زندہ مایوسیاں / تبصرہ : منیرفراز

عقیلہ منصور جدون کے تراجم کے سفر کا چوتھا پڑاؤ اُن کا ترجمہ کردہ نیا ناول ” زندہ مایوسیاں” کے نام سے شائع ہوا ہے جس کی پزیرائی اِن دنوں سوشل میڈیا پر جوش و خروش سے جاری ہے ۔ اِس سے قبل عقیلہ منصور جدون تین کتب کی خالق ہیں جو تمام کی تمام عالمی ادب کے تراجم پر مشتمل ہیں ۔ مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ اُن کے یہ چاروں مجموعے اُن کے دستخطوں کے ساتھ میرے کتب خانے کی شیلف پر موجود ہیں اِس پر مستزاد یہ کہ چاروں کتب مترجم کے دستِ عنایت سے مجھ تک پہنچی ہیں ۔ ایک اور حُسنِ اتفاق یہ کہ مترجم کے عالمی افسانوں کے تراجم کی کتاب "کل ہو نہ ہو” میں میرا تعارفی مضمون بھی شامل ہے ۔ اِن تمام نسبتاً غیر اہم باتوں کا اظہار اِس لئے ضروری ہے کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ میرا بطور قاری، عقیلہ منصور جدون سے رشتہ کتنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔ اب اس تناظر میں اگر مَیں اُن کے تراجم کے فنی پہلوؤں پر رائے دوں گا تو مجھے کم از کم رعایتی نمبروں سے پاس ضرور کر دیا جائے گا ۔
سرِدست میں اُن کے تراجم کے نئے مجموعہ "زندہ مایوسیاں” پر چند ایک باتیں عرض کروں گا جس میں عقیلہ منصور جدون کے فنِ ترجمہ کی صلاحیتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے ۔ یہ کتاب چند ہفتوں قبل مجھے موصول ہوئی تھی، پہلی نظر میں مَیں نے کتاب کی ورق گردانی میں چند صفحے پڑھے، طباعت و اوراق کا جائزہ لیا اور کتاب گاہے گاہے پڑھنے کے لئے رکھ دی ۔ میں اب بھی یہ کتاب کم مطالعہ تسلسل کے ساتھ پڑھ رہا ہوں ۔ ہمارے ہاں ناولوں یا طویل فکشن پر تبصرے کے لئے ایک جملہ رائج ہے اور وہ یہ کہ ” کتاب اتنی دلچسپ تھی کہ اسے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا ” ۔ شاید یہ کسی اچھے قاری یا مبصر کے لئے قابلِ قبول ہو لیکن میں اردو ناول یا ترجمے کو قدرے ٹھہراؤ کے ساتھ پڑھتا ہوں ، بالکل اُسی طرح جس طرح مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ ناول لکھا گیا ہوگا ، رک رک کر ،سگریٹ کے کش کھینچ کر ، کافی کی خوشبو کے نرغے میں، راتیں جاگ کر، خوشی و انسباط اور لفظوں میں چُھپے درد کی تمام منزلوں کو محسوس کر کے ۔ "زندہ مایوسیاں” کے ترجمہ کے بارے میں بھی میرا یہی گمان ہے کہ اسے مترجم نے ماسوائے سگریٹ کے کش کے، تمام مراحل سے گزر کر ترجمہ کیا ہے اس لئے کہ یہ تمام کیفیات ترجمہ سے عیاں ہو رہی ہیں ۔ یہ ایک انتہائی اہم ناول ہے جسے برطانوی مصنف میٹ ہیگ نے "مڈ نائٹ لائبریری” کے عنوان سے لکھا ہے ۔ اگرچہ کہ مجھے اس ناول کا اردو عنوان اجنبی اور غیر مانوس لگا ہے لیکن اردو ترجمے کے لئے اِس ناول کا انتخاب قابلِ ستائش ہے کہ اِس میں تلخیوں اور مصائب کے درمیان زندگی دوڑتی گاتی نظر آتی ہے ۔ یہ ایک زندگی آمیز ناول ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے جہاں مایوسیوں اور ناکامیوں کے سیاہ بادل مستقل ہمارے سروں پر ہیں . ساڑھے تین سو سے زائد صفحات کے ناول کو 72 مختصر ابواب میں تقسیم کر کے اُن قارئین کے لئے بھی سہولت پیدا کر دی گئی ہے جو طویل تحریروں سے اکتائے بیٹھے ہیں ۔ آپ کی طبیعت میں جس حد تک قرات کا ضبط ہے ، ایک دو باب پڑھ لیں، کتاب رکھ دیں اور جب طبیعت مائل ہو، قرات کی طرف لوٹ آئیں ۔ میں نے خود اسی فارمولے پر عمل کیا ۔
میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ عقیلہ منصور جدون کے فن ترجمہ نگاری کی صلاحیتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا تو میں اُسی طرف لوٹ رہا ہوں ۔ پہاں ایک واقعہ کا اظہار بہت ضروری ہے جس سے آپ کو عقیلہ منصور جدون کی اپنے فن کے ساتھ سنجیدہ وابستگی کاعلم ہوگا ۔ مجھے چند ماہ قبل ایک روز واٹس ایپ پر اُن کا ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے اردو لفظ "پچھتاوا” کے لئے صیغہ جمع ، لاحقہ اور سابقہ کے بارے میں دریافت کیا، وہ غالباً صیغہ جمع میں اس کی ترکیب جاننا چاہتی تھیں مجھے انہوں نے بتایا کہ وہ اس بابت اپنی کولیگ ، اردو کی پروفیسر اور نامور افسانہ نگار مصباح نوید سے بھی رابطہ میں ہیں . بات درمیان میں ختم ہوگئی اور میں اس روزمرہ گفتگو کو بھول گیا ۔ اب جب میں نے عقیلہ منصور جدون کے ناول "زندہ مایوسیاں” کے سرسری مطالعہ کے دوران ایک ورق پلٹا تو اس ناول کے باب نمبر 13 پر میری نظر پڑی ، عنوان تھا "پچھتاوؤں کا بوجھ” مجھے عقیلہ منصور جدون کی پچھلی ساری گفتگو یاد آئی ۔ مجھے اس واقع سے فرحت محسوس ہوئی کہ ایک مترجم محض ایک لفظ کی وضاحت کے لئے کس حد تک جاسکتا ہے ۔ اب اس ایک واقعہ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہزاروں الفاظ پر مشتمل ناول کے ترجمہ کے لئے مترجم کا کتنا خون جلا ہوگا ۔ مَیں نے عقیلہ منصور جدون کی اِس مشقت کے عوض ناول پر چڑھا جانے والا رنگ اُن کے ناول میں جا بجا دیکھا ہے ۔ ناول انتہائی سادہ اسلوب اور شائستہ زبان میں ترجمہ ہوا ہے، پڑھنے والے کو مفہوم سمجھنے کے لئے کوئی مشقت نہیں کرنا پڑتی، کہانی جملوں اور مکالموں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، نہ لفظ آگے نکلتے ہیں نہ پڑھنے والا کہیں عبارت کے مفہوم میں رہ جاتا ہے ۔ مدعا کی ترسیل سہل ہے علامتوں، استعاروں کا نظام بہت عمدہ ہے ۔کہانی کی دلچسپی اور دلکشی جو میٹ ہیگ نے دانستہ قائم رکھی، اسے اردو ترجمہ میں اسی دلکشی کے ساتھ منتقل کیا ہے. مختصر جملوں کو زبان کی دلکشی سے آراستہ کیا ہے اور طویل جملوں کو کوما سے الگ کر کے مفہوم کو بہت آسان بنایا گیا ہے ۔ آپ جب اس ناول کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو کثرت سے ایسی سطریں ملیں گی جو ضرب المثل محسوس ہوتی ہیں ۔ میں نے عقیلہ منصور جدون کے تراجم کا تقریباً تمام کام پڑھا ہے. انہوں نے آغاز بہت احتیاط سے کیا تھا اُن کے ابتدائی تراجم میں یہ خوف واضح نظر آتا ہے لیکن مذکورہ ناول میں وہ فن کی جس بلندی پر ہیں اُس کے احاطہ کے لئے دو چار پیراگراف کا مضمون ناکافی ہوگا یہ مقام اُن کی مسلسل ریاضت اور کام سے مخلصی کا نتیجہ ہے ۔ یہ ترجمہ بلاشبہ ناول کے درد کو مکمل جذب کر کے کیا گیا ہے ۔
ناول کا آغاز بیڈ فورڈ شہر کی ایک چھوٹی سی اسکول لائبریری سے ہوتا ہے جہاں ناول کے دو مرکزی کردار لائبریرین مسز ایلم اور ایک طالبہ نورا سیڈ شطرنج کی بساط بچھائے کھیل اور گفتگو میں مصروف ہیں، یہ گفتگو نورا سیڈ کے مستقبل کے بارے میں ہے ۔ ناول کا اختتام بھی ماہ و سال گزرنے کے بعد اسی شطرنج کی بساط اور انہی دو کرداروں کے مابین گفتگو پر ہوتا ہے ۔ اب سارا ناول اسی درمیانی مدت کی کہانی ہے جس میں زندگی کے نشیب و فراز، تلخ انسانی رویے، کرداروں کی نفسیات ،جدو جہد اور زندگی سے مسلسل جنگ کے پہلوؤں پر بڑی دانشمندانہ بحث کی گئی ہے. یہ ساری کہانی اور کرداروں کے مکالمے موٹیویشنل بنیادوں پر قائم ہیں، میٹ ہیگ اسی سلوب کے لئے جانا جاتا ہے اور اس کا ایک ناول ” زندہ رہنے کی وجہ ” جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، بھی اسی سبب سے مشہور ہے ۔ "زندہ مایوسیاں” کی تھیم اگر آپ مختصراً جاننا چاہتے ہیں تو میں اسے ناول ہی کے چند اقتباسات سے واضح کر دیتا ہوں اس سے عقیلہ منصور جدون کے ترجمہ کے معیار کی ہلکی سی جھلک بھی واضح ہو جائے گی ۔
1 "پچھتانا اور مسلسل پچھتاتے رہنا آسان ہے. یہ زندگیاں جنہیں نہ جینے کا ہمیں پچھتاوا ہے ، مسئلہ نہیں ہے. اصل مسئلہ تو خود پچھتاوا اور مایوسیاں ہیں”
2 "بے شک ہم ہر جگہ نہیں جاسکتے، ہر شخص سے نہیں مل سکتے. یہ جاننے کے لئے کہ جیت کر کیا محسوس ہوتا ہے ، ہر کھیل کھیلنا ضروری نہیں ہے. موسیقی کو سمجھنے کے لئے موسیقی کا ہر ٹکڑا سننا ضروری نہیں ہے. شراب سے خوشی حاصل کرنے کے لئے انگور کے ہر باغ سے ہر انگور چکھنا ضروری نہیں ہے”
3 ” وہ اب یہ محسوس نہیں کرتی تھی کہ اس کا وجود دوسروں کے خواب پورے کرنے کے لئے تھا ”
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناول سوچ میں توانائی بھر دیتا ہے اور ایک مایوس شخص پچھلے پچھتاوے اور مایوسیاں بھول کر ایک نئی زندگی کی طرف چل سکتا ہے، زندگی جہاں سے ہاتھ آئے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کا ہمسفر بن سکتا ہے . کہئے کہ آج کے عہد میں دنیا کے ہر خطے میں کیا اس پیغام کی ترسیل کی ضرورت نہیں ہے؟ ۔ عقیلہ منصور جدون نے اس ناول کا انتخاب کر کے اسی آواز کو بلند کیا ہے ۔
یہ ناول سٹی بُک پوائنٹ نے عمدہ ورق اور طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ مزید برآں حال ہی میں انڈیا کے ایک اشاعتی ادارہ نے بھی اس ناول کو اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ یہ پزیرائی بجائے خود ترجمہ نگار کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے ۔
میری یہ چند سطریں بھی عقیلہ منصور جدون کے فن کو خراج تحسین ہے کہ اُن سے تخلیق کار اور قاری کا رشتہ مستحکم بنیادوں پر قائم ہے ۔