بیٹیاں گھروں سے کیوں بھاگتی ہیں ؟ /سید لبید غزنوی

جب کوئی لڑکی گھر سے چلی جاتی ہے تو پورا محلہ چونک جاتا ہے ، خاندان کی نظریں جھک جاتی ہیں ، اور لوگ اُنگلیاں اٹھاتے ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر ایسا قدم اٹھانے پر وہ مجبور کیوں ہوئی؟ کسی کا یوں سب کچھ چھوڑ جانا اچانک نہیں ہوتا ، یہ صبر کے آخری کنارے کا نام ہوتا ہے۔
گھر ، جہاں بیٹی کو سب سے زیادہ پیار ملنا چاہیے ،تحفظ کا احساس ہونا چاہیے اور بھرپور اعتماد ملنا چاہیے ، جب وہی جگہ سوالوں کا ، شک اور بداعتمادی کا ، ہر وقت کی گالیوں جھاڑوں اور طعنوں کوسنوں اور پھٹکاروں کا ، خشک ترین لہجے اور سرد مہری کا مرکز بن جائے تو بیٹی کا دل آہستہ آہستہ ویران ہونے لگتا ہے۔ جب اُسے ہر بات پر تنقید سننے کو ملے ، جب اُس کی کوششوں و کاوشوں پر شاباش کے بجائے صلواتیں سنائی جائیں ، اور اس کے جذبات واحساسات کو بار بار "فضول باتیں” کہہ کر دبا دیا جائے ، ہاں تب ہی وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتی ہے۔
ایک بیٹی کے لیے ماں کی شفقت اور باپ کی توجہ وہ پہلی ڈھال ہے جو دنیا کے سرد رویوں سے اسے بچاتی ہے۔ مگر جب ماں صرف حکم چلائے ، بات بات پہ تھپٹر مارے اور باپ صرف خاموشی اختیار کرے ، تو وہ اپنی بات سنانے کے لیے کسی اور کی طرف دیکھتی ہے۔ اور جس طرف وہ دیکھتی ہے اس طرف موجود شخص کبھی بہت غلط ہوتا ہے تو کبھی بہت چالاک ، محبت کے چند نرم جملے سن کر اس کی طرف دیکھنے والی ، اس کی باتوں میں آ کر سب کچھ چھوڑ دیتی ہے ، کیونکہ اُسے کبھی بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ جھوٹا پیار کیسا ہوتا ہے ؟
گھروں میں بیٹیوں پر صرف ذمہ داریوں کے بوجھ لاد دیے جاتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام ہی کام ، پھر خاموشی ، نہ کوئی محبت کی بات ، نہ کوئی توجہ ، نہ کوئی احساس ، نہ ہنسی نہ مزاح ، الٹا سوال در سوال ، پھر آخر میں کہا جاتا ہے کہ تم نے کیا ہی کیا ہے ؟ اور رہے بیٹے تو اُن کے لیے پسندیدہ کھانے بنائے جاتے ہیں، ان سے ہنسی مذاق کیا جاتا ہے ، انہیں آزادی دی جاتی ہے ، اور ماں باپ کی مسکراہٹیں نہیں تہمتیں ملتی ہیں۔ یہ فرق ، یہ غیر مساوی سلوک ، بیٹی کے دل میں ایک خلا پیدا کرتا ہے ، جِسے پُر کرنے کے لیے وہ گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہے ، پھر یہ خلا کسی اجنبی کے دو نرم لفظوں سے بھر جاتا ہے ، اور وہ ان لفظوں کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیٹی اپنے دل کی بات کہنا چاہتی ہے ، کچھ بولنا چاہتی ہے ، صرف یہ چاہتی ہے کہ اُسے سنا جائے۔۔۔! مگر جواب میں اسے ملتا ہے: "بیٹیاں بولنے اور سنانے کی نہیں ہوتیں ، انہیں خاموشی کی ردا اوڑھ کر ہی رہنا ہے وہ جتنا دب کے رہیں ، اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔”
اور یوں وہ اپنے ہی گھر میں اَن کہی باتوں کا بوجھ لیے اندر ہی اندر گُھٹتی رہتی ہے ، یہاں تک کہ ایک دن وہ بوجھ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ چل پڑتی ہے ، کسی ایسے کے ساتھ جس نے صرف اتنا کہا ہو: "تم تو بہت خاص ہو ، تم تو محبت عزت اور احترام کے لائق ہو ، تمہارے تو قدموں تلے پھول بچھائے جانے چاہییں، تم تو شہزادی ہو۔”
ایسی بیٹیوں کے بھاگ جانے پر معاشرہ شرمندہ ہوتا ہے ، والدین نظریں چراتے پھرتے ہیں ، بھائی غیرت کے نام پر غصہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جب وہ گھر میں تھی ، تب کون اُس کی بات سنتا تھا ؟ کون اُس کے آنسو پونچھتا تھا ؟ کون اُس کا ہاتھ تھامتا تھا ؟
بیٹیاں جسم سے نہیں ، دل سے توجہ مانگتی ہیں۔
اگر ماں اپنی بیٹی کی سہیلی بن جائے ، باپ اور بھائی اس کے محافظ بن جائیں تو کوئی بیٹی دو جھوٹے جملوں کے پیچھے اپنا سب کچھ نہیں چھوڑتی۔
بیٹیوں کو بند کمروں میں قید نہ کریں ، اُن کے احساسات و جذبات کو سمجھیں کو ، ان کی خاموشی کو سمجھنے کی کوشش کریں ، ان کے سوالوں کو دبائیں نہیں بلکہ ان کا اچھا اور صیحح جواب دیں ، کیونکہ اگر ہم نے آج انہیں محبت نہ دی ، وقت نہ دیا ، اعتماد نہ دیا ، تو کل وہ سب کچھ کسی اور سے مانگنے نکل پڑیں گی۔ اس وقت پھر کچھ نہ ہو سکے گا کیونکہ تب بہت دیر ہو چکی ہوگی ۔