نافرمانی اور پریشانی / سیدہ عطرت بتول

احمد کو آج پھر ٹیوشن سینٹر سے آنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اب مغرب ہونے والی تھی، اندھیرا بڑھ رہا تھا۔
احمد کی امی بے چینی سے گیٹ کے آس پاس ٹہل رہی تھیں۔ بالآخر تنگ آ کر انہوں نے ٹیچر کو فون ملایا، تو انہوں نے بتایا کہ احمد گھنٹہ پہلے جا چکا ہے۔ امی ٹیچر کو فون کرنا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا۔ انہیں ٹیچر سے شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔
اصل میں احمد ٹیوشن پڑھنے کے بعد دوستوں کے ساتھ کبھی پارک تو کبھی ان کے گھر چلا جاتا تھا، کھیل کود میں لگ جاتا تھا۔ اسے ذرا بھی پروا نہیں تھی کہ امی گھر میں کتنا پریشان ہو رہی ہیں۔
آج بھی وہ جب گھر میں پہنچا تو امی کو گیٹ کے پاس دیکھ کر بولا:
"امی، زیادہ دیر تو نہیں ہوئی ہے؟ آج ایک دوست کی سالگرہ تھی، اس کے گھر چلا گیا تھا۔”
"تم پورے ڈیڑھ گھنٹے لیٹ ہو،” امی غصے سے بولیں۔
"اچھا، سوری،” کہہ کر وہ جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور پھر وہاں سے واش روم میں گھس گیا تاکہ امی مزید کچھ نہ کہیں۔
احمد پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا اور اب اس کے بورڈ کے امتحانات ہونے تھے، اس لیے امی نے ایک بہت اچھے ٹیوشن سینٹر میں اس کو بھیجنا شروع کیا تھا تاکہ اس کا رزلٹ اچھا آئے۔ گھر میں تو ٹک کر بیٹھ کر پڑھتا نہیں تھا، لیکن احمد ٹیوشن سینٹر سے کھیلنے کودنے کے لیے کبھی کہیں تو کبھی کہیں چلا جاتا تھا۔
اسکول کی تو وین تھی، ڈرائیور انکل اسے گھر سے لیتے اور چھوڑتے تھے، لیکن ٹیوشن سینٹر گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے بچوں کے ساتھ پیدل ہی جاتا تھا۔ امی اسے اس لیے چھوڑنے اور لینے نہیں جا سکتی تھیں کہ شام کو ان کے گھر کی مصروفیت ہوتی تھی۔ اس کا ایک چھوٹا سا بھائی اور بہن بھی تھے، انہیں بھی سنبھالنا ہوتا تھا، اور پاپا شام کو آفس ہوتے تھے۔
اسی چیز کا فائدہ احمد اٹھاتا تھا اور دوستوں کے ساتھ مزے کرنے چلا جاتا تھا۔
ایک دن امی نے اسے بتایا بھی تھا کہ: "میں نے خبروں میں سنا ہے کہ شہر میں اغوا کی وارداتیں ہو رہی ہیں، بچوں کو پکڑنے والا ایک گینگ آیا ہوا ہے۔ تم ٹیوشن سینٹر سے سیدھے گھر آیا کرو۔”
وہ امی کی بات سن تو لیتا تھا لیکن مرضی اپنی ہی کرتا تھا۔
آج بھی اس کے ایک دوست نے بتایا کہ:
"آج میرے امی ابو گھر نہیں ہیں، تم میرے ساتھ چلو۔ ہم دیر تک گیمز کریں گے۔ ابو کا لیپ ٹاپ اور ٹی وی وغیرہ سب دیر تک استعمال کریں گے، خوب مزے کریں گے۔ شاید امی کا موبائل فون بھی گھر میں ہو، پھر تو گیمز میں اور مزا آئے گا۔”
احمد فوراً اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا، اور وہاں جاکر اس نے دوست کے ساتھ بہت گیمز کھیلیں۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا، دو گھنٹے گزر گئے۔
اسے نیند آ رہی تھی اور کچھ کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ امی سے بہت ڈانٹ پڑے گی، اور یہ بھی کہ اب اندھیرا بہت بڑھ گیا ہے، دو گلیاں کراس کرنی ہیں، اکیلا کیسے جاؤں گا؟
"ایسا کرو، تم میرے کمرے میں سو جاؤ، تمہیں بہت نیند آ رہی ہے۔ میرے امی ابو آنے والے ہیں، میرے ابو تمہیں بائیک پر چھوڑ آئیں گے۔ اور پھر تمہاری امی ناراض بھی نہیں ہوں گی، میں ساتھ جاؤں گا اور کہوں گا آنٹی، اسے میں نے روک لیا تھا اور اب میرے ابو چھوڑنے آئے ہیں۔”
احمد نے اس کی بات مان لی، اس کے کمرے میں آ گیا۔ وہاں صوفے پر ٹیک لگاتے ہی اسے نیند آگئی۔
اسے سوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کمرے کا دروازہ زور دار آواز اور جھٹکے سے کھلا۔ احمد اٹھ کر بیٹھ گیا۔
دروازے میں ایک انکل کھڑے تھے، ان کی عجیب سی غصے والی شکل تھی۔
"لڑکے، اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ!” وہ تیز آواز میں بولے۔
احمد خوف سے کانپ گیا، لرزتا ہوا کھڑا ہوگیا۔
اسی انکل نے جیب سے ایک رسی نکالی اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھنے شروع کر دیے، اور کسی کو زور سے آواز دی۔
ان کی آواز سن کر ایک لڑکا اندر داخل ہوا، انکل اس سے بولے:
"میں اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دوں گا تو تم اسے وین میں پھینک دینا۔”
یہ سن کر احمد زور زور سے رونے لگا:
"مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو، میں نے اپنے گھر جانا ہے!”
"چپ کر جاؤ،” وہ انکل غصے سے بولے،
"تم اب ہمارے قبضے میں ہو، کل سے تم شہر کے چوک میں بیٹھ کر بھیک مانگو گے۔ سارا دن جتنی بھیک اکٹھی ہوگی، شام کو ہمارے حوالے کرنی پڑے گی۔ اور سنو، چالاکی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تم بھاگ نہیں سکو گے، کیونکہ ہم تمہاری ایک ٹانگ توڑ دیں گے۔ معذور بچوں کو بہت بھیک ملتی ہے، تم ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہو۔ اگر یہ چاہتے ہو کہ ہم تمہاری دونوں ٹانگیں نہ توڑیں، تو چپ چاپ ہمارا کہنا ماننا ہوگا۔”
یہ سن کر احمد زور زور سے چیخنے لگا۔
"اس کا منہ بھی باندھ دو،” انکل نے لڑکے سے کہا۔
جیسے ہی وہ لڑکا اس کے قریب آیا، احمد پوری قوت سے چیخا:
"مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو!”
لیکن یہ کیا ہوا؟
احمد کی آنکھ کھل گئی تھی، اس کا جسم پسینے میں تر تھا، وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
کمرے میں انکل موجود تھے لیکن یہ وہ انکل تو نہیں تھے۔ مہربان صورت تھے اور بہت پیار سے پوچھ رہے تھے:
"بیٹے، کیا ہوا؟”
"شاید نیند میں ڈر گیا،” پاس کھڑی آنٹی بولیں۔
اب احمد کی جان میں جان آئی۔ اس نے شکر کیا کہ یہ خواب تھا۔
اس کا دوست بھی پاس کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا:
"تم تو سو گئے تھے لیکن میں نہیں سویا، کیونکہ میں امی ابو کا انتظار کر رہا تھا، میں نے گیٹ کھولنا تھا۔”
"راستے میں بہت ٹریفک تھی، اس لیے ہمیں آنے میں دیر ہوگئی،” آنٹی نے کہا۔
"انکل، پلیز مجھے گھر چھوڑ آئیں، میرے امی ابو بہت پریشان ہوں گے،” احمد رو دینے کو تھا۔
"بیٹا، آپ نے امی ابو کو بتایا نہیں تھا کہ آپ دوست کے گھر جا رہے ہیں؟”
"نہیں، میں ٹیوشن سینٹر سے سیدھا ہی آ گیا تھا۔”
"اوہو، پھر تو اس کی امی بہت پریشان ہوں گی، میں سمجھ سکتی ہوں،” آنٹی بولیں۔
"چلو بیٹا،” انکل بولے۔
جب وہ انکل کے ساتھ گھر پہنچا تو اس کے ابو گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے تھانے گئے ہوئے تھے۔ امی کا بلڈ پریشر پریشانی سے ہائی ہو گیا تھا۔ محلے کی آنٹیاں اس کی گمشدگی کی خبر سن کر گھر میں جمع تھیں۔ اس کی امی کو ایک آنٹی دوا کھلا رہی تھیں کہ احمد گھر پہنچ گیا۔
اس کی امی کی جان میں جان آئی، وہ غصہ بھول کر اسے لپٹا کر پیار کرنے لگیں۔
تھوڑی دیر بعد اس کے ابو بھی آ گئے، احمد کے دوست کے ابو ابھی وہیں تھے۔
انہوں نے احمد کے ابو کو ساری بات بتائی کہ:
"یہ گیمز کھیلنے کے بعد ہمارے گھر سو گیا تھا۔ ہم گھر میں نہیں تھے ورنہ آپ کو فون کر دیتے، ہمیں آنے میں کافی دیر ہو گئی کیونکہ ٹریفک بلاک تھی۔ اب آپ احمد کو ڈانٹیے گا نہیں۔”
"ٹھیک ہے،” احمد کے ابو نے انکل کا شکریہ ادا کیا۔
ویسے اب احمد کو ڈانٹ کی ضرورت بھی نہیں تھی، اس نے خواب ہی ایسا دیکھا تھا کہ اسے احساس ہوگیا تھا کہ امی ٹھیک ہی سمجھاتی تھیں کہ اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور جرائم پیشہ بھی، جو بچوں کو اغوا کرکے ان سے بھیک منگواتے ہیں۔ جب بھی احمد کو خواب کا منظر یاد آتا، اسے جھرجھری آ جاتی۔
اس نے امی ابو سے معافی مانگ لی تھی، اب وہ ان کی اجازت کے بغیر کہیں بھی نہیں جاتا تھا۔
پیارے بچو! آپ بھی امی ابو سے پوچھے اور بتائے بغیر کہیں بھی نہ جائیں۔