fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ "خلیج پر” (At the Bay)

اردو ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی (نیوزی لینڈ)

علی الصبح ، ابھی سورج چڑھا نہیں تھا اور ساری کریسنٹ خلیج (Crescent Bay) سمندر سے اٹھنے والی دھند سے پوری طرح ڈھکی تھی۔ اور پیچھے جھاڑیوں سے ڈھکی پہاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہورہی تھیں۔ اور یہ سمجھنا مشکل تھا کہ یہ سب کہاں جا کر ختم ہوتے تھے اور کہاں سے مویشیوں کے علاقے اور رہائشی بنگلے شروع ہوتے تھے۔ ریتیلے راستے ختم ہوچکے تھے اور دوسری طرف مویشیوں کے علاقے اور عمارتیں بھی ؛ اور اس سے آگے  سرخی مائل گھاس سے ڈھکے سفید ریت کے ٹیلے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے  ، اور پہچا ننا مشکل تھا کہ کہاں ساحل ختم ہورہا تھا اور کہاں سمندر شروع ہورہا تھا۔ طوفانی اوس گرتی رہی تھی۔ ساری گھاس نیلی ہوچکی تھی ، اور بڑی بڑی بوندیں جھاڑیوں پر ٹھہر گئی تھیں اور ابھی تک گری نہیں تھیں۔ چاندی جیسی سفید چھپر اپنے ڈنٹھلوں پر جھک گئی  تھیں ، بنگلہ کے باغ میں گیندے اور گلابی پھولوں کے گیلے پودے سر جھکاے کھڑے تھے۔ فیوشاز(fuchsias۔امریکہ اور نیوزیلینڈ میں پایا جانے والے خوبصورت پھول ) سردی اور پانی میں پوری طرح سے بھیگے کھڑے تھے ، شبنم کے موتی ناسٹرٹیم (nasturtium – رنگ برنگے پھولوں کی زمینی بیل ) کے بڑے بڑے گول پتوں پر جمی تھی۔ لگ رہا تھا جیسے سمندر رات کے اندھیرے میں ساحل سے بہت نرمی سے ٹکرا رہا تھا ، جیسے کوئی بہت بڑی ،عظیم لہر پانی کی سطح پر چھوٹی چھوٹی لہریں بناتی آگے بڑھ رہی تھی__  کتنی دور ؟ شائد اگر تم آدھی رات کو نیند سے جاگ جاؤ تو دیکھ پاؤگے کہ کوئی بہت بڑی مچھلی تمھاری کھڑکی پر نمودار ہوئی اور پھر چلی گئی ……

اہا ۔ ہا ! سویا ہوا سمندر صدائیں دینے لگا تھا۔ اور جھاڑیوں سے گذرتی ہوئی، چھوٹی سی ، ہلکی سی بہتی ہوئی نہرکی آواز سنائی دے رہی تھی جو ہموار پتھروں سے ٹکراتی ، فرن (fern) کی بیضوی نما وادی سے زوروں سے گذرتے ہوے دوبارہ باہر نکلتے ہوے ؛ اور وسیع  پتوں پر پانی کی بڑی بوندوں کا چھڑکاؤ کرتے ہوے ، اور اس کے علاوہ ___ کیا تھا وہ ؟ ___ ہلکی سے ہلچل کے ساتھ مرتعش ، ٹہنی کو جھپٹتے ہوے ، اور پھر ایسی خاموشی جیسے کوئی کچھ سن رہا ہو۔

کریسنٹ خلیج کی دوسری طرف سے ، ٹوٹی چٹان کے پتھروں کے ڈھیر کے درمیان سے بھیڑوں کا ریوڑ ٹپ ٹپ کرتا نکل آیا۔ خوف سے ایک دوسرے کے قریب ہو کر ، ایک چھوٹے سے اونی ڈھیر کی صورت میں اچھلتے ہوے ، اور اپنی پتلی ، لکڑی جیسی ٹانگوں کے ساتھ جلدی جلدی ،  ہلکے سے ڈوڑتے ہوے ، جیسے وہ سردی اور خاموشی سے ڈر رہی تھیں۔ ان کے پیچھے بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والا کتا ، بھیگے پنجے ریت میں ملفوف ، زمین کی طرف ناک کیے ان کے ساتھ  لا پرواہی کے ساتھ چلا جا رہا تھا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ہو۔ اور تب ہی پتھریلے داخلہ سے چرواہا خود نمودار ہوا ، ایک دبلا پتلا سا ، سیدھا ، بوڑھا آدمی ،شبنم کی بوندوں سے بھرا موٹا اونی کوٹ پہنے ،مخملی پتلون جو گھٹنوں کے نیچے تنگ ہوجاتی تھی ، اور ایک نرم ٹوپی باہر نکلے ہوے کناروں کے ساتھ جس کے اطراف  نیلے رنگ کا  بڑا  سا رومال  بندھا  تھا ۔ ایک ہاتھ کو بیلٹ میں ٹھونسے اور دوسرے ہاتھ میں زرد رنگ کی نرم لکڑی تھامے تھا۔ آرام سے چلتے ہوے وہ ہلکے سے منہ سے سیٹی بجارہا تھا ، اور ہوا میں دور کہیں سریلی اور سوگوار سی بانسری کی دھن سنائی دے رہی تھی۔ پرانا ، وفادار کتا ، اپنی لاپرواہی اور غیر سنجید گی  پر شرمندہ ہوتے ہوے ، پرانی جھاڑیوں سے اچھلتا کودتا ، کچھ ٹہنیوں کو توڑتا چرواہے کے قریب پہنچ گیا اور باوقار انداز میں اپنے مالک کے ساتھ چلنے لگا۔ بھیڑیں ٹپ ٹپ کرتی آگے بھاگ رہی تھیں۔ وہ چیخنے لگی تھیں ، اور سمندر کی نچلی سطح سے پرندوں کے جھنڈ اور دوسرے جانوروں کے ریوڑ بھی ان کی چیخوں کا جواب دینے لگے۔ “ با ، با !” کچھ وقت کے لیے تو ایسا لگا جیسے وہ سب زمین  کے اسی حصہ پر موجود ہوں۔ سامنے بہت دور تک چھوٹے چھوٹے گڑھوں کے ساتھ  ریتیلی سڑک پھیلی ہوئی تھی ؛ دونوں جانب وہی بھیگی جھاڑیاں اور لکڑی کے تختوں سے بنی سایہ دار باڑ دکھائی دے رہی تھی۔ تب ہی کوئی دیوہیکل چیز نظر آئی؛ غیرمعمولی بڑی ، دیوقامت شئے دونوں ہاتھ پھیلاے ۔ وہ ، دراصل مسز اسٹبس (Mrs. Stubbs) کی دوکان کے باہر بہت بڑا گوند کا درخت تھا ، اور وہاں سے گذرتے ہوۓ ، فضاء میں پھیلی نیلگری (eucalyptus) کی خوشبو چاروں طرف مہک رہی تھی۔ اب دھند سے روشنی کے دھبے جھل ملانے لگے تھے۔ چرواہے نے سیٹی بجانی بند کی اور اپنی  آستین سے سرخ ناک کو اور گیلی داڑھی کو ٹھوڑا سا رگڑا ، آنکھوں کو مل کر صاف کیا اور سمندر کی جانب دیکھنے لگا۔ طلوع آفتاب ہورہا تھا۔ حیرت انگیز طور پر دھند پتلی ہونے لگی اور تیزی سے دور جانے لگی، میدان سے تحلیل ہوتے ہوے ، جھاڑیوں میں سمٹتے ہوے ، مختلف موڑ و خم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوے اور کبھی ساتھ چلتے ہوے  جیسے جیسے سورج کی شعائیں پھیلنے لگیں ، ایسے غائب ہوگئی جیسے اسے جلد سے جلد فرار چاہیے تھا ۔ دور کہیں آسمان _ نیلا اور روشن _ گڑھوں میں منعکس ہورہا تھا ، اور بوندیں روشنی میں چمکتے ہوے ٹیلیفون کے کھمبوں کے اطراف تیرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اچھلتا ، چمکدار سمندر اتنا منور ہو چکا تھا کہ اس طرف دیکھتے ہوے آنکھیں چندھیا نے لگی تھیں۔ چرواہے نے اپنے کوٹ کی جیب سے پائپ اور شاہ بلوط کے پھل کی شکل کی چھوٹی سی کٹوری نکالی ، تمباکو کے ٹکڑے کو تلاش کرنے لگا ، پھر اس کی پتلی سی پرت کو تراش کر اسے کٹوری میں ڈال دیا ۔ چرواہا ایک سنجیدہ اور خوش شکل بوڑھا شخص تھا۔ جیسے ہی اس نے سگار جلائی ، نیلے دھویں کی چادر نے اس کے سر کو ڈھک دیا ، اور کتا ، لگ رہا تھا ، اپنے مالک پر فخر محسوس کرنے لگا تھا۔

“ با ! با! “ کی آوازیں نکالتی ہوئی بھیڑیں منتشر ہو گئیں۔ اس سے پہلے  کہ پہلا انسان نیند سے جاگے ، وہ اس گرما کی کالونی سے باہر نکل چکی تھیں ۔ ان کی آوازیں بچوں کو ان کے خوابوں میں سنائی دیتی تھیں …… جو اپنے خوابوں میں  ہاتھ پھیلا کر اونی میمنوں کو  اپنی طرف گھسیٹتے ہوے انھیں پیار سے بغل گیر ہونا چاہتے تھے۔ تب ہی پہلا رہائشی باہر دکھائی دیا ، اور وہ برنیلس (Burnells) کی بلی فلوری (Florrie) تھی ، جو ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے جاگ کر ، دودھ والی لڑکی کا انتظار کرتے ہوے گیٹ کے ستون  کے سہارے بیٹھ گئی۔ جب اس نے بھیڑوں کے نگران کتے کو دیکھا تو اچھل کر اپنے جسم کو کمان کی طرح موڑ لیا اور دھاری دار سر کو اندر کرلیا اور ناپسنددیدگی کے احساس کے ساتھ جسم کو جھٹکا دیا۔ “ اُف ! کس قدر کھردرا ، گنوار اور نفرت انگیز مخلوق ہے!” فلوری نے کہا۔ لیکن بھیڑوں کا نگران  پرانا کتا ، بغیر دیکھے ڈگمگاتے ہوے ، مستی میں پیروں کو ادھر ادھر پھینکتے ہوے گذر گیا۔  صرف ایک کان کو جھٹکا دیا جس سے پتہ چلا کہ اس نے فلوری کو دیکھااور اس کے خیال میں وہ ایک بیوقوف مونث سے زیادہ کچھ نہیں۔

نسیم سحر جھاڑیوں سے اٹھی اور پتوں کی اور گیلی مٹی کی خوشبو، سمندر کی تیز خوشبو کے ساتھ مل کر پھیل گئی۔ بے شمار پرندے گیت گانے لگے تھے۔ایک طلائی برقش (goldfinch) (زرد چڑیا) چرواہے کے سر کے اوپر سے اڑتی ہوئی فوارے کی اونچائی پر سورج کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئی اور اپنے سینہ کے پروں کو بے ترتیب کرنے لگی۔ پھر سارے پرندے چرواہے کی جھونپڑی سے گذرتے ہوے ، کسی جھلسی ہوئی جگہ سے گذر گئے —- وہ جگہ جہاں لیلا(Leila) ، دودھ والی لڑکی اپنے بوڑھے دادا اور دادی کے ساتھ رہتی تھی ۔ بھیڑیں ادھر ادھر بھاگنے لگیں ، اور زرد دلدل سے آگے چلی گئیں، اور ویگ(Wag)، بھیڑوں کا نگران کتا بھی ان کے پیچھے جاتے ہوے اور انھیں گھیر کر ڈھلوان کی طرف لیجاتے ہوے  ان کی رہنمائی ایک تنگ پتھریلے درہ کی طرف کر رہا تھا جو کریسنٹ خلیج سے باہر ہو کر ڈے لائیٹ غار  (Daylight Cove) کی طرف جاتا تھا۔ “ با! با! “ تیزی سے سوکھتی سڑک پر چلتے ہوے بھیڑوں کی آواز میں کمزوری سی محسوس ہونے لگی تھی۔ چرواہے نے پائپ بازو رکھ دیا ۔ پھر اسے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا اور وہ چھوٹی کٹوری بھی۔اور پھر دوبارہ ملائم دھن میں  سیٹی بجانے لگا۔ ویگ ، کچھ سونگھتے ہوے  چٹان کے چھجے پر چلا گیا اور ناگواری کے ساتھ واپس چلا آیا۔ پھر بھیڑوں کو ہانکتے ہوےاکٹھا کیا ، اور  چرواہا بھی ان کے پیچھے جاتے ہوے نظروں سے غائب ہوگیا۔

[II]

           چند لمحوں بعد ایک بنگلہ کا پچھلا دروازہ کھلا ، اور چوڑی دھاریدار غسل کے سوٹ میں ملبوس ایک شبیہہ چھلانگ لگا کر گھوڑوں کے میدان میں پہنچ گیی ، لکڑیاں اور سیڑھی ہٹائی ، لچھے دار گھاس سے دوڑتے ہوے خالی جگہ پر پہنچا ، ڈگمگاتے ہوے پہاڑی پر چڑھا ، غیر محفوظ پتھروں سے زندگی کی دوڑ لگاتے ہوے سردی میں ، گیلے کنکروں سے ، سخت ریت پر سے جو تیل کی طرح چمک رہی تھی جاتا رہا۔ چھپا۔ چھپ ! ، چھپا۔ چھپ! پانی کے بلبلے اس کے پیروں کو چھو رہے تھے جب سٹینلی برنیل(Stanley Burnell) جوش میں مگن پانی میں سے چلتا ہوا باہر آ یا ۔ ہمیشہ کی طرح پہلا شخص ! دوبارہ سب کو شکست دے دی۔ پھر اس نے سر اور گردن کے بل پانی میں چھلانگ لگا دی۔

“ تمھارا خیر مقدم ہے بھائی ! تم عظیم ہو ، تمھارا استقبال ہے !” ڈھول کی تھاپ جیسی مخملی آواز زور و شور سے بہتے پانی سے ابھری۔

عظیم اسکاٹ (اسکاٹ لینڈ کا باشندہ) ! لعنت بھیجو ! سٹینلی اوپر اٹھ کر دیکھنے لگا  بہت دور کوئی سیاہ سر بار بار اوپر اور نیچے ہو رہا تھا اور ایک ہاتھ اوپر اٹھا ہوا تھا۔ وہ جوناتھن ٹراوٹ(Jonathan Trout ) تھا —— بالکل اس کے سامنے !  “شاندار صبح !”دوبارہ وہی سہانی آواز سنائی دی۔

“ ہاں ، بہت عمدہ !”  سٹینلی نے مختصر سا جواب دیا۔ آخر کیوں یہ بیوقوف لوگ اپنی طرف کے سمندر کے حصہ تک محدود نہیں رہتے؟ کیوں یہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوے عین اسی جگہ پر آگیا تھا ؟ سٹینلی نے زوردار پیر کو دھکا دیا اور  ہاتھ کاندھے سے اوپر اٹھا کر ، آگے کی طرف لپکا اور پانی سے باہر آگیا ۔ لیکن جوناتھن صحیح معنوں میں اس کا مدمقابل تھا۔ وہ باہر آیا تو اس کے سیاہ بال پیشانی پر چپکے ہوے تھے اور چھوٹی سی داڑھی بھی۔

“ میں نے گذشتہ رات غیرمعمولی خواب دیکھا ہے !” وہ چیخا ۔

اس شخص کے ساتھ مسٔلہ کیا ہے ؟اس کا گفتگو کرنے کا جنون سٹینلی کو ناقابل بیان حد تک جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیا کرتا تھا۔ ہمیشہ وہی باتیں —- اس نے جو خواب دیکھا تھا اسی کے بارے میں بے تکی باتیں ، یا کوئی خبطی سا خیال ، یا کوئی سڑی ہوئی کتاب پڑھ رکھی ہو۔ سٹینلی پیٹھ کے بل پلٹا اور پیروں کو مارتا  رہا یہاں تک کہ وہ ایک زندہ پانی کا ستون دکھائی دینے لگاتھا۔ لیکن پھر بھی  … “ میں نے دیکھا کہ میں بہت اونچی اور خطرناک چٹان سے لٹک رہا تھا نیچے کسی کو پکارتے ہوے ۔” کاش ایسا ہوا ہو! “ سٹینلی نے سوچا۔ وہ اب مزید تیر نہیں سکتا تھا ۔اس نے چھپاکے مارنا بند کردیا۔ “ دیکھو ٹراوٹ ، “ اس نے کہا ،  “ میں اس صبح کچھ جلدی میں ہوں۔”

“ تم کیا ؟” جوناتھن بہت زیادہ حیران ہوا — یا شائد حیران ہونے کا دکھاوا کررہا تھا — کہ وہ پانی میں ڈوب گیا تھا ، پھر زوروں سے سانس چھوڑتے ہوے دوبارہ  سطح آب پر نمودار ہو گیا ۔

“ میرا مطلب تھا ،” سٹینلی نے بتایا ،” دراصل میرے پاس وقت نہیں ہے کہ — کہ — کہ بیوقوف بنتا رہوں۔ میں یہ سب ختم کردینا چاہتا ہوں ۔ میں اس وقت جلدی میں ہوں۔ مجھے کچھ کام نپٹانے ہیں اس صبح — سمجھ گیے ؟ “

سٹینلی کی تیراکی ختم ہونے سے پہلے جوناتھن جا چکا تھا ۔ “ الوداع ، دوست!” ایک نرم سی ڈھول کی تھاپ جیسی آواز سنائی دی ، اور وہ پھسلتے ہوے بغیر موج والے پانی کی طرف چلا گیا … لیکن لعنت ہے اس شخص پر! اس نے سٹینلی کے غسل کے لطف کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ کتنا بے عمل بیوقوف شخص تھا ! سٹینلی پھر سے سمند ر میں کود گیا اور تیزی سے تیرنے لگا اور بہت جلد ساحل پر پہنچ گیا۔ اسے محسوس ہورہا تھا جیسے اسے دھوکہ دیا جارہا تھا۔

جوناتھن کافی دیر پانی میں رہا۔ مچھلی کے بازوؤں کی طرح اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوے وہ آہستہ آہستہ تیرتا رہا ، اور اپنے دبلے ، پتلے جسم کو سمندر کے پانی سے ٹکرانے کے لیے چھوڑ دیا۔ ویسے یہ عجیب بات تھی کہ ساری ناراضگیوں کے باوجود  وہ سٹینلی برنیل کو پسند کرتا تھا ۔ ویسے یہ سچ تھا کہ وہ اکثر اسے تنگ کرتے رہنے کی شیطانی خواہش رکھتا تھا اور اکثر اس کا مذاق آڑایا کرتا تھا ، لیکن دل کی گہرائیوں میں اسے افسوس بھی تھا۔ کسی کام کے کرنے کے ارادہ میں دلسوز عنصر شامل ہوتا تھا۔ تم یہ احساس کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کہ وہ ایک دن پکڑا جائیگا ، اور پھر وہ کیسا قادر مطلق کاشتکار بن کر ظاہر ہوگا ! اسی وقت ایک

زبرد ست لہر نے جوناتھن کو آٹھا یا اور خشکی کی طرف ، ساحل پر ایک پر مسرت آواز کے ساتھ پھینک دیا ۔ کیا خوبصورتی ہے! اور اب دوسری لہر آگئی ۔ یہی زندگی کا نظام تھا — لاپرواہ ، بے فکر، خود کو ختم کرتے ہوے۔  وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر پانی میں چلتے ہوے ، پیروں کو ںاہموار ریت میں دھنساتے ہوے ، ساحل کی طرف چلا گیا ۔ اگر زندگی کو آسان بنانا ہو تو ، زندگی کے نشیب و فراز ، اتار ۔چڑھاؤ سے مقابلہ کرنے کی بجاے انھیں گذر جانے دیا جاے — اور یہی انداز تھا جس کی ضرورت تھی ۔ اور یہی ذہنی تناؤ تھا  جو ایک غلط طرز عمل تھا۔ زندہ رہنے کے لیے — زندہ رہنے کے لیے! اور ایک مکمل صبح ، اتنی تازہ اور اتنی خوبصورت ، سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہوتے ہوے ، جیسے خود کی خوبصورتی پر مسکرا رہی ہو، لگتا تھا سرگوشی کررہی ہو، “ کیوں نہیں ؟ “

لیکن اب جوناتھن پانی سے باہر تھا اور سردی کی وجہ سے نیلا پڑ چکا تھا۔ اس کے سارے جسم میں درد ہورہا تھا ، جیسے کوئی مروڑ کر اس کے جسم سے سارا خون نکال رہا ہو۔ اور ساحل کے ساتھ ساتھ اکڑ کر چلتا رہا، کانپتے ہوے ، سارے اعضا تنے ہوے ، اس نے بھی محسوس کیا کہ اس کا غسل کرنے کا سارا لطف برباد ہو چکا تھا ۔ وہ بہت دیر تک پانی کے اندر رہا تھا۔

 [ III]

 

بیریل (Beryl) نشست گاہ میں اکیلی بیٹھی تھی جب سٹینلی داخل ہوا۔  وہ عمدہ اونی سوٹ پہنے ، سخت کالر اور چتکبری ٹائی لگاے تھا ۔ وہ غیرمعمولی طور پر صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا ؛ اس دن وہ شہر جارہا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہوے اس نے اپنی گھڑی نکال کر پلیٹ کے بازو رکھ دی ۔

“ میرے پاس صرف پچیس منٹ ہیں ،” اس نے کہا۔ “ کیا تم دیکھوگی کہ دلیہ (porridge) تیار ہے ، بیریل ؟”

“ ماں وہی لینے گئی ہے ،” بیریل نے بتایا۔ وہ بھی میز کے ساتھ  کرسی پر بیٹھ گئی اور سٹینلی کے لیے چاۓ نکال دی۔

“ شکریہ!” سٹینلی نے چاۓ کی چسکی لیتے ہوے کہا۔ “ ہیلو!” اس نے چونک کر کہا ، “ تم شکر ڈالنا بھول گئیں “

“ اوہ ، معذدت !” لیکن بیریل نے اس کے کپ میں شکر ڈالنے کی بجاے شکر کا پیالہ آگے بڑھا دیا۔ آخر کیا مطلب تھا اس کا ؟  اپنی نیلی آنکھوں کو پھیلاتے ہوے جو لگتا تھا کانپ رہی تھیں ،  سٹینلی نے خود ہی شکر اپنی پیالی میں ڈالی ۔ اس نے اپنی سالی  پر ایک نظر ڈالی اور پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

“ کوئی مسلہ تو نہیں ، ہے کیا ؟” اس نے لاپرواہی سے کالر کو ٹھیک کرتے ہوے پوچھا ۔

بیریل سر جھکاے بیٹھی تھی ؛ اپنی انگلیوں سے پلیٹ کو پلٹا۔

“ کچھ نہیں ،” اس نے ہلکی سی آواز میں کہا ۔ پھر اس نے بھی سر اٹھا کر دیکھا اور سٹینلی کی طرف دیکھ کر مسکرادی۔ “ کیوں کچھ ہونا چاہیے ؟”

“ اوہ ! کوئی وجہ نہیں جہاں تک میں جانتا ہوں ۔ میرے خیال سے تم مجھے کچھ ایسے لگ رہی تھیں  —- “

اسی لمحہ دروازہ کھلا اور تین لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں دلیہ کی پلیٹیں لیے داخل ہو گئیں۔ وہ تینوں ایک ہی جیسے کپڑے پہنے تھیں — نیلی جرسی اور نیکر ؛ اور ان کے بھورے پیر برہنہ تھے ، بالوں کی چوٹی گوندھ کر انھیں گھوڑے کی پونچھ کی شکل میں سجا دیا گیا تھا۔ ان کے پیچھے مسز فیرفیلڈ (Mrs. Fairfield ) ہاتھوں میں کشتی لیے چلی آئیں۔

“ دھیان سے ، بچوں ،”  خاتون نے متنبہ کیا۔ لیکن وہ تو بہت محتاط تھے۔ انھیں چیزوں کو لیجانا ، اگر اجازت دی جاے تو ، بہت پسند تھا۔ “ تم نے اپنے والد کو صبح بخیر کہا ؟”

“ ہاں ، دادی ۔”  وہ سب سٹینلی اور بیریل کے مخالف پڑے بنچ پر بیٹھ گئیں۔

“ صبح بخیر ، سٹینلی !”  بزرگ خاتون مسز فیرفیلڈ نے اسے اس کی پلیٹ دی۔

“ صبح بخیر ، ماں ! لڑکا کیسا ہے ؟”

“ شاندار ! گذشتہ رات وہ صرف ایک بار جاگا تھا۔ کیا مکمل صبح ہے !”

بریڈ کے ٹکڑے پر ہاتھ رکھتے ہوے ، بزرگ خاتون رکیں اور کھلے دروازہ سے باہر باغ کی طرف دیکھنے لگیں۔ سمندر آوازیں کررہا تھا۔ اور کھلی کھڑکی سے سورج کی روشنی زرد دیواروں اور خالی فرش پر پھیل گئی۔ میز پر رکھی ہر چیز اچانک چمک اٹھی۔ عین درمیان میں  نیسٹرٹیم ( nasturtiums  جنوبی امریکہ کی گول خوردنی پتیوں اور نارنجی اور سرخ پھولوں کی زمینی بیل )  کے سرخ اور نارنجی پھولوں سے بھرا سلاد کا کٹورا رکھا تھا ۔ وہ مسکرائیں اور ان کی آنکھیں گہرے سکون کے احساس سے چمک اٹھی تھیں۔

“ ماں ، کیا آپ میرے لیے بریڈ کا ایک ٹکڑا کاٹ دوگی ،”  سٹینلی نے کہا۔ “ میری گاڑی کے پہنچنے میں صرف بارہ منٹس  اور تیس سکنڈس  رہ گئے ہیں ۔ کیا کسی نے میرے جوتے ملازمہ کو دیے ہیں ؟”

“ ہاں ، وہ تیار ہیں ۔” مسز فیرفیلڈ کافی پرسکون تھیں۔

“ اوہ ، کیزیا(Kezia) ! کتنی غیر منظم بچی ہو!”  بیریل مایوسی سے چلائی۔

“ میں ، آنٹی بیریل ؟” کیزیا نے گھورتے ہوے کہا۔ آخر اس نے اب کیا کیا تھا؟ اس نے تو صرف دلیہ کے درمیان ندی سی بنا دی تھی ، پھر اسے بھر دیا ، کناروں سے کھانا شروع کردیا۔ لیکن وہ تو ہر صبح ایسے ہی کیا کرتی تھیں ، اور کسی نے ابھی تک اسے کچھ نہیں کہا تھا۔

“ تم کیوں اپنا کھانا ازابیل (Isabel) اور لاٹی(Lottie) کی طرح سلیقہ سے نہیں کھا سکتیں ؟”  یہ بڑے لوگ کتنے غیر معقول ہوتے ہیں!

“ لیکن لاٹی تو ہمیشہ تیرتا جزیرہ بناتی ہے ، بناتی ہو نا لاٹی ؟”

“ میں نہیں بناتی ،” ازابیل نے چالاکی سے کہہ دیا ۔ “ میں تو صرف شکر کا چھڑکاؤ کر کے دودھ ڈال دیتی ہوں اور بس۔ صرف بچے ان کی غذا کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ “

سٹینلی نے کرسی پیچھے ہٹائی اور کھڑا ہوگیا۔

“ کیا آپ میرے جوتے لا د ینگی  ، ماں ؟ اور بیریل ، اگر تمھارا کھانا ختم ہوگیا ہو تو جلدی سے گیٹ پر جاکر گاڑی کو رکوا دو۔ اور ازابیل دوڑ کر اپنی ماں کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ میرا باؤلر ہیٹ (bowler hat) کہاں رکھا ہے۔ رکو —- کیا تم بچے میری چھڑی کے ساتھ تو نہیں کھیل رہے تھے ؟”

“ نہیں ، با با!”

“ لیکن میں نے تو یہیں رکھی تھی ،” سٹینلی نے ہنگامہ شروع کردیا۔ “ میں نے علٰحیدہ ، واضح طور پر اسی کونہ میں رکھا تھا۔ اب کس کے پاس ہے ؟ میں اسے ڈھونڈھنے میں وقت ضائع نہیں کرسکتا ۔ جلدی تلاش کرو۔ چھڑی کسی صورت ملنی چاہیے۔”

یہاں تک کہ ملازمہ لڑکی ، ایلس( Alice) کو بھی نہیں چھوڑا گیا ۔ “ تم تو کہیں ، اتفاق سے ،  چولھے کی آگ میں چبھونے کے لیے استعمال تو نہیں کرتی

رہیں ؟ “

سٹینلی تیزی سے خواب گاہ میں داخل ہوا جہاں  لنڈا (Linda) لیٹی ہوئی تھی۔ “بڑی غیر معمولی بات ہے ۔ میری ایک چیز بھی میں حفاظت سے رکھ نہیں پاتا۔ میری چھڑی مجھ سے دور ہوگئی ہے ، اب !”

“ چھڑی ، پیارے ؟ کیسی چھڑی ؟ “  لنڈا کا ابہام ایسے موقعوں پر حقیقت سے  دور تھا، سٹینلی نے اس بات کا تعین کر لیا۔ کیا کوئی بھی اس کے  ساتھ ہمدردی نہیں کرسکتا ؟

“ گاڑی ! گاڑی ، سٹینلی ! “ بیریل گیٹ کے پاس کھڑے ہوے چیخ رہی تھی۔

سٹینلی نے دور سے لنڈا کی طرف  ہاتھ ہلایا  ۔ “ الوداع کہنے کے لیے وقت نہیں ہے ! “ اور یہ ایک طرح سے لنڈا کے لیے سزا ہی تھی۔

اس نے باؤلر ہیٹ چھینا اور تیزی سے گھر سے باہر نکلا ، باغ کے راستہ پر لہراتے ہوے۔ ہاں ، اس کی گاڑی وہاں انتظار کر رہی تھی ، اور بیریل ، کھلی گیٹ پر جھکی کسی پر ہنس رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ عورتوں کی سنگ دلی ! وہ کیسے فرض کرلیا کرتی ہیں ، اور پھر یہ تمھارا کام تھا کہ اس غلامی سے خود کو دور ہٹائیں جبکہ انھیں اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کہ وہ یہ دیکھیں کہ تمھاری چھڑی کہیں گم نہیں ہوئی۔ کیلی (Kelly) چابک کی مدد سے گھوڑوں کو قابو میں کر رہا تھا ۔

“ الوداع ، سٹینلی ،” بیریل نے خوش دلی اور پیار سے کہا۔ الوداع کہہ دینا کافی آسان سی بات تھی۔ اور وہ وہیں اپنےہاتھ سے آنکھوں پر سایہ کیے ، بے مقصد کھڑی رہی۔ بدترین صورت یہ تھی کہ سٹینلی کو بھی چیخ کر الوداع کہنا چاہیے تھا ، اپنی موجودگی کو ظاہر کرنے کی خاطر ۔  پھر اس نے  بیریل کو پلٹ کر، پھلانگتے ہوے واپس گھر کی طرف جاتے  دیکھا ۔ اس سے چھٹکارا پا کر وہ خوش تھی !

ہاں ، وہ شکرگذار تھی۔ نشست گاہ سے بھاگتے ہوے کہا “ وہ جاچکا ہے!”  لنڈا نے اپنے کمرے سے چیخ کر پوچھا : “ بیریل ! کیا سٹینلی جاچکا ہے ؟” بزرگ مسز فیرفیلڈ  لڑکے کو فلالین کا چھوٹا کوٹ پہناے داخل ہوئیں۔

“ چلا گیا؟ “

“ ہاں ، چلا گیا۔”

اوہ ، چین و سکون ، ایک شخص کے باہر چلے جانے سے کتنا فرق پڑ گیا تھا۔ ان کی تو آوازیں ہی تبدیل ہوچکی تھیں جیسے وہ ایک دوسرے کو بلا رہے تھے۔ بڑی گرمجوشی اور محبت کا عالم تھا ، جیسے ان سب کے درمیان ایک باہمی راز تھا۔ بیریل میز کے پاس چلی گئی ۔ “ ایک اور چاے کا کپ لیں ، ماں ۔ یہ ابھی تک گرم ہے ۔” وہ ، دراصل اس حقیقت کے سلسلہ میں جشن منانا چاہتی تھی کہ اب وہ جو چاہے کرسکتی تھی ۔ وہاں ، انھیں پریشان کرنے والا  کوئی مرد  نہیں تھا ۔ ایک پورا مکمل دن ان کا اپنا تھا۔

“ نہیں ، شکریہ ، بیٹی ،” بزرگ مسز فیرفیلڈ نے کہا ، اور اسی وقت لڑکے کو اچھالتے ہوے کہا “ ایک ہنس۔ ایک ہنس ۔ ایک گا ! “ ( “a-goos-a-goos-a-ga ۔ “کسی شخص کے لیے تحقیر آمیز کلمات ) – اس کے لیے ، جس کا مطلب تھا سب ہی کی طرح  وہ بھی وہی احساس رکھتی تھی۔ اور چھوٹی لڑکیاں جانوروں کے احاطہ کی طرف ایسے بھاگیں جیسے مرغیوں کے ڈربہ سے مرغیاں  نکل کر بھاگی ہوں۔

یہاں تک کہ ایلیس ، ملازمہ جو باورچی خانہ میں برتن صاف کررہی تھی ، — اس وبائی مرض سے متاثر ہو گئی ہو — ٹینک کا قیمتی پانی لا پرواہی سے استعمال کرنے لگی –

“ اوہ ، یہ مرد ! “ اس نے کہا ، اور چاے کی کیتلی کو بڑے سے برتن میں رکھ دیا اور اس وقت تک پانی کو کھلا چھوڑ دیا  جب تک اس میں بلبلے آنے بھی بند ہو گیے ، گویا کہ  وہ بھی ایک آدمی تھا اور پانی میں ڈوبے رہنا ان کے لیے اچھا تھا۔

IV

       “ ٹھہرو ، ایزابیل ! کیزیا ، میرا انتطار کرو! “

بیچاری چھوٹی سی لاٹی ، پھر ان سے پیچھے رہ گئی تھی، کیونکہ اس کے لیے لکڑی کے ٹکڑوں ، سیڑھی وغیرہ سے نکلنا  بہت مشکل ہو رہا تھا۔ سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی اس کے گھٹنے کانپنے لگے تھے ؛ اس نے فوری ستون کو تھام لیا۔ پھر اسے دوسرا قدم رکھنا تھا۔ لیکن کونسا پیر ؟وہ بالکل طئے نہیں کر پارہی تھی۔ اور جب اس نے قدرے مایوسی کے ساتھ پیر اوپر رکھا __ تب اسے بڑا خوفناک احساس ہوا۔ وہ نصف جانوروں کے علاقہ میں تھی ، اور نصف اونچی اٹھی گھاس کے علاقہ میں۔ اس نے  جان کی پرواہ نہ کرتے ہوے ، ستون کو مضبوطی سے تھام لیا ۔ اور اونچی آواز میں کہا ، “ میرا انتظار کرو! “

“ نہیں ، تم اس کا انتظار نہیں کروگی ، کیزیا ! “ ایزابیل نے کہا۔ “ وہ بھی عجیب بیوقوف لڑکی ہے۔ بلاوجہ ہمیشہ ہنگامہ کھڑا کرد یتی ہے۔ چلو بھی ! “ اور اس نے کیزیا کی جرسی پکڑ کر کھینچی ۔ “ اگر تم میرے ساتھ  آؤگی تو میں تمھیں  میری بالٹی  استعمال کرنے دونگی ،” اس نے بڑے مشفقانہ انداز میں کہا۔ “ وہ تمھاری بالٹی سے بہت بڑی ہے ۔” لیکن کیزیا ، لاٹی کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔وہ اس کی طرف بھاگی ۔ اس وقت تک لاٹی کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا اور وہ مشکل سے سانس لے پا رہی تھی۔

“ یہاں ، تمھارا دوسرا پیر رکھو ،” کیزیا نے کہا۔

“ کہاں ؟ “

لاٹی نے نیچے کیزیا کی طرف ایسے دیکھا جیسے وہ پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر ہو۔

“ یہاں ، جہاں میرا ہاتھ ہے ۔ “ کیزیا نے اس جگہ ہاتھ سے تھپتھپاتے ہوے کہا۔

“ اوہ ، تمھارا مطلب وہاں ؟ “  لاٹی نے گہری سانس لی اور دوسرا پیر اوپر رکھ دیا۔

“ اب — کچھ گول گھوم جاؤ ، اور بیٹھ جاؤ پھر پھسل جاؤ ،” کیزیا نے کہا۔

“ لیکن ، کیزیا ، یہاں تو بیٹھنے کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہے ،” لاٹی نے کہا۔

بہرحال کسی طرح اس مہم کو سرانجام دے دیا ، اور خود کو جھٹکا دیکر سنبھال لیا اور ایک اطمینان بخش مسکراہٹ اس کی چہرے پر چھا گئی ۔

“ میں سیڑھی پر اچھی طرح سے چڑھ جاتی ہوں ، چڑھ جاتی ہوں نا، کیزیا ؟”

لاٹی ایک پرامید فطرت کی مالک لڑکی تھی۔

ایزابیل چمکدار سرخ چھتر ٹوپ (sunbonnet ۔ آگے اور پیچھے پھیلی ہوئی ٹوپی جو گردن اور چہرے کو سورج کی گرمی سے بچاتی ہے۔) پہنے پہاڑی سے نیچے پھسلتی جارہی تھی ، اور تب ہی اس نے محسوس کیا کہ دو گلابی اور نیلی چھپر ٹوپ اس کے پیچھے آ رہی تھیں۔ پہاڑ کی اونچی چوٹی پر وہ کچھ دیر کے لیے رکے یہ طئے کرنے کے لیے کہ کس طرف جایا جاے تاکہ اس پر نظر رکھی جا سکے جو پہلے سے وہاں موجود تھا۔ خط فلکی کی مخالف سمت سے  کھڑے ہو کر پیچھے سے دیکھا جاے تو اپنے بیلچوں کے ساتھ کام کرتے ہوے ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے وہ نہایت چھوٹے ، تذبذب کے شکار ، کسی ایڈوینچر گیم کے مہم جو ہوں ۔ ( ایک خطرہ کا ویڈیوکھیل )

سیموئیل جوزف کا پورا خاندان پہلے ہی سے وہاں موجود تھا ، اپنی مدد گار خاتون کے ساتھ  جو کیمپ کے اسٹول پر بیٹھی تھی اور گلے میں بندھی سیٹی بجاکر احکامات جاری کرتی اور چھڑی کے اشارے سے انھیں انجام دینے کی ہدایات دیتی۔ سیموئیل جوزف کے خاندان کا کوئی شخص خود سے نہ کھیل سکتا تھا اور نہ ہی انھیں منظم کر سکتا تھا۔ اور اگر وہ کھیلیں تو پھر اس کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا کہ لڑکے لڑکیوں کی گردنوں میں پانی ڈالتے یا  لڑکیاں ان کی جیبوں میں چھوٹے چھوٹے کالے کیکڑے ڈالنے کی کوشش کرتیں۔ اسی لیے مسز سیموئیل جوزف اور بیچاری خاتون مددگار مل کر ہر صبح ایسے پروگرام ، بقول ان کے “brogramme” بناتیں تا کہ انھیں شرارتوں سے دور اور خوش رکھا جا سکے ، بقول ان کے  abused and out of mischief”  “ ۔ اور سارے مقابلے ، دوڑ اور گول گھومنے والے کھیلوں سے متعلق ہوتے تھے۔ _____  ہر کھیل خاتون مددگار کی سیٹی کی چبھتی ہوئی آواز سے شروع ہوتی اور اسی طرح ختم بھی ہوتا تھا۔  انعامات بھی ہوتے تھے —— بڑے سائیز کے کاغذ میں لپٹے ڈبے جو خاتون مدد گار مسکراتے ہوے اپنے ڈوریوں سے بنے وزنی تھیلے سے نکالتی جاتی ۔ سیموئیل جوزف کے خاندان کے سارے بچے خوفناک حد تک ایک دوسرے سے انعامات پر جھگڑنے لگتے، ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں پر چٹکیاں لیتے —— وہ سب چٹکیاں لینے میں ماہر تھے۔ صرف ایک مرتبہ برنیل خاندان کے بچوں نے ان کے ساتھ کھیلا اور کیزیہ نے انعام بھی حاصل کیا ، اور جب اس نے ڈبہ پر لگے کاغذ کی تین تہیں کھولی تو حیران رہ گئی کہ اس میں سے ایک چھوٹا سا زنگ آلود بٹن -ہک (button-hook) رکھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ غیر ضروری ہنگامہ کس لیے تھا ……

ویسے وہ کبھی سیموئیل جوزف کے بچوں کے ساتھ  نہ کھیلے اور نہ ہی کبھی ان کی پارٹیوں میں گئے۔ سیموئیل جوزف ،  خلیج پر ہمیشہ بچوں کی پارٹیوں کا  انتظام کیا کرتے تھے  اور ہمیشہ وہی کھانے پیش کیے جاتے تھے۔ ایک بڑے سے کٹورے میں خاکی پھلوں کا سلاد  ، چار حصوں میں کٹے کلچے (buns) اور ایک بڑے سے جگ میں لیمو کا شربت ، جسے خاتون مددگار “ Limmonadear” کہتی تھیں۔ اور پھر شام میں آپ کی واپسی کچھ ایسے ہوتی تھی —- کسی کی  فراک کی جھالر آدھی پھٹی ہوئی ، یا ڈریس کے سامنے والے حصہ پر کچھ نہ کچھ گرا ہوا ، سیموئیل جوزف کے بچوں کو وحشیوں کی طرح سبزہ زار پر چھلانگیں لگاتے ہوے چھوڑ کر ۔ نہیں ! وہ تو بہت خوفناک تھے۔

ساحل کی دوسری طرف ، پانی کے بہت قریب ، دو چھوٹے لڑکے  ، نیکر چڑھاے  مکڑیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ ایک مٹی کھود رہا تھا ، اور دوسرا بڑبڑاتے ہوے پانی کے اندر اور باہر چھوٹی سی بالٹی کو بھرتے ہوے آرہا تھا اور جا رہا تھا ۔ وہ ٹراوٹ (Trout) خاندان کے لڑکے تھے — پپ (Pip) اور ریگز(Rags) ۔ لیکن پپ کھودنے میں  ، اور ریگز اس کی مدد کرنے میں اتنا مصروف تھے کہ وہ  اپنے رشتہ داروں کو اس وقت تک نہیں دیکھ پاے جب تک کہ وہ  بہت قریب نہیں آگیے تھے ۔

“ دیکھو !” پپ نے کہا ۔ “ مجھے کیا ملا ۔” اور اس نے سب کو ایک پرانا ، گیلا ، اور پچکا ہوا جوتادکھایا۔ تینوں بچیاں غور سے اسے دیکھنے لگیں۔

“ آخر تم اس کا کروگے کیا ؟ “ کیزیا نے پوچھا۔

“ رکھونگا ،یقیناً ! “  پپ نے تضحیک آمیز انداز میں کہا ۔ “ یہ میری تلاش  ہے — دیکھا ؟ “

ہاں ، کیزیا نے دیکھا تھا۔  تاہم ، پھر بھی ……

“ کئی چیزیں ریت میں دبی پڑی تھیں ،” پپ نے وضاحت دی۔ “ لوگ انھیں بیکار سمجھ کر پھینک دیتے اور وہ ملبہ کے نیچے دب جاتے ہیں۔ خزانہ ۔ کیوں — تمھیں  بھی کبھی کچھ مل سکتا  ہے —- “

“ لیکن ریگز کیوں پانی ڈالتا جارہا ہے ؟ “ لاٹی نے پوچھا ۔

“ اوہ ، وہ اس کو گیلا رکھنے کے لیے ،” پپ نے بتایا ، “ تاکہ کام کچھ آسان ہو جاے ۔ کرتے رہو ، ریگز ۔”

اور چھوٹا ریگز بھاگ بھاگ کر پانی ڈالتا رہا یہاں تک کہ وہ کوکوا کی طرح کتھئی ہو گیا تھا۔

“ یہاں ، میں تمھیں بتاؤں کہ کل میں نے کیا پایا ؟” پپ نے پراسرار انداز میں کہا ،اور اپنا بیلچہ ریت میں دبا دیا۔” وعدہ کرو کہ تم کسی سے نہیں بتاؤگی۔”

انھوں نے وعدہ کرلیا۔

“ کہو ، قسم کھاتے ہیں پوری دیانت داری کے ساتھ ۔(cross my heart straight dinkum)۔

بچیوں نے دہرایا ۔

پپ نے اپنی جیب سے کچھ نکالا ، اسے اپنی جرسی کے ساتھ رگڑا ، پھر پھونکا  ، اور دوبارہ رگڑا۔

“ اب گھوم جاؤ! “ اس نے حکم دیا۔

وہ گھوم گئیں۔

“ سب ہی اس طرف دیکھو !ہلنا مت ! اب ! “

اور اس کا ہاتھ کھلا ؛ اس نے اپنا ہاتھ روشنی میں کیا جہاں کوئی چیز اچانک سے چمک اٹھی ، آنکھ جھپکنے جیسی ، بہت ہی خوبصورت سبز چیز تھی۔

“ یہ ایک عددی نشان ہے ،” پپ نے سنجیدگی سے کہا۔

“ سچ مچ ، پپ ؟ “ ازابیل بہت متاثر دکھائی دی۔

وہ خوبصورت سبز چیز پپ کی انگلیوں میں ناچتی دکھائی دے رہی تھی۔آنٹی بیریل کی انگوٹھی میں بھی عددی نشان ہے ، لیکن وہ تو بہت چھوٹا ہے۔ یہ کسی تارے جتنا بڑا اور زیادہ خوبصورت بھی ہے ۔

 V

         جیسے جیسے صبح طویل ہوتی چلی گئی ، پارٹی کے سارے ممبرس ریت کے ٹیلوں سے نیچے ساحل کی طرف نہانے کے لیے  آتے دکھائی دیے ۔ ظاہر تھا کہ دن کے گیارہ بجے سمر کالونی کی خواتین اور بچوں کے لیے سارا سمندر صرف انھی کے لیے تھا۔ پہلے خواتین نے نہانے کے کپڑے پہنے اور اسپنج بیگ کی طرح کی بدنما سی ٹوپیاں پہن لیں ؛ پھر بچوں کے کپڑے تبدیل کیے گیے۔ سارے ساحل پر کپڑوں اور جوتوں کے ڈھیر پڑے تھے ؛ بڑی بڑی گرما کی ٹوپیوں پے پتھر رکھے تھے تاکہ وہ اڑ نہ پائیں ، جو دور سے بے پناہ بڑی سیپیوں کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔ عجیب بات تو یہ تھی کہ سمندر کی آوازیں  بھی مختلف سنائی دے رہی تھیں  جب ان کی چھلانگیں ، ان کی ہنسی کی آوازیں لہروں کے ساتھ جا ملیں۔ بزرگ مسز فیرفیلڈ ، بنفشی رنگ کے سوتی سوٹ اور سیاہ ٹوپی ٹھوڈی کے نیچے بندھی ، اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور انھیں تیار کیا ۔ چھوٹے ٹراوٹ لڑکے اپنی قمیضیں اپنے سروں پر کوڑوں کی طرح گھماتے ہوے تیزی سے دوڑے چلے جارہے تھے۔ اور دادی نے بُنائی کے تھیلے سے اون کا گولا نکال لیا جب انھیں اطمینان ہوگیا کہ بچے محفوظ تھے۔

مضبوط اور مستحکم چھوٹی لڑکیاں ، ان شفیق ، نازک سے چھوٹے لڑکوں کی بہادری کی نصف کے برابر بھی نہیں تھیں۔ پپ اور ریگز کانپتے ہوے ، نیچے جھکتے ہوے ، پانی میں زوروں سے ہاتھ مارتے ہوے کبھی نہیں جھجھکتے ۔ لیکن ازابیل صرف بارہ ضرب (stokes) لگا سکتی تھی ، اور کیزیا آٹھ سے زیادہ نہیں اور وہ بھی بشرطیکہ ان پر کوئی پانی کا چھڑکاؤ نہ کرے۔ اور جہاں تک لاٹی کا تعلق تھا، وہ تو ان کی پیروی کر ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ تو چاہتی تھی کہ براۓ مہربانی اسے  اپنے انداز پر چھوڑ دیا جاے۔ اور وہ انداز تھا پانی کے کنارے بیٹھے ، پیر سیدھے کیے ، گھٹنے موڑے ، ہاتھوں کو پھیلاے مبہم انداز میں ہلا تے رہنا  اس امید پر کہ کوئی اسے ہلکے سے دھکا دے اور وہ پانی  میں بہتی چلی جاے۔ لیکن جب غیر معمولی بڑی لہر ، کم وقت اور کم فاصلہ والی ، جھومتے ہوے اسی کی جانب چلی آئی  تو اس نے خوف سے پیروں کو علٰحیدہ کیا اور کود کر واپس ساحل پر چلی گئی۔

“ ماں ، یہ میرے لیے رکھ لیں ، رکھ لینگی آپ ؟”

دو انگوٹھیاں اور ایک سونے کی زنجیر مسز فیرفیلڈ کی گود میں گرا دی ۔

“ ہاں ، میری بچی۔ لیکن کیا تم یہاں غسل نہیں کروگی ؟”

“ نہیں ،”  بیریل نے اسے کھینچ لیا ۔ اس کا برتاؤ غیر واضح تھا۔ “ میں مزید کپڑے تبدیل کرلونگی ۔ میں مسز ہیری کیمبر (Mrs. Harry Kember) کے ساتھ نہانے کے لیے جارہی ہوں ۔”

“ ٹھیک ہے ۔ “  لیکن مسز فیرفیلڈ کے ہونٹ بند ہوگیے ۔———— وہ مسز ہیری کیمبر کو ناپسند کرتی تھیں ، اور بیریل  یہ بات جانتی تھی۔

بیچاری بزرگ خاتون ، مسکرائی ، جب وہ سنبھل سنبھل کر پتھروں پر چل رہی تھی ۔ بیچاری بزرگ ماں ! بزرگ ! اوہ ، نوجوان ہونا بھی کیسی خوشی ،  کیا نعمت تھی ……

“ تم بہت خوش نظر آرہی ہو،”  مسز ہیری کیمبر نے پوچھا ۔ وہ پتھروں پر ،  اپنے گھٹنوں کو دونوں ہاتھوں میں جکڑ کر بیٹھ  گئیں اور سگریٹ پینے لگی تھیں۔

“ کتنا خوبصورت دن ہے ، “ بیریل نے مسکراتے ہوے کہا ۔

“ اوہ ، میری پیاری ! “  مسز ہیری کیمبر کی آواز سے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس سے بہتر جانتی تھیں۔ ویسے ان  کی آواز ہمیشہ ہی ایسی ہوتی تھی جیسے وہ تمھارے بارے میں تم سے زیادہ جانتی تھیں ۔ وہ ایک دراز قد  ،  پتلے ہاتھوں اور پتلے پیروں کے ساتھ  بہت عجیب سی خاتون تھیں  ان کا چہرہ بھی لانبا ، پتلا اور تھکا ہوا سا ؛ یہاں تک کہ ان  کی خم دار خوبصورت زلفیں بھی بے رونق   اور مرجھائی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ اور خلیج کے سارے علاقہ میں وہ اکیلی خاتون تھیں جو سگریٹ پی رہی تھیں ، اور متواتر پیتی رہتی تھیں  ، بات کرتے ہوے بھی سگریٹ ان  کے منہ میں ہی  ہوتی تھی ، اور اسی وقت نکالتیں  جب راکھ  اتنی لانبی ہو جاتی کی دیکھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ یہ گر کیوں نہیں جاتی۔  جب وہ تاش (bridge) نہیں کھیل رہی ہوتیں ___ وہ اپنی زندگی کے ہر دن تاش کھیلا کرتی تھیں ____ تو وہ سورج کی خیرہ کر دینے والی روشنی میں لیٹی رہتیں ۔ وہ کتنا ہی وقت اسی طرح گذار سکتی تھیں ، پھر بھی  ان کی تمنا کبھی پوری نہیں ہوپاتی۔ ______   تاہم ، پھر بھی لگتا تھا کہ وہ پوری طرح سے خود کو گرم نہیں کرپائی تھیں ۔ دھوپ میں خشک ہوئی ، مرجھائی ہوئی ، سرد ، وہ پتھروں پر ہاتھ پیر پھیلاے لیٹی رہیں ، کسی ، پانی پر تیرتے ہوے لکڑی کے ٹکڑے کی طرح۔ خلیج پر موجود ساری عورتوں کی نظر میں وہ بہت تیز تھیں ۔ ان  میں خود نمائی کی کمی ، ان  کے بات کرنے کا انداز ، ان کا خود کو مردوؤں کے برابر سمجھنا ، اور یہ حقیقت کہ اپنے گھر کے تعلق سے پوری طرح لا پرواہ ہونا  اور جیسے وہ ملازمہ گلیڈ س  (Gladys) کے نام  کو بگاڑ کر “ مسرور آنکھیں “ (Glad -eyes) جیسے ذلت آمیز انداز میں بلانا ۔ ورانڈے کی سیڑھیوں پر  کھڑے ہو کر مسز کیمبر لا تعلق اور تھکی ہوئی آواز میں کچھ اس طرح  پکارتیں ، “ دیکھو ، گلیڈ آئیز ، اگر کوئی رومال ہو تو میری طرف پھینکنا ، دوگی ؟ “ اور گلیڈ آئیز ، سر پر ٹوپی کی بجاے سرخ ٹائی لگاے ، اور سفید جوتے پہنے ، چہرے پر گستاخانہ مسکراہٹ لیے دوڑی  چلی آتی تھی۔ یہ قطعی طور پر رسوائی تھی ! یہ صحیح تھا کہ ان کے کوئی بچے نہیں تھے ، اور ان  کا شوہر …… اور یہاں پر آوازیں ہمیشہ اونچی ہو جایا کرتی تھیں ؛ پھر وہ جذباتی ہوجاتے۔ آخر کیسے اس نے اس خاتون سے شادی کی تھی ؟ کیسے کرسکتا ہے ، کیسے کرسکتا ہے ؟ یہ ضرور پیسے کی خاطر ہوا ہوگا ، لیکن پھر بھی !

مسز کیمبر کے شوہران سے دس سال چھوٹے تھے ، اور ناقابل یقین حد تک خوبصورت ، کسی بہروپ کی طرح ، یا زیادہ بہترین مثال دی جاے تو وہ ایک عام انسان کی بجاے کسی امریکی ناول کا ہیرو دکھائی دیتا تھا۔ سیاہ بال ، گہری نیلی آنکھیں ، سرخ لب ، آہستہ خمار بھری مسکراہٹ ، ایک اچھا ٹینس کھلاڑی ، بہترین ڈانسر ، اور ان سب کے علاوہ ایک معمہ ۔ ہیری کیمبر (Harry Kember) جیسے نیند میں چلتا تھا۔ لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے تھے ، کیونکہ اس کی زبان سے کوئی لفظ نکل ہی نہیں  سکتا تھا ۔ اس نے اپنی بیوی کو نظرانداز کر رکھا تھا ، جیسے اس کی بیوی نے اسے۔ آخر وہ رہتا کیسے تھا؟  ظاہر تھا کہ بڑی کہانیاں تھیں ۔ لیکن ایسی کہانیاں جو بالکل بھی کہی نہیں جاسکتی تھیں۔  جن عورتوں کے ساتھ اسے دیکھا گیا تھا ، جن جگھوں پر اسے دیکھا گیا تھا …… کچھ بھی یقینی نہیں تھا ، کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ البتہ خلیج پر کچھ خواتین کا خیال تھا کہ اس نے کسی دن کوئی قتل کر دیا تھا۔  ہاں ، جب خواتین نے مسز کیمبر سے اس سلسلہ میں بات کی اور اس کے خوفناک بناؤٹی روپ کے ہٹ جانے پر دیکھا کہ وہ ساحل پر جسم کو پھیلاے لیٹی  تھی ؛ سرد اور بے رحم ، اور پھر بھی منہ کے ایک کونہ میں سگریٹ اٹکی ہوئی تھی۔

مسز کیمبر اٹھیں ، جماہی لی ، اپنے بیلٹ کا بکل کھولا اور اسے کھینچ کر بلاؤز کی پٹی سے جوڑ دیا۔ اور بیریل نے اپنی سکرٹ اور جرسی نکال دی  اور سفید لہنگا  اور فیتوں سے سجی شمیض پہنے کھڑی رہی۔

“ ہم پر رحم کرنا ،” مسز ہیری کیمبر نے کہا ، “ تم تو چھوٹی سی خوبصورت شہزادی ہو ! “

“ نہیں!” بیریل نے ملائمت سے کہا  ، لیکن اپنی جرابیں ایک کے بعد دیگرے نکالتے ہوے اس خوبصورتی کو محسوس کرنے لگی۔

“ میری پیاری — کیوں نہیں ؟ “ مسز ہیری کیمبرنے لہنگے پر پیر رکھتے ہوے کہا۔ واقعی — ان کے زیر جامے ! نیلی سوتی نیکر اور تکیہ کے غلاف جیسا  ریشمی بلاؤز ……” اور کیا تم انھیں پہنے نہیں رہتی ہو ، پہنتی ہو ؟ “ اس نے بیریل کی لمر کو چھوا ، اور بیریل اچھل کر ہلکی سی چیخ کے ساتھ دور چلی گئی ۔ اور سختی  سے کہا ،” کبھی نہیں ! “

“ چھوٹی سی خوش قسمت بچی ،” مسز کیمبر نے اپنے گاؤن کو کھولتے ہوے گہری سانس لی۔

بیریل پلٹ کر کھڑی ہوگئی اور الجھی ہوئی حرکتیں شروع کردی جب کسی نے اس کے کپڑے نکال کر ، ساتھ ہی غسل کا لباس پہنا دیا۔

“ اوہ ، میری پیاری  — میری موجودگی کا برا مت ماننا ،” مسز ہیری کیمبر نے کہا۔  “ اتنا شرماتی کیوں ہو ۔ میں تمھیں کھا تو نہیں جاؤنگی ۔میں ان بیوقوف عورتوں کی طرح حیران نہیں ہونا چاہتی۔ “ اور پھر گھوڑے کی طرح قہقہہ لگایا اور منہ بنا کر دوسری عورتوں کو دیکھنے لگیں ۔

لیکن بیریل شرمیلی تھی۔اس نے کبھی کسی کے سامنے کپڑے نہیں بدلے ۔ کیا یہ بیوقوفی تھی ؟ مسز ہیری کیمبر نے تو اسے احساس دلوایا کہ وہ بیوقوفی تھی ، ایسی بیوقوفی جو  شرمندگی کا باعث ہو۔ واقعی ، کوئی لڑکی اتنی شرمیلی کیوں ہو! اس نے جلدی سے ایک نظر اپنی دوست پر ڈالی جو بڑی  دلیری سے پھٹا ہوا بلاؤز پہنے وہاں کھڑی نئی سگریٹ سلگا رہی تھی ؛ اور تب ہی اس کے سینہ میں دلیر اور  گھٹیا احساس نے جنم لیا۔ لاپرواہی سے ہنستے ہوے اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کیا ، ریت کا احساس ، نہانے کا سوٹ جو ابھی تک سوکھا نہیں تھا ، گنڈیوں(buttons )کی مدد سے باندھ دیا  –

“ یہ بہتر ہے ،” مسز ہیری کیمبر نے بتایا۔ دونوں ایک ساتھ ساحل پر نیچے کی طرف چلی گئیں ۔” سچ مچ  ، میری پیاری تمھارے لیے ان  کپڑوں کا پہننا تو گناہ کے مصداق ہے ۔ کسی دن کوئی نہ کوئی تمھیں ضرور بتائیگا ۔ “

پانی کافی گرم تھا۔ حیرت انگیز شفاف نیلا پانی ، سفید دھات (silver) کے ٹکڑوں کے ساتھ ، لیکن تہہ میں جمی ریت سونے (gold) کی طرح دکھائی دے رہی تھی ؛ اگر انگوٹھے سے ٹھوکر ماری جاے تو سونے کی سی دھول (gold-dust) اڑنے کگتی تھی۔لہریں اب اس کے سینے تک پہنچ چکی تھیں ۔ بیریل اسی طرح کھڑی رہی ، دونوں ہاتھ پھیلاے ، باہر دیکھتے ہوے ، اور جیسے ہی کوئی نئی لہر آتی  وہ ہلکا سا اچھل جاتی ، لگتا تھا لہر خود ہی اسے آہستہ سے اچھال دیتی تھی۔

“ مجھے یقین ہے پیاری لڑکیاں اچھا وقت گذارتی ہیں ،”  مسز ہیری کیمبر نے کہا ۔ “ کیوں نہیں ؟  تم نے کوئی غلطی نہیں کی  ، میری پیاری ۔ لطف اٹھاؤ ۔”  اوراچانک وہ پلٹی اور غائب ہو گئی ، اور تیرنے لگیں کسی چوہے کی طرح جلدی جلدی آگے بڑھ گئی۔ پھر وہ ایک جھٹکہ سے گول گھوم کر دوبارہ تیرنے لگی۔ ویسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی ۔ بیریل نے محسوس کیا جیسے اس غیر جذباتی عورت نے اسے زہر دیا ہو ، لیکن  پھر بھی وہ سننا چاہتی تھی ۔ لیکن ، اوہ ، کیسا عجیب ، کتنا خوفناک ! جیسے ہی مسز ہیری کیمبر قریب آئیں  ، انھوں نے  اپنی سیاہ برساتی ٹوپی کے ساتھ  سطح آب سے اپنا خواب آلود  چہرہ اوپر اٹھایا  ، صرف ٹھوڈی پانی کو چھو رہی تھی ، ان  کے شوہر کی تضحیکی تصویر کی طرح ۔

 VI

 

اسٹیمر کرسی (steamer chair-   لکڑی کی آرام کرسی جسے کینوس کی بجاے لکڑیوں سے سہارا دیا جاتا ہے۔) پر منوکا درخت ( نیوزیلینڈ کا خوشبودار پتوں اور پھولوں والا درخت جس سے شہد نکالا جاتا ہے۔ لفظ منوکا’ manuka’    اس درخت کا ماوری Maori نام ہے ( کے نیچے جو سبزہ زار کے بیچ کھڑا تھا ، لنڈا برنیل بیٹھی  خواب میں گذرتی صبح کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ کر نہیں رہی تھی ،  بس اوپر منوکا کے گہرے ، قریب اور سوکھے پتوں کو دیکھ رہی تھی ، درمیان میں نیلے چھید دکھائی دے رہے تھے ، اور وقتاً فوقتاً زرد پھول اس پر گر رہے تھے۔ خوبصورت ——- ہاں ، اگر تم ان میں سے ایک پھول کو اپنی ہتھیلی پر رکھ لو  اور اسے بہت قریب سے دیکھوتو پتہ چلتا تھا کہ وہ کتنا نایاب پھول تھا۔ اس پھول کی ہر ہلکی زرد پتی ایسے چمکتی جیسے اسے کسی نے بڑے دھیان اور محبت سے بنایا تھا۔ درمیان میں چھوٹی سی زبان جیسی چیز اس پھول کو گھنٹی کی شکل دے دیتی تھی۔ اور جب اسے الٹا کیا جاے تو باہر سے وہ   گہرے کانسے کے رنگ کے پھول تھے۔ لیکن جیسے ہی وہ پوری طرح سے کھل جاتے ، نیچے گر کر بکھر جاتے۔اور کپڑوں پر بھی گر جاتے جنھیں  باتیں کرتے ہوے بھی برش سے  جھٹک دیا جاتا ؛ یہ غضبناک چھوٹی سی چیزیں بالوں میں بھی اٹک جاتی تھیں۔ یہ پھول آخر بنتے ہی کیوں تھے ؟ کون انھیں اتنی توجہ اور محنت سے بناتا تھا یا پھر خوشی سے —- ایسی چیزیں بناتا تھا جو آکر بیکار ہو جاتی تھیں ، بیکار ہو جاتی تھیں …… یہ سب ناقابل فہم تھا۔

لنڈا برنیل کے ساتھ نیچے گھاس پر ، دو تکیوں کے درمیان لڑکا لیٹا ہوا تھا۔ ماں کی طرف سے منہ پلٹاے وہ گہری نیند سورہا تھا ۔ اس کے خوبصورت سیاہ بال حقیقت سے زیادہ سایہ کی طرح دکھائی دے رہے تھے ، لیکن اس کا کان کسی چمکدار مونگے کی طرح تھا۔ لنڈا نے اپنے دونوں ہاتھ سر   کے پیچھے رکھ لیے اور ایک پیر پر دوسرا پیر رکھ لیا ۔ بڑی خوشگوار بات یہ تھی کہ سارے بنگلے خالی پڑے تھے ، کیونکہ ہر شخص نیچے ساحل پر گیا ہوا تھا ، نظر سے دور ، سماعت سے دور۔ اس کا اپنا باغ تھا ، اور وہ تنہا تھی۔

درخشاں سفید گلنار جگمگا رہا تھا ، زرد آنکھوں والے زرد گیندے کے پھول چمک رہے تھے ؛ نیسٹر ٹیم کی بیلیں  ، سبز اور گولڈن پھولوں کے ساتھ ورانڈے میں لگے ستونوں کے اطراف پھولوں کے ہاروں کی طرح  لپٹی ہوئی تھیں ۔ اگر کسی کے پاس وقت ہوتو وہ کافی دیر تک ان  پھولوں کا مشاہدہ کرسکتا تھا ، وقت چاہیے ان کی ندرت اور نرالے پن کو سمجھنے کے لیے ، وقت چاہیے ان سے واقف  ہونے کے لیے۔ لیکن جیسے ہی کوئی رک کر پھول کی پتیوں کو توڑنے لگتا تھا یہ جاننے کے لیے کہ پھول کی تہہ میں کیا تھا ، اور تب ہی وہاں “زندگی “آجاتی تھی اور اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لیے جاتی تھی۔ اور اپنی لکڑی کی آرام کرسی میں لیٹی ، لنڈا خود کو پتہ کی طرح  کافی ہلکا محسوس کر رہی تھی۔ ساتھ ہی  زندگی ہوا کے جھونکے کی شکل میں وہاں پہنچ گئی ، اس کو اپنے قبضہ میں کر کے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ؛ اسے چلی جانا چاہیے تھا ۔ اوہ ، پیاری ، کیا ہمیشہ ایسے ہی رہیگا ؟ کیا کوئی فرار نہیں تھا ؟

…… اب وہ اپنے تسمانوی گھر کے برآمدہ میں اپنے باپ کے گھٹنے کے سہارے بیٹھی تھیں۔ اور انھوں  نے کہا تھا ، “ لینی (Linny) جیسے ہی ہم بوڑھے ہوجائینگے ، ان سب کو چھوڑ کر کہیں چلے جائینگے ، فرار ہوجائینگے۔ دونوں لڑکے ایک ساتھ۔ ۔ میں تصور کرتا ہوں کہ کسی دن میں چین (China) کے دریا  میں کشتی رانی کروں۔”  لنڈا وہ دریا دیکھ چکی تھی ، بہت چوڑی ، چھوٹے چھوٹے لکڑی کے بیڑے اور کشتیوں سے ڈھکی ہوئی ۔ اس نے ملاحوں کی زرد ٹوپیاں دیکھی تھیں ، اور اس نے انکی اونچی اور پتلی آوازیں بھی سنی تھی ……

“ ہاں ، پاپا “

لیکن ، بس اسی وقت ایک کشادہ ، چوڑا نوجوان چمکتے ہوے سرخ بالوں کے ساتھ  ، ان کے گھر کے سامنے سے گذرا ، آہستہ آہستہ ، سنجیدگی سے ، کھلے سر ۔

لنڈا کے والد نے ستانے کے لیے اس کا کان کھینچا ۔

“ لینی کا عاشق ،” اس نے سرگوشی کی۔

“ اوہ ، پا پا ، آپ کی خوش فہمی کی شادی سٹینلی برنیل سے ہوچکی ہے !”

خیر ، اس کی شادی تو سٹینلی سے ہو چکی تھی۔ اور وہ اس سے محبت بھی کرتی تھی۔ وہ سٹینلی نہیں جسے ہر ایک نے دیکھا تھا ، نہ وہ روزآنہ دکھائی دینے والا ؛ بلکہ ایک ڈرپوک ، حساس ، معصوم سٹینلی  جو ہر رات  گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عبادت کرتا ، اور خواہش کرتا کہ وہ ہمیشہ ایک اچھا انسان بنا رہے۔  سٹینلی بہت سادہ تھا۔ اگر وہ لوگوں پر یقین رکھتا تھا  —— مثال کے طور پر جیسے وہ لنڈا پر یقین کرتا تھا —-  تو  وہ دل کی گہرائیوں سے یقین کرتا تھا ۔وہ بےوفا نہیں ہوسکتا تھا ؛ وہ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔ اور وہ کیسے بری طرح سے درد میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا جب وہ دیکھتا کہ کوئی —- لنڈا —- راست نہیں مرتا ، مردہ مخلص تھا !  “یہ تو میری سمجھ سے باہر تھا ! “ الفاظ جیسے اس سے اڑ کر دور چلے جارہے تھے ، اس کا کانپتا ، پریشان چہرہ  ، کسی پنجرہ میں پھنسے  جانور کا چہرہ ہو۔————-

مسلہ یہ تھا کہ —- یہاں لنڈا محسوس کر رہی تھی کہ اسے ہنسنا چاہیے ، جبکہ خدا جانتا تھا وہاں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں تھی —- اس نے اپنے سٹینلی کو بہت کم دیکھا اور سمجھا تھا۔ کچھ جھلکیاں تھیں ، کچھ لمحات تھے  ، کچھ سانسوں کے درمیان کے وقفے تھے  ، لیکن باقی سارا وقت  کچھ ایسا تھا جیسے کسی ایسے گھر میں رہا جاے جسے آگ کو پکڑنے  کی عادت سے بچایا نہیں جا سکتا تھا ، یا ایسی کشتی جو ہر روز ٹوٹتی ہو۔ اور ہمیشہ یہ سٹینلی ہی ہوتا جو ان خطرات میں گھرا ہوتا تھا ۔ اور لنڈا کا سارا وقت اسے بچانے میں ، اسے ٹھیک کرنے میں ، اسے تسلی دینے میں ، اور اس کی کہانی سننے میں گذر جاتا تھا۔ اور جو کچھ وقت بچ جاتا وہ بچے پیدا کرنے کے خوف میں گذر جاتا تھا۔

لنڈا نے تیوری چڑھا کر دیکھا ؛ وہ اپنی آرام کرسی پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور دونوں ٹخنوں کو جوڑ لیا۔ ہاں ، یہ ہی دراصل اس کی زندگی کے خلاف رنجش تھی ؛ اور یہ ہی بات تھی جو وہ کسی طرح سمجھ نہیں پاتی تھی۔ یہ سوال وہ بار بار پوچھا کرتی تھی اور بیکار ہی جواب کا انتظار کرتی رہتی تھی۔ یہ کہنا بہت آسان تھا کہ عورتوں کے لیے یہ عام بات تھی کہ ان کی زندگی کا مقصد ہی بچے پیدا کرنا اور انھیں پالنا  تھا۔ لیکن یہ صحیح نہیں تھا۔ وہ اکیلی ایسی عورت تھی جو اسے غلط ثابت کر سکتی تھی۔ بچے پیدا کرتے کرتے ، وہ ٹوٹ چکی تھی ، کمزور پڑ چکی تھی ، اپنی ہمت وہ کھو چکی تھی ۔ اور اس کو مزید تکلیف دہ بنانے کی سب سے بڑی وجہ تھی ،  لنڈا کا اپنے بچوں سے محبت نا کرنا۔  یہاں بہانہ کرنا فضول تھا۔ اور اگر اس کے پاس صحت اور طاقت  ہوتی بھی تو وہ کبھی چھوٹی بچیوں کی دیکھ بھال کرتی اور نہ ہی ان کے ساتھ کھیلتی۔ نہیں ، یہ کچھ اس طرح سے تھا جیسے ٹھنڈی سانسوں نے اسے بار بار اس خوفناک سفر پر اس کے جذبات کو پوری طرح ٹھنڈا کردیا تھا ؛ اس میں انھیں دینے کے لیے محبت کی گرمی بچی ہی نہیں تھی۔ جہاں تک لڑکے کا تعلق تھا —- شکر ہے خدا کا  ماں نے اس کی ذمہ داری پوری طرح سے سنبھال رکھی تھی ؛  وہ ماں کا تھا ، یا بیریل کا تھا ، یا کسی کا بھی جو اسے چاہتا تھا۔ اس نے  بمشکل کبھی اسے بانہوں  میں اٹھایا ہو ۔ لنڈا لڑکے سے اس قدر لا تعلق تھی ، کہ وہ وہاں پڑا رہتا …… اور لنڈا آنکھیں نیچی کیے بیٹھی رہتی۔

لڑکے نے کروٹ بدلی ۔ اب وہ لنڈا کی طرف چہرہ کیے تھا ، اور وہ اب جاگ چکا تھا۔ اسکی گہری نیلی معصوم آنکھیں کھلی تھیں ؛ لگ رہا تھا وہ اپنی ماں کو چھپ کر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کا چہرہ پھیل گیا اس کے رخسار کے گڑھوں  کو ظاہر کرتے ہوے ؛  کشادہ ، بغیر دانتوں  کی مسکراہٹ ، ایک مکمل روشنی کی دھار ، اس سے ذرہ برابر بھی کم نہیں۔

“ میں یہاں ہوں ! “ وہ مسرت بھری مسکراہٹ جیسے کہہ رہی ہو ۔ “ تم کیوں مجھے پسند نہیں کرتیں ؟ “

اس مسکراہٹ میں کچھ عجیب ساتھا ، کچھ غیر متوقع کہ لنڈا خود کو روک نہیں سکی اور وہ بھی مسکرا دی۔ لیکن فوری اسے احساس ہوا ، اور بڑی سرد مہری کے ساتھ  لڑکے سے کہا ، “ مجھے بچے پسند نہیں ہیں۔ “

“ بچے پسند نہیں ہیں ؟ “ لڑکے کو یقین نہیں آرہا تھا ۔ “ مجھے بھی پسند نہیں کرتیں ؟ “ اس نے اپنے ہاتھوں کو بیوقوف کی طرح اپنی ماں کی طرف ہلا یا ۔

لنڈا نے کرسی کو گھاس پر گرادیا ۔

“ تم مسکراتے کیوں رہتے ہو ؟ “ اس نے سختی سے کہا۔  “ اگر تم جان لوگے کہ میں کس بارے میں  سوچ رہی تھی ، تو پھر تم کبھی نہیں مسکراؤگے۔”

لیکن اس نے  ہوشیاری سے اپنی آنکھوں کو مسلا ، اور تکیہ پر سر کوگھوما دیا۔ ماں کی کہی ہوی کسی بات پر اسے یقین نہیں تھا۔

“ اس بارے میں ہم سب جانتے ہیں !”  لڑکا مسکرانے لگا تھا۔

لنڈا چھوٹے سے بچہ کی خود اعتمادی پر بہت زیادہ متعجب تھی …… آہ ، نہیں، سنجیدہ بنو۔  وہ ایسا کچھ محسوس نہیں کررہی تھی ؛ وہ کچھ بہت مختلف تھا ، وہ کچھ بہت نیا سا تھا ، لہٰذا …… لنڈ ا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے ؛ اس نے سانس لیتے ہوے لڑکے کے کان میں سرگوشی کی ، “ ہیلو ، میرے پیارے ! “

لیکن لڑکا اب تک اپنی ماں کو بھول چکا تھا۔ وہ پھر سے سنجیدہ ہوگیا۔ کچھ گلابی ، کچھ ملائم سا اس کے سامنے لہرانے لگا تھا ۔ اس نے پکڑنے کی کوشش کی تو وہ فوراً غائب ہوگیا۔ لیکن جب وہ لیٹ گیا ، پہلے کی طرح دوسرا اس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہو گیا۔ اس بار تو وہ اسے پکڑ نے کا مستحکم ارادہ رکھتا تھا۔ اس نے اس بار بہت زبردست بہت زبردست کوشش کی اور بس سیدھی طرف گھوم گیا۔

 

    VII

           پانی کے مدوجزر کا زور کم ہوچکا تھا ؛ ساحل ویران ہوچکا تھا ؛ تھکا ہوا گرم سمندر سست ہو چکا تھا۔ سورج اپنی شدید گرمی اور روشنی سے ہر چیز کو تھکا چکا تھا ، باریک ریت گرم اور شعلہ فشاں ہو چکی تھی ، اور سرمائی ، اور نیلے ، اور سیاہ ، اور سفید دھاری دار پتھروں کو بھون دیا تھا۔ خم دار سیپیوں کے اندر رکے پانی کے قطرے تک جیسے چوس لیے گیے تھے۔ ؛ امریکی جنگلی بیل یا خوبصورت پھولوں والی عشق پینچاں کی بیل ( convolvulus) جو ان ریت کے پہاڑوں پر پھیلی ہوتی تھیں ، اس تپش  اور گرمی نے ان کے گلابی رنگ کو سفید رنگ میں تبد یل  کردیا تھا۔ ہر چیز بے حس و حرکت تھی سواے ریت پر اچھلنے والے ٹڈوں کے ۔ پٹ۔ پٹ۔ پٹ! وہ کبھی خاموش نہیں ہوتے۔

وہاں اوپر لٹکتی گھاس سے ڈھکی  چٹانیں جو کم جوار (low tide) کے وقت  کسی بڑے بالوں والے جانور کی طرح دکھائی دیتی تھیں جو وہاں پانی پینے کے لیے آیا ہو ۔ سورج کی روشنی لگتا تھا اپنے ہی محور پر گھوم رہی تھی  کسی چاندی کے  سکہ کی طرح جو چٹانوں کے بیچ بنے چشمہ میں گر کر اپنے ہی محور پر گھومنے لگے ۔اور چھوٹی چھوٹی لہریں ناچتی رہیں ، تھرکتی رہیں ، اور پھر  مسام دار ساحل کو چومنے لگتی تھیں۔ جھک کر نیچے دیکھیں تو ہر چشمہ ایک جھیل کی طرح دکھائی دیتا ،   ساحل پر  گلابی اور نیلے گھروں کے جھرمٹ کے ساتھ۔ ؛ اور ہاں ! ان گھروں کے پیچھے ایک وسیع کوہسار —- گھاٹیاں ، گزرگاہیں ، خطرناک کھاڑیاں ، ڈراونے راستے جو پانی کے کنارے پہنچا دیتے تھے۔  پانی کے نیچے لہراتا سمندری جنگل —- گلابی ڈوریوں جیسے پیڑ ، مخملی شقائق البحر (velvet anemones) ، اور نارنگی رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھلوں والی گھاس ۔ ایک پتھر متحرک ہوا ، ہچکولے کھاتا ہوا ، اور وہیں پر سیاہ حساس کیڑوں کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی تھیں ؛ اب کوئی دھا گے کی طرح کیڑا ہلتا ہوا دکھا ئی دیا اور پھر کہیں غائب ہو گیا۔ گلابی ہلتے ہوے پیڑوں کو کچھ ہو گیا ؛ وہ نیلگوں چاندنی کے رنگ میں تبدیل ہو گیے۔ اور پھر ہلکی سی “ پلاپ “ جیسی آواز آئی۔ یہ آواز کیسی تھی ؟ وہاں نیچے آخر ہو کیا رہا تھا ؟ اور سورج کی گرمی سے اس سمندری گھاس کی گہری اور نم خوشبو آرہی تھی ……

گرمائی کالونی کے بنگلوں کے اندر سبز چلمنیں کھینچ دی گئی تھیں۔ اور برآمدہ  میں جو ڈھلوان سے ہوتے ہوے جانوروں کے احاطہ تک چلا جاتا تھا ، چاردیواری کے جنگلہ پر تھکے ہوے غسل کے کپڑے ، اور پٹیوں والے تولیے بکھرے پڑے تھے۔  پیچھے والی ہر کھڑکی کی چوکھٹ  پر ایک ایک جوڑی ریت میں پہننے والے جوتے ، کچھ پتھر  یا بالٹی  یا کچھ پاوا سیپیاں رکھی تھیں۔  (pawa shells. Paua نیوزیلینڈ میں ایک قسم کے کھاے جانے والے سمندری گھونگھے ہیں جنکے رنگین خول سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں۔ ) ۔ جھاڑیاں گرمی کے گرد و غبار میں کانپ رہی تھیں ؛ ریتیلی سڑک پوری طرح سے خالی تھی سواے ٹراٹ  کے کتے سنوکر (Snooker) کے جو روڈ کے بیچوں بیچ پر سکون لیٹا ہوا تھا۔  اس کی نیلی آنکھ اوپر کیے ، پیروں کو ایک دوسرے میں پھنساے ، کبھی کبھی سفاکی سے سانس لیتے ہوے ، لگتا تھا اس نے طئے کرلیا تھا کہ زندگی کو ختم کردے ، اور اسے انتظار تھا کسی گاڑی کے وہاں سے گذرنے کا۔

“ دادی ماں ، آپ کیا دیکھ رہی ہیں ؟ آپ کیوں اس طرح سے رک کر دیوار کی طرف دیکھتی رہتی ہیں  ۔؟ “

کیزیا اپنی دادی کے ساتھ قیلولہ (دوپہر کی نیند ) کررہی تھی۔  چھوٹی سی لڑکی مختصر زیر جامہ اور انگیا پہنے  برہنہ ہاتھ  اور پیر ، دادی کے بستر پر پھولے ہوے تکیہ پر لیٹی تھی  ، اور بزرگ خاتون سفید سجا ہوا گاؤن پہنے کھڑکی سے قریب جھولنے والی کرسی پر اون کا گولہ لیے بیٹھی تھیں۔ یہ کمرہ جس میں دونوں رہتی تھیں ، بنگلہ کے دوسرے کمروں کی طرح ، خالی فرش کے ساتھ ، ہلکے روغن سے رنگی لکڑی سے بنا تھا۔ وہاں رکھا فرنیچر نہایت خستہ حال اور استعمال شدہ تھا۔ ان کی سنگھار میز  ، مثال کے طور پر ،  پھول پتیوں سے  مزئین ململ کے کپڑے میں لپیٹے سامان کے ڈبہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا ۔ اور اوپر لگا آئینہ تو بہت ہی عجیب تھا ؛ وہ ایسا تھا جیسے منحنی انداز میں دوڑتی بجلی جو ایک سرے پر دو حصوں میں کٹی ہوئی تھی ، اس کے اندر قید ہو گئی تھی۔ میز پر گلدان میں بہت سارے بحری گلاب مضبوطی سے اس طرح پھنسا کر رکھ دیے گیے تھے جیسے وہ کوئی پنوں سے بھرا مخملی گولا ( pin- cushion) ہو۔ اور ایک خاص سیپی جو کیزیا نے اپنی دادی کو پن رکھنے کی چھوٹی سی کشتی (pin- tray) طور پر دی تھی۔ اور ایک اور خاص چیز جو اس کے خیال میں گھڑی رکھنے کے لیے خوبصورت جگہ ہو سکتی تھی ۔

“ دادی ، بتائیں ،” کیزیا نے کہا ۔

بزرگ خاتون نے گہری سانس لی ، انگوٹھے کے اطراف لپیٹتے ہوے اون کو چھاٹنے لگی تھیں ، پھر اس میں ہڈی کی سوئی چبھو دی ( Algonquians  ، شمالی امریکن قبائل ، بارہ سنگھا اور خنزیر کی ہڈیوں سے مختلف اوزار بناتے تھے جن میں سوئیاں بھی شامل تھیں۔ )   اور پھر بنائی کرنے لگیں ۔

“ میں تمھارے انکل ولیم (Uncle William) کے بارے میں سوچ رہی تھی، میری پیاری ، “ دادی نے آہستہ سے کہا۔

“ کیا میرے آسٹریلیا والے انکل ولیم ؟ “ کیزیا نے کہا ۔ اس کے ایک اور انکل تھے ۔

“ ہاں ، بالکل وہی۔ “

“ وہ جنھیں میں نے کبھی نہیں دیکھا ؟ “

“ ہاں ، وہی ۔”

“ اچھا ، کیا ہوا ہے انھیں ؟” کیزیا اچھی طرح جانتی تھی ، پھر بھی وہ دوبارہ جاننا چاہتی تھی۔

“ وہ بارودی سرنگوں میں گیا تھا ، وہاں اسے لولگ گئی (sunstroke ) اور وہ مرگیا۔ مسز فیرفیلڈ نے اسے بتایا۔

کیزیا نے آنکھیں جھپکائیں  ، اور اس حادثہ کی تصویر اپنے ذہن میں بنانے لگی تھی …… ایک چھوٹا سا آدمی ، کسی کھلونے والے سپاہی کی طرح ، اس بڑے سے  سیاہ سوراخ کے پاس پڑا تھا۔

“ کیا آپ انھیں یاد کر کے غمگین ہوجاتی ہیں ، دادی ؟ “ اسے دادی کا دکھی ہونا پسند نہیں تھا۔

اس بار بزرگ خاتون کی باری تھی سوچنے کی ، کیا وہ واقعہ انھیں  دکھی کردیتا تھا ؟وہ پیچھے مڑ کر ماضی میں بار بار جھانکتیں ۔ گذشتہ کئی سالوں کی زندگی کا وہ احاطہ کرتی ہیں ، جیسے کیزیا اکثر اسے اس  طرح کرتے ہوے دیکھا کرتی تھی۔ ان کی دیکھ بال اور پرورش کی جیسے ہر عورت کرتی ہے ، اور پھر کافی عرصہ کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے۔ کیا اس وجہ سے وہ دکھی ہے ؟ زندگی تو ایسی ہی تھی۔

“ نہیں ، کیزیا ۔”

“ لیکن کیوں ؟ “کیزیا نے پوچھا ۔ اس نے اپنا برہنہ ہاتھ اوپر اٹھایا اور ہوا میں کچھ تصویریں بنانے لگی ۔ “ کیوں انکل ولیم اتنی جلدی اس دنیا سے چلے گیے ؟ ان کی عمر تو اتنی نہیں تھی ۔”

مسز فیرفیلڈ ٹانکے گننے لگی تھیں ۔ “ بس یہ ہو گیا ، “  انھوں نے جذبات میں ڈوبی آواز میں کہا۔

“ کیا ہر ایک کو مرنا ہی ہے ؟ “ کیزیا نے پوچھا۔

“ ہر ایک کو ! “

“ مجھے ؟ “ کیزیا نے ناقابل یقین خوف کے انداز میں کہا۔

“ کسی دن ، میری بچی ۔”

“ لیکن ، دادی ۔”  کیزیا اپنے  پیروں کی  ریت بھری انگلیوں کو ہلا نے لگی ۔

“ کیا ہوگا اگر میں نہ مروں ؟ “

بزرگ خاتون نے پھر سے گہری سانس لی ، ایک لانبا سا اون کا دھاگہ گولہ سے کھینچا ۔

“ ہم سے پوچھا نہیں جاتا  ، کیزیا ،” دادی نے بڑے دکھ سے کہا ۔ “ یہ تو ہر ایک کے ساتھ ہونا ہے ، جلد یا بد یر ۔”

کیزیا ابھی تک اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی ۔ اس کا مطلب تھا اسے اس جگہ کو چھوڑنا پڑیگا  ، ہر جگہ کو چھوڑنا پڑیگا ، ہمیشہ کے لیے ، چھوڑنا  پڑیگا ——- اس کی دادی کو بھی چھوڑنا پڑیگا۔ وہ فوری پلٹی ۔

“ دادی ،” اس نے چونک کر کہا

“ کیا ، میری پیاری ! “

“ تمھیں نہیں مرنا ہے۔” کیزیا نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

“ آہ ، کیزیا “ —- دادی نے مسکراتے ہوے اوپر دیکھا، اپنا سر ہلایا  —-  “بہتر ہے ہم اس بارے میں کوئی بات نہ کریں ۔”

“ لیکن آپ کو نہیں جانا ہے ۔ آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتیں ۔ آپ وہاں نہیں ہو سکتیں۔ “ یہ بڑا بھیانک تھا ۔ “ مجھ سے وعدہ کریں آپ ایسا نہیں کرینگی ، دادی ،” کیزیا التجا کرنے لگی تھی۔

بزرگ خاتون بنائی (knitting ) میں مصروف ہو گئی۔

“ وعدہ کریں ! کہیے کہ کبھی نہیں! “

لیکن اس کی دادی خاموش تھی۔

کیزیا پلٹ کر بستر سے اتر گئی ؛ اس کے لیے اس بات کو مزید برداشت کرنا ممکن نہیں تھا ، وہ اپنی دادی کے گھٹنوں سے لپٹ گئی  ، اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کی گردن کو جکڑ لیا اور ان کی ٹھوڈی کو ، کانوں کے پیچھے ، نیچے گردن کو چومتی رہی۔

“ کہیں کبھی نہیں …… کہیں کبھی نہیں …… کہیں کبھی نہیں —- “ وہ دادی کو چومتے ہوے ہانپنے لگی تھی۔ پھر وہ ہلکے سے دادی کو گدگدی کرنے لگی۔

“ کیزیا ! “ بزرگ خاتون نے بنائی کا سامان ہٹا دیا۔ وہ دوبارہ جھولتی کرسی پر جھول گئی ۔ اب اس نے کیزیا کو گدگدی کرنی شروع کی  ۔ “ کہو کبھی نہیں ، کہو کبھی نہیں ، کہو کبھی نہیں ،”  دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں ہنسنے لگیں ، یہاں تک کے کیزیا کی آواز غرغرانے لگی۔ “ چلو ، اب بہت ہوگیا ، میری گلہری ! اب بس بھی کردو  ، میری جنگلی ٹٹو ! “  مسز فیرفیلڈ نے اپنی ٹوپی سیدھی کی ۔ “ میری بنائی کا سامان اٹھا کر دو۔ “

دونوں بھلا چکی تھیں کہ وہ کس سلسلہ میں “ کبھی نہیں “ کا ذکر کررہی تھیں۔

    VIII

      باغ میں سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا  اور تب ہی برنیلس کا عقبی دروازہ زوردار آواز کے ساتھ بند ہوا اور کوئی بے حد مسرور شخصیت گیٹ کی طرف چل دیی ۔ وہ  شام کا لباس پہنے ، ملازمہ ،ایلس (Alice) تھی ۔ وہ سفید لباس پہنے تھی جس پر بڑی  بڑی بہت ساری سرخ گولائیاں بنی تھیں جنھیں دیکھ کر سر چکرا جاے ، سفید جوتے  اور ایک تنکوں سے بنی سخت ٹوپی (leghorn) ، کناروں سے اندر کی طرف مڑی ہوئی خشخاش کے پھولوں سے سجی ۔  اس کے علاوہ سفید دستانے جن پر استری کے دھبے پڑے تھے ۔ اور ایک ہاتھ میں بہت خوبصورت زنانی چھتری ، جسے وہ اس کا پیریشل (perishall) کہا کرتی تھی۔

بیریل ،کھڑکی میں بیٹھی اپنے بال سکھا رہی تھی ، اور سوچ رہی تھی کہ اس نے ایسا شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اگر ایلس نے  باہر نکلنے سے پہلے ، کارک (cork) کی مدد سے اپنے چہرے کو سیاہ کرلیا ہوتا تو تصویر مکمل ہوتی۔  اور ویسے یہ لڑکی جا کہاں سکتی تھی ؟ دل کی شکل کا فیجین (Fijian- فیجی جزیرہ کا) پنکھا گھومتے ہوے ان خوبصورت بالوں پر تحقیر آمیز آواز کر رہا تھا۔ اس کے خیال سے ایلس نے کسی خطرناک غنڈہ سے دوستی کر لی تھی ، اور دونوں مل کر کہیں جھاڑیوں میں چلے گیے ہونگے۔  اس کا اس طرح سے نمایاں ہونا قابل رحم تھا ؛ ان کے لیے بڑا مشکل رہا ہوگا ایلس کے ساتھ اس خاص لباس (rig-out) میں چھپنا۔

لیکن نہیں ، بیریل غلطی پر تھی۔ ایلس ، دراصل ، مسز سٹبز (Mrs. Stubbs) کی دعوت پر ، جو انھوں نے چھوٹے ملازم  لڑکے کے ہاتھ بھجوایا تھا، چاۓ کے لیے گئی تھی۔ وہ مسز سٹبز کو اس وقت سے پسند کرتی تھی ، جب اس کی ملاقات ان سے دکان پر ہوئی تھی جہاں وہ مچھروں سے بچاؤ کے لیے کچھ لینے کے لیے گئی تھی۔

“ میری عزیزہ ! “ مسز سٹبز نے اس کے قریب آکر ہلکے سے دستک دیکر اپنی طرف متوجہ کیا ۔ “ میں نے کبھی کسی کو اتنا کٹا ہوا نہیں پایا ۔ تم پر تو جیسے آدم خوروں نے حملہ کر دیا ہو ۔ “

ایلس سوچ رہی تھی کہ سڑک پر کوئی اور انسان تو نظر آے ۔ اسے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا کہ وہ اکیلی چلی جارہی تھی اور اس کے پیچھے بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنی پشت میں ، ریڑھ کی ہڈی میں کمزوری محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ یقین نہیں کرسکتی تھی کہ کوئی اسے دیکھ نہ رہا ہو۔ تاہم ، پیچھے مڑ کر دیکھنا بیوقوفی تھی ؛ اس نے اسے موقع دیا۔ اس نے اپنے دستانے نکالے ، اور خود سے بات کرنے لگی ، اور دور  گوند کے درخت سے کہنے لگی ، “ دیر نہیں ہوگی ، بس پہنچ رہی ہوں۔” لیکن وہاں بمشکل کوئی تھا۔

مسز سٹبز کی دوکان سڑک سے ہٹ کر چھوٹی سی پہاڑی پر واقع تھی۔ دوکان میں  دو بڑی کھڑکیاں لگی تھیں آنکھوں کی طرح ، وسیع برآمدہ ٹوپی کی طرح اور چھت پر لکھا تھا  “ مسز سٹبز کی دوکان “ (MRS.STUBBS’S) ، جیسے کوئی کارڈ خوبصورتی سے تاج جیسی ٹوپی پر لگا ہو۔

برآمدہ میں ڈوری پر غسل کے کپڑے لٹک رہے تھے ، ایک دوسرے سے چپکے ہوے جیسے انھیں سمندر سے بچا کر لایا گیا تھا ، بجاے اس کے کہ اندر جانے کا انتظار کرتے ، اور ان کے بازو بہت سارے ریت کے جوتے لٹک رہے تھے جو ایک دوسرے میں اس  طرح سے جکڑے ہوے تھے کہ انھیں الگ کرنا مشکل تھا ۔ انھیں پھاڑ کر زبردستی الگ کیا جاسکتا تھا۔ پھر بھی دائیں اور بائیں پیر کی صحیح جوڑی ملنا آسان نہیں تھا۔ بہت سارے لوگ صبر کا دامن چھوڑ کر بس ایک جوتا صحیح ناپ کا اور دوسرے پیر کا تھوڑی بڑی سائیزکا پہن کر چلے جاتے …… مسز سٹبز  فخر محسوس کرتی تھیں کہ وہ اپنی دوکان میں ہر چیز رکھتی تھیں ، چاہے کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہو۔ دونوں کھڑکیوں میں سامان ٹھونس ٹھونس کر مخروطی مصری اہراموں کی طرح انبار کی شکل میں ایسے رکھا گیا تھا کہ انھیں گرنے سے بچانے کے لیے کسی جادوگر کو ہی آنا پڑیگا۔ بائیں طرف کی  کھڑکی کے شیشہ پر ، عرصہ دراز سے ——-  جیلیٹن کی چار ٹکیوں سے ایک نوٹس چسپاں تھی :

گم شدہ !

خوبصورت سونے کا بروچ

ٹھوس سونے کا

ساحل پر یا ساحل کے قریب

انعام دیا جائیگا۔

ایلس نے دروازہ  کی گھنٹی کو دبایا ۔  گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ سرخ ریشمی پردے الگ ہوے  اور مسز سٹبز نمودار ہو گئیں ۔ اپنی وسیع مسکراہٹ کے ساتھ ، ہاتھ میں لانبی سی گوشت (bacon) کاٹنے کی  چاقو لیے کسی دوستانہ رہزن کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔ ایلس کا استقبال اتنی  گرم جوشی سے کیا گیا کہ اس کے لیے  خود کے اخلاق سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا ، اور   کچھ  ازخود حرکات  وقوع پذیر ہونے لگی تھیں جیسے —-  کھانسنا ، کھنکارنا ،  دستانے کھینچنا  ، سکرٹ پر چٹکی لینا  ، اور جو سامنے تھا اسے دیکھنے کی متجسس سی مشکل  یا کیا کہا جا رہا تھا اس کو سمجھنے کی  مشکل ۔

نشست گاہ کی میز پر چاے سجا دی گئی تھی —- ہیم (خنزیر کی ران کا گوشت ) ، چھوٹی مچھلیاں ، ایک پورا پاؤنڈ مسکہ ، اور بہت بڑا سا جانی کیک (Johnnycake) جو کسی کے بیکنگ پاؤڈر کا اشتہار دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن اسی وقت پیرافین تیل سے جلنے والا چولھا (Primus stove) اتنی زوروں سے آوازیں کر رہا تھا کہ اس شور میں بات کرنا بیکار تھا۔ ایلس بانس کی کرسی پر بیٹھ گئی اور مسز سٹبز اسٹو کو مزید پمپ کرنے لگی تھی۔ اچانک مسز سٹبز نے کرسی سے گدی اٹھائی اور وہاں رکھا خاکی کاغذ میں لپٹا پارسل نکالا ۔

“ میں نے کچھ نئی تصویریں کھنچوائی ہیں  ، میری پیاری ،“ خوشی سے چیختے ہوے مسز سٹبز نے ایلس  سے کہا۔ “ دیکھ کر بتانا کہ تمھیں کیسی لگیں ۔”

بہت ہی نفیس اور دلکش انداز میں ایلس نے اپنے ہاتھ دھوے ، ٹشو پیپر سے صاف کیا اور پھر اسے واپس رکھ دیا۔ زندگی !کتنی تھیں وہ ! کم از کم تین درجن تو تھیں ۔ اور اس نے اپنی تصویر روشنی کی طرف اٹھایا۔

مسز سٹبز ایک طرف جھکی ہوئی آرام کرسی پر بیٹھی تھیں۔ بڑے سے چہرے پر حیرت کے تاثرات تھے  ، اور شائد ٹھیک ہی تھا۔ اگرچہ کہ آرام کرسی  قالین پر رکھی تھی ، لیکن بائیں طرف ، معجزانہ طور پر قالین کے کنارے سے لگا  ایک شاندار جھرنا تھا۔ اور دائیں طرف یونانی طرز کا ستون لگا تھا جس کی دونوں طرف فرن کے درخت لگے تھے ، اور پس منظر میں  برف سے ڈھکا ویران سا پہاڑ کھڑا تھا۔

“ یہ دلکش انداز ہے ، ہے نا ؟ “  مسز سٹبز نے کافی اونچی آواز میں کہا ؛ اور ایلس  شیریں انداز میں چیخی جب اس پریمس اسٹو ( Primus stove) کا گرجنا کم ہونے لگا تھا ، اور آہستہ آہستہ بند ہو گیا ، اور پھر ایک خوفناک  خاموشی کے درمیان کہا ، “ خوبصورت ۔”

“ تمھاری کرسی میرے قریب لے آؤ پیاری ، “ مسز سٹبز نے چاے پیالی میں انڈیلتے ہوے کہا ۔ “ ہاں “ چاے کا پیالہ دیتے ہوے اس نے متفکرانہ انداز میں کہا ،    “ لیکن  میں  ناپ کی فکر نہیں کرتی ۔ مجھے وسیع اور بڑی چیزیں پسند ہیں۔ کرسمس کارڈ کی حد تک تو ٹھیک ہے ، لیکن میں اپنی تصویروں کو کبھی چھوٹی سائیز میں دیکھنا پسند نہیں کرتی ۔ انسان مطمئین نہیں ہوتا ۔ ایسی تصاویر مجھے بڑا مایوس کردیتی ہیں۔ “

ایلس ، مسز سٹبز کا مطلب اچھی طرح سے سمجھ سکتی تھی ۔

“ حجم ، قد ، قامت ،” مسز سٹبز نے کہا۔    “ مجھے سائیز چاہیے ۔ بیچارہ ، میرا شوہر ہمیشہ کہا کرتا تھا ۔ اسے کبھی بھی چھوٹی چیز پسند نہیں تھی۔ اسے کوئی غیر اہم چیز دے دی ۔ اور تعجب کی بات تھی ، میری پیاری “ —- یہاں مسز سٹبز کی آواز ٹوٹنے لگی تھی ، اور لگتا تھا وہ یادوں میں ڈوبتی جارہی تھیں  —— “ جسم میں پانی بھر جانے کی وجہ سے پریشان تھا ۔ ———— کئی بار دواخانے میں دیڑھ پنٹس (pints۔ کسی مائع کو نا پنے کا پیمانہ ) پانی اس کے جسم سے نکالا جا چکا تھا …… یہ ایک قسم کا انصاف ہی لگتا تھا۔”

ایلس بے چین تھی یہ جاننے کے لیے کہ ان کے شوہر کے جسم سے نکالا کیا گیا تھا۔ آخر اس نے جرأت کی ، “ میرے خیال سے وہ پانی تھا۔”

لیکن مسز سٹبز نے ایلس کو گھور کر دیکھا اور معنی خیز انداز میں جواب دیا ،

“ وہ مائع تھا ، میری پیاری۔”

مائع ! ایلس اس لفظ کو سن کر بلی کی طرح اچھلی، پھر فوری واپس ہوگئی ، سونگھتے ہوے اور زیادہ چوکس ہوکر۔

“ یہ تھا وہ ! “ مسز سٹبز نے ایک قدآور تصویر کی طرف اشارہ کیا جو کسی توانا اور مضبوط جسم والے شخص کی صرف سر اور کندھوں تک کی تصویر تھی ، کوٹ کے کاج ( button-hole) میں سوکھا سفید گلاب لگا تھا جو جمے ہوے گوشت کی چربی جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے نیچے سخت کاغذ پر نقرئی الفاظ میں لکھا تھا ، “ ڈریں نہیں  ، یہ میں ہوں۔”

“ یہ ہمیشہ ہی ایسا خوبصورت چہرہ رہا ہوگا ،” ایلس نے مدھم آواز میں کہا۔

مسز سٹبز کے خوبصورت خم دار زلفوں پر بندھی ہلکے نیلے رنگ کی ربن سے بنی ٹائی ہلنے لگی تھی۔ اس نے اپنی گداز گردن کو جھکایا ۔ کیا گردن تھی ان کی ! گردن جہاں سے شروع ہوتی تھی وہ گلابی دکھائی دیتی تھی ، پھر وہ آگے ہلکی زرد ہوجاتی تھی ، پھر وہ ہلکے خاکی رنگ  ، اور پھر ملائی نما رنگ کے ساتھ ختم ہوتی تھی۔

“ ان سب کے باوجود ، میری پیاری ، “ انھوں نے حیرت انگیز طور پر کہا ، “ آزادی بہترین ہے ! “ اس کی نرم دبی دبی ہنسی کسی بلی کی خرخراہٹ جیسی سنائی دے رہی تھی۔ “ آزادی بہترین ہے ، “ مسز سٹبز نے دوبارہ کہا۔

آزادی ! ایلس کی  کھسیانی ہنسی  کی آواز سنائی دی۔ وہ بڑا عجیب سا محسوس کر رہی تھی۔ اس کا ذہن واپس اپنے باورچی خانہ کی طرف چلا گیا۔  ہمیشہ کی طرح عجیب سا ! وہ دوبارہ کچن میں چلی جانا چاہتی تھی۔

     IX

ایک نرالے قسم کے دوستوں کا مجمع ، چاے کے بعد برنیلس ( Burnells’) کے دھلائی گھر میں اکٹھا ہوگیا تھا ۔ میز کے اطراف ایک بیل ، ایک مرغ ، ایک گدھا جو بھول جاتا تھا کہ وہ گدھا تھا ، ایک بھیڑ اور ایک مکھی بیٹھے تھے۔ دھلائی گھر ، دراصل اس طرح کی ملاقاتوں کے لیے بہت زیادہ موزوں جگہ تھی ، کیونکہ وہ جتنی چاہیں آوازیں لگا سکتے تھے اور کوئی مداخلت کرنے والا نہیں تھا۔ وہ بنگلہ سے دور ایک چھوٹا سا ٹین (tin) کا چھجا تھا ۔ دیوار کے سامنے ایک پرنالہ تھا اور کونہ میں تانبہ کا ایک بڑا سا برتن جس میں کپڑوں کو لگانے کے چمٹوں  (pegs) سے بھری ٹوکری رکھی تھی۔  چھوٹی سی کھڑکی  جس پر مکڑیوں نے جالے بن رکھے تھے ، اور گرد آلود چوکھٹ پر ایک موم بتی اور ایک چوہے دان (mouse-trap) رکھے تھے۔ اوپر ، کپڑے لٹکانے کے لیے  آڑی ترچھی ڈوریاں بندھی تھیں ، اور دیوار پر بہت بڑی، زنگ آلود گھوڑے کی نعل چمٹے سے لٹک رہی تھی اور درمیان  میں میز رکھی تھی جس کے دونوں طرف خاکے ( ڈھانچے ) لگے تھے۔

“ تم مکھی نہیں ہوسکتیں ، کیزیا ۔ مکھی جانور نہیں ہے ۔ وہ تو ایک کیڑا ہے ۔”

“ اوہ ، لیکن میں خوفناک  مکھی بننا چاہتی ہوں ، “ کیزیا نے روتے ہوے کہا …… ایک چھوٹی سی مکھی ، زرد پروں اور دھاری دار پیروں کے ساتھ۔ ۔  اس نے اپنے دونوں پیر اندر لے لیے اور میز پر جھک گئی۔ وہ خود کو مکھی محسوس کرنے لگی تھی۔

“ ایک کیڑا بھی جانور ہونا چاہیے ،” اس نے دلیری سے کہا۔  “ وہ بھی آواز کرتی ہے ۔ مچھلی کی طرح تو نہیں ہے وہ۔ “

“ میں بیل ہوں ، میں بیل ہوں !”  پیپ (Pip) چیخا۔ وہ اتنی بلند آواز تھی —- وہ اتنی بلند آواز کیسے نکال سکتا تھا ؟ ——-  لاٹی دہشت زدہ سی صرف دیکھے جا رہی تھی۔

“ میں بھیڑ بنونگا ،” چھوٹے ریگز (Rags) نے کہا ۔ “ بہت ساری بھیڑوں کے ریوڑ کو میں نے اس صبح جاتے ہوے دیکھا ہے۔ “

“ تم کیسے جانتے ہو ؟ “

“ بابا نے ان کی آوازیں سنی تھیں ۔ با! “ اس نے میمنے جیسی آواز نکالی  جو پیچھے دوڑتا چلا آرہا تھا ، چاہتا تھا کہ بھیڑیں رکیں اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں۔

“ ککڑوں کوں ، (cock-a -doodle -do ! ) “ ایزابیل باریک اور تیز آواز میں چیخی ۔ اس کے سرخ گالوں اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ وہ خود مرغ کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔

“ میں کیا بنونگی ؟ “ لاٹی نے ہر ایک سے پوچھا ، اور وہاں مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی ، ان کے فیصلہ کا انتظار کرتے ہوے کہ وہ کیا بنے ۔ و یسے یہ کام کچھ مشکل تو نہیں تھا۔

“ لاٹی ، تم گدھا بن جاؤ۔ “ کیزیا نے مشورہ دیا۔  “ ہی ۔ ہا ! تم بھلا نہیں سکوگی  ۔”

“ ہی ۔ ہا !” لاٹی نے سنجیدگی سے کہا۔ “ مجھے یہ کب کہنا ہوگا ؟ “

“ میں سمجھاؤنگا ، میں سمجھاؤنگا ،” بیل نے کہا۔ وہی تھا جس کے پاس سارے کارڈس تھے۔ وہ انھیں خود کے سر کے اطراف لہرا رہا تھا۔  “ خاموش رہیں ، اور سنیں ! “  کچھ دیر وہ انتظار کرتا رہا ۔ “ لاٹی ، ادھر دیکھو ۔” اس نے ایک کارڈ  کو پلٹایا ۔ “ اس پر دو نشان ہیں  —— دیکھو ؟ اب تم اس کارڈ کو میز کے بیچ میں رکھ دو  ، اور اگر کسی کے پاس بھی ایسا ہی دو نشان والا کارڈ ہو ، تمھیں کہنا ہوگا ‘ہی ۔ ہا (Hee- haw) ‘ اور وہ کارڈ تمھارا ہو جائیگا۔ “

“ میرا ؟ “ لاٹی کی آنکھیں گول تھیں۔ “ رکھ لوں ؟ “

“ نہیں ، بیوقوف ۔ صرف کھیل کے لیے ۔ دیکھو ؟  صرف جب ہم کھیل رہے ہوں۔ “  بیل اس کے ساتھ چڑ چڑا ہو رہا تھا۔

“ اوہ ، لاٹی ، تم تو بیوقوف ہی ہو ، “ مغرور مرغ نے کہا۔

لاٹی نے دونوں کی طرف دیکھا ۔ پھر اس نے سر جھکا لیا اور اس کے لب تھرتھرانے لگے تھے۔ “ میں کھیلنا نہیں چاہتی ،” اس نے سرگوشی کی۔ سب نے سازشیوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سب جانتے تھے اس کا مطلب کیا تھا۔ وہ یہاں سے چلی جائیگی اور پھر وہ کہیں کھڑی ہوگی اپنا بغیر آستینوں کا لباس

( pinny , Pinafore) سر پر ڈالے  ، کسی کونہ میں ، دیوار کے پاس ، یا کسی کرسی کے پیچھے۔

“ ہاں ، تم کر سکتی ہو ، لاٹی ، یہ بہت آسان ہے ، “ کیزیا نے کہا۔

اور پشیمان سی  ازابیل نے  سن رسیدہ خاتون کی طرح کہا  ، “ مجھے دیکھو ، لاٹی ، اور تم بہت جلد سیکھ لوگی ۔”

“ خوش ہوجاؤ ، لاٹی ،” پیپ نے کہا۔ “ مجھے پتہ ہے مجھے کیا کرنا ہے۔ میں تمھیں پہلا کارڈ دیتا ہوں۔ اصل میں تو یہ میرا ہے ، لیکن میں تمھیں دے دونگا۔ چلو ، آجاؤ ۔” اور اس نے لاٹی کے سامنے کارڈ رکھ دیا۔

لاٹی نے اپنے اوسان بحال کیے۔لیکن اب وہ دوسری مصیبت میں تھی۔ “ “میرے پاس رومال نہیں ہے ، “ اس نے کہا ، “ مجھے اشد ضرورت ہے ۔”

“ یہ لو ، لاٹی ، تم میرا رومال استعمال کرسکتی ہو۔ “ ریگز نے اپنی ملاح کی جیکٹ سے ایک گیلا رومال نکال کر دیا ، جو ایک دوسرے سے گرہ سے جڑی تھیں۔

“ بہت احتیاط سے  ، “ اس نے خبردار کیا۔  “ صرف وہ کونہ استعمال کرنا ۔ اسے پھینکنا مت ۔ میرے پاس ایک اسٹار فش ہے جسے میں اپنے سے مانوس کروانا چاہتا ہوں۔ “

“  اوہ ، چلو ، لڑکیوں ،” بیل نے کہا ۔ “ اور دھیان رہے —- آپ میں سے کوئی بھی کارڈ س کو نہیں دیکھے گا ۔ آپ سب اپنے ہاتھ میز کے نیچے رکھیں گے جب تک میں “ گو (Go) “ نہ کہہ دوں۔ “

کارڈ س میز پر پھیل چکے تھے ۔ سب نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ وہ کارڈ س کو دیکھ پائیں ، لیکن پیپ ان سے زیادہ تیز تھا۔  دھلائی گھر میں بیٹھنا بڑا دلچسپ تھا ؛ وہ جو کرسکتے تھے وہ یہی تھا  کہ سارے جانور مل کر ایک ساتھ  گانا نہ شروع  کریں، اس سے پہلے کہ پیپ اپنا کام ختم کرے ۔

“ اب ، لاٹی ، تم شروع کردو۔”

لاٹی نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ بڑھایا  ۔ اور اپنی تاش کی گڈی سے سب سے اوپر رکھا کارڈ اٹھا لیا، غور سے اسے دیکھا  —- وہ صاف تھا ، اس نے نشا نات  گنے  —- اور اسے الٹا رکھ دیا۔

“ نہیں ، لاٹی ، تم یہ نہیں کرسکتیں ۔ تم پہلے نہیں دیکھ سکتیں۔ تم اسے دوسری طرف سے پلٹا کر رکھو۔

“ لیکن ، اس طرح تو ہر ایک میرے ساتھ  اسی وقت دیکھ لیتا ، “ لاٹی نے کہا۔

کھیل آگے بڑھتا رہا۔ علاوہ ازیں ، بیل ناخوشگوار تھا ۔اس نے میز پر قبضہ جما رکھا تھا اور لگتا تھا کسی بھی وقت سارے تاش کے پتے کھا جائیگا۔

بززز! مکھی نے کہا۔

ککڑوکوں ! ازابیل جوش میں کھڑی ہوگئی اور اپنی کہنیوں کو پروں کی طرح ہلانے لگی۔

با ! ریگز نے ہیروں کے راجہ والا کارڈ رکھ دیا، اور لاٹی نے اسپین کے راجہ والا کارڈ نیچے رکھا ۔ اس کے پاس اب مشکل سے کوئی کارڈ بچا تھا۔

“ لاٹی ، تم کیوں زور سے آواز نہیں نکالتیں ؟ “

“ میں بھول چکا ہوں کہ میں کیا ہوں ،” گدھے نے دکھ کے ساتھ کہا۔

“ ٹھیک ہے ، تبدیل کرلو! اس کی بجاے کتا بن جاؤ ! بھوں ۔بھوں ! (Bow-wow!  ) “

“ اوہ ، ہاں ۔ وہ زیادہ آسان ہے۔ “ لاٹی  پھر سے مسکرانے لگی۔ لیکن جب لاٹی اور کیزیا دونوں ایک ہی تھیں ، کیزیا قصداً انتظار کررہی تھی۔ دوسرے سب لاٹی کو اشارے کر رہے تھے۔ لاٹی  کی رنگت سرخ ہو چکی تھی ؛ وہ تذ بذ ب میں تھی ، اور آخر اس نے کہہ دیا ، “ ہی۔ ہا ! (Hee- Haw) ، کیزیا ۔”

“ سس ! ایک منٹ رکو !”  جب وہ اس مسلہ میں بہت زیادہ الجھی ہوئی تھیں تب ہی بیل نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا ۔ “ وہ کیا تھا ؟ وہ آواز کیسی تھی ؟ “

“ کیسی آواز ؟ کیا مطلب ہے تمھارا ؟”  مرغ نے پوچھا۔

“ سس ! خاموش ! سنو !”  وہ بے حرکت چوہوں کی طرح  تھے۔ “  میرے خیال سے میں نے کوئی دستک سنی ،”  بیل نے کہا۔

“ کس قسم کی آواز تھی؟” بھیڑ نے آہستہ سے پوچھا ۔

کوئی جواب نہیں ملا۔

مکھی تھرتھرائی۔ “ جو کچھ بھی تھا ، ہم نے دروازہ کس لیے بند کیا ؟ “ اس نے نرمی سے کہا۔ اوہ ، کیوں ، کیوں انھوں نے دروازہ بند کیا ؟

جب وہ کھیل رہے تھے ، تب ہی دن ڈھلنے لگا تھا ؛ اور خوبصورت سورج شعلہ بن کر غائب ہوگیا۔ اور اب  سمندر سے ہوتا ہوا ، ریت کی پہاڑیوں سے گذر کر  اندھیرا تیزی سے جانوروں کے علاقہ تک پھیل گیا ۔ دھلائی گھر کے کسی بھی کونہ میں دیکھ کر آپ خوفزدہ ہوجاتے ، پھر بھی تمھیں اپنی ساری طاقت اکٹھا کر کے دیکھنا ہی تھا۔ اور دور کہیں دادی لیمپ روشن کر رہی تھیں ۔   چلمنیں نیچےکھینچ دی گئیں ؛ باورچی خانہ کی آگ لپک کر آتش دان کے اوپر لگے سنگ مرمر پر رکھے ٹن تک پہنچ رہی تھی۔

“ یہ مزید خوفناک ہو جائیگا ،” بیل نے کہا ، “ اگر کوئی مکڑی چھت سے میز پر گرجاے تو ، کیا ایسا نہیں ہوگا ؟ “

“ مکڑیاں چھت سے گرتی نہیں ہیں ۔”

“ ہاں ، گرتی ہیں ۔ ہماری مین (Min) نے بتایا تھا کہ انھوں نے طشتری جتنی بڑی مکڑی دیکھی تھی ، آملہ (gooseberry ) جیسے بڑے بالوں کے ساتھ۔ ۔

بڑی عجلت میں تمام ننھے سروں نے جھٹکے سے اوپر دیکھا ؛ تمام ننھے سر ایک دوسرے کے قریب آگیے ، ایک دوسرے پر دباؤ ڈالتے ہوے۔

“ کوئی آکر ہمیں بلاتا کیوں نہیں ہے ؟ “ مرغ چیخا۔

اوہ ، یہ بڑے لوگ بھی ، کسی آرام دہ جگہ ، لیمپ کی روشنی میں  بیٹھے ، اور ہنستے ہوے پیالیوں سے مشروب پی رہے ہونگے ! وہ تو جیسے انھیں  بھلا ہی چکے تھے۔ نہیں ، وہ انھیں بھولے نہیں تھے۔ اور یہ ان کی مسکراہٹ سے ظاہر تھا۔ دراصل انھوں نے طئے کیا تھا ان سب کو ایک ساتھ آزادی سے وقت گذارنے دیا جاے۔

اچانک لاٹی نے چبھتی ہوئی چیخ ماری  ۔ اور وہ سب اچھل پڑے اور وہ بھی چیخنے لگے۔ “ کوئی چہرہ —- ایک چہرہ دکھائی دے رہا ہے ! “ لاٹی پھر چیخی ۔

وہ سچ تھا ، حقیقت تھی۔ کھڑکی سے چپکا تھا ، ایک بے رنگ چہرہ ، سیاہ آنکھیں ، سیاہ داڑھی ۔

“ دادی ! ماں ! کوئی ہے ! “

لیکن ان میں سے کوئی بھی دروازہ تک نہیں آیا ، ایک دوسرے پر گرتے

ہوے ، اس سے پہلے کہ انکل جوناتھن ( Uncle Jonathan) کے لیے دروازہ کھولا جاتا۔ وہ ان بچوں کو گھر  لیجانے  آے تھے ۔

  X

      اسے کافی دیر پہلے آجانا چاہیے تھا ، لیکن سامنے والے باغ میں اس نے لنڈا  کو دیکھا  جو گھاس پر ٹہل رہی تھی ، کبھی کوئی مرجھاے ہوے  گلابی پھول کو اٹھاتی ، کبھی مضبوط گلناری کا سہارا لیکر کھڑی ہوجاتی ، کبھی گہری سانس لیتی ، اور پھر ٹہلنے لگ جاتی ، ہلکی سی لاتعلقی کے احساس کے ساتھ۔ ۔سفید لباس پر ایک زرد شال گلابی کنارے کے ساتھ ، چائنا مین (Chinaman’s shop) کی دوکان سے خریدی ہوئی،  پہن رکھی تھی۔

“ ہیلو ، جوناتھن !”  لنڈا نے آواز دی ۔ اور جوناتھن نے تیزی سے اپنی خستہ ٹوپی نکالی ، سینہ پر رکھا ، ایک گھٹنے پر بیٹھ گیا ، اور لنڈا کے ہاتھ کو چوم لیا ۔

“ خیر مقدم ، میری سیم تن ( FairOne) ! آداب ، میرے آسمانی ، پر کشش کھلے ہوے پھول ! “  اور پھر نرمی سے پوچھا ، “ دوسری بیگمات کہاں ہیں ؟ “

بیریل باہر برج ( تاش کا ایک کھیل ) کھیل رہی ہے۔ ماں لڑکے کو نہلا رہی ہے۔ …… کیا تم کچھ ادھار لینے آے ہو ؟ “

ٹراوٹ خاندان کے لوگ ہمیشہ ہی ضرورت مند ہوتے تھے ، اور آخری لمحات میں برنیلس کے گھر ادھار مانگنے چلے آیا کرتے تھے۔

لیکن ، جوناتھن نے صرف اتنا کہا ، “ میری معصوم پیاری ، میری مشفق ؛” اور وہ اپنی بھابھی کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔

لنڈا ،  منوکا کے درخت کے نیچے بندھے بیریل کے جالیدار جھولے کے پاس رک گئی ۔ اور جوناتھن بھی وہیں گھاس پر لیٹ گیا ، اور ایک لمبی ڈنٹھل کھینچ کر چبانے لگا۔ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ دوسرے باغ سے بچوں کے چیخنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ کسی مچھیرے کی ہلکی سی گاڑی ریت کی سڑک پر ہچکولے کھا رہی تھی ، اور بہت دور کہیں کتا بھونک رہا تھا ؛ لیکن اس کی آواز دبی ہوئی تھی جیسے اس کا سر کسی تھیلے میں بند ہو۔ اگر غور سے سنیں تو سمندر کی اونچی  لہروں کا ساحل کے پتھروں کو چھو کر واپس جانے کی سرسراتی آواز سنائی دے رہی تھی۔ سورج ڈوب رہا تھا۔

لنڈا نے پوچھا ، “ اچھا ، تو تم پیر کو واپس آفس جاؤگے ، جاؤگے نا ،

جوناتھن ؟ “

“ پیر کے دن پنجرے کا دروازہ کھلتا ہے ، اور ایسا بجتا رہتا ہے اپنے شکار کے لیے ، اگلے گیارہ مہینے اور ایک ہفتہ کے لیے، “  جوناتھن نے جواب دیا۔ ———

لنڈا نے جھولا جھلایا۔ “ کتنا خوفناک ہو سکتا ہے ، “ اس نے آہستہ سے کہا۔

“ کیا تم چاہتی ہو کہ میں ہنسوں ، میری خوبصورت بہن ؟ یا تم مجھے رلانا چاہتی ہو ؟ “

لنڈا عادی تھی جوناتھن کی اس طرح کی باتوں سے ، اس لیے اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔

“ میرے خیال سے ، “ اس نے مبہم انداز میں کہا ، “ انسان عادی ہوجاتا ہے ۔ ۔انسان کسی بھی چیز کا عادی ہو جاتا ہے۔ “

“ کیا کوئی عادی ہو سکتا  ہے ؟ ہُم ! “   “ہُم “ کافی گہرائی لیے تھا ، جیسے چنگھاڑتے ہوے زمین کے نیچے سے نکلا ہو۔

“ مجھے تعجب ھیکہ یہ کیسے ہوا،”  جناتھن نے سوچتے ہوے کہا ؛ “ میں تو ایسا کبھی نہیں کرپایا ۔”

اسے وہاں لیٹے ہوے دیکھ کر لنڈا نے پھر سے سوچا وہ کتنا دلکش تھا۔ اس طرح سے سوچنا بہت عجیب سا تھا ، کہ وہ ایک عام کلرک تھا ، جب کہ سٹینلی کی آمدنی اس سے دوگنی تھی۔ جوناتھن کے ساتھ آخر معاملہ کیا تھا ؟ اس کے پاس کوئی امنگ ، آرزویں نہیں تھیں۔ لنڈا کے خیال میں یہی وجہ تھی۔ اور پھر بھی اس کو ایک غیرمعمولی اور خدا داد قابلیت کا حامل شخص سمجھا جاتا تھا ۔ ویسے وہ شدت سے موسیقی کا شوقین تھا ؛ ایک ایک پینی (penny) اس نے کتابوں پر خرچ کردیا۔ ہمیشہ اس کے پاس نئے نئے خیالات ، منصوبے ، اور خاکے ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اور اب جوناتھن کے اندر ایک نئی آگ بھڑک اٹھی تھی ؛ اور جب وہ کسی نئے منصوبہ کو سمجھانے کی کوشش کرتا  آپ تقریباً اسے ، نرمی سے ، چنگھاڑتے ہوے وضاحت کرتے ، بیان کرتے ، پھیلا کر سمجھاتے ہوے پاتے ؛ لیکن ایک ہی لمحہ بعد وہ سب خاک میں مل جاتا ، اور جوناتھن اپنی سیاہ آنکھوں میں بھوک لیے واپس ہو جاتا۔ اور ایسے موقعوں پر وہ مبالغہ آمیزی کے ساتھ ، نامعقول انداز میں بات کرنے لگ جاتا ، چرچ میں جا کر  بہت ہی خوفناک ، ڈرامائی اور شدت کے ساتھ گانے لگ جاتا  کہ متوسط حمد بھی بےحد شاندار ہوجاتی —- وہ چرچ کے طائفہ (choir ) کا پیشوا تھا ۔

“ مجھے لگتا ہے ، ایک ضعیف العقل اور جہنمی کی طرح پیر کو آفس جانا ہی پڑیگا ،” جوناتھن نے کہا ، “ جیسے ہمیشہ کرتا رہا ہوں ، اور ہمیشہ کرتا رہونگا ۔ کسی کی زندگی کے بہترین سال صرف نوبجے سے پانچ بجے تک اسٹول پر بیٹھے کسی اور کے حساب کھاتوں کے مجموعہ میں لکھتے رہو ! کسی کی زندگی کا …… کسی کی اکلوتی زندگی کا یہ کتنا عجیب استعمال ہے ، ہے نا ؟  یا یہ صرف میرا پیارا سا خواب ہو؟ “ اس نے گھاس پر کروٹ بدلی اور سر اٹھا کر لنڈا کو دیکھا۔  “ مجھے بتاؤ ، میری زندگی میں اور ایک  عام قیدی کی زندگی میں کیا فرق ہے۔ اور جو فرق میں دیکھ سکتا  ہوں  وہ یہ کہ میں نے خود کو جیل میں بند کروالیا  اور اب کوئی مجھے یہاں سے باہر نکالنے کے لیے تیار نہیں۔  یہ پہلی  صورت حال سے زیادہ ناقابل برداشت ہے۔  اگر میری مرضی کے خلاف مجھے لات مار کر کمرے میں ڈھکیل دیا گیا  ، اور دروازہ مقفل کردیا گیا ہو ، اور کسی بھی قیمت پر پانچ سالوں میں ، میں نے شائد اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ، اور مکھیوں کے اڑنے میں ، راہ داری میں داروغہ کے قدموں کو گننے میں ، خاص طور پر ان کے بدلتے انداز پر غور کرتے ہوے ، وغیرہ وغیرہ ۔  لیکن حقیقت یہ ھیکہ ، میں ایک ایسا کیڑا ہوں جو خود ہی اڑ کر کمرے کے اندر چلا گیا ۔ تیزی سے اڑتے ہوے دیواروں سے ٹکرایا، کھڑکیوں سے ٹکرایا، کبھی چھت سے جا لگا ، غرض کہ دنیا کی زمین پر ہر کوشش کر چکا  سواے دوبارہ باہر نکل جانے کے ۔  اور ان سب کے دوران میں سوچ رہا ہوں ، اس کیڑے کی طرح ، یا اس تتلی کی طرح ، یا وہ جو کچھ بھی ہو،

‘زندگی کا اختصار ! ‘ زندگی کا اختصار ! ‘  میرے پاس بس ایک رات یا ایک دن کا وقت ہوتا ہے ، اوریہ اتنا وسیع ، خطرناک باغ ، انتظار کرتے ہوے ، کسی نامعلوم  شخص کی طرح  ، کسی انجانے شخص کی طرح ۔”

“ اگر تم اس طرح سے محسوس کرتے ہو تو کیوں  —- “ لنڈا نے جلدی سے کہنا شروع کیا ۔

“ آہ ! “ جوناتھن نے کہا ۔ اور وہ “ آہ “ خوشی کا احساس لیے تھا۔ تم نے صحیح سمجھا ہے۔ کیوں ؟ کیوں بیشک ؟ پاگل بنانے والا پراسرار سوال ۔ میں دوبارہ باہر کیوں نہیں نکل سکا ؟  وہاں کھڑکی تھی ، دروازہ تھا ، یا جو کچھ بھی تھا جس سے ہو کر میں اندر گیا تھا۔ وہ مایوسانہ انداز میں بند تو نہیں ہوا ہوگا —- ہے نا ؟ میں نے اسے کیوں تلاش نہیں کیا، میں اسے تلاش کرلیتا اور باہر نکل جاتا ۔ میری چھوٹی بہن، مجھے جواب دو ۔” لیکن جوناتھن نے لنڈا کو جواب دینے کا وقت ہی نہیں دیا۔

“ کسی نہ کسی وجہ سے میں ہوبہو اس کیڑے کی طرح ہوں —— “ جوناتھن رک رک کر بات کررہا تھا۔  “ اس کی اجازت نہیں ہے ، یہ ممنوع ہے۔ یہ کیڑوں کے قانون کے خلاف ہے ، مثال کے طور پر ، انھیں آواز کرنے سے روکنا ، اوپر سے گرنے سے روکنا ، کھڑکی کے شیشہ پر رینگنے سے روکنا ۔  میں کیوں آفس نہیں چھوڑ پاتا ؟ میں کیوں اس لمحہ ، اس بات پر غور نہیں کرپاتا کہ وہ کیا چیز ہے جو مجھے اس آفس کو چھوڑنے سے روک دیتی ہے ؟ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں اس ملازمت سے نہایت سختی سے جڑا ہوں ۔ میرے پاس دو لڑکے ہیں جنھیں میں بھیج سکتا ہوں ، لیکن آخر کو وہ لڑکے ہی تو ہیں ۔ میں سمندر سے قطع تعلق کر کے ملک میں کہیں دور ملازمت حاصل کر سکتا ہوں ، یا —- “  اچانک وہ لنڈا کی طرف دیکھ کر مسکرایا ، اور بدلی ہوئی آواز میں کہا جیسے کوئی راز چھپا رہا ہو،  “کمزور…… کمزور ۔ قوت نہیں ہے۔ کوئی سہارا نہیں ہے ۔ کوئی رہنمایانہ اصول بھی نہیں ، چلیں ، اسی طرح کہہ لیں۔ “  لیکن تب ہی وہی مخملی آواز لوٹ آئی :

کہانی سننا چاہوگے

کیسے اس کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں …

اور پھر وہ خاموش ہوگیے۔

سورج غروب ہوچکا تھا ۔ مغربی آسمان پر ہر طرف گلابی بادل کے ٹکڑے پھیلے ہوے تھے۔ روشنی کی کشادہ کرنیں بادلوں سے چھن کر جیسے پورے آسمان کو  ڈھک رہی تھیں ۔ بالائی حصہ میں نیلا رنگ ہلکا ہوگیا تھا ؛ وہ اب پھیکا سنہری ہو چکا تھا ، اور جھاڑیاں اس کے اطراف خط کشی کا کام کررہی تھیں چمکدار ، اور منور دھات کی طرح۔ کبھی کبھی وہ روشنی کی شعائیں آسمان پر بڑی خوفناک دکھائی دیتی ہیں۔  اور وہ تمھیں یاد دلاتی ہیں کہ یہوواہ (Jehovah) (خدا) اوپر کہیں بیٹھا ہے ، غیرت مند خدا ، قادرمطلق ، جس کی نظریں تم پر ہوتی ہیں ، جو ہمیشہ چوکس اور خبردار رہتا ہے، کبھی تھکتا نہیں ہے۔ یاد رکھیں وہ جب زمین پر آجاے تو زمین ہلنے لگے گی اور سب تباہ ہو کر قبرستان میں تبدیل ہوجائیگا ؛ ہر طرف قبر کی سی سردی،  روشن فرشتے ادھر سے ادھر لیے پھرتے رہینگے ، اور تمھیں کوئی وقت نہیں ملے گا سمجھانے کے لیے جو آسانی سے سمجھایا جا سکتا تھا …… لیکن اس رات لنڈا کو لگ رہا تھا ان سفید شعاؤں میں ضرور کچھ لامحدود خوشیاں اور پیار چھپا تھا ۔ اور اب سمندر کی طرف سے کوئی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا جیسے وہ اس نازک ، خوشگوار خوبصورتی کو اپنے سینہ کے اندر چھپا  لینا چاہتا ہو۔

“ یہ سب غلط ہے ، یہ سب غلط ہے ، “ جوناتھن کی آسیبزدہ سی آواز آئی۔  “منظر یہ نہیں تھا۔ یہ ترتیب بھی نہیں تھی ،  …… تین اسٹول ، تین میزیں ، تین سیاہی کی بوتلیں اور ایک چلمن ( wire blind  )“

لنڈا جانتی تھی وہ کبھی بدلنے والا نہیں ، پھر بھی اس نے کہا ،” کیا بہت دیر ہوچکی ہے ، اب بھی ؟ “

“ میں بوڑھا ہوچکا ہوں  ——  میں بوڑھا ہوچکا ہوں ،” جوناتھن نے خاص لہجہ میں کہا ۔ وہ اس کی طرف جھکا ، اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے سر پر رکھ دیا۔  “ دیکھو ! “  اس کے کالے بالوں پر چاندی جیسی سفیدی پھیل رہی تھی۔ جیسے کسی کالے پرندے کے جسم پر خوبصورت سفید پر۔

لنڈا متعجب تھی۔ اسے بالکل اندازا نہیں تھا کہ وہ بوڑھا ہو چلا تھا۔ پھر بھی ، جیسے وہ اس کے بازو کھڑا تھا ، اور گہری سانس لی ،  ہاتھ پھیلا کر انگڑائی لی ، لنڈا نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ وہ پرعزم نہیں تھا ، نہ ہی وہ عاشق مزاج جواں مرد تھا ، لاپرواہ سا ، لیکن واقعی وہ بڑھاپے کی عمر کو چھو چکا تھا۔ اندھیرے میں سیاہ ہوتی گھاس پر کھڑا وہ بہت اونچا دکھائی دے رہا تھا ، اور لنڈا کے ذہن میں خیال آیا ، “ وہ ایک ان چاہی گھاس پھوس کی طرح ہے۔ “

جوناتھن دوبارہ جھکا اور لنڈا کی انگلیوں کو چوم لیا۔

“ خدا تمھیں  ، تمھارے صبر کا اجر دے ، میری خاتون ۔ “ وہ دھیمی آواز میں بڑبڑایا ۔ “ مجھے جانا چاہیے تاکہ میری شہرت اور دولت کے وارثوں کو ڈھونڈ لوں …… “ وہ چلا گیا۔

   XI

 

بنگلے کی کھڑکیوں سے روشنی اندر پھیل چکی تھی۔ اور سنہری روشنی ، گلابی اور سفید پھولوں والے  یوریشین پودوں اور اپنے مکمل جوبن پر آے گیند کے پھولوں سے بھرے دو مربع زمین کے ٹکڑوں کا احاطہ کیے تھی۔۔ فلوری (Florrie) ، بلی ، برآمدہ سے چلتی ہوئی سب سے اونچی سیڑھی پر ، اپنے سفید پنجے قریب کرتے ہوے ،  اور دم کو جسم کے اطراف سمیٹ کر بیٹھ گئی ۔ وہ بڑی مطمئین نظر آرہی تھی، جیسے  شائد وہ سارا دن اسی لمحہ کا انتظار کر رہی تھی۔

“ شکر ہے خدا کا  ، انھیں آنے میں دیر ہورہی ہے ،” فلوری نے کہا ۔ “ خدا کا شکر ہے ، طویل دن آخر ختم ہوا ۔” اس کی سبزہ جیسی آنکھیں کھل گئیں ۔

فی الحال کسی مسافر گاڑی کی گڑ گڑاہٹ سنائی دے رہی تھی ، اور کیلی (Kelly) کے کوڑے برسانے کی آواز بھی۔ گاڑی اتنی قریب آچکی تھی کہ شہر سے لوٹنے والے اس میں بیٹھے لوگوں کی ، جو بلند آواز میں بات کررہے تھے ، آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ گاڑی برنیلس کے گھر کی گیٹ پر رک گئی۔

سٹینلی آدھا راستہ  چل چکا تھا جب اس نے لنڈا کو دیکھا ۔ “ یہ تم ہو، پیاری؟”

“ ہاں ، سٹینلی ۔”

سٹینلی  پھولوں  کی کیاری پر سے چھلانگ لگا کر دوسری طرف گیا اور لنڈا کو اپنی بانہوں میں لے لیا ۔ اور وہ ان مانوس ، بےقرار ، مضبوط  بانہوں میں لپٹ گئی۔

“ مجھے معاف کردینا ، پیاری ، مجھے معاف کردینا ،”  سٹینلی نے ہکلاتے ہوے کہا ، اور اس نے لنڈا کی ٹھوڈی کو ہاتھ سے اٹھا کر اس کا چہرہ اپنی طرف کر لیا۔

“ تمھیں معاف کردوں ؟ “ لنڈا مسکرائی ۔ “ لیکن کس لیے ؟ “

“ لنڈا ! “ —— سٹینلی بہت دکھی تھا  ——- کیا تمھیں احساس نہیں ہوا ——- تمھیں محسوس کرنا چاہیے تھا ——- میں آج صبح تمھیں بغیر الوداع کہے چلا گیا تھا ؟ میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ کیسے میں نے ایسی حرکت کردی۔ یقیناً میری پریشان اور بد مزاج طبیعت ۔ لیکن —— ٹھیک ہے ۔ “ اور اس نے گہری سانس لی ، اور دوبارہ لنڈا کو اپنی بانہوں میں لے لیا —— “ اور میں نے اپنی اس غلطی کی کافی سزا بھگتی ہے آج ۔”

“ وہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ “ لنڈا نے پوچھا۔ “ نئے دستانے ؟ دکھائیں مجھے ۔”

“ اوہ ، بس ایسے ہی ، نرم چمڑے کے ، سستے سے دستانے ، “  سٹینلی نے عاجزانہ انداز میں بتایا۔ “ صبح ، گاڑی میں میں نے بیل (Bell ) کو ایسے دستانے پہنے دیکھے تھے ، تو جیسے ہی میں اس دوکان کے سامنے سے گذرا تو فوری اندر داخل ہوگیا اور ایک جوڑی خرید لی۔  تم کس بات پر ہنس رہی ہو ؟کیا تم سمجھتی ہو کہ میں نے غلط کیا ، ایسا سمجھتی ہو ؟”

“ برخلاف اس کے ، دلبر ، “ لنڈا نے کہا ، “ میرے خیال سے بہت سمجھداری کا کام کیا ہے۔”

اس نے لانبے سے ، ہلکے رنگ کے دستانے انگلیوں پر چڑھاے اور اپنےہاتھ کو دیکھنے لگی ، ادھر ادھر پلٹاتے ہوے۔ وہ ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔

سٹینلی کہنا چاہتا تھا ، “ جب سے میں نے یہ دستانے خریدے تھے ، سارا وقت میں تمھارے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔”  یہ صحیح تھا ، لیکن بس کسی وجہ سے وہ کہہ نہیں پایا۔ “ چلو اندر چلتے ہیں ، “ سٹینلی نے کہا۔

 

     XII

             رات میں کیوں مختلف سا احساس ہوتا ہے ؟ کیوں جاگنا ایک دلچسپ اور فرحت بخش احساس ہوتا ہے جب کہ سب سورہے ہوں ؟ دیر ہوگئی —— کافی دیر ہو گئی ہے ! اور پھر بھی ہر لمحہ تم خود کو زیادہ سے زیادہ بیدار محسوس کرنے لگتے ہو ، گویا کہ تم آہستہ آہستہ ، تقریباً ہر سانس کے ساتھ ،  صبح کی روشنی سے زیادہ ، ایک نئی اور حیرت انگیز ، زیاد ہ سنسنی خیز دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتے ہو۔ اور پھر یہ کیا عجیب احساس ھیکہ تم خود کو ایک سازشی سمجھنے لگو ؟ ہلکے سے ، چپکے چپکے اپنے ہی کمرے میں گھومنے لگتے ہو۔ سنگھار میز سے کوئی چیز اٹھاتے ہو ، پھر اسے بغیر آواز کے واپس رکھ دیتے ہو۔ اور ہر چیز ، یہاں تک کہ پلنگ کے پاۓ بھی تمھیں جانتے ہیں ، توجہ دیتے ہیں ، تمھارے رازوں کے رازدار بنتے ہیں ………

تمھیں دن میں اپنا کمرہ پسند نہیں ہوتا ۔ تم اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں  چاہتے۔ تم بار بار اندر اور باہر جاتے رہتے ہو، دروازہ کھلتا اور بند ہوتا ہے ، الماری چرچراتی ہے ۔  تم اپنے پلنگ کے کونہ پر بیٹھ کر جوتے بدلتے ہو اور باہر جانے کے لیے مڑتے ہو۔  آئینہ پر گرتے ہو  ، دو پینیں بالوں میں اٹکاے ،  چہرے پر لگانے والے پاؤڈر میں ناک ڈبوے ، اور پھر وہاں سے دور ہٹ جاتے ہو۔ لیکن اب —— وہ  اچانک تمھارے لیے عزیز بن جاتے ہیں ۔ یہ چھوٹا سا ، پیارا سا مزاحیہ کمرہ ۔ یہ تمھارا ہے۔  اوہ ، کسی چیز کی ملکیت کا احساس ہونا کتنی بڑی  خوشی کا  باعث ہوتا ہے ! میرا —- میرا اپنا !

“ میرا اپنا ہمیشہ کے لیے ؟ “

“ ہاں ۔”  وہ خاموش ہو گئے ۔

یقیناً ، یہاں اس وقت ، اس بات کا  کوئی تعلق نہیں تھا۔ سب بیکار اور بکواس تھی ۔ لیکن ، اس کے باوجود ، بیریل نے کمرے کے بیچ  صاف طور پر دو لوگوں کو کھڑا دیکھا۔ لڑکی کی بانہیں لڑکے کی گردن کے اطراف تھیں ؛ اور لڑکے نے اسے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اور اب اس نے سرگوشی کی ، “ میری حسینہ ، میری چھوٹی سی حسینہ ! “  وہ اپنے بستر سے اچھل پڑی ، کھڑکی کی طرف بھاگی ، اور کھڑکی کی سیٹ پر جھک گئی ، اپنی دونوں کہنیاں کھڑکی کی چوکھٹ پر رکھے۔ لیکن ، خوبصورت رات ، باغ ، ہر جھاڑی ، ہر پتہ ، سفید باڑ ، یہاں تک کے آسمان کے تارے ، سب ہی سازشیں کر رہے تھے۔ چاند اس قدر روشن تھا کہ سارے پھول بھی  دن کی روشنی کی طرح روشن دکھائی دے رہے تھے ؛ نیسٹرٹئیم کے سایہ  ، شاندار للی (lily) کی طرح کے  پتے اور پوری طرح سے کھلے ہوے پھول نقرئی برآمدہ میں پھیلے تھے۔ منوکا (manuka) کا درخت ، جنوبی ہواؤں کی وجہ سے جھکا ہوا ، کسی پرندہ کی طرح جو اپنے پر پھیلاے ،  ایک پیر پر کھڑا ہو۔

لیکن جب بیریل نے جھاڑی کی طرف دیکھا تو وہ اسے اداس دکھائی دے رہی تھی۔

“ ہم گونگے درخت ، رات میں اوپر کی طرف پہنچنے کی کوشش کرتے ہوے ، پتہ نہیں کیا التماس کر رہے ہیں ،”  دکھی جھاڑی نے کہا۔

یہ صحیح ھیکہ جب تم اکیلے خود کے ساتھ ہوتے ہو ، اور زندگی کے بارے میں سوچتے ہو ، تو وہ ہمیشہ دکھی ہوتی ہے۔ سارا جوش وغیرہ اچانک چھوڑتے ہوے دکھائی دیتے ہیں ، اور یہ ایسے ہے جیسے   خاموشی میں ، کوئی تمھارا نام پکار رہا تھا ، اور جیسے تم  نے پہلی مرتبہ اپنا نام سنا ہو۔  “ بیریل ! “

“ ہاں ، میں یہاں ہوں ۔ کسے میری ضرورت ہے ؟ “

“ بیریل ! “

“ میں آرہی ہوں ۔”

یہ اکیلی اور تنہائی کی زندگی ہے۔ ویسے ڈھیروں رشتہ دار اور دوست ہیں ؛ لیکن اس کا ان سب سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ تو کسی ایسے شخص کوچاہتی ہے جو اس بیریل کو ڈھونڈھ نکالے جس کو کوئی نہیں جانتا ، اور وہ ہمیشہ ایسی ہی  بیریل کی امید کرتا رہا ہو۔ وہ ایک سچا عاشق چاہتی تھی۔

“ مجھے ان سارے لوگوں سے دور لے چلو ، جان من ۔ چلیں بہت دور چلے جاتے ہیں۔ ہماری اپنی زندگی جیئیں  ، بالکل نئی ، ابتدا سے صرف ہماری ۔ چلیں ہم ہماری اپنی آگ جلائیں ۔ چلیں ایک ساتھ بیٹھ  کر کھانا کھائیں۔ رات دیر تک باتیں کرتے رہیں۔ “

خیال ، لگ بھگ کچھ ایسا تھا ، “ مجھے بچالو ، میری جان ، مجھے بچالو! “

…… اوہ ،  چلتے رہو ! زیادہ منکسرالمزاج بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہو جب تک تم جوان ہو۔ یہ میرا مشورہ ہے ۔ “ مسز ہیری کیمبر کی زوردار ہنہناتی لا تعلق آواز میں ایک تیز رفتار بیوقوف سی ہنسی بھی شامل ہو گئی۔

یہ احساس کہ تمھارے ساتھ کوئی نہیں ہے ، اس کو قبول کرنا خوفناک طور پر مشکل  ہے۔ اور یہ کہ تم دوسروں کے رحم و کرم پر ہو۔ تم کوئی گستاخی یا بداخلاقی نہیں کر سکتےہو۔ اور ہمیشہ اس خوف کے تلے دبے رہوگے کہ ناتجربہ کار اور بیوقوف ہو ، خلیج کے  سا حل  پر آنے والی بزرگ خواتین کی طرح ۔ اور —- یہ جاننا کتنا  دلکش ہوتا ھیکہ تم لوگوں پر حکومت کرتے ہو۔ ہاں ، یہ بہت دلکش   ہے ……

اوہ کیوں ، کیوں “وہ” جلد آتا نہیں ہے۔

اگر میں یہاں رہنے لگوں ، بیریل نے سوچا ، میرے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

“ لیکن تم کیسے جانتی ہو کہ آخر وہ آ بھی رہا ہے ؟ “ اس کے اندر کسی آواز نے  تمسخر آمیز انداز میں کہا۔

لیکن بیریل نے اس آواز کو نظرانداز کردیا۔ بیریل کو یقین تھا کہ اسے کوئی تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ اور لوگوں کے ساتھ ہو سکتا ہوگا شائد ، لیکن اس کے ساتھ نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی یہ سوچ سکے کہ بیریل فیر فیلڈ جیسی خوبصورت اور دلنشین لڑکی نے کبھی شادی کی ہی نہیں۔

“ تمھیں یاد ہے بیریل فیرفیلڈ ؟ “

“ اسے یاد رکھنا ! یہ ایسے ہی ہے جیسے کیا میں اسے بھلا سکتا ہوں ! وہ ایک موسم گرما تھا ، جب میں نے اسے خلیج کے ساحل پر دیکھا تھا ۔ وہ وہاں نیلے کپڑوں میں کھڑی تھی ۔ “ —- نہیں ، گلابی —- “ پتلے سوتی ( ململ ) کپڑے کا فراک  ، اور ہاتھ میں  ایک بڑی سی کریم —— نہیں ، سیاہ —- تنکوں کی ٹوپی لیے۔ لیکن یہ تو سالوں پہلے کی بات ہے۔ “

“ وہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت ہے ، اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ اب وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہے۔ “

 

بیریل مسکراتے ہوے ، ہونٹ چباتے ہوے ، بڑے شوق سے باغ کو دیکھے جا رہی تھی۔ جب وہ باغ کو دیکھنے میں محو تھی ، اسی وقت اس نے ایک شخص کو دیکھا جو سڑک کو چھوڑ کر ، باڑ سے گذرتے ہوے ، جانوروں کے علاقے میں داخل ہو گیا ، جیسے وہ سیدھے اسی کی طرف آ رہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ کون تھا وہ ؟ کون ہو سکتا تھا  وہ ؟ چور تو نہیں ہوسکتا تھا ، قطعی نہیں، کیونکہ وہ تو سگریٹ پیتے ہوے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ بیریل کا دل اچھلنے لگا تھا ؛ لگتا تھا دائیں طرف مڑ کر وہ رک گیا ۔بیریل نے اسے پہچان لیا تھا۔

“ شام  بخیر ، مس بیریل ،” ایک نرم سی آواز آئی۔

“ شام بخیر ۔”

“ کچھ دیر چہل قدمی کے لیے نہیں چلوگی ؟ “ وہ ہکلایا۔

چہل قدمی کے لیے جاؤں  — رات کے اس وقت ! “ میں نہیں آسکتی ۔ گھر کا ہر فرد بستر پر ہے ۔ سارے لوگ سوچکے ہیں۔ “

“ اوہ ،” اسی آواز نے ہلکے سے کہا ، ایک میٹھا سا دھویں کا جھونکا بیریل تک پہنچا ۔  “ ہر ایک سے کیا تعلق ہے ؟ تم چلو  ! اتنی خوبصورت رات ہے۔ آس پاس کوئی بھی نہیں ہے۔ “

بیریل نے سر ہلایا۔ لیکن کچھ تھا جو اس کے اندر حرکت کر رہا تھا ، کچھ جو اس کے دماغ کے پچھلے حصہ میں تھا۔

اسی آواز نے کہا ، “ ڈر گئیں ؟ “ اس نے مذاق اڑایا  ،  “ بیچاری چھوٹی سی لڑکی!”

“ نہیں ، بالکل بھی نہیں ،” بیریل نے کہا۔ بات کرتے ہوے لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر کا  ڈ ر کھل کر باہر نکلنے کی کوشش کررہا ہو ، تب ہی اس نے اچانک ہی خود کو غیر معمولی طور پر مضبوط کر لیا ؛ وہ باہر جانا چاہ رہی تھی !

جیسے اس کی اس چاہ کو دوسرے شخص نے سمجھ لیا تھا  ، اور اس آواز نے  بالآخر نہایت نرمی سے کہا ،  “ ساتھ آجاؤ! “

بیریل کھڑکی سے کود کر باہر نکلی ، برآمدہ پار کیا ، اور گھاس پر سے  دوڑ کر گیٹ پر پہنچ گئی ۔ وہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔

“ یہ ٹھیک ہے ،” آواز نے اپنی سانسیں درست کیں ، اور اسے ستانے کے لیے کہا ،” تم ڈریں نہیں ، ڈریں کیا ؟ تم خوفزدہ نہیں ہو ؟ “

وہ یہاں تھی ؛ اب وہ یہاں تھی ، اور خوفزدہ بھی ، اور اسے یہاں ہر چیز مختلف دکھائی دے رہی تھی ۔ چاندنی غور سے دیکھے جا رہی تھی اور اپنی چمک ہر طرف پھیلا رہی تھی ؛ لانبے ساے لوہے کی سلاخوں جیسے دکھائی دے رہے تھے۔

کسی نے اس کا ہاتھ تھام لیاتھا ۔

“ بالکل بھی نہیں ،” اس نے آہستہ سے کہا ۔ “ میں کیوں ڈروں ؟ “

اس کا ہاتھ آہستہ سے کھینچ لیا گیا۔ وہ پیچھے ہٹ گئی۔

“ نہیں ، میں اور آگے نہیں آؤنگی ، “ بیریل نے کہا۔

“ اوہ ، بری بات ! “ ہیری کیمبر کو اس کی بات پر یقین نہیں تھا ۔ “ ساتھ چلو ! ہم صرف ان فوشیا ( fuchsia) کی جھاڑیوں تک جائینگے ۔ چلو ! “

فوشیا کی جھاڑیاں کافی اونچی تھیں۔ جو بارش ہونے پر باڑ پر جھک جاتی تھیں۔ نیچے اندھیرے کا ایک چھوٹا سا گڑھا تھا۔

“ نہیں ، سچ مچ ، میں آگے نہیں جانا چاہتی ، “ بیریل نے کہا۔

ایک لمحہ کے لیے ہیری کیمبر کچھ نہیں بولا۔ پھر وہ اس کے قریب آگیا ، اس کی طرف پلٹا ، مسکرایا اور جلدی سے کہا ، “ بیوقوف نہ بنو ! بیوقوف نہ بنو ! “

اس کی مسکراہٹ کچھ ایسی تھی جو بیریل نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کہیں وہ نشہ میں تو نہیں تھا ؟ وہ شاندار ، غیر معقول ، ڈراؤنی مسکراہٹ نے بیریل کو خوف کی وجہ سے برف کی طرح ٹھنڈا کر دیا تھا۔ وہ کیا کررہی تھی ؟ وہ یہاں کیسے پہنچی ؟ عقبی باغ پوچھ رہا تھا ۔ جیسے ہی گیٹ کھلی ، اور تیزی سے ہیری کیمبر داخل ہوا ، اور بیریل کو کھینچ کر اپنے قریب کر لیا۔

“ ٹھنڈی ، چھوٹی شیطان ! ٹھنڈی ، چھوٹی شیطان ! “ مکروہ آواز نے کہا۔

لیکن بیریل بہت مضبوط تھی ۔ وہ پھسلی ، پھرتی سے جھکی ، اور مروڑ کر خود کو آزاد کر لیا۔

“ تم گھٹیا ہو ، گھٹیا ،” اس نے کہا۔

“ پھر ، خدا کے لیے بتاؤ ، خدا کے لیے بتاؤ تم کیوں آئیں ؟ “ ہیری کیمبر نے ہکلاتے ہوے کہا-

وہاں۔ یٹھے سارے لوگوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔

ایک چھوٹا سا ، پرسکون بادل کا ٹکڑا چاند کے سامنے تیر رہا تھا ۔ اور  اندھیرے کے اُسی لمحہ سمندر گہری نیند سوگیا ، پریشان سا۔ پھر بادل وہاں سے تیرتا ہوا گذر گیا ، اور سمندر کی آواز بھی ہلکی اور غیر واضح ہو چکی تھی ، جیسے وہ کسی گہرے خواب سے جاگ گیا ہو۔ ہر طرف اور ہر چیز پر خاموشی چھا چکی تھی۔

 

         ====================

 

ترجمہ نگار کا تعارف:

ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹرا کے شہر ناندیڑ میں ساری تعلیم و تربیت ہوتی رہی۔ ۱۹۷۴ میں پیوپلس کالج ، ناندیڑ سے ایم۔ اے ( انگلش لیٹریچر) کیا۔

۱۹۹۷ء میں کاکتیا یونیورسٹی ، ورنگل، تلنگانہ اسٹیٹ سےPhD  کی ڈگری حاصل کی۔ حیدرآباد سے شائع ہونے والے اخبار ، سیاست ،میں اکثر آپ کے  مضامین چھپتے رہے۔ 1997ء سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں۔

ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی کی مطبوعہ کتابیں

  1. عکسِ ادب، (عالمی ادب سے 33 منتخب افسانوں کے اردو تراجم)، نیوزی لینڈ میں 2021ء میں شایع ہوئی۔
  2. کانچ کا زندان (ناول)، سلویا پلاتھ کے ناول The bell Jar کا اردو ترجمہ ، 2022ء میں سٹی بک پوائنٹ، کراچی پاکستان نے شایع کیا۔
  3. عورت کتھا (عالمی ادب سے خواتین ادیبوں کے افسانوں کے اردو تراجم) اس منتخبیات میں آپ کے کیے چار افسانوں کے  تراجم شایع ہوئے۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

sjshazli@yahoo.com

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے