رکھتا، جیسے ہی وہ سانس لیتا، ٹھوکر مارنے کو تیار۔ ہاں، اُس نے بہت کچھ سہا تھا—ذلتیں، اذیتیں—اور اُس نے مزاحمت نہیں کی۔ اس سب کا فائیدہ ہی کیا تھا؟ مگر اُس کی روح اور اُس کی جوانی کی تمام حرارت بغاوت کرتی رہی، کڑھتی رہی، لہو روتی رہی۔

ایک دن یہ "وزُنگو” (سفید فام)  چلے جائیں گے!

ایک دن اُس کی قوم آزاد ہوگی!

پھر—پھر… وہ نہیں جانتا تھا کیا کرے گا۔ لیکن وہ دل ہی دل میں تلخی سے پختہ یقین کر چکا تھا:

اب کوئی اُس کی مردانگی کا مذاق نہیں اُڑائے گا۔

وہ پہاڑی پر چڑھا اور رک گیا۔

نیچے سارا میدان  پھیلا ہوا تھا  سامنے نیا گاؤں تھا—ایک کے بعد ایک، قطار در قطار، مٹی کی جھونپڑیاں، جو ڈوبتے سورج کے نیچے، زمین سے چمٹ کر بیٹھی تھیں۔ کئی جھونپڑیوں سے نیلا دھواں اُٹھ رہا تھا، جو اُوپر جا کر ایک گہری دھند میں تبدیل ہو رہا تھا، اور اُس گاؤں پر چھا گیا تھا۔

اُس سے بھی پرے، گہرا سرخی مائل سورج ڈوب رہا تھا، اور اُس کی کرنیں انگلیوں کی مانند پھیلتی جا رہی تھیں، جو آخرکار دور دراز کے پہاڑوں پر چھائی ہوئی سُرمئی دھند میں کھو جاتی تھیں۔

وہ گاؤں کی گلیوں سے گزرا، نئے چہرے ملے۔اُس نے پوچھ گچھ کی۔

اُسے اپنا گھر مل گیا۔ وہ صحن کے دروازے پر رُکا اور ایک گہری سانس لی۔ یہی وہ لمحہ تھا—واپسی کا لمحہ۔ اُس کا باپ، تین ٹانگوں والی چوکی پر بیٹھا، سمٹا ہوا نظر آیا۔

اب وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا، اور کَماؤ کے دل میں اُس کے لیے ہمدردی جاگ اُٹھی۔ مگر اسے زندگی ملی تھی— جی ہاں، زندگی، تاکہ وہ اپنے بیٹے کی واپسی دیکھ سکے۔

"بابا!”

بوڑھے نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بس اُسے خالی خالی آنکھوں سے تکے جا رہا تھا،اجنبیت سے بھرپور نظروں سے۔ کَماؤ بےتاب ہو گیا۔ایک جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی۔کیا وہ اُسے نہیں پہچانتا؟ کیا وہ بھی اُسی طرح کا سلوک کرے گا جیسے دریا پر ملی ہوئی عورتوں نے کیا تھا؟

باہر گلی میں ایک دوسرے پر مٹی اچھالتے ہوئے ٬ کچھ ننگے، کچھ آدھ ننگے بچے کھیل رہے تھے،  سورج ڈوب چکا تھا، اور چاندنی رات کے آثار نظر آ رہے تھے۔

"بابا، کیا تم مجھے نہیں پہچانتے؟” اُمید اُس کے دل سے رخصت ہونے لگی تھی۔ وہ تھک گیا تھا۔پھر اُس نے دیکھا اُس کے باپ کے جسم میں ارتعاش دوڑ گیا، وہ ایک پتّے کی مانند لرزنے لگا۔ اُس نے باپ کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی دیکھی اور ہاں، کچھ خوف بھی۔ پھر اُس کی ماں آئی، اور بھائی بھی۔سب اُسے گھیرے میں لینے لگے۔ بوڑھی ماں اُس سے لپٹ گئی اور زور زور سے رونے لگی:

"مجھے یقین تھا میرا بیٹا آئے گا،

مجھے معلوم تھا وہ مر نہیں سکتا!”

"مگر ماں، تمہیں کس نے کہا کہ میں مر چکا ہوں؟”

"وہ کرنجا—نجوگو کا بیٹا۔”

اور پھر کَماؤ کو سب کچھ سمجھ میں آ گیا۔ اُسے باپ کی لرزتی حالت کا مطلب سمجھ آیا، دریا پر ملی عورتوں کے سرد رویے کی وجہ معلوم ہوئی۔ لیکن ایک بات اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی: کرنجا تو اُس کے ساتھ کبھی کسی قیدخانے میں تھا ہی نہیں! خیر، اب وہ لوٹ آیا تھا۔ اب وہ صرف مٹھونی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ کیوں نہ آئی؟

اُس کا دل چاہا کہ پکارے:”مٹھونی، میں آ گیا ہوں! میں تمھارے پاس ہوں!”اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ماں اُس کی نگاہ کو سمجھ گئی۔ اُس نے جلدی سے شوہر پر ایک نظر ڈالی اور بس اتنا کہا:

"مٹھونی چلی گئی ہے۔”

کَماؤ کو یوں لگا جیسے پیٹ میں برف سی جمنے لگی ہو۔اُس نے گاؤں کی جھونپڑیوں کو دیکھا،زمین کی ویرانی کو دیکھا۔اُس کے دل میں ہزار سوال اُٹھے، مگر وہ پوچھنےکی ہمت نہ کر سکا۔ وہ اب تک یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ مٹھونی جا چکی ہے۔ لیکن دریا پر ملی عورتوں کی نگاہوں سے، اور اپنے والدین کے چہروں سے، اُسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ واقعی جا چکی ہے۔

"وہ ہمارے لیے ایک اچھی بیٹی تھی،”اُس کی ماں وضاحت دے رہی تھی، "اس نے تمہارا انتظار کیا،

اور صبر سے ملک کی سب مصیبتوں کو جھیلا۔پھر کرنجا آیا،

اور کہنے لگا کہ تم مر چکے ہو۔تمہارے والد نے اُس کی بات کا یقین کر لیا۔ وہ بھی یقین کر بیٹھی، اور ایک مہینہ سوگ منایا۔کرنجا تو بار بار ہمارے ہاں آنے لگا تھا۔ آخر وہ تمہارے ریکا (عمر و مرتبے کے برابر) کا تھا نا۔ پھر اُس کے ہاں ایک بچہ ہوا۔ ہم چاہتے تو اُسے روک لیتے۔لیکن زمین کہاں ہے؟

کھانا کہاں ہے؟ جب سے زمین کی انضمام کاری ہوئی ہے، ہماری آخری آس بھی چھن گئی۔ ہم نے کرنجا کو اُس کے ساتھ جانے دیا۔ دیگر عورتوں نے تو اس سے بھی بدتر کیا ہے— شہر چلی گئی ہیں۔ یہاں تو صرف بوڑھے اور لاغر بچے ہیں۔”

لیکن وہ سن ہی کہاں رہا تھا۔ پیٹ میں جمی سردی اب رفتہ رفتہ تلخی میں بدلنے لگی تھی۔ اب اُسے سب سے، اپنے ماں باپ سے بھی،

کڑواہٹ محسوس ہونے لگی۔ وہ سمجھنے لگا جیسے سب نے اُس سے غداری کی ہو۔ جیسے وہ سب کرنجا کے ساتھ مل گئے ہوں۔ اور کرنجا تو ہمیشہ سے اُس کا حریف رہا تھا۔ پانچ برس، ہاں، یہ کوئی تھوڑا وقت نہیں ہوتا— مگر پھر بھی، وہ کیوں گئی؟ اُسے کیوں جانے دیا گیا؟ اُس کا جی چاہا کہ بولے، ہاں، بولے،اور ہر شے پر لعنت بھیجے—دریا کی عورتوں پر، گاؤں پر، اور ان لوگوں پر جو اب اس میں بستے تھے۔ مگر بول نہ پایا۔

یہ تلخی اُس کے گلے میں اٹک گئی تھی۔

"تم—تم نے میری اپنی کو دوسروں کے حوالے کر دیا؟”اُس نے سرگوشی کی۔

"بیٹا… سنو، میرے بچے…”

 

افق پر زرد چاند چھا چکا تھا۔

وہ اندھا، زخمی، اور پُرکینہ قدموں سے وہاں سے چل دیا۔ چلتا رہا، یہاں تک کہ ہوٖنیا دریا کے کنارے آن پہنچا۔

وہ کنارے پر کھڑا تھا— مگر دریا کو نہیں دیکھ رہا تھا، بلکہ اپنے خوابوں کو زمین پر بکھرتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔ دریا تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا، ایک ہی جیسا، نہ رکنے والا شور مچاتا ہوا۔

جنگل میں جھینگر اور دوسرے کیڑے مسلسل شور کیے جا رہے تھے۔

اوپر، چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اُس نے اپنا کوٹ اُتارنا چاہا، مگر اُس کے ہاتھ سے وہ چھوٹا سا گٹھری نما سامان— جسے وہ سالوں سے سینے سے لگائے پھرتا آیا تھا— پھسل کر کنارے سے نیچے جا گرا، اور اِس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، وہ دریا کی روانی میں بہنے لگا۔ چند لمحے وہ سکتے میں رہا۔ اُس کا دل چاہا کہ اُسے نکال لائے۔ "میں کیا دکھاؤں گا…”

اُس کا ذہن کہنے ہی والا تھا— مگر فوراً چونک گیا: "کیا میں اتنی جلدی بھول گیا؟ میری بیوی تو چلی گئی ہے۔” اور وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جن میں اُسے مٹھونی کی یادیں بسی محسوس ہوتی تھیں، جن کی وہ ان برسوں میں حفاظت کرتا رہا تھا وہ سب بھی اب چلی گئیں۔ اُسے معلوم نہ تھا کیوں، لیکن اچانک ایک عجیب سا سکون اُس کے دل میں اُتر آیا۔ خود کو دریا میں غرق کرنے کے خیالات بھی چھٹ گئے۔ وہ اپنا کوٹ پہننے لگا، اور آہستہ سے، خود سے مخاطب ہو کر بولا: "اُسے میرا انتظار کیوں کرنا چاہیے تھا؟ یہ سب بدلاؤ میرے لوٹنے کا کیوں انتظار کرتے؟”

 

 

حواشی:

 

  • ماؤ ماؤ بغاوت (Mau Mau Rebellion) ایک مسلح تحریک تھی جو 1950 کی دہائی میں کینیا میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف شروع ہوئی۔ اس کا آغاز بنیادی طور پر کیکوئیو (Kikuyu) قبیلے کے افراد نے کیا، جو زمینوں کی واپسی اور آزادی کے خواہاں تھے۔

مصنف کا تعارف:

Ngugi wa Thiong'o, Great Kenyan Writer, Dies at 87 : Open Country Mag

گُوگی وا تھیانگو (Ngũgĩ wa Thiong’o) کینیا کے معروف ناول نگار، ڈراما نگار، نقاد اور مضمون نگار تھے جنہیں افریقی ادب میں ایک نمایاں اور بااثر مقام حاصل تھا۔ وہ 5 جنوری 1938 کو کینیا کے علاقے لِمورو میں پیدا ہوئے گُوگی وا تھیانگو کا اصل نام جیمز نگُوگی تھا، جو انہوں نے بعد میں ترک کر دیا تاکہ نوآبادیاتی شناخت سے نجات حاصل کر کے اپنی افریقی ثقافت اور زبان سے جڑت قائم کی جا سکے۔ ان کی تحریروں کا محور نوآبادیاتی تسلط، آزادی کے بعد کی سیاسی و سماجی کشمکش، ثقافتی خودمختاری، اور زبان کی سیاست رہا۔ آپ 28 مئی 2025ء کو امریکہ میں وفات پا گئے۔

ترجمہ نگار:

رومانیہ نور کا تعلق ملتان سے ہے۔ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اردو تراجم کرنے سے خاص رغبت ہے۔ اب تک ایک بڑی تعداد میں عالمی ادب سے شاعری اور نثر کے اردو تراجم کرچکی ہیں۔ آپ کے تراجم سہ ماہی "ادبیات” اور دیگر جرائد میں شایع ہوچکے ہیں۔

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button