انڈیا: نکسلی باغیوں کے خلاف ریاستی کارروائیوں میں عام دیہاتی نشانے پر/ اردو ورثہ

جب انڈیا کے نکسلی باغیوں نے ان کے والد کو جاسوسی کے الزام میں قتل کر دیا، تو نوجوان قبائلی نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور ایک متنازع نیم فوجی دستے میں شامل ہو گئے جو ان باغیوں کا پیچھا کر رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈز (ڈی آر جی) کے رکن 21 سالہ نوجوان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے لڑ رہے ہیں لیکن وہ ہمیں ہی مار دیتے ہیں۔‘
انڈیا، نکسل باڑی بغاوت کی باقی ماندہ جڑوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے، جس کا نام ہمالیہ کے دامن میں واقع دارجیلنگ کے گاؤں پر رکھا گیا ہے، جہاں تقریباً چھ دہائی قبل ماؤ نواز نظریے سے متاثر ہو کر چھاپہ مار تحریک کا آغاز ہوا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1967 میں چند دیہاتیوں کے اپنے جاگیرداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے بعد سے اب تک 12 ہزار سے زائد باغی، فوجی اور عام شہری جان سے جا چکے ہیں۔
2000 کی دہائی کے وسط میں اپنی انتہا پر، یہ بغاوت ملک کے تقریباً ایک تہائی حصے پر قابض تھی اور اس کے عسکریت پسندوں کی تعداد 15 ہزار سے 20 ہزار کے درمیان تھی۔
لیکن مشرقی اور وسطی انڈیا میں پھیلے ہوئی ’سرخ رہداری‘ کو، جہاں متوازی نظام حکومت قائم تھا جس میں سکول اور ہسپتال بھی شامل تھے، وقت کے ساتھ بے دردی سے کچل دیا گیا۔
گذشتہ سال کے آغاز سے سکیورٹی فورسز نے تقریباً 400 مشتبہ باغیوں کو جان سے مارا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے آئندہ اپریل تک ان کا مکمل خاتمہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
ماؤ نواز عسکریت پسندوں کی زیادہ تر ہل بغاوت کے آخری گڑھ میں ہوئی جو وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے معدنیات سے بھرپور جنگلاتی علاقے بستر میں واقع ہے، جہاں پولیس کے مطابق اب بھی تقریباً 1200 باغی چھپے ہوئے ہیں۔
عام شہریوں کا قتل
رامیشور نیگی کو گذشتہ سال اس کے گھر کے قریب جنگل میں گولی مار کر جان سے مار دیا گیا۔ پولیس نے اس قتل کا جواز یہ پیش کیا کہ ان کے پاس اسلحہ اور ماؤ نواز لٹریچر تھا۔
ان کی سوگوار بیوی سومری نے کہا کہ وہ تو ایک عام کسان تھے۔
40 سالہ سومری نے اے ایف پی کو اپنے کچے گھر، جو گھنے جنگل کے کنارے واقع ہے جہاں اس کا شوہر خوراک کی تلاش کرتا تھے، سے بتایا کہ ’انہوں نے ایک بے گناہ شخص کو مار ڈالا۔‘
سومری نے مزید کہا کہ ’ہمارے گھر میں کوئی بندوق نہیں۔ وہ ہمیشہ کی طرح صرف ایک کلہاڑی لے کر گئے۔‘
ان کے ساتھ دو اور افراد بھی مارے گئے، جن میں 31 سالہ سریش ٹیٹا شامل ہیں جو اسی گاؤں کا رہائشی تھے۔
ان کے بھائی دینیش نے کہا کہ وہ ماؤ نواز باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سریش باغی نہیں تھے۔
’حکومت جو کر رہی ہے وہ درست ہے، لیکن یہ ناقابل قبول ہے کہ وہ میرے بھائی جیسے نہتے عام شہریوں کو مار رہے ہیں۔‘
کئی دیہاتیوں نے بتایا کہ اگرچہ ماردا گاؤں کے بہت سے مرد اور عورتیں ماؤ نوازوں میں شامل ہو چکے تھے، لیکن اس صبح جو تین افراد مارے گئے وہ ان میں شامل نہیں تھے۔