اردو سے بیگانگی: نظامِ تعلیم کی خودساختہ غفلت / تحریر: راحت فاطمہ ظفر

اپنی ایک دوست کے ساتھ اس کے بیٹے کے داخلہ کے سلسلے میں ایک نجی ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا۔
سکول کے مرکزی دروازے کی دیوار کے ساتھ ایک بہت بڑا فلیکس چسپاں تھا۔ جس پر اس سکول کی تعلیم کی بنیادی خصوصیات درج تھیں۔
جس میں سب سے اوپر بڑے حروف میں
Conceptual Study
لکھا ہوا تھا۔سکول کی عمارت شاندار تھی۔ اور موجودہ وقت کی تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا تھا۔ ہم پر پہلا تاثر بہت اچھا پڑا۔
صدر معلم سے ملنے کے بعد ہم ان کی اجازت سے تمام جماعتوں کا دورہ کرنے گئے۔
ایک جگہ ایک طالبہ کے ان الفاظ نے میرے قدم جکڑ لئے۔ وہ کہہ رہی تھی۔
” سر میرے پاپا کہتے ہیں کہ اردو اشعار کی تشریح کتاب سے یاد نہیں کرتے بلکہ اسے سمجھ کر خود سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں”
استاد کا جواب تھا۔
” تم ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی کہ خود لکھ سکو۔ اس لئے جو کہا ہے وہ کرو”
استاد کے اس جملے نے مجھے یکدم ہی افسوس اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔
وہ یقینا اددو کے معلم تھے۔
مجھے فی الوقت ان کے اردو لب ولہجہ میں "اردو” کی بہت کمی محسوس ہوئی۔
اور دوسرا فعل جو بہت پریشان کن تھا وہ اس بچی کو رٹا لگانے کی طرف راغب کرنا تھا۔
ہمارے تعلیمی ادارے اردو کی قدرو قیمت میں اضافہ کرنے کی بجاے اسے سرے سے ختم کرنے کی مہم پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔
چند ایک ادبی گھرانے جو اس مہم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں انہیں دقیانوسی خیالات کا مالک کہا جاتا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ بچوں میں انگلش الفاظ کے استعمال میں اضافہ کے لئے دستی لغت لگوائی جاتی ہے۔ جب کہ اردو کی کتاب میں اگر ایک لفظ کے تین معانی لکھے ہوں تو صرف ایک معنی ہی یاد کروایا جاتا ہے۔ باقی دو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح اردو کے ذخیرہ الفاظ اول جماعت سے لے کر ہفتم تک وہی رہتے ہیں۔ ان میں اضافہ ہی نہیں ہوتا۔
میں نے جماعت دوئم کے طالب علم کو اور جماعت ہفتم کے طالب علم کو ایک ہی لفظ سے جملہ لکھنے کو کہا۔ اور دونوں کو اپنی نگرانی میں فاصلہ پر بٹھا دیا۔ لفظ کتاب تھا۔
دونوں نے ایک جیسا ہی جملہ لکھا۔
یہ ایک کتاب ہے۔
اگر جماعت ہفتم کے طالب علم اور جماعت دوئم کے طالب علم کا تعلیمی معیار عمر کا فرق نہ رکھتے ہوے ایک جیسا ہی ہے۔ تو جماعت ہفتم کا طالب علم بھی اپنی ذہنی اور علمی عمر کے حساب سے جماعت دوئم کے طالب علم کے برابر ہے۔
موجودہ دور میں نظریاتی مطالعہ بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر طلبہ کو ان کا دماغ استعمال کرنے کی بجاے کتاب پر لکھے ہوے کو ہی رٹا لگانے کی ترغیب دی جاے گی تو ہمارے بچے بورڈ میں تو امتیازی نمبر حاصل کر لیں گے لیکن ذہنی طور پر مفلوج اور محتاج رہیں گے۔
یہ غلط رویہ سب سے زیادہ اردو کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے۔
جن گھروں میں بہت اعلی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے ان کے بچے نجی اداروں میں جا کر اس شرمندگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں انگلش اچھی طرح کیوں نہیں آتی۔ اردو کو اج کل کون پوچھتا ہے۔
یہ ہمارے تعلیمی اداروں کا بہت شرمناک رویہ ہے۔ اردو دشمن عناصر ہمارے درمیان رہ کر ہی ہماری رگوں میں اردو سے بیزاری کا زہر اتار رہے ہیں۔
اتنا نقصان غیروں نے نہیں پہنچایا اردو کو جتنا ہم خود پہنچا رہے ہیں۔
یہ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اسی کے لئے شاعر نے کہا تھا
اس گھر کو آگ لگ گئ گھر کے چراغ سے۔
اگر آج ہم اردو کے تحفظ کے لئے کوشش نہیں کریں گے تو وقت دور نہیں جب ہم اس سے محروم ہو جائیں گے اور ہماری پہچان کھو جاے گی۔
ہمارے تعلیمی اداروں کا قومی و ملکی فریضہ ہے کہ اردو کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات اٹھائیں۔ اور بچوں کو بتائیں
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاو گے