منتخب کالم

    ورچوئل کرنسیوں کے مسائل/

ڈاکٹر امجد حسین 

  ورچوئل کرنسیوں کے عروج نے دنیا بھر میں شدید بحث اور مباحثے کو جنم دیا ہے جبکہ کچھ لوگ اِسے ایک انقلابی اختراع کے طور پر سراہتے ہیں تاہم بعض اِسے دولت نکالنے کے چالاکی سے بنائے گئے کھیل کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم نہ صرف مجازی کرنسیوں کے پیچھے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے بلکہ دیکھیں گے کہ کیسے اِنہیں افراد، برادریوں اور ممالک کے استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ورچوئل کرنسیوں کا نظام کارپوریٹ کمپنیوں کے ذریعے فراہم کردہ انٹرنیٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ یہ کمپنیاں دنیا بھر میں لاکھوں صارفین کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کر کے بڑے پیمانے پر منافع حاصل کرتی ہیں تاہم اْن کے منافع کی حقیقی حد کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ اِن کے لین دین کو آسان بنانے میں اْن کے کردار کی شاذ و نادر ہی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ مجازی کرنسی کی کان کنی کو اکثر ایک جمہوری عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جہاں افراد حصہ لے سکتے ہیں اور انعامات حاصل کر سکتے ہیں تاہم حقیقت اَس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کان کنی کا عمل کارپوریٹ کمپنیوں کے ذریعے فراہم کردہ انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اِس عمل کے منافع کا ایک چھوٹا سا حصہ ورچوئل کرنسی ہولڈرز کو ادا کیا جاتا ہے جبکہ اکثریت کارپوریشنوں اور مالکان کو جاتا ہے۔ یہ متحرک ممالک سے دولت نکالنے کا باعث بھی بن رہا ہے کیونکہ لوگوں کو اِس سے محدود منافع واپس ملتا ہے جبکہ بڑی قومی دولت غیر محسوس انداز سے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے ملکی خزانے سے نکل جاتی ہے۔ ورچوئل کرنسی“ایکو سسٹم”کو اِس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جو افراد، برادریوں اور ممالک سے دولت اکھٹی کر لیتا ہے، منافع کا زیادہ حصہ کارپوریٹ کمپنیوں اور ورچوئل کرنسی مالکان کے ذریعے حاصل کر لیا جاتا ہے جبکہ اصل کان کنوں اور صارفین کے لیے معمولی حصہ ہی بچتا ہے۔ دولت کے اِس اخراج کے دور رَس نتائج ہو سکتے ہیں جن میں معاشی عدم مساوات، محدود معاشی نمو اور ماحولیاتی انحطاط شامل ہیں، اِس سے غریب ممالک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ ورچوئل کرنسی کے تراشے گئے اِس ماحولیاتی نظام سے انصاف پسندی اور شفافیت پر کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ غریب ممالک میں اکثر مجازی کرنسی کی کان کنی سے فائدہ اْٹھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور وسائل کی کمی ہوتی ہے لیکن اِس کے باوجود وہ ماحولیاتی انحطاط، توانائی کی کھپت اور معاشی عدم استحکام کے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور دولت نکلنے کا عمل اِن ممالک میں نہ صرف معاشی عدم مساوات کا خدشہ رہتا ہے بلکہ اِس سے اِن کی معاشی ترقی بھی محدود ہو سکتی ہے۔ مجازی کرنسی کا ماحولیاتی نظام ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی رجحان ہے جس کی محتاط جانچ پڑتال کی جانی چاہئے۔ اِس میں اگرچہ پیسے اور مالیات کے بارے میں روایتی سوچ کے انداز میں انقلابی تبدیلی لانے کی صلاحیت موجود ہے تاہم زیرِ بحث لائے گئے خدشات بدستور اپنی جگہ قائم ہیں اِس لیے یہ انتہائی ضروری اَمر ہے کہ ورچوئل کرنسی کی کان کنی کے حقیقی اخراجات اور نتائج پر غور کر کے اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کیسے اِس کے فوائد کو تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے




Source link

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button