احساس کمتری سے باہر نکلیں؟/ زیبا شہزاد

مغربی ممالک کے قصیدے پڑھنے سے ہمیں فرصت نہیں۔ ہم وہاں کا سوچ سوچ کر احساس کمتری میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں سے آیا کوئی جانی دشمن بھی ہمارے ہتھے چڑھ جائے تو ہم درباریوں کی طرح اس کی خوشامد میں لگ جاتے ہیں، کہ شاید وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جائے۔
اپنے ہاں جسے دیکھو اس غم میں مبتلا نظر آتا ہے، کہ باہر کے ملکوں میں لوگ بہت اچھی زندگی گذاررہے ہیں اور ہم بیچارے ایک محروم معاشرے میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کم بختوں نے بہت ترقی کی ہے، لیکن ہم ہڈحرام ان کی کامیاب زندگی کا راز جاننے کی بجائے اپنا خون جگر جلانے میں مصروف ہیں۔
کچھ متاثرین مغرب کا تو یہ یقین محکم ہے کہ مغربی ممالک دنیا میں جنت ہے اور ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس جنت سے محروم ہیں۔ پہلی بات تو یہ یقین رکھیں وہ ملک کسی طور بھی جنت نہیں اور نہ ہم بطور مسلمان جنت سے محروم ہیں۔ دوسری بات بھی یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک کا سسٹم اچھا ہے، لیکن یہاں تک پہنچنے میں انھیں بھی صدیاں ہی لگی ہیں۔
اس غلط فہمی سے بھی باہر نکل آئیں کہ وہاں کے رہنے والے ہر فکر پریشانی سے آزاد ہیں۔ کہ میں خود بھی کبھی اسی خوش فہمی میں مبتلا تھی، لیکن پھر کسی لنکا ڈھانے والے نے بتایا کہ مغربی ممالک میں بھی بہت مسائل ہیں۔ کرپشن وہاں کا بھی مسئلہ ہے۔ رشوت کا کاروبار بھی کسی نہ کسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چوری ڈکیتی کا یہ عالم کہ جو جتنا عقلمند اور ہوشیار ہو وہ اتنی ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ یقین جانیئے یہ سن کر دِل کوبہت ڈھارس ہوئی کہ ہم تنہا نہیں زمانے میں۔
اگر واقعی وہ معاشرے جنت نظیر ہوتے تو وہاں پولیس کے محکمے کی ضرورت نہ ہوتی، اگر پولیس کا وجود ہوتا بھی تو پولیس فارغ بیٹھی پب جی کھیل رہی ہوتی، لیکن وہاں پولیس کے محکمے بھی ہیں اور پولیس مصروف بھی۔ بے قابو مشتعل ہجوم وہاں بھی پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگاتے ہیں۔ سٹورز میں لوٹ مار کرتے ہیں۔ ہمیں شدت پسند کہنے والوں کے اندر مذہبی کے ساتھ ساتھ نسلی تعصب بھی پایا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ مغرب میں عورت بکنی پہن کر دن رات سمندر کنارے گذاردے تو اس کی مرضی کے بغیر کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا، لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ انھی ممالک میں سترہ سال کی عمر کو پہنچنے تک34فیصد لڑکیاں کسی نہ کسی صورت جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ریپ کرنا اس معاشرے کا سب سے بڑا جرم سہی، لیکن پھر بھی یہ جرم ہر روز ہوتا ہے۔اس پر تو اہل مغرب کو منہ چھپاتے پھرنا چاہئے، مگر شرم ان کو ذرا نہیں آتی۔ بیشتر خواتین نا چاہتے ہوئے بھی سیکس ورکر بننے پہ مجبور ہوتی ہیں۔
تو جناب بتانا صرف یہ تھا کہ مغربی ممالک میں بسنے والے فرشتے نہیں ہیں۔ سقم وہاں کے سسٹم میں بھی ہے، لوگوں میں بھی۔ اگر تھوڑی دیر اپنی سہل پسندی کو سائیڈ پہ رکھ کر مراقبہ کریں تو پتہ چلے کہ مغرب کی زندگی اتنی آسان نہیں جتنی ہمیں نظر آتی ہے۔وہاں کے رہنے والے ضروریات زندگی کے حصول کے لئے کڑی محنت کرتے ہیں۔ ان کو پلیٹ میں رکھ کر کچھ نہیں ملتا۔ ہوسکتا ہے بہت سے لوگ اسے سچ نہ مانیں، لیکن یہ جھوٹ ہرگز نہیں کہ وہاں بھی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے کام ہی کرنا پڑتا ہے،بلکہ 18سال کی عمر سے کرنا پڑتا ہے، جبکہ اس عمر میں ہماری مائیں بچوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتیں۔ وہاں ملنے والی جن سہولتوں کا سوچ سوچ کر ہماری رالیں ٹپکتی ہیں ان سہولتوں کے لئے بھاری ٹیکسز ہر صورت ادا کرنے ہوتے ہیں،جبکہ ٹیکسز کے نام پر ہی ہماری جان نکلتی ہے۔ انھیں قانون شکنی پہ جرمانے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ہماری طرح کھلا ڈھلا ماحول نہیں، کہ گند پھیلا کر آجاؤ۔ بات سادہ سی ہے کہ خوبیاں خامیاں ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہیں، لیکن وہ لوگ ہماری طرح اس فکر میں مبتلا نہیں رہتے کہ ہم دوسرے ملک میں کیوں نہ پیدا ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ نامساعد حالات میں بھی اپنے طرز زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور ہم یہاں سے بھاگ نکلنے کو ہی مسئلے کا واحد حل سمجھتے ہیں۔
اِس ساری بکواس کا مطلب یہ ہے کہ جن پاکستانیوں کا کام ہر وقت پاکستان کو کوسنا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ملک ہے، یہاں کچھ نہیں، وہ اس احساس کمتری سے باہر نکل آئیں۔ بخدا ہم ایک بہترین ملک میں پیدا ہوئے ہیں، یہاں سب کچھ ہے۔ بس ہم تھوڑی سی ہمت کر کے سسٹم میں موجود بہت ساری خامیوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ایک کوشش کر کے دیکھ لیں۔
٭٭٭٭٭