جب لفظوں نے کفن باندھا/ تحریر : چوہدری عامر عباس ایڈوکیٹ

شب کے سناٹے میں لفظوں کی سیاہی جب کاغذ پر گرتی ہے تو کئی ان کہی کہانیاں چیخ اٹھتی ہیں کچھ کہانیاں درد کے انگارے رکھتی ہیں، کچھ خاموش قربانیوں کی ماتم کناں گواہ ہوتی ہیں۔ زندگی کی عدالت میں جہاں انصاف کا ترازو اکثر آنکھوں پر بندھی پٹی سے بہک جاتا ہے وہاں کبھی کبھار ایک وکیل ایک خاموش دربان کی مانند کسی بے زبان درد کو لفظوں کا کفن پہنا دیتا ہے۔ یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی کمزور لمحے کی ہے جب ایک بےبس ماں نے عزت کی لاش اٹھائے میرے دفتر کے دروازے پر دستک دی۔
یہ کم و بیش دس برس پرانی بات ہے میں حسب معمول دفتری امور میں مصروف تھا گرمی کے دن تھے غالباً سہ پہر کے بعد کا وقت تھا. چالیس برس کی وہ خاتون زندگی کے کئی امتحانات دے چکی تھی. شوہر کی ناگہانی وفات، تنہا ماں بن کر بیٹی کی پرورش اور پھر تنہائی سے لڑتے ہوئے ایک نئی زندگی کی امید پر دوسری شادی کا فیصلہ۔ مگر یہ امید جلد ہی ایک بھیانک خواب میں بدل گئی۔ اس کی بیٹی جو فرسٹ ایئر میں تھی بارہا شکایت کرنے لگی کہ نیا باپ اسے نظروں سے چیرتا ہے۔ نظریں جو بولتی نہ تھیں مگر چیختی تھیں۔ وہ نظریں جن میں شرافت کا لبادہ اتارا جا چکا تھا اور حیوانیت کی ننگی آنکھ جھانک رہی تھی۔
خاتون کی آنکھوں میں کرب دہکتا تھا۔ وہ عزت اور سکون کی دہلیز پر کھڑی کسی آہٹ کی منتظر تھی۔ وہ عدالت نہیں چاہتی تھی، نہ طلاق کے کاغذات کا شور، نہ رسوائی کے چرچے۔ صرف خاموشی سے چھٹکارا چاہتی تھی کہ بیٹی کی آنکھوں سے شرم کا پانی نہ بہے اور محلے کی زبانوں پر اس کا نام نہ آئے۔
میں نے اس کیس کو ایک قانونی پزل کی طرح کھولا۔ پہلا کام شوہر کو قانونی طور پر بے نقاب کرنا تھا۔ میں نے خفیہ طور پر لڑکی کا ایک بیان قلمبند کیا۔ پھر چند قابلِ اعتماد خواتین کو ماں بیٹی کے ساتھ دو تین بار کے مشاہداتی ماحول میں بٹھایا تاکہ اُن کی گواہی سے یہ ثابت ہو سکے کہ لڑکی کی شکایت محض وہم نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جس کے تنے ہوئے تار کسی بڑے حادثے سے پہلے کا الارم ہیں۔ یہ کوئی قانونی تقاضا نہیں تھا مگر میں خود کو مطمئین کرنا چاہتا تھا کہ کہیں انجانے میں کچھ غلط نہ کر بیٹھوں.
پھر میں نے شوہر کو اپنے آفس بلا کر ایک ’دوستانہ مکالمے‘ کا ڈول ڈالا۔ بات چیت میں اس کی زبان اور لہجہ ہی اس کے خلاف گواہ بن گئے۔ میں نے اس کی باتوں کو قانونی جال میں قید کیا۔ اسے بتایا کہ اگر یہ معاملہ عدالت گیا تو کیا کچھ سامنے آ سکتا ہے، کن دفعات میں اس کے خلاف مقدمہ بن سکتا ہے اور کس طرح وہ نہ صرف اپنی بیوی بلکہ ایک کم عمر لڑکی کو ہراساں کرنے کے جرم میں گرفتار ہو سکتا ہے۔
اس پر اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ میں نے اسے ایک ’آفیشل علیحدگی‘ کی راہ دکھائی جس میں نہ کوئی مقدمہ ہوگا، نہ عدالت، نہ اخبار کی سرخی۔ صرف ایک متفقہ طور پر طلاق نامہ، جس میں بیوی کے حقوق بحال رہیں گے اور کوئی قانونی کارروائی نہ کی جائے گی بشرطیکہ وہ فوراً علیحدہ ہو جائے۔ پہلے تو اس نے کافی لیت و لعل سے کام لیا بعدازاں اس نے کافی سوچ بچار کے بعد بمشکل حامی بھر لی۔
طلاق کی دستاویزات خاموشی سے تیار ہوئیں، گواہوں نے دستخط کیے اور ایک صبح وہ عورت بغیر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اس کرب سے آزاد ہو گئی۔ بیٹی کی آنکھوں میں دوبارہ سکون اترنے لگا۔ وہ مسکراہٹ جو کبھی خوف سے دبک گئی تھی اب آہستہ آہستہ لوٹ رہی تھی۔
بعض اوقات عزت بچانے کے لیے شور مچانے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس ایک سمجھدار وکیل، ایک حساس دل اور قانون کی درست سمت میں رہنمائی کافی ہوتی ہے۔ دوسری شادی ہمیشہ نجات کا دروازہ نہیں، بعض اوقات وہ نئی قید کا گیٹ وے بن جاتی ہے۔ مگر خاموشی کے اندھیرے میں بھی اگر سچ کا چراغ جلا دیا جائے تو رہائی ممکن ہو جاتی ہے.
کہانی کا سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا جب اس ماں نے جاتے جاتے مجھ سے کہا: "اگر آپ نہ ہوتے تو میں یا تو بدنامی کی آگ میں جلتی یا بیٹی کو قربان کر دیتی۔”
وہ لمحہ میری وکالت کے کیریئر کا سب سے قیمتی اعزاز تھا۔