منتخب کالم

نہیں ہے نا امید اقبال/ اظہر سلیم مجوکہ


اقبال صرف ایک آفاقی شاعر ہیں نہیں بلکہ رجائیت پسند بھی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کو درپیش گھمبیر مسائل اور مایوسی کے ماحول میں بھی شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری امید کے جگنوؤں کی طرح بھٹکے ہووں کو راستے میں روشنی دکھانے اور منزل تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے۔ اقبال کے ہاں فلسفہ خودی بھی بہت نمایاں  ملتا ہے۔ آج ہم معاشی مسائل کے لیے کشکول لیے ہر جگہ گھومتے پھرتے ہیں اور اقبال  یہ کہتا نظر آتا ہے کہ 
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن 
اسی خودی کو بلند رکھنے کو ہی اقبال خدا کی رضا قرار دیتا ہے۔ آج عالم اسلام مغرب کی استعماریت اور طاغوتی  قوتوں کے حصار میں ہے۔ مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کشمیر فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کی چیخ و پکار نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہے ایسے میں اقبال کے دل میں شدت سے یہ خواہش ابھرتی ہے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے 
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اقبال کا پیغام سارے زمانوں کے لیے ہے گویا ہمارے موجودہ مسائل اور الجھے ہوئے تمام دراز سلسلوں کا سلجھاؤ کلام اقبال میں چھپا ہے۔ اقبال کا مرد مومن ایک مرد کامل ہے جسے فرنگ اور یورپ کی روشنی متاثر نہیں کر سکتی۔ اقبال سچے عاشق رسول تھے اور سمجھتے تھے کہ عشقِ مصطفی کی روشنی ہی ایسا چراغ ہے جو اندھیرے جو اجالے میں بدل سکتا ہے  اسی لیے انھوں  نے کہا کہ
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے 
آج عشقِ رسول اور اسوۂ حسنہ ہی ہمارے ظاہری اور باطنی مسائل کا حل ہے۔ ہم ایک بے حس قوم کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں ہر طرف خونِ مسلم کی ارزانی ہے مگر ہمیں اس پر کوئی پشیمانی نہیں ہے جس تہذیب کے بارے  میں کہا گیا کہ
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی 
جو شاخِ نازک پہ آ شیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا 
وہی تہذیب آج مضبوطی سے اپنے قدم جما کر پورے عالم میں فتنہ برپا کیے ہوئے ہے اور ہم سب اس کی تقلید اور پیروی میں لگے ہوئے ہے۔ آج ہم محض ملی اور قومی نغموں کی گونج اور اہنے اسلاف کے ایام منا کر سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں قومیں اس طرح نہیں بنتیں اپنے اسلاف کے فرمودات اور ان کی روایات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا پڑتا ہے آج ہم ذاتی مفادات کے غلام بن کے رہ گئے ہیں اس لیے قومی اور اجتماعی مفادات کو بس پشت ڈال دیا گیا ہے، اقبال کے نظریٔ خودی کی بجائے ہم نے خود ہی سے نظریٔ ضرورت ایجاد کر لیا ہے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد ہر وجود میں آیا جو لا الہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ آج ہمیں اسی نظریے پر قائم رہنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اقبال کے کلام کو منشور کا درجہ دے رکھا ہے اور ہم نے اپنے منشور کو ترامیم کے ذریعے موم کی ناک بنا لیا ہے کہ جب اور جہاں جیسا چاہا موڑ لیا۔ اقبال نے نوجوان کو شاہین کہا اور اس نوجوان سے پوچھا بھی کہ
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے 
 وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ 
اور پھر خود ہی جواب دیا کہ 
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
 کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا
ہماری اسی نوجوان نسل سے ہم سب کی امیدیں وابستہ ہیں کہ ان کے ناتواں کاندھوں پر مستقبل کا بوجھ پڑنا ہے مگر ہماری نسل نے نئی نسل کو سوائے پریشانی اور مسائل اور مایوسی کے کچھ نہیں دیا ان کی تعلیم و تربیت کا فریضہ صحیح سے انجام نہیں دیا مگر اس کے باوجود اقبال اپنی نسل نو سے مایوس اور نا امید نہیں ہے وہ سے قصرِ سلطانی کے گنبد کی بجائے شہباز کی طرح پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کا مشورہ دیتا ہے کیونکہ 
 کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اس لیے تو ہمارا آفاقی شاعر اقبال کہتا ہے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر 
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں 
ستاروں سے آگے کے جہانوں کی خبر علامہ اقبال جیسا  آفاقی شاعر ہی دے سکتا ہے۔ شکوہ اور جوابِ شکوہ میں اقبال نے انسانی جبلت اور انسانی فلسفے کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ اقبال کی شاعری اور یوم اقبال ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اہنے اسلاف کے بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یاد کریں اور ان کی اقدار پر عمل پیرا ہو کے ایک زندہ اور پائندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں کیونکہ 
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے 
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی




Source link

Related Articles

رائے دیں

Back to top button