امن دشمنی الزامات کی جنگ / تحریر : سنیہ زہرہ

23 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں معصوم سیاحوں کی جانیں گنوانے والا افسوسناک واقعہ نہ صرف انسانیت کے لیے سانحہ ہے بلکہ اس کے فوری بعد بھارت کی جانب سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنا ایک روایتی حربہ ثابت ہوا۔ پاکستان نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور واضح کیا کہ اس سانحے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کسی بھی نام پر ناقابلِ قبول ہے، اور ہم نے اپنی سرزمین سے انتہا پسندوں کے خاتمے کے لیے وہ اقدامات کیے جو بین الاقوامی برادری نے تسلیم کیے تھے۔
گذشتہ برسوں میں پلوامہ اور اوڑی جیسے واقعات کے بعد بھی بھارت نے بغیر ٹھوس ثبوت کے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا معمول بنایا ہوا ہے۔ یہ رویہ بھارتی اور اسرائیلی خارجہ پالیسیوں میں بھی یکساں طور پر دیکھا جاتا ہے، جہاں جارحیت اور الزام تراشی کے ذریعے مقبوضہ علاقوں میں اپنی کارروائیاں جائز ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کا یہ مشترکہ طرزِ عمل حقیقت پر پردہ ڈال کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔
بے ثبوت الزام تراشی کے بجائے حقیقت پسندانہ تفتیش ہی امن کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ بھارت کے میڈیا اور حکومتی حلقے ہر بڑے واقعے کے فوراً بعد پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے میں جلدی دکھاتے ہیں، مگر پلوامہ کے بعد خود بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے معاملے نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ عمل سے امن ممکن ہے۔
کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ بھارت اور اس کے مشابہ رویے رکھنے والا اسرائیل، اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے حملوں کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ اگر انٹیلی جنس میں واقعی خامیاں ہیں تو انہیں دوسروں پر تھوپنے کے بجائے اپنی خامیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی تحقیقات کے بغیر صرف الزام تراشی کرنا کسی مہذب ریاست کے شایانِ شان نہیں۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور دیگر فورمز پر دہشت گردی کے خلاف اپنا عزم بارہا دوہرایا ہے۔ ہم نے اپنی زمین پر پھیلے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کیا، افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کیا، اور اس راہ میں چین، امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی تائید بھی حاصل کی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہو، دوسری سرزمین پر ایسے حملوں میں ملوث کیسے ہو سکتا ہے؟
عالمی برادری کو بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ رویوں کو بلا تحقیق قبول کرنے کی پالیسی ترک کر دینی چاہیے۔ حقائق کی شفاف تفتیش کے بغیر خطے میں حقیقی امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ الزام تراشی جنگوں کو ہوا دینے کا ذریعہ بنتی ہے، جبکہ مذاکرات اور راست بیانیہ ہی دو پڑوسی عوام کے لیے بہتر مستقبل کا ضامن ہیں۔
بالآخر بھارت اور اسرائیل کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ سچ کی روشنی کے بغیر کسی بھی طوفان کا مقابلہ ممکن نہیں۔ اگر امن کا وعدہ سچا ہے تو الزام تراشی اور بیانیے کی عیاشی کے بجائے مشترکہ مذاکرات کے لیے کھل کر سامنے آنا ہوگا۔ اسی میں خطے کے عوام کی بہبود اور دیرپا امن کا راز مضمر ہے۔