شہریت پر اسلامی نقطۂ نظر
معروف سعودی عالم دین شیخ عاصم الحکیم نے مسلمانوں کے لیے غیر مسلم ملک کی شہریت لینے کو حرام قرار دے دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک پاکستانی شہری کی جانب سے شیخ عاصم الحکیم سے سوال کیا گیا؛ کہ کیا وہ پاکستان کو چھوڑ کر کینیڈین شہریت حاصل کرسکتے ہیں؟ جس کے جواب میں شیخ عاصم الحکیم کا کہنا تھا؛ کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے، کسی مسلمان کے لیے مسلم ملک کی شہریت چھوڑ کر کافر ملک سے وفاداری کا حلف اٹھانا حرام ہے۔
اشاعت روزنامہ پاکستان لاہور 22 نومبر 2024
مندرجہ بالا پوسٹ میں نے فیس بک پر شیئر کیا تھا، جس پر مندرجہ ذیل کمنٹ آیا، وہ کمنٹ اور اس پر میرے تفصیلی جواب پیش خدمت ہے۔
بھائی علی اصغر۔۔۔ آپ سے میرا شفقت اور عقیدت کا رشتہ ہے، آپ کے کمنٹ پر تفصیلی جواب پیش خدمت ہے۔
بہتر یہ ہے کہ پہلے بھائی علی اصغر کے کمنٹ کا اردو میں ترجمہ کر دیا جائے، تاکہ قائرین کو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
Absolute rubbish and illiteracy.. senseless argument by so called islamic scholar.
(ترجمہ: سراسر بکواس اور ناخواندگی.. نام نہاد اسلامی سکالر کی بے ہودہ دلیل)
اب میری معروضات پیش خدمت ہیں۔
اسلامی ملک کی شہریت چھوڑ کر غیر مسلم یا کافر ملک کی شہریت لینے کے مسئلے پر بات کرتے وقت کئی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ فیصلہ دینی، سماجی، اور ذاتی حالا ت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات پر قابل غور ہیں۔
دینی پہلو:
اسلامی تعلیمات: اسلامی ممالک میں رہنے کا ایک اہم فائدہ یہ ہے، کہ اس میں اسلامی ماحول، دینی اجتماعات، مساجد، اور اسلامی قوانین کے قریب رہنے کا موقع ملتا ہے۔ غیر مسلم ممالک میں دینی آزادی محدود ہو سکتی ہے، اور عبادات اور اسلامی طرزِ زندگی برقرار رکھنے میں دشواریاں ہو سکتی ہے۔ حالات اور مشاہدات یہی ہیں؛ کہ مساجد کئی کئی کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں میں انفرادی نماز پڑھتے ہیں۔ اور صرف جمعہ کے موقع پر باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق ملتی ہے۔
اولاد کی تربیت:
غیر مسلم ممالک میں بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ وہاں کا ماحول اکثر اسلام کے اصولوں کے مخالف ہوتا ہے۔ تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اولاد کی بے راہ روی، نہ مناسب رویہ اور ناشائستہ ریپلائی کے بےانتہا واقعات موجود ہیں۔
فتنوں کا سامنا:
غیر اسلامی معاشرے میں ایسے فتنوں کا سامنا ہو سکتا ہے، جو عقائد کو متاثر کریں یا اسلام سے دور لے جائیں۔
سماجی پہلو (اسلامی شناخت کا خاتمہ):
غیر اسلامی ملک کی شہریت اختیار کرنے سے اسلامی شناخت پر اثر پڑ سکتا ہے۔ وہاں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
اسلاموفوبیا:
کئی غیر اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، یا اسلاموفوبیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مسلمان کمیونٹی سے دوری:
اسلامی ملک چھوڑنے سے اپنی مقامی مسلمان کمیونٹی اور ثقافت سے دور ہو سکتے ہیں، جو زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔
فقہی پہلو:
اسلامی فقہ میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے؛ کہ کیا مسلمان کو غیر مسلم ملک کی شہریت لینا جائز ہے یا نہیں۔
کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر اس ملک میں رہ کر اپنی دینی ذمہ داریاں پوری کر سکتے ہیں، تو یہ جائز ہے، جبکہ کچھ علما اس سے اجتناب کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔
معاشی اور تعلیمی پہلو (معاشی مواقع):
اکثر غیر اسلامی ممالک میں معاشی ترقی اور تعلیمی سہولتوں کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں، لیکن یہ مواقع دینی یا ثقافتی خسارے کے بدلے میں آسکتے ہیں۔
حلال کمائی کا مسئلہ:
غیر مسلم ممالک میں حلال روزگار کمانا مشکل ہو سکتا ہے، اور بعض اوقات ایسی صورت حال پیش آسکتی ہیں، کہ وہاں سود یا غیر شرعی کاموں کا سامنا ہو۔
انفرادی فیصلے کی اہمیت:
اگر کوئی غیر اسلامی ملک میں اس نیت سے جا رہے ہیں، کہ وہاں اسلام کی تبلیغ کریں گے، وہاں کی کمیونٹی کو دین کی طرف راغب کریں گے، یا اپنے اور اپنی نسل کے لیے دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی کامیابی حاصل کریں گے، تو یہ عمل مثبت ہو سکتا ہے۔
تاہم، اگر مقصد صرف دنیاوی فائدہ ہو، اور دین پر سمجھوتہ کرنا پڑے، تو یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
استخارہ:
شہریت تبدیل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصلِ کی جائے۔
علماء کرام اور تجربہ کار شخصیات سےمشورہ:
اپنے قریبی عالمِ دین اور وہ تجربہ کار شخصیات جنہوں نے کسی غیر اسلامی ملک کی شہریت لی ہے، ان سے مشورہ اور رہنمائی انتہائی مفید ہوگی۔ جو ہر شخص کے حالات کو مدنظر رکھ کر بہتر رہنمائی دے سکیں۔
فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ اپنا فیصلہ دینی، دنیاوی، اور عائلی عوامل کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔
دین کو مقدم رکھا جائے:
انسان جہاں بھی جائے، اپنی عبادات، عقائد، اور اسلامی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت پڑی گی۔ نیت اور حالات پر یہ فیصلہ منحصر ہے۔
جسٹس (ریٹائرڈ) مفتی تقی عثمانی کے سفر نامے، بہترین رہنما:
جسٹس (ریٹائرڈ) مفتی محمد تقی عثمانی کے دو جلدوں میں سفر نامے تحریر کیے ہیں، جو کسی غیر اسلامی ملک کی شہریت حاصل کرنے والے شخص کیلئے شاہکار کتب ہیں، اس سلسلے میں ان کا مطالعہ انتہائی مفید اورسود مند ہے، ان کتب کے مطالعے کے دو بڑے فوائد ہیں۔
(اول) حضرت مفتی صاحب کے قلم سے اس قسم کے سینکڑوں اشکالات کے تسلی وتشفی بخش جوابات دیے گئے ہیں۔
(دوم) دوسرا فائدہ یہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب جہاں جہاں تشریف لے گئے، ان مقامات کی مکمل تاریخی حیثیت تحریر کر دی ہے، جو بیش بہا معلومات کا خزینہ ہے۔
ان دو سفر ناموں کے نام درج ذیل ہیں۔
بیس ملکوں کا سفرنامہ اور
دنیا میرے آگے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین راستہ دکھائے، جس کی بدولت ہماری دنیا بھی اچھی ہو سکے، اور اخرت بھی۔
والسلام آپ کا بھائی
نور حسین افضل