جنگ کا مستقبل اب ڈرون ہوں گے؟/ اردو ورثہ

روس اور یوکرین کی جاری جنگ میں دنیا نے پہلی بار ٹھیک سے دیکھا کہ ڈرون روایتی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ مؤثر، خاموش اور کم قیمت جنگی ہتھیار بن چکے ہیں۔
یوکرین نے ابتدائی دنوں میں ترک ساختہ بیرکتار ڈرونز کے ذریعے روسی فوجی کانوائے، ٹینک اور ریڈار نظام کو جس طرح نشانہ بنایا، اس سے عالمی عسکری حلقے چونک اٹھے۔ اس جنگ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ چھوٹے ممالک بھی اب بڑی افواج کو غیر روایتی انداز میں چیلنج کر سکتے ہیں۔
روس نے بعد میں ایرانی ساختہ شاہد ڈرونز کے ذریعے یوکرین کے شہروں پر بڑے پیمانے پر حملے کیے۔
یہ ڈرونز اپنے ہدف کے لیے منڈلا کر انتظار کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی تباہ کن حملہ کر کے فیصلہ کن نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ پیدل فوج یا لڑاکا طیاروں کی بجائے اب ڈرونز نہ صرف میدانِ جنگ بلکہ شہروں میں بھی تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں بھی ڈرونز کا کردار نمایاں رہا۔ جمعے کی صبح 11 بجے تک پاکستانی فوج نے انڈیا کے 35 ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا جبکہ انڈیا نے بھی پاکستانی ڈرون حملوں کا الزام عائد کیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا جیسا غریب یا ترقی پذیر خطہ بھی اب مکمل طور پر ڈرون وار فیئر کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
ریڈار پر مشکل سے آنا، نسبتاً سستا ہتھیار ہونا اور کسی پائلٹ کی ضرورت نہ ہونا، ڈرون کو جدید جنگ کا اہم ترین ہتھیار بنا چکے ہیں۔
چین، امریکہ، اسرائیل اور ترکی جیسے ممالک پہلے ہی اپنے ڈرون پروگرامز کو وسعت دے چکے ہیں۔ اب پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے اپنے ملکی ساختہ ’شاہپر‘ اور ’براق‘ ڈرونز کو اَپ گریڈ کیا ہے جبکہ انڈیا اسرائیلی اور امریکی ڈرونز کے ساتھ ساتھ اپنے مقامی پروگرامز پر بھی کام کر رہا ہے۔
روس-یوکرین اور پاکستان-انڈیا تناظر میں اگر دیکھا جائے تو روایتی جنگ کے اصول تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اب مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈرونز کو زیادہ خطرناک بناسکتے ہیں، جو جنگ کو طویل اور پیچیدہ بھی بنا سکتے ہیں۔
اگلی دہائی میں جنگی برتری کا فیصلہ یقینی طور پہ ڈرونز، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور خودکار ہتھیار کریں گے۔