کالم

ڈالر، صیہونیت اور سمبلزم/ نصیر احمد ناصر

عالمی طاقتوں کے درمیان ایک بڑا ٹکراؤ ناگزیر ہے۔ صیہونیت ایک بڑے انتشار کی منتظر اور ون ورلڈ آرڈر کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس کی خاطر تیسری عالمی جنگ ایک فالس فلیگ ہو سکتی ہے۔

پچھلی کئی دہائیوں میں عالمی تذویرات ، معاشیات اور تعلقات کے حوالے سے جو لوگ غیر معمولی اور غیرعمومی آرا رکھتے تھے ان کو کانسپریسی تھیورسٹ کہہ کر ان کی اکثر باتوں کی نفی کی جاتی تھی لیکن دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان کی بہت سی باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔ اس چھوٹے سے طبقے کے لوگ پچھلی چھ سات دہائیوں سے متنبہ کرتے رہے ہیں کہ دنیا میں وَن ورلڈ حکمرانی تشکیل پائے گی اور اس سے پہلے دنیا میں شدید انتشار و اختلال اور تباہی و بربادی کا سماں ہو گا۔ 1944ء میں بریٹن ووڈ معائدے کے بعد دنیا نے ڈالر کو اپنا لیا لیکن ڈالر کی ساخت اورعزائم دونوں سے نابلد رہی۔ ایک ڈالر کے کرنسی نوٹ کو بغور دیکھا جائے تو اس کے اوپر لاطینی زبان میں ” نووس آرڈو سکلورم” لکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے آرڈر آف ایجز۔ تاریخی طور پر یہودی ابھی تک اپنے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں جس کے لیے یہ آرڈر آف ایجز صیہونی طاقتوں کی سرپرستی میں نیو ورلڈ آرڈر کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے ایک جغرافیائی حقیقت میں ڈھالنے کے لیے انہیں ایک بڑے خلفشار کی ضرورت ہے، جو اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی شدت کا اندازہ شام میں شامی باغیوں کے خلاف روس، چین اور ایران کی راست موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور نیٹو ممالک شام میں داعش کی آڑ میں اپنی تہہ در تہہ سرگرمیاں تیز کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر امریکہ کی طرف سے ایک اور دوغلی پالیسی کا سامنے آنا جس کے تحت وہ فری سیرین آرمی کو داعش کے خلاف مستحکم کر رہا ہے اور برطانیہ کا عراقی حدود میں روسی طیارے مار گرانے کا فیصلہ ایک بڑے ٹکراؤ کا پیش خیمہ ہے۔ یاد رہے کہ علم آخر الزماں کے مطابق شام کے خطے کی بہت زیادہ مذہبی ، روحانی اورعسکری اہمیت ہے۔ جس کا تذکرہ تقریباً تمام بڑے مذاہب کی آخری زمانے سے متعلق پیشین گوئیوں میں موجود ہے۔

ایک ڈالر کے کرنسی نوٹ کا مزید جائزہ لیا جائے تو یہ صیہونی سمبلزم کا شاہکار نظر آتا ہے۔ نوٹ کے بائیں طرف ایک پیرامڈ ہے جس کے اوپر "سب کچھ دیکھتی ہوئی روشن آنکھ” بنی ہوئی ہے جو دجال کا سمبل ہے۔ پیرامڈ اور ایک آنکھ صیہونی سمبلزم میں ان کی سیکرٹ سسوسائٹی ایلومیناٹی کا اہم آرکیٹیکچر جزو ہے۔ اس آنکھ کے پس منطر سے سورج کی شعاعیں نکل رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کا خدا، جو دراصل لوسیفر ہے، ہر طرف دیکھ رہا ہے۔ اس پیرامڈ کے اوپر اگر ایک پیرامڈ الٹا رکھا جائے تو سٹار آف ڈیود بنتا ہے جو اسرائیلی جھنڈے کا نشان ہے۔ پیرامڈ کے اوپر لاطینی کے دو الفاظ "اینوئے کپٹس” درج ہیں جن کا اردو میں مطلب کچھ یوں ہے کہ ہماری کاروباری کارجوئی کے سر پر کامیابی کا تاج ہے۔۔ پیرامڈ ایننٹوں کی 13 تہوں سے بنا ہوا ہے جو صیہونیوں کی 13 بلڈ لائنز کو ظاہر کرتی ہیں۔ اب ذرا نوٹ کے دائیں طرف بنی ہوئی سِیل پر آ جائیے۔ سیل میں زیتون کی ایک شاخ ہے جس کے تیرہ پتے ہیں۔ اس میں 13 تیر بھی بنے ہوئے ہیں۔ اور سِیل کے اندر اوپر کی طرف 13 ستارے بنے ہوئے ہیں۔ سیل کے درمیان میں ایک شیلڈ ہے جس کے اندر 13 عمودی پٹیاں یا اسٹرپس ہیں۔ عیسائیت اور صیہونی علامتیت یا سمبلزم میں 13 کے ہندسے کی خاص اہمیت ہے۔ بائبل میں بھی 13 کی عددی و تمثیلی نمود موجود ہے۔ صیہونی دراصل یہودیوں کے 12 اسرائیلی قبائل میں سے نہیں بلکہ خود یہودی محققین کے مطابق خزرین ہیں جنہیں تیرھواں قبیلہ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ کوہ قاف کے شمال میں خزریہ تہذیب سے تعلق رکھتے تھے اور نسلی اعتبار سے ٹرکش یا ٹرکک تھے، جو چنگیز خان کے حملے کے بعد کاکیشین ریجن سے ہجرت کر کے پولینڈ اور وسطی یورپ میں چلے گئے، اور اکثریت نے یہودیت اختیار کر لی اورآشکنازی یہودی کہلائے۔ اُس وقت یہودیوں کے جو اصل بارہ قبائل تھے وہ دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے تھے جبکہ یہ آشکنازی یہودی اپنے آپ کو صدی در صدی مستحکم کرتے ہوئےعالمی تسلط اور ایک گلوبل ڈومینین کا خواب دیکھنے لگے۔ اس مقصد کے لیے ایک تو انہوں نے اپی تعداد میں بھی اضافہ کیا اور یہی وجہ ہےکہ اس وقت دنیا میں کل یہودیوں میں سے نوے فیصد تعداد ان کی ہے۔ دوسرے انہوں نے یہودیت اور عیسائیت دونوں کو استعمال کرتے ہوئے زائنزم یا صیہونیت کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی یورپ میں عیسائیت ایک مضبوط دھڑا تھی اور عرب سے اسلام ایک مضبوط طاقت کے طور پر پھیل رہا تھا۔ یہودیت اور صیہونیت میں فرق کو سمجھنے کے لیے امریکہ کے موجودہ نائب صدر جو بائیڈن کا ایک انٹرویو کے دوران کہا گیا ایک جملہ خالی از دلچسپی نہیں، جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ تاہم عیسائیت میں 13 کے عدد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ عشائے ربانی یا لاسٹ سپر میں حضرت عیسیؑ کے بارہ حواری تھے اور تیرھواں وہ تھا جس نے رومیوں سے ان کی مخبری کی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپ کے ممالک کی بیشتر بلند و بلا عمارتوں میں تیرھویں منزل نہیں ہوتی۔ اگر آپ لفٹ میں جا رہے ہوں تو بارھویں کے بعد چودھویں منزل آ جاتی ہے۔

صیہونی سمبلزم ڈالر سے نکل کر دنیا کے ہر خطے، ہر شعبے میں سرایت کر چکا ہے۔ مشروبات اور بڑی بڑی کثیر قومی کمپنیوں کی مصنوعات سے لے کر ہالی وُڈ بالی وُڈ فلم، میوزک اور کارٹون انڈسٹری، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ، اشتہارات اور بل بورڈز تک ہر جگہ اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور اسے لوگوں خصوصاً بچوں کی نفسیات کو تحت الشعوری طریقوں اور چالاکی سے بدلنے اور اور ایک خاص نوع کی ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تمکنت، نخوت اور شوخ چشمی دکھائی جاتی ہے اور درپردہ مقاصد کا پرچار کیا جاتا ہے۔ صیہونی علامتیت کے ذریعے اپنا اظہار کہیں نہ نہیں کسی نہ کسی طریقے سے ضرور کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے لوگو میں دنیا کا نقشہ جن دو شاخوں پر رکھا گیا ہے ان کی پتیوں کی تعداد تیرہ تیرہ ہے۔ اسی طرح گلوب کو 33 خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو فری میسنری کے اونچے ترین درجے کی نشانی ہے۔ فیس بک کے مین لاگ ان پیج پر دنیا کا جو نقشہ آتا ہے اس میں دکھائے گئے بندوں کی تعداد بھی 13 ہے۔ اسی طرح جب لفظ فیس بک کو علم الاعداد کے مطابق ڈی کوڈ کیا جائے تو 13 کا ہندسہ بنتا ہے۔ اور تو اور ویٹی کن میں پوپ کے منبر پر پیرامڈ اور ایک آنکھ کا سمبل بنا ہوا ہے اور پوپ کی تاج نما ٹوپی میں اسٹار آف ڈیوڈ نمایاں طور پر کندہ ہے۔ پاکستانی میڈیا میں بھی یہ سمبلزم اپنی جھلک دکھاتا رہتا ہے۔ ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے 14 اگست کو ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے پروگراموں میں پاکستانی پرچم کے ستارے کو پانچ کے بجائے چھ کونوں والا سٹار آف ڈیوڈ دکھایا اور حیرت ہے کہ سرکاری یا عوامی کسی سطح پر کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا حالانکہ پرچم کے نشان کو تبدیل کرنا قومی جرم ہونا چاہیئے۔ ایک چینل کے لوگو میں تو پیرامڈ کا سمبل اور وَن ورلڈ کے الفاظ تک شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک چینل پر دکھائے جانے والے ایک ڈرامے کے مرکزی کردار نے ایک آنکھ کے سمبل والی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ ایک اور چینل پر ایک مشہور پاکستانی گلوکارہ نے جو بندے پہنے ہوئے تھے ان میں پیرامڈ اور ایک آنکھ کا سمبل بنا ہوا تھا۔ آجکل اکثر بل بورڈز پر اشتہارات میں چہروں پر ایک آنکھ کو چُھپا یا ڈھکا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ پوری دنیا میں فلم، میوزک ، میڈیا اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے لے کر کارپوریٹ سیکٹر اور سیاست تک میں فری میسانک سمبلز کا اظہار اور پرچار ہوتا ہے۔

یہ ایک اجمالی خاکہ ہے جبکہ سمبلزم ایک بڑا اور وسیع موضوع ہے جس کے ذریعے دنیا میں وقوع پذیر اور پیش آئند بڑے بڑے واقعات کے خفیہ عوامل کو سمجھنا مشکل نہیں۔۔ صیہونیت کے اس پس منظر میں بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، شمالی، جنوبی اور وسطی ایشیا اور بحیرہ ء روم سے متصل ممالک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کے درمیان ایک بڑا ٹکراؤ ناگزیر ہے۔ صیہونیت ایک بڑے انتشار کی منتظر اور ون ورلڈ آرڈر کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس کی خاطر تیسری عالمی جنگ ایک فالس فلیگ ہو سکتی ہے۔

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button