بچوں کا ادب

سر سبز اجالے سے نیلگوں ہالے تک/ کنول بہزاد

 

ریحان کے گھر میں جشن آزادی ہمیشہ بہت دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔۔۔ وہ لوگ جھنڈیوں سے سارے گھر کو سجاتے۔۔۔ محلے کے بچوں میں مٹھائی تقسیم کرتے ۔۔۔چھت پر پرچم کو لہراتے…ترانے گاتے۔۔۔ اور ہاں ایک اور خاص بات اس دن ریحان کی دادی ماں ناصرف اپنےگھر کے صحن میں ضرور کچھ نئے پودے لگاتیں۔۔۔ اس دوران وہ اپنے بچوں اور ان کے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتیں۔۔۔ بچے اس سرگرمی سے بہت خوش ہوتے۔۔۔مٹی کی خوشبو ہر سو پھیل جاتی ۔۔۔دادی مٹی کو مٹھی میں بھر کر سونگھتیں ۔۔۔تو ناجانے کیوں ان کی آنکھیں جھلملانے لگتیں۔۔۔
ریحان کہتا۔۔۔
” دادی ماں آپ اداس کیوں ہو گئیں ؟ ”
تو وہ فورا مسکرا دیتیں۔۔۔
اور کہتیں کہ یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔۔۔ پھر ریحان کو بتاتیں کہ آزادی جیسی نعمت کے لیے لوگوں نے کیسی کیسی قربانیاں دیں ۔۔۔وہ اسے سمجھاتیں کہ ہمیں ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔۔۔ ہمارا وطن بھی ان پودوں کی طرح ہے اگر ہم نے اس کی حفاظت نہ کی، اس کی آبیاری نہ کی ۔۔۔تو یہ بھی پھل پھول نہیں پائے گا۔۔۔ ہم نے اسے سر سبز رکھنا ہے۔۔۔ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے رہنا ہے۔۔۔اس وطن کے سارے باسی برابر کی عزت اور حقوق کے حامل ہیں ۔۔۔ پھر وہ سبز ہلالی
پرچم کو بوسہ دے کر کہتیں۔۔۔یہ سرسبز اجالا جو ہر سو ہمارے وطن میں بکھرا ہے ۔۔۔یہ ہمارے وطن کی پہچان ہے ۔۔۔اللہ نے ہمارے وطن کو ہر نعمت سے نوازا ہے ۔۔۔ہمیں ان نعمتوں کی قدر کرنی ہے اور ان کی حفاظت کرنی ہے اور ہمیشہ شکر گزار رہنا ہے ۔۔۔شکر گزار رہنے سے ہی نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔

ریحان دادی کی باتیں بہت غور سے سنتا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا۔۔۔ نئے لگائے ہوئے پودوں کو وہ باقاعدگی سے پانی دیتا ان کا خیال رکھتا اور ان کے بڑے ہونے کا انتظار کرتا ۔۔۔جب وہ پودے خوب پھل پھول جاتےتو ریحان کی خوشی دیدنی ہوتی ۔۔۔دادی بھی اسے خوب شاباش دیتیں ۔۔۔

ایک بار وہ سب گھر والے شمالی علاقہ جات کی سیر کو گئے۔۔۔جن کے سرسبز پہاڑ، نیلے اور سبز پانیوں والی جھیلیں، جھرنے اور چشمے سچ میں انہیں جنت نظیر بنائے ہوئے تھے۔۔۔سب کا وہاں بہت ہی خوبصورت وقت گزرا۔۔۔ بھرپور سیرو سیاحت کے بعد جب وہ اپنی گاڑی میں واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک دم ریحان خوشی سے چلایا۔۔۔ ” وہ دیکھیں پہاڑ پر ہمارا سبز ہلالی پرچم جگمگا رہا ہے۔”
سب نے دیکھا تو واقعی وہاں پر سبزے نے ایسی قدرتی تصویر سی بنا دی تھی کہ ۔۔۔پاکستان کا پرچم بن گیا تھا ۔۔۔
” مجھے اپنے وطن کے سرسبز اجالے سے محبت ہے۔۔۔میں آسمان کے نیلگوں ہالے تک اس کی حفاظت کروں گا ۔۔۔”

تیرہ سالہ ریحان جذب کی سی کیفیت میں بولا ۔۔۔
گاڑی میں بیٹھے اس کے والدین اور دادی ریحان کا یہ جملہ سن کر حیران رہ گئے ۔۔۔
دادی نے بے اختیار اس کی روشن پیشانی چوم لی۔۔۔

کچھ عرصہ مزید گزرا تو ریحان پر جیسے ایک ہی دھن سوار ہو گئی کہ وہ ائیر فورس میں جائے گا اور فضائی سرحدوں کی حفاظت کرے گا ۔۔۔اپنے وطن کی نیلگوں وسعتوں میں کسی دشمن کو نہیں گھسنے دے گا ۔۔۔چاہے اسے اپنی جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے ۔۔۔

وقت کا کام گزرنا ہے سو وہ تیزی سے گزرتا رہا ۔۔۔ریحان اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے جہد مسلسل میں لگا رہا ۔۔۔

وہ ایک بڑا خوبصورت اور روشن دن تھا جب ریحان نے اپنے خواب کی تعبیر پالی۔۔۔وہ پاک فضائیہ کا فائٹر پائلٹ بن گیا ۔۔۔اب وہ نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں کسی شاہین کی طرح پرواز کرتا اور دشمنوں کو اپنی سرحدوں میں پھٹکنے کی اجازت تک نہ دیتا۔۔۔رہحان کی بہادری اور شجاعت کے قصے زبان زدعام تھے۔۔۔وہ چھٹیوں میں گھر آتا تو اس کے والدین اور دادی اس کی بلائیں لیتے نہ تھکتے ۔۔۔دادی اب کافی بوڑھی ہو چکی تھیں اور بیمار رہنے لگی تھیں ۔۔۔مگر ریحان کو سامنے پاکر خوشی سے کھل جاتیں۔۔۔اسے ڈھیروں دعائیں دیتیں۔۔۔

ان دنوں دشمن پھر سرگرم عمل تھا اور وطن کو نقصان پہنچانے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا ۔۔۔وطن کی فوج کے ہزاروں سپوت اس کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے ۔۔۔ریحان بھی ان میں سے ایک تھا ۔۔۔دشمن نے فضائی حدود پار کرنے کی کوشش کی تو ریحان نے ان کے چھکے چھڑا دیے ۔۔۔اور دشمن کے کئی جہاز مار گرائے ۔۔۔دشمن تو دم دبا کر بھاگ گیا ۔۔۔مگر ریحان کے فائٹر جہاز نے آگ پکڑ لی ۔۔۔ریحان چاہتا تو پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچا سکتا تھا مگر اس نے اس دھرتی اور اس کے لوگوں کی حفاظت کی قسم کھائی تھی ۔۔۔اس کا جلتا ہوا جہاز اس وقت ایک گنجان آباد گاؤں کے اوپر سے گزر رہا تھا ۔۔۔سو ضروری تھا کہ کسی بھی طرح جہاز کو آبادی سے دور لے جایا جائے ۔۔۔ریحان کے جذبوں میں بڑی صداقت تھی کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔۔۔اور اس جدوجہد میں شہادت اس کا مقدر ٹھہری ۔۔۔ جب اس کا جسد خاکی اس کے گھر لے جایا گیا تو علم ہوا کہ اس کی دادی ماں پہلے ہی اپنی آخری منزل کو روانہ ہو چکی ہیں ۔۔۔

ریحان کے والد نے بڑی ہمت اور حوصلے سے بیٹے کا جسد خاکی وصول کیا کہ یہ ایک شہید کا جسد خاکی تھا ۔۔۔ریحان کے چہرے پر فرشتوں جیسی مسکراہٹ تھی ۔۔۔وہ مسکراہٹ جو اپنی منزل پا لینے کے بعد فاتح کے چہرے پر خود بخود کھیلنے لگتی ہے ۔۔۔ ریحان کے والد نے اس کی کی ماں سے کہا ۔۔۔

” اب سمجھ میں آ یا کہ میری ماں پہلے ہی نیلے آسماں کی وسعتوں میں کیوں پہنچ گئیں ۔۔۔وہ وہاں اپنے پیارے اور بہادر پوتے کا شایان شان استقبال جو کرنا چاہتی تھیں۔۔۔ جس نے وطن کے سر سبز اجالوں سے آسماں کے نیلگوں ہالے تک کی حفاظت کی قسم کھائی تھی ۔۔۔

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button