افسانہ

افسانہ : جرثومے / افسانہ نگار : دعا عظیمی

کئی بار وہ سوچتا کہ ابھی تو وہ تگ و دو کے قابل ہے ۔ ابھی اس کے بازوؤں میں ہمت ہے۔ وہ اس خواب کی تعبیر کے لیے محنت کر سکتا ہے جو اس کے تصور میں کروٹیں بدلتا ہے ۔

اس طرح کاصاف ماحول جیسے کسی فائیو سٹار ہوٹل کا ہو۔ ایسے ماحول میں ا پنے آخری ایام کاٹنے کے لیے اسے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہییں۔

اسی لیے وہ چند کتابیں جو کامیاب سرمایہ کاری اور کاروبار کے گر سکھاتیں پرانی کتابوں کے انبار سے چھانٹ کے اٹھا لاتا ۔بہت دنوں تک انہیں غور سے پڑھتا اور کچھ دنوں بعد اس کے بستر کے چاروں طرف ایسی ہی کتابوں کاانبار وسیع ہوتا جاتا ۔پھر آہستہ آہستہ ان کی جگہہ نئی نئی ادب کی اور نفسیات کی کتابیں لے لیتیں۔۔۔ اور کاروبار کرنے کا خیال الماری میں سنبھال کر رکھے ہوئے سامان میں کہیں دور پڑا رہ جاتا جس پر نظر نہ پڑے تو برسوں یاد بھی نہ آئے مگر جب کوئی قریبی عزیز موت کے بستر پر جاتا اسے گھبراہٹ ہونے لگتی ۔جب بھی وہ مستقبل بعید کے متعلق گہرائی سے سوچتاکہ اگر وہ اپنے آخری ایام میں بیمار پڑ گیا تو پرائیویٹ علاج کے لیے پیسہ کہاں سے لائے گا۔ دراصل وہ جب بھی تصور کرتا کہ وہ ہسپتال پہنچایا جا رہا ہے ۔ وہ خود ترسی کا شکار ہو جاتا۔اپنے لیے سرکاری ہسپتال کے وارڈ کا کوئی بستر اسے پسند نہ آتا۔ وہ وہاں پر خود کو ایک دم ان۔فٹ سمجھتا جیسے سرکاری ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا اسے پسند نہیں تھا کیونکہ اپنے بچپن میں اسے ان بسوں پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا جو مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوتیں جہاں آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتیں اور مختلف بد بووں میں بھی امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا حالانکہ وہ ہمیشہ متلی کے خوف سے کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ۔
اس نے ویگنوں میں مرغا بننے کا تجربہ بھی چکھ رکھا تھا۔ جن دنوں وہ سرکاری سکول میں ملازمت کرتا تھا۔ اس نےکن اکھیوں سے زنانہ سیٹوں پر ڈرائیوروں کے ہاتھوں کی نقل و حرکت نظر آتی ۔ زنانہ سواریوں کے ناگوار تاثرات اسے بہت سی ان کہی کہانیاں سناتے۔ اس کا بہادر خون کھولتا مگر شدید جھگڑے کے ڈر سے وہ چپ رہتا ۔
اس نے خود کو بہت بار سمجھایا تھا کہ اگر ان ہسپتالوں کے گائینی وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مائیں لیٹ سکتی ہیں اور ان میں سے بہت سی کامیابی سے مائیں بننے کا شرف حاصل کر کے فارغ ہوتی ہیں تو موت تک پہنچنے کے لیے اسے اس بستر پر جانے میں کیا اعتراض ہے مگر اسے لگتا کہ اگر وہ کسی طرح خود کو منا بھی لے مگر اسے ان کی فکر تھی جو اس برے وقت میں اس کے سرہانے کھڑے ہوں گے۔
اس نے خود کو بہت بار سمجھایا تھا کہ
زندگی کبھی بھی اپنے ہاتھ میں موت کے لیے پھولوں کے ہار لے کر کھڑی نہیں ہوتی ہاں مرنے کے بعد پھولوں کی پتیاں ضرور ڈالی جاتی ہیں۔
عام طور پر وہ متوکل رہتا ۔ درویش اور پکھیرو کی کہانی اس کی گھٹی میں ڈالی گئی تھی۔ اس نے بہت بار کوشش کی تھی کہ وہ کچھ رقم بچت کے نام پر جمع کر لے مگر ہر بار جمع کی ہوئی رقم کسی دوسری ضرورت پر خرچ ہو جاتی اسے اپنی نانی کی دعا یاد آتی ۔۔۔ خدا لوڑ دی تھوڑ نہ دیوے اور وہ شکر ادا کرنے پہ مجبور ہو جاتا۔
اس نے ایک کہانی پڑھی جب ایک شاعر کو اس کے پرانے کپڑوں کی وجہ سے گھاس نہیں ڈالا گیاتھااور وہ شاعر بہت بےعزت ہو گیا تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ ایک دو لباس تیار رکھتا جنہیں اہم مواقع پر زیب تن کر کے اس طرح کی خفت سے محفوظ رہتا حفظ ماتقدم کے طور پر ایک نیا لباس ہمیشہ الماری میں محفوظ رکھتا۔۔ البتہ جوتوں کے متعلق اس کی لاپرواہی قائم رہتی اس کا خیال تھا لوگوں کی نظر جوتوں پر کم پڑتی ہے ۔
دراصل وہ بنیادی طور پر انسانی نفسیات سے کم واقفیت رکھتا تھا اس کے بہت سے نظریات اس کی ذاتی خوش گمانیوں پر مبنی تھے جب کہ اسے بار بار بتایا گیا تھا کہ دشمنوں کے دلوں ہر دھاک بٹھانے کے لیے اچھی جوتی ضروری ہوتی ہے وہ لاپرواہی سے سوچتا اس دنیا میں اپنے سوا کون دشمن ہے۔ وہ ہر سنجیدہ بات کو کاغذکے جہاز کی طرح ہوا میں اڑا دینے کا عادی تھا۔
اس نے ایک پرائیویٹ سکول بنایا جسے چلانے میں وہ ناکام ہو گیا۔ اس کے بعد وہ ایک بزرگوں کو سنبھالنے والے ادارے میں سیکورٹی کے فرائض انجام دینے لگا۔ اسے یہ کر کے سکون ملتا۔اب وہ خود بزرگ ہو چکا تھا سو اس نے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنا شروع کر دی۔
پچھلےکچھ برسوں سے اس نے معمول بنا رکھا تھا کہ وہ مختلف لیبارٹریوں میں جاتا اور انہیں خون کا نمونہ دینے کی کوشش کرتا۔
جس کے جواب میں وہ اس کی طرف ایسے دیکھتے جیسے وہ مذاق کر رہا ہو۔ وہ کل بھی خون کا ٹیسٹ دینے گیا کہ کیا واقعی اس کے خون میں پیسے کمانے کے جرثومے کم ہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے جرثوموں والی بات پر یقین ہوتا جا رہا تھا مگر وہ اس سائنسی دور میں یقین سے محروم تھا اور چاہتا تھا کہ ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق ہو جائے۔

اب تک تو لیب والے اسے یہ کہہ کر مایوس کر دیتے کہ اس کی تصدیق کے لیے کوئی ٹیسٹ موجود نہیں ہے۔ جب کہ اس کا یقین تھا موروثی طور پر اس کے خون میں دولت کمانے کے جرثومے کم ہیں۔ اس کے علاوہ بھی وہ اپنے خون کے بہت سے ٹیسٹ کرا کے خود تشخیصی کے مراحل سے گزرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتا کہ کیا وہ ایک کامیاب کاروباری بن سکے گا یا محض کاغذ پر قبریں کھودنے والا گورکن ہی رہے گا۔اس کے اندر پیسہ کمانے کے جرثومے طبی اور طبعی طور پر کم تھے۔ کئی بار پیسہ کمانے کی خواہش عزت کمانے کی خواہش کی طرح دریا کنارے اگے سرکنڈوں کی مانند ہلکی سی ہوا کے زور پہ بہت ذوروں سے سرسراتی مگر جلد ہی بارش کے بعد نکلے کینچووں کی طرح مٹی میں ملیا میٹ ہو جاتی۔
وہ روزانہ شہر بھر کے ہسپتالوں کے ارد گرد بنی لیبارٹریوں کا چکر لگاتا مگر رات تک مایوس لوٹ آتا۔
اگلے دن اسے لگتا کہ سائینس ترقی کر رہی ہے ہو سکتا ہے وہ ایسا ٹیسٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوں اور اس تک یہ خبر نہ پہنچی ہو۔
ایک روز اس پر امیر ہونے کا بھوت سوار ہو گیا۔۔ اب تک کی ترکیبوں سے جو آسان ترین ترکیب اس کے ذہن میں آئی وہ پرائز بانڈ خریدنے کی تھی۔۔ اس نے ایک کمیٹی ڈالی اور جب وہ کمیٹی نکلی تو اس نے کچھ پرائز بانڈ خرید لیے۔ اس کا ایک فائدہ ہوا کہ اس کے خوابوں میں توانائی بھرنے لگی۔۔ اور اس کے خون کے ٹیسٹ کی رپورٹس بھی بہتر آنے لگیں۔
ایک روز اس نے نظر کے ڈاکٹر سے وقت لیا۔ ڈاکٹر نے اس کی آنکھوں کا معائنہ کیا اور اسے آگاہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں پر کالا موتیا تیزی سے آ رہا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے بےحد تکلیف دہ تھی۔ گو ڈاکٹر نے اسے کچھ قطرے دئیے مگر اس کی بینائی متاثر ہونے لگی۔
اس کے گرد پڑی کتابیں دکھی ہو گئیں کیونکہ اب وہ انہیں پہلے کی طرح توجہ نہیں دے پاتا تھا۔
اسے ایک اور چیز کا بھی دکھ تھا۔ اب وہ پندرہ دن کے بعد انعامی لسٹوں سے اپنے پرائز بانڈ کے نمبر دیکھنے میں بھی دقت محسوس کرنے لگا تھا۔
اب وقت آن پہنچا تھا کہ یا تو ان کو بیچ دے یا اس معاملے میں کسی غیر پر بھروسہ کرے۔
اسے اپنی دوسری تجویز زیادہ پسند آئی۔
اس نے اپنے ایک قابل بھروسہ دوست کے حوالے پرائز بانڈ کیے اور اسے نصیحت کی کہ اگر انعام نکل آئے تو آدھا انعام کا حقدار وہ ہو گا اور آدھے انعام کی رقم وہ کسی ایسے انسان کے علاج پہ لگا دے جس کا کوئی وارث نہ ہو ۔
ایک اچھی خبر اسے اس وقت ملی جب وہ خود کو بہت کمزور محسوس کر رہا تھا۔
اس کے بیٹے نے اسے
خبر دی کہ ایک ایسی دوائی بن چکی ہے جو خون میں دولت کمانے والےجرثوموں کی مقدار کو بڑھا سکتی ہے۔
اس نے ایک دم اپنے بدن میں توانائی محسوس کی اور اپنی مایوس آنکھیں کھول کر بیٹے کو پر امید نگاہوں سے دیکھا اور وصیت کی کہ علاج پر پیسے لگانے کی بجائے وہ اپنے لیے یہ دوائی ضرور خرید لے۔ بیٹے نے تسلی دیتے ہوئے کہا میں پہلے سے ٹیسٹ کروا چکا ہوں۔ میرے خون میں ان جرثوموں کی تعداد عام آدمی سے کہیں زیادہ ہے۔
بیٹے نے تجویز دی اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو ایک بوتل اپنے خون کی دے سکتا ہوں۔ اس کے بدلے آپ مجھے پرائز بانڈ دے سکتے ہیں۔
باپ نے مسکراتے ہوئے کہا
میں نے انہیں بیچ کر پہلے سے دولت کے جرثومے بڑھانے والی دوائی خرید لی ہے۔

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button