افسانہ

افسانہ : عکس / افسانہ نگار: بنت قمر مفتی

 

گلی میں شور سن کر رانو نے سلائی مشین چھوڑی اور باہر کی طرف لپکی۔ اس کا خدشہ درست تھا رجو محلے کے کسی لڑکے سے لڑ رہی تھی۔ اکثر لڑکوں سے جھگڑا کر لیتی تھی۔ انہیں جو اول فول بولتے سنتی ویسا ہی جواب دے دیتی تھی۔ محلے داروں کی اکثریت اسے جھلی کہتی تھی۔ اور اس بات پر’رجو’ مزید سیخ پا ہو جاتی تھی۔ ” رانو اس کا بازو پکڑے گھر گھسیٹ لائی۔ ” کیوں کملی بنتی ہے لڑکی ذات ایسے لڑکوں سے نہیں لڑتی”
تو کیسے لڑتی ہے لڑکی لڑکوں سے ۔خیر تجھے بھی کیا پتا ورنہ تو بھی ابا سے آئے دن مار نہ کھاتی بلکہ اپنا بچاؤ کرتی اور جوابی ۔۔۔
رجو کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اماں نے چپل کھینچ کر اسکی طرف پھینکی ” بند کر اپنی بکواس،پندرہ کی ہونے والی ہے رشتے کے قابل ہورہی ہے خبردار جو اب کسی کے بکے پڑی”
رجو نے ڈھٹائی سے اماں کی اچھالی چپل کو گیند کی طرح قابو کیا اور ہنستے ہوئے بولی “ “ویسے اماں تیرا بس بھی مجھ پر ہی چلتا ہے ابا کو کیوں نہیں مارتی”“
کیسی بکواس کر رہی ہے تو کوئی اپنے بندے پر بھی ہاتھ اٹھتا ہے بھلا۔
تو بندہ کیوں اپنی عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ جیسے” مجھے مارنے کو آتی ہے ایک ابا کو بھی لگاتی تو ۔۔۔۔ “
چپ کر اور اندر چولہے پر پڑی ہانڈی دیکھ۔” رانو نے سر پیٹتے ہوئے کہا”
رجو کا باپ نشہ کرتا تھا۔ کئی کئی دن گھر نہ آتا تھا۔ اس کا گھر ہونا نہ ہونا ایک برابر تھا۔ آدھا دن سویا رہتا یا پھر رانو سے مار پیٹ اور جھگڑا ہی کرتا رہتا تھا۔ ایک بار منہ سے بات نکالی ۔اگلے کی سمجھ میں نہ آئی تو ہاتھ اٹھا لیا۔ رجو کی ایک چھوٹی نو سالہ بہن تھی۔ جس کی پیدائش کے وقت سے وہ سنتی آرہی تھی کہ اماں کے ہاں اب اولاد نہ ہو سکے گی اور سب افسوس کرتے تھے کہ اب نذیرے کے ہاں لڑکا نہ ہوگا ۔ اماں کو چپکے چپکے آنسو بہاتے دیکھتی تھی۔ ابا نے تو کبھی اس کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔ والدین کے جھگڑے میں بیٹا نہ ہونے کا رونا اور سوتن لانے کی دھمکی ہوتی تھی۔ رانو کو یہ تسلی تھی کہ اس کنگلے نشئی کو برادری میں کوئی لڑکی نہیں دے گا۔ چھ سالہ رجو کے کچے ذہن نے جہاں لڑکا بننے کا سوچ لیا تھا۔ وہی لڑکوں سے نفرت بھی اس کے اندر پنپتی رہی تھی۔ رجو دن بھر محلے میں ادھر ادھر پھرتی ، آس پڑوس کی باجیوں کے کام کرتی۔ لڑکوں کے ساتھ سائیکل چلاتی ، گلی ڈنڈا اور کنچے کھیلتی اور پھر ان ہی سے لڑ جھگڑ کر مار پیٹ کرتی۔
. بچپن سے بیٹی ہونے پر جو تحقیر آمیز رویہ دیکھا تھا اس نے رجو کو باغی بنا دیا تھا ۔ گھر سے باہر لڑکوں سے جھگڑ کر ،انہیں گالیاں دے کر اسے تسکین ملتی تھی ۔
رانواسے پکڑ کر گھر لاتی سمجھاتی کہ اب تو بڑی ہوگئی ہے لڑکوں کے ساتھ نہ کھیلا کر گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کر۔ رجو کام نبیڑ کر پھر باہر بھاگ جاتی۔ .
رجو تو سکول نہ جاسکی لیکن اماں نے کپڑے سلائی کرکے اور گھروں میں کام کرکے چھوٹی بیٹی کے تعلیمی اخراجات کے لئے کمیٹی ڈال کر پیسے جوڑنے شروع کردئیے تھے۔ آج بھی نذیرا دو دن بعد گھر آیا تھا۔ رجو شاپر اٹھائے سلے ہوئے کپڑے باجی کو دینے جا رہی تھی کہ اماں کی آواز نے اس کے قدم روک لئے” کہاں سے لاؤں پیسے؟ بچوں کا پیٹ پالوں یا تیرا نشہ پورا کروں؟ تو گھر نہ ہی آیا کر” رجو کی ماں سلائی مشین میں دھاگہ ڈالتے ہوئے بڑ بڑارہی تھی۔ بڑی زبان چل رہی ہے تیری ۔” ”

نذیر اس کی گردن دبوچتے یوئے گرجا۔” کچھ تو پیسے ہوں گے تیرے پاس نکال کر دے مجھے۔ نشے کی طلب میں نذیرا پاگل ہو رہا تھا”

اسی اثنا میں رجو ہاتھ میں شاپر پکڑے کمرے میں” چلی آئی ”

نذیرے نے بیوی کی گردن چھوڑ کر فوراً رجو کے ہاتھ سے شاپر کھینچ لیا۔ “اس کے کچھ تو پیسے مل جائیں گے” شاپر میں دو فینسی سوٹ دیکھ کر اس نے للچائی نظروں سے کہا۔ اور باہر کی طرف لپکا تو رانو نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے بیوی کو دھکیلتا ہوا وہ آگے بڑھا تو رجو نے پیچھے سے باپ کی ٹانگ پکڑ لی نذیرا لڑکھڑا کر گر پڑا اور رجو نے اسے دیوانہ وار تین چار ٹھڈے مارے۔ نذیرے کی حالت پہلے ہی نشہ ٹوٹنے کی وجہ سے غیر تھی وہ ہ جلد ہی ہار مان گیا لیکن منہ سے اول فول بکتا رہا اور رجو اس کے ہاتھ سے شاپر لے کر باہر نکل گئی۔ رانو
بیٹی کا یہ روپ دیکھ کرتذبذب کا شکار تھی اب نذیرا رجو کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ یہ بات سوچتے ہی اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ رجو کپڑے لے کر چلی گئی ۔نشے کی طلب میں بڑبڑاتا لڑکھڑاتا نذیرا بھی گھر سے نکل گیا تو رانو دروازے کی طرف لپکی ، کہیں باہر ہی رجو کو دیکھ کر اس سے الجھ نہ پڑے ۔ آج پہلی بار اسے رجو کا یہ لڑاکا پن برا نہ لگا۔ اگر وہ سوٹ لے جاتا تو اسکی محنت بھی رائیگاں جاتی، الٹا سوٹ کے پیسے بھی بھرنے پڑتے۔ وہ دروازے کی اوٹ سے رجو کی راہ تکتی رہی ۔ رجو کے گھر آتے ہی اس کے گلے لگ کر رو پڑی۔ رجو نے روتی ماں کو الگ کیا پانی کا گلاس گھڑے سے بھرا اور تسلی سے چارپائی پر بیٹھ کر پی گئی۔ رجو4 کا چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔ پانی پی کر اس نے آنکھیں موند لیں اور گہری سانس لی۔
” تو کچھ دن کے لئے نانی کے گھر چلی جا نذیرا نشہ پورا کرکے آگیا تو تجھے بہت مارے گا۔”
” نہیں اماں میں تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہی۔ تو بھی نہ ہو پریشان ”
اگلی صبح نذیرا گھر آگیا۔ نہ کوئی مار پیٹ نہ گالی گلوچ ، رانو سہمی ہوئی تھی کہ نذیرے کی خاموشی کسی طوفان کا پتا دے رہی تھی ۔
رجو صحن کی دیوار پر بیٹھی لاپرواہی سے ٹانگیں جھولا رہی تھی۔ رانو نے نیچے اترنے کا کہا تو رجو نے انکار کردیا۔ باہر سے گزرتے کسی منچلے نے اس پر جملہ کس دیا تو رجو نے بھی آگے سے موٹی گالی بک دی۔ نذیرے کو موقع مل گیا کل کا غصہ رانو پر نکالنے کا۔
"یہ سیکھا رہی ہے تو بیٹی کو، لڑکی ذات ہے کیسی ماں ہے تو زبان دیکھ اس کی ۔ شرم آتی ہے مجھے کہ میری بیٹی ہے۔ ایسی ہوتی ہیں لڑکیاں” ” نذیرے نے رجو کو گھورتے ہوئے کہا
رجو قہقہہ لگاتے دیوار سے کودتے ہوئی بولی “ تجھے شرم کیوں آتی ہے ابا، ہوں نا میں ، بالکل تیرے جیسی

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button