منتخب کالم

وقف قانونی ترامیم یا غیر قانونی قبضہ؟/ قرت العین حیدر


بی جے پی کی  حکومت نے احتساب اور شفافیت کا نعرہ لگاتے ہوئے حال ہی میں متنازعہ وقف (ترمیمی) بل 2025ء منظور کیا ہے، جس کے تحت بھارت میں مسلم وقف املاک کے انتظام و انصرام میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بھارتی حکومت جو مرضی توجیہہ دے، لیکن ہر صاحب نظر دیکھ سکتا ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے حکومت کا بنیادی مقصد بھارتی مسلمانوں کی زمینیوں پر قبضہ کرکے انہیں مزید دیوار سے لگانا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی قریبا 20 کروڑ سے زائد ہے جبکہ وقف املاک کی تعداد 8,72,324 ہے، جو مختلف ریاستوں اور یونین کونسلوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان املاک میں قبرستان، مساجد، درگاہیں، مدارس، امام بارگاہیں اور دیگر مذہبی و خیراتی ادارے شامل ہیں۔ اتر پردیش جو کہ دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبہ فکر کی تحریکوں کی پیدائش گاہ ہے، وہاں سب سے زیادہ وقف املاک ہیں، جن کی تعداد 2,32,547 ہے، جو ملک بھر کی مجموعی تعداد کا 27 فیصد بنتی ہے۔
بھارت میں وقف املاک کا رقبہ 9.4 لاکھ ایکڑ ہے۔ اس وسیع و عریض اراضی کی ملکیت کے ساتھ، وقف بورڈ بھارتی ریلوے اور وزارت دفاع کے بعد بھارت کا تیسرا سب سے بڑا زمین رکھنے والا ادارہ ہے۔
بھارتی وقف بورڈ وقف ایکٹ 1995ء کے تحت کام کرتا ہے جس میں صرف مسلم اراکین وقف بورڈ کے ممبر بن سکتے تھے۔ نئے قانون کے تحت مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کی اجازت دی گئی ہے۔ پہلے قانون کے مطابق، ریاستی وقف بورڈز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا مسلمان ہونا ضروری تھا، لیکن نئے بل میں یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔ 
غیر مسلم سی ای او کے ساتھ ’’شفافیت‘‘ یقینی بنانے کا مطلب مسلمانوں پر عدم اعتماد کے سوا کچھ نہیں۔
کیا بھارت میں شفافیت صرف اقلیتوں پر ہی لاگو ہوتی ہے؟
وقف ایکٹ 1995ء طویل المدتی استعمال یا ‘تحویل کنندہ کے ذریعے وقف’، یا عطیہ کے ذریعے وقف املاک کی شناخت کی اجازت دیتا تھا۔ جبکہ نیا قانون ‘تحویل کنندہ کے ذریعے وقف’ کے تصور کو ختم کرتا ہے، یہ شرط عائد کرتا ہے کہ صرف باضابطہ طور پر اعلان کردہ یا عطیہ کردہ املاک کو وقف کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ اب یہ بتایا جائے کہ کئی سو سال سے وقف کردہ املاک کے کاغذات کہاں سے آئیں گے؟ قدیمی قبرستانوں اور مساجد کے کاغذات تو شاید ہی کسی نے سنبھال کر رکھے ہوں۔
پرانے ایکٹ کے تحت وقف بورڈز کو وقف املاک کی ملکیت سے متعلق تنازعات کو حل کرنے کا اختیار حاصل تھا، جبکہ نیا قانون متنازعہ وقف املاک کی ملکیت کا تعین کرنے کا اختیار ضلعی کلکٹرز کو منتقل کرتا ہے، ان معاملات کو ریاستی محصولات کے فریم ورک میں ضم کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وقف بورڈز کو جائیدادوں کی ملکیت کی تصدیق کے لیے ضلعی انتظامیہ کے افسران سے منظوری لینا ہوگی۔
ترامیم کی نوعیت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  اس قانون میں سب کچھ ہے سوائے احتساب اور شفافیت کی نیت کے۔ 
بابری مسجد گرانے والے اب ہندوستان کی دیگر تاریخی مساجد اور وقف املاک کی ملکیت پر سوال اٹھا کر آہستہ آہستہ ان پر بھی قابض ہونے کے پلان پر عمل در آمد شروع کر چکے ہیں،  ہندوستان جیسے قدیمی ملک میں وہ جائیدادیں جن کے دستاویزی ثبوت مکمل نہیں ان پر قابض ہونے کا مطلب ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ مٹانے کی مکروہ کوشش ہے۔ 
ان ترامیم کو خود بھارت میں سخت تنقید کا سامنا ہے، مسلم کمیونٹی اور اپوزیشن جماعتوں کا بھی کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کا یہ اقدام مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف املاک کے مذہبی تشخص کو نقصان پہنچے گا اور یہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کی خاص طور پر ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، جائیداد کی ملکیت کی تصدیق کے نئے اصولوں سے تاریخی مساجد اور دیگر مذہبی املاک کی ملکیت پر تنازعات پیدا ہوں گے، جو بالآخر ان املاک کی بحق سرکار ضبطی کا باعث بنیں گے۔
لہٰذا یہ قانون صرف وقف کی زمین چھیننے کا  نہیں بلکہ مسلم تاریخ مٹانے کا منصوبہ ہے۔
بی جے پی حکومت کی مہربانی سے بھارت کی سیکولر شناخت تو کب کی ختم ہوچکی، اب اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا گلا گھونٹ کر، خاص طور پر مسلمانوں پر دائرہ حیات مزید تنگ کرکے بھارتی سرکار نے ایک بار پھر اعلان کر دیا کہ وہ مسلمانوں کو بھارتی شہری نہیں بلکہ outsider سمجھتے ہیں، بھارتی مسلم کمیونٹی کو اپنی ہی زمینیوں سے بے دخل کرنے کے لئے وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں چاہے فسادات ہوں یا متنازعہ قوانین پاس کرانا۔ 




Source link

Related Articles

رائے دیں

Back to top button