دریائے سندھ پر نہروں کا معاملہ، بلاول کا الزام ’جھوٹا‘ ہے: عارف علوی/ اردو ورثہ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دریائے سندھ سے نہروں کے معاملے پر الزامات کو سابق صدر پاکستان عارف علوی نے ’جھوٹا‘ قرار دے دیا۔
جمعرات کو سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک تقریر میں دعویٰ کیا کہ ’متنازع نہروں کے منصوبے کا فیصلہ نگران حکومت کے دور میں کیا گیا تھا، اس وقت ایوان صدر پر تحریک انصاف کے عارف علوی کا قبضہ تھا۔‘
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب مشترکہ مفادات کونسل دریائے سندھ میں سے نئی نہریں نکالنے کا منصوبہ صوبوں کے مابین اتفاق رائے پیدا ہونے تک روک چکی ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے 28 جولائی کو جاری کیے گئے اعلامیے میں ’باہمی افہام و تفہیم کے بغیر کوئی نئی نہریں نہ بنانے اور صوبائی حکومتوں کو پاکستان بھر میں زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے لانگ ٹرم اتفاق رائے کا روڈ میپ تیار کیے جانے‘ کا کہا گیا ہے۔
اس ضمن میں سابق صدر عارف علوی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو جواب میں انڈپینڈنٹ اردو کو بیان کے بجائے ایک دستاویز بھجوائی گئی۔
اس میں صدر عارف علوی کی جانب سے ’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2024 کے بارے میں وزیر اعظم کے مشورے کو مسترد‘ کیا گیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دستاویز، جو کہ ایک اختلافی نوٹ ہے، پر چھ فروری 2024 کی تاریخ درج ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے آئندہ انتخابات کے پیش نظر صدر کے خیال میں یہ اقدام ’غیر ضروری ہے۔ اور یہ اہم بل انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔‘
عارف علوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو براہ راست کوئی بیان دینے کے بجائے سماجی رابطے کی ویب سائٹس ایکس پر کی گئی پوسٹ بھجوائی جس کے مطابق، ’تمام تر دباؤ کے باوجود میں نے ارسا ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کرنے سے کیسے انکار کیا اور کیوں؟ چھ نہروں کی کہانی اور سندھ میں زبردست احتجاج کیوں جاری ہے؟ کسی کو صوبائی حقوق کے تحفظ کے لیے موقف اختیار کرنا ہے اور اس طرح میرے پیارے پاکستان کو بچانا ہے۔‘
اس سے قبل نو اپریل کو دیے گئے ایک ویڈیو بیان میں عارف علوی نے کہا کہ ’دریائے سندھ پر چھ نہریں بنانے، اور سندھ کا پانی تقسیم کرنے کا آرڈیننس میرے پاس بھی آیا تھا۔ قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے کہا ’اوور مائی ڈیڈ باڈی، یہ تقسیم ممکن ہی نہیں میرا تعلق بھی سندھ سے ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا، میرے جاتے ہی آصف زرداری نے آرڈیننس پر دستخط کر دیے۔‘
تاہم صدر کی جانب سے وزیر اعظم کو بھیجی گئی دستاویز میں بل پر اعتراض کے بجائے اسے ’پارلیمان کے سامنے پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔‘
اس معاملے پر ایوان صدر کے عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’جنوری 2024 میں نگران حکومت نے اس وقت کے صدر عارف علوی کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی آرڈیننس پیش کیا۔ جس پر صدر نے دستخط نہیں کیے اور چھ جنوری کو واپس کر دیا۔‘
عہدے دار کے مطابق 16 فروری کو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن شائع کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدر نے آرڈیننس پر دستخط کر دیے ہیں۔ تاہم 14 مارچ کو جاری نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا تھا۔
دوسری جانب ایوان صدر کور کرنے والی صحافی نوشین یوسف اس حوالے سے کہتی ہیں وزیر اعظم نے جب کوئی آرڈیننس جاری کروانا ہو تو وہ اسے صدر کو دستخط کے لیے بھیج دیتا ہے۔ صدر کے اس پر دستخط کرنے کے بعد اسے جاری کرتا ہے۔ عام طور پر ایسا تب کیا جاتا ہے جب حکومت فوری طور پر کوئی قانون لاگو کرنا چاہ رہی ہوتی ہے۔ عمومی طور پر آرڈیننس جاری کرنے کے لیے یقینی بنایا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس منعقد نہ ہو رہے ہوں۔‘
نوشین کے مطابق ’صدر کے پاس آرڈیننس واپس بھیجنے کا یا اس پر اعتراض لگانے کا کوئی اختیار ہے، تو اس پر آئین خاموش ہے۔ اگر مخالف حکومت کا صدر ہو تو ایسے میں حکومتیں عام طور پر سینیٹ و قومی اسمبلی سے بل منظور کروا لیتی ہیں۔‘
فروری 2024 کے انتخابات سے قبل پی ڈی ایم کی نگران حکومت نے پاکستان میں دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے نگران وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے متعلق قانون میں ترامیم کی تجویز دی، اور بعد میں دریائے سندھ پر مجوزہ چھ کینالز کی تعمیر کے خلاف سندھ میں احتجاج کا آغاز ہوا۔
مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں نے ریلیاں نکالنے کے ساتھ کئی مقامات پر دھرنے بھی دیے۔