پائل کپاڈیا نے تاریخ رقم کر دی۔ وہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک انڈیا کی پہلی خاتون ہدایت کار بن گئی ہیں جنہیں گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
انہوں نے انقلابی فلم ’آل وی امیجن ایز لائٹ‘ کی بدولت اعزاز حاصل کیا۔
38 سالہ پائل نے اپنے کیریئر کی پہلی مکمل فیچر فلم کے ساتھ ہی کامیابیوں کا سلسلہ شروع کیا، جب انہوں نے مئی میں کین فلم فیسٹیول میں گرینڈ پرائز جیتا۔
اس سال کے 82 ویں گولڈن گلوب ایوارڈز میں یہ فلم بہترین ہدایت کار اور انگریزی کے علاوہ کسی دوسری زبان کی کیٹیگری میں بہترین موشن پکچر کی دو بڑے نامزدگیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
ہندی اور ملیالم زبان میں بنی یہ فلم ممبئی کے بڑے شہر میں تین مظلوم خواتین کی کہانیوں کو نرم انداز سے پیش کرتی ہے جو مشکلات، تنہائی، اور ہمدردی کے ذریعے اپنی زندگیوں کو جوڑتی ہیں۔
یہ وہ شہر ہے جہاں لاکھوں خواب حقیقت کے بوجھ تلے کچلے جاتے ہیں۔
فلم کے لیے دی انڈپینڈنٹ میں اپنے فائیو سٹار جائزے میں کلیرس لوگری نے لکھا کہ ’آل وی امیجن ایز لائٹ نہ صرف ایک مقام کی تصویر ہے بلکہ ان تمام سماجی اور سیاسی طاقتوں کی عکاسی کرتی ہے جو اس کو چلاتی ہیں، اور ان شدید جذبات کا اظہار ہے جنہیں یہ مقام جنم دیتا ہے۔‘
پائل نے ایک بیان میں کہا: ’میں اس نامزدگی پر انتہائی فخر محسوس کر رہی ہوں اور اسے تسلیم کرنے پر ایچ ایف پی اے (ہالی وڈ فارن پریس ایسوسی ایشن) کی شکر گزار ہوں۔
’یہ ان سب لوگوں کے لیے خوشی کی بات ہے جنہوں نے اس فلم پر بےحد جذبے کے ساتھ کام کیا۔‘
آل وی امیجن ایز لائٹ 22 نومبر کو انڈیا میں سینیما گھروں میں ریلیز ہوئی۔ پائل نے منگل کو اعلان کیا کہ فلم اس جمعے کو منتخب سینیما گھروں میں دوبارہ ریلیز ہو گی۔
پائل بہترین ہدایت کار کی کیٹیگری میں فلم ایمیلیا پیریز کے لیے ژاک اودیار، انوارا کے لیے شان بیکر، کنکولیو کے لیے ایڈورڈ برگر، دا بروٹلسٹ کے لیے بریڈی کوربٹ اور دی سبسٹنس کے لیے کورالی فارگیٹ کے ساتھ مقابلہ کریں گی۔
یہ فلم پہلے ہی نیویارک میں فلموں کے تنقیدی حلقوں اور گوتم ایوارڈز میں بہترین بین الاقوامی فلم کا اعزاز جیت چکی ہے اور بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کا ایوارڈ بھی اپنے نام کر چکی ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تنقید نگاروں اور ناظرین کی جانب سے سال کی سب سے پسندیدہ فلم قرار دیے جانے کے باوجود یہ فلم انڈیا نے اکیڈمی ایوارڈ میں بہترین بین الاقوامی فلم کی کیٹیگری میں نہیں بھیجی تھی۔
فلم فیڈریشن آف انڈیا کے صدر روی کوٹراکڑا نے کرن راؤ کی فلم لاپتہ لیڈیز کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا اور وضاحت کی کہ یہ انتخاب کمیٹی کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ’انڈیا میں بننے والی یورپی فلم دیکھ رہے ہوں نہ کہ وہ انڈین فلم جو انڈیا میں بنی۔‘
پائل نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’میں اپنی فلم منتخب ہونے پر بہت خوش ہوں۔ یہ ایک بہترین فلم ہے۔ مجھے بہت پسند آئی، لیکن ایسے بیانات کے مقصد کو میں سمجھ نہیں پاتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فلم منتخب کرنے والی کمیٹی میں 13 مرد شامل تھے۔ کیا یہ بہت زیادہ انڈین ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مجھے اتنا برا نہیں لگتا۔‘
اس سال کے گولڈن گلوب ایوارڈ کی تقریب تین سال بعد ہو رہی ہے۔ 2022 میں اس تقریب کا بائیکاٹ کیا گیا کیوں کہ 2021 میں اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی ایک تحریر میں ووٹ دینے والی تنظیم ہولی وڈ فارن پریس ایسوسی ایشن (ایچ ایف پی اے) پر تنوع کے فقدان کا الزام لگایا تھا۔
اس کے بعد تنظیم نے اصلاحات کیں، مسائل پیدا کرنے والے ووٹرز کو نکالا اور اپنی رکنیت کو 85 سے بڑھا کر 300 کیا، جس میں 10 فیصد سیاہ فام نمائندگی شامل ہے۔
82 ویں گولڈن گلوب ایوارڈ کی تقریب اتوار پانچ جنوری کو لاس اینجلس کے بیورلی ہلٹن ہوٹل میں (مقامی وقت) شام پانچ بجے اور مشرقی وقت کے مطابق مطابق رات آٹھ بجے ہو گی۔