پہلگام حملے میں 26 اموات کے بعد مودی دورہ سعودی عرب مختصر کر کے انڈیا پہنچ گئے/ اردو ورثہ

پولیس نے کہا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام کے مقام پر سیاحوں پر مسلح افراد کی فائرنگ سے اموات کی تعداد 26 ہو گئی ہے جبکہ 17 زخمی ہیں۔ حملے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے اور ایئرپورٹ پر ہی سکیورٹی پر ایک اجلاس کی صدارت کی۔
سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ تصاویر کے مطابق مختصر دورے کے دوران مودی نے جدہ میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔
یہ دورہ، جو ابتدائی طور پر دو روزہ تھا، کشمیر میں ہونے والے حملے کے باعث بڑی حد تک پسِ منظر میں چلا گیا، جس میں کم از کم 26 افراد جان سے گئے۔
انڈین وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو انڈین وزیرِاعظم سے ٹیلی فونک گفتگو میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے پر انڈیا سے اپنی ’مکمل حمایت‘ کا اظہار کیا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا: ’صدر ٹرمپ نے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی اور اس گھناؤنے حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے انڈیا سے مکمل تعاون کا اظہار کیا۔‘
پولیس ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یہ واقعہ سری نگر سے 90 کلومیٹر دور پہلگام میں پیش آیا جو ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اور حالیہ برسوں میں شدت پسندی میں کمی کے بعد ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
حملے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایکس پر لکھا: ’اموات کی تعداد کا اندازہ لگایا جا رہا ہے لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ حملہ حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے بڑا ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق ’دی کشمیر ریزسٹنس‘ نامی ایک نسبتاً غیر معروف عسکریت پسند گروپ نے سوشل میڈیا پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے الزام لگایا کہ خطے میں 85 ہزار سے زائد ’باہر کے لوگوں‘ کو بسایا جا رہا ہے جس سے خطے میں آبادیاتی تبدیلی آ رہی ہے۔
گروپ نے خبردار کیا: ’اب جو بھی غیر قانونی طور پر کشمیر میں بسنے کی کوشش کرے گا، تشدد کا نشانہ بنے گا۔‘
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی مقامی حکومت نے اس ماہ اسمبلی میں بتایا تھا کہ گذشتہ دو سالوں میں انڈیا کے مختلف علاقوں سے تقریباً 84 ہزار افراد کو خطے میں ڈومیسائل حقوق دیے گئے ہیں۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس پر کہا: ’اس بزدلانہ حملے کے پیچھے جو بھی ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہیں بخشا نہیں جائے گا! ان کا گھناؤنا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم غیر متزلزل ہے اور مزید مضبوط ہوگا۔‘
کشمیر، جس پر انڈیا اور پاکستان دونوں دعویٰ کرتے ہیں، 1989 سے جاری بھارت مخالف مسلح تحریک کے باعث شدید کشیدگی اور خونریزی کا شکار رہا ہے۔
اب تک دسیوں ہزار لوگ مارے ہو چکے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں تشدد میں کچھ کمی آئی ہے۔
انڈیا نے 2019 میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر کے اسے دو وفاقی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد مقامی حکام کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ باہر سے آنے والوں کو رہائش اور زمین خریدنے کے حقوق دیں۔
اس اقدام سے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ یہ تنازع دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان کئی جنگوں اور مستقل کشیدگی کی وجہ رہا ہے۔