امریکا، چین تجارتی محصولات میں کمی پر متفق/ اردو ورثہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی جنگ شروع کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ پہلی بات چیت ہے جس کے بعد دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں نے ایک مشترکہ بیان میں اتفاق کیا کہ وہ تین ہندسوں پر مشتمل محصولات کو دو ہندسوں تک لائیں گے اور مذاکرات جاری رکھیں گے۔
امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے چینی نائب وزیر اعظم ہی لی فینگ اور بین الاقوامی تجارتی نمائندے لی چنگ گانگ کے ساتھ اختتام ہفتہ پر ہونے والی بات چیت کو ’مؤثر‘ اور ’ٹھوس‘ قرار دیا۔
بیسنٹ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں جانب سے زبردست احترام کا مظاہرہ کیا گیا۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ماہ چین سے درآمدات پر 145 فیصد ٹیکس عائد کیا جب کہ دنیا کے دیگر ممالک پر لگائی گئی عالمی تجارتی محصولات کی مہم کے تحت یہ شرح 10 فیصد ہے۔
بیجنگ نے جوابی کارروائی میں امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی۔
بیسنٹ نے کہا کہ دونوں فریقین نے ان محصولات میں 115 فیصد پوائنٹس کی کمی پر اتفاق کیا جس کے بعد امریکی محصولات 30 فیصد اور چین کی جانب سے عائد کردہ ڈیوٹی 10 فیصد رہ جائے گی۔
اپنے مشترکہ بیان میں، دونوں ممالک نے ’معاشی اور تجارتی تعلقات پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے ایک نظام قائم کرنے‘ پر بھی اتفاق کیا۔
چین نے ان مذاکرات میں ہونے والی ’نمایاں پیش رفت‘ کو سراہا۔
چینی وزارت تجارت نے کہا کہ ’یہ اقدام دونوں ممالک کے مفاد میں ہے اور دنیا کے مشترکہ مفاد میں بھی ہے‘ اور اس امید کا اظہار کیا کہ واشنگٹن چین کے ساتھ مل کر ’یکطرفہ محصولات میں اضافے کے غلط طرز عمل‘ کو درست کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
ڈالرکی قیمت جو اپریل میں ٹرمپ کی جانب سے محصولات کی مہم شروع کرنے کے بعد گر گئی، اس خبر کے بعد سنبھل گئی جب کہ امریکی سٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس میں زبردست اضافہ ہوا۔ یورپی اور ایشیائی منڈیاں بھی بہتر ہو گئیں۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی تنازع نے مالیاتی منڈیوں کو جھنجھوڑ دیا جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ یہ محصولات مہنگائی کو دوبارہ بڑھا دیں گی اور عالمی معاشی سست روی کا باعث بنیں گی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مستقبل کے لیے نیک شگون‘
عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی سربراہ نگوزی اوکونجو-ایویلا نے اتوار کو ان مذاکرات کو ایک ’اہم پیش رفت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’مستقبل کے لیے خوش آئند ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’موجودہ عالمی تناؤ کے درمیان، یہ پیش رفت صرف امریکہ اور چین کے لیے ہی نہیں بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی اہم ہے، خصوصاً ان معیشتوں کے لیے جو سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔‘
اقوام متحدہ میں سوئٹزرلینڈ کے سفیر کی جنیوا میں نجی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات سے قبل ٹرمپ نے اشارہ دیا تھا کہ وہ محصولات کم کر سکتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر کہا کہ ’چین پر 80 فیصد ٹیکس مناسب لگتا ہے۔‘
تاہم بعد میں وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے وضاحت کی کہ امریکہ یکطرفہ طور پر محصولات میں کمی نہیں کرے گا اور چین کو بھی رعایتیں دینا ہوں گی۔
جنیوا میں ہونے والی ملاقات اس کے چند روز بعد عمل ہوئی جب ٹرمپ نے برطانیہ کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے کا اعلان کیا، جو ان کی جانب سے عالمی سطح پر محصولات کی مہم شروع کرنے کے بعد کسی بھی ملک کے ساتھ پہلا معاہدہ ہے۔
یہ پانچ صفحات پر مشتمل غیر پابند معاہدہ تشویش میں مبتلا سرمایہ کاروں کے لیے اس بات کی تصدیق ہے کہ واشنگٹن حالیہ محصولات سے شعبہ وار ریلیف پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
تاہم ٹرمپ نے زیادہ تر برطانوی اشیا پر 10 فیصد محصول برقرار رکھا اور دھمکی دی کہ یہی شرح دیگر بیشتر ممالک کے لیے بنیادی ٹیرف کے طور پر نافذ رکھی جا سکتی ہے۔