کالم

سانحہ خضدار اور ملال میں ڈوبے املتاس کے پھول/ سعدیہ قریشی

 

24 مئی کی ہلکی گرم سویر ہے ہوا چل رہی دوپہر تک تپش بڑھ جائے گی مگر موسم خوشگوار محسوس ہوتا ہے ۔

سویرے سویرے قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے آنا بہت عرصے سے معمول میں شامل ہیں
مئی کی گرم ہواؤں نے املتاس کے پیڑوں پر زرد پھولوں کا جادو جگا دیا ہے ۔فطرت کے مظاہر میں دلچسپی لینے والوں کے لیے یہ منظر کسی طلسم سے کم نہیں۔
صبح سویر کی چہل قدمی ایسے کئی خوشنما منظر جھولی میں ڈال کے روح کو شاداب کرتی ہے جب بے گناہ مارے جانے والے بچوں کی موت کی خبریں اداسی سے دل کو بوجھل کرتی ہوں
فطرت کے نرم ہاتھ اداس دل کے لیے کسی ڈھارس سے کم نہیں ہوتے۔
اج چہل قدمی کرتے ہوئے میں اور نوید صاحب پارک کے اس داخلی گیٹ کی طرف چلے آئے ،عرصہ ہوا جس کی رونقیں چھن چکی ہیں مگر کبھی یہ جگہ بچوں سے چہکتی زندگی کی علامت تھی
ہر شام بچے ان جھولوں پر کھلیتے مسکراتے اور کھلکھلاتے تھے
پھر ایک روز ایک لہو لہو شام پارک کے اس حصے میں کھلکھلاتے مسکراتے اور جھولوں پر گول گول گھومتے بچوں کے نازک بدنوں پر قیامت بن کے ٹوٹی کئی برس بیت گئے مگر یہ سانحہ یاد۔ست محو نہیں ہوا۔

اپریل کا مہینہ تھا اور وہ ایسٹر کی شام تھی ہمارے مسیحی اپنے تہوار کی خوشیاں منارہے تھے۔

اتوار کی شام پارکوں میں متوسط طبقے کے لوگ محدود وسائل کی گھاٹی سے کچھ خوشیاں کشید کرنے آئے تھے

مگر ان کی خوشیاں دھماکے کی نذر ہو گئیں
کتنے بے گناہ بچے ایسٹر کے نئے نکور کپڑوں میں لہو لہان ہوگئے یہ سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے
۔ہفتوں اس سانحے نے شہر کو سہم میں مبتلا رکھا

پارک کے اس داخلی گیٹ کے پہلو میں کبھی زندگی مہکتی تھی جو خاموش ہو گئی۔

پارک کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا
پرندے چہچہانا بھول گئے ، پھولوں نے کھلنا بند کر دیا تھا اس سال مئی کے مہینے میں املتاس کے درخت زرد پھولوں سے خالی رہے۔

بہت عرصہ بند رہنے کے بعد پارک کھول دیا گیا مگر لوگ آنے سے جھجکتے تھے یہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کی چیخیں اور ان کے بدنوں سے رستہ ہوا لہو دکھائی دیتا تھا۔
پارک کے اس داخلی گیٹ کو بند کر کے نیا راستہ بنا دیا گیا تھا
ہم نے بھی اپنی سیر کے راستے بدل دیے

اج جب بہت عرصے کے بعد اس طرف گئے داخلی گیٹ تواب کب کا کھل چکا لوگ آتے جاتے ہیں، مگر ایک اداسی اور بے رونقی ابھی بھی پارک کے اس حصے میں بال کھولے سو رہی ہے

وہاں سے گزری تو ایسٹر کے شام اپنے نئے کپڑوں میں چیتھڑے بن جانے والے بچوں کے ساتھ ساتھ خضدار کے وہ بچے اور بچیاں بھی یاد آگئے جن کے جسم سکول یونیفارم میں لہو لہان ہوئے۔

وہ جن گھروں سے اپنے اسکول کے لیے تیار ہو کر نکلے تھے ابھی وہاں صبح کی مصروفیت میں یونیفارم پہننے، ناشتہ کرنے لنچ باکس کی تیاری اور ماؤں کو خدا حافظ کہنے کی پررونق مصروفیت ٹھنڈی نہ پڑی تھی کہ خضدار کے طالب علم بچے بچیوں کے جسم دہشت گردی کے راستے میں بے جان اور سرد ہو گئے۔

پہلے پہل شہید ہونے والے بچوں میں تین طالب علم بچیوں کی خبر آئی جو اس خود کش حملہ میں موقع پر شہید ہو گئں

بچیوں کے خواب خواہشیں اور ان کی شرارتوں کے زمانے کچھ مختصر اور بے حد قیمتی ہوتے ہیں وہ اپنے گھروں کی چہچاہٹیں اور رونقیں ہوتی ہیں ۔ان کے والدین پر یہ ناقابل بیان دکھ اترا ہے جو تاعمر والدین کو لہو رلائے گا

خضدار چھاؤنی سے ایک حصے سے کینٹ کے دوسرے حصے کے درمیانی راستے میں بم بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی ان کی اسکول بس سے ٹکرائی ۔بس میں سوار سبھی بچے اس حادثے میں زخمی ہوئے ہیں کچھ موقع پر شہید ہو گئے

کوئٹہ شہر سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر خضدار میں اتنی طبی سہولتیں بھی موجود نہیں تھی۔
کچھ بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوئٹہ پہنچایا گیا
ہم ابھی اے پی ایس پشاور کا دکھ نہیں بھولے یہ ہمارے قومی جسم کو لگا ہوا وہ گھاؤ ہے جس سے درد اور ٹیسوں کے لاوے پھوٹتے رہتے ہیں ۔
اس سانحے کے بعد وزیراعظم اور فیلڈ مارشل فوری طور پر خضدار پہنچے شہید ہونے والوں کے خاندانوں کے غم میں شریک ہوئے اور ان کا وہاں جانا ایک علامت کے طور پر ایک پیغام تھا اس دشمن کے نام جسے دس مئی کو معرکہ حق میں بدترین شکست ہوئی لیکن اس کا جنگی ہے جان اور پاکستان سے اس کی نفرت میں کمی نہیں ہوئی۔
خضدار میں بچوں کی بس پہ ہونے والا خود کش حملہ اعلان ہے کہ اب جنگ کی صورت بدل گئی ہے جنگ ختم نہیں ہوئی۔
فتنہ ہندوستان پراکسی جنگ کی ایک صورت ہے جو جنگ کی بدترین صورت ہے جس میں بچوں عورتوں نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے

میرا ملک پہلے بھی ایسی پروکسی جنگ میں لہو لہان ہوتا رہا ہے خودکش حملے مشرف دور میں بہت تواتر سے ہوتے رہے
سڑکیں، بازار ،چوراہے، خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب کوئی خودکش حملہ ہو جائے اور لوگ بے خبری میں مارے جائیں
یہ امن کے دنوں میں جنگ کا زمانہ تھا
اسی دور کا ایک شعر ہے کہ

بے چہرہ لوگ ہیں کہیں بے عکس آئینے
گلیوں میں رقص کرتی ہوئی بددعا تو ہے

بلوچستان میں یہ پراکسی جنگ بہت عرصے سے لڑی جارہی ہے ۔
اس کڑے وقت میں چو مکھی جنگ لڑنی ہوگی کیونکہ جنگ جب محاذ پر ہوتی ہے تو اس کے ٹارگٹ واضح ہوتے ہیں مگر ایسی پراکسی جنگ جو مسجد کے نمازیوں ،بس میں سفر کرتے مزدوروں اور سکول جاتے ہوئے بچوں کو نشانہ بنائے اس سے لڑنے اور دشمن کو شکست دینے کے لیے نئی حکمت عملی بنانا ہوگی۔

جیٹھ ہاڑ کا سورج رنگ دکھانے لگا رفتہ رفتہ تپش کا احساس بڑھ رہا تھا ۔ دل بدستور اداس تھا ۔
سامنے املتاس کی شاخوں پر لگے پھول کسی حزن اور ملال میں ڈوبے آج کچھ سوا زرد تھے ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
25مئی 2025

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button