نظم
کیا کبھی دیکھا ہے / افتخار بخاری

کیا کبھی دیکھا ہے
افتخار بخاری
کیا کبھی دیکھا ہے
مقدس دوپہروں میں
بوڑھی عورتوں کو
قطاروں میں
محافظوں کو تلاشی دے کر
مین گیٹ پار کرتے ہوئے
جہاں نوازے ہوئے تکبٌر
سخاوت کرتے ہیں
تھوڑا سا آٹا
تھوڑا سا گھی
سردی سے کپکپاتے بچے
سویر کے کاٹتے کہرے میں
قیمتی گاڑیاں دھوتے ہوئے،
صاف ستھرے بچوں کے رنگین
بھاری بستے،
اُن میں رکھتے ہوئے
کیا ننھی نوکرانیاں دیکھی ہیں
چند ہزار میں خریدی ہوئیں،
بدمعاش بڈھوں کو
اُن کی چٹکیاں لیتے ہوئے
جب اُن کے خیال میں
وہ دیکھے نہیں جا رہے ہوتے
کیا اجتماعی شادیاں دیکھی ہیں
جب وہ غلاموں کی افزائش نسل کا
گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں
کیا چلچلاتی دھوپ میں
بیمار مزدور عورتیں دیکھی ہیں
ثروت مندوں کے دروازوں پر
کُھلنے کے انتظار میں
اگر نہیں دیکھا
تو معاف کیجئے گا
آپ ایک غریب آدمی ہیں
غریبوں کے محلے میں رہنے والے