fbpx
تراجمترجمہ شاعری

منتخب رباعیاتِ خوشحال خان خٹک

منظوم اردو ترجمہ : پروفیسر طہٰ خان

پشتو زبان کے ایک نابغۂ روزگار شاعر خوشحال خان خٹک (پیدائش : 1613ء اکوڑہ خٹک (موجودہ خیبر پختونخوا) – وفات : 18 فروری 1689ء  تیرہ (موجودہ خیبر پختونخوا)) جسے صاحبِ سیف و قلم کہا جاتا ہے ایک کرشماتی شخصیت سمجھے جاتے ہیں کہ وہ ساری عمر مغل شہسواروں سے برسرِپیکار رہنے کی بنا پر کسی ایک جگہ قیام نہیں کرسکے مگر جتنے اشعار کہے ہیں اس کے لیے تو کئی زندگیاں بھی ناکافی ہیں اور پھر جتنی رنگارنگی ان کے کلام میں ہے شاید پوری دنیا میں بہت کم بہت ہی کم شعرأ کو ودیعت ہوئی ہوگی۔ شعر میں انہوں نے پشتو شاعری کی سب اصناف میں طبع آزمائی کی بلکہ ان اصناف کو اپنے کمال فن سے ثروت مند بنایا۔ غزل کا تو وہ بادشاہ ہے مگر رباعی میں بھی اس نے اپنی قوتِ متخیلہ کے زور پر خود کو منوایا۔ (ناصر علی سیّد)

ذیل میں خوشحال خان خٹک کی منتخب رباعیات کے اردو تراجم پیش کیے جارہے ہیں۔ جن کا منظور اردو ترجمہ پروفیسر طہٰ خان نے کیا ہے۔

 

جو لاف زن ہے محبت میں اس کی خو کیا ہے

نہیں ہے عاشقی آساں یہ ہاؤ ہو کیا ہے

ہوئے ہیں عشق میں سب سوختہ بدن خاموش

کریدتے ہو اگر راکھ جستجو کیا ہے

****

یادِ ماضی تو فقط جشم تصور کی ہے دید

ہے تو بے فیض نہیں فیض سے شاید یہ بعید

ہے یہ ممکن سبق اندوز ہو کوئی اس سے

جو غلط کار ہے غلطی نہ کرے گا وہ مزید

****

ایک پانی کے بھی یکساں یہاں اطوار نہیں

کبھی گندہ کبھی شفاف تو بودار نہیں

زندگی بخش فقط آب مصفا ہے یہاں

آب مردار تصرف کا سزاوار نہیں

****

ہم بھی گردشِ افلاک کے ہیں زیرِ اثر

اس سے غافل نہ ہو نیر نگی حالات سے ڈر

غمِ دوراں میں مسرت کی بھی رکھنا امید

اور مسرت میں غم دہر کو رکھنا ازبر

****

بادشاہوں کے مقابل جو ہو شمشیر بکف

پھر وہ ہو جاتا ہے افواہ زمانہ کا ہدف

پھر کسی طور جو شاہوں کا مقرب ہوجائے

ماں کو اولاد سے محروم کرے مثل حزف

****

بدبخت ہے بیٹا وہ زمانے میں بہ دو کار

بابا کا گنہگار خدا کا بھی گنہگار

آئے بھرے گلشن میں جو بدخت پئے سیر

وہ گل کی تمنا کرے اور ہاتھ لگے خار

****

تمہارے ناز اٹھاتی ہے گردش افلاک

جو گھر میں رکھتے ہو خوبان گل ادا بے باک

بہم ہوئے ہیں یہ زاہد فریب عطر بدن

برائے غسل ہے حمام اور خوش پوشاک

****

دانا کی زباں مشک کی خوشبو سے ہے بھرپور

خوشبو جو برآمد ہو تو جاتی ہے بہت دور

نادان کی باتوں میں تو لہسن کی ہے بدبو

یہ مشک کی خوشبو کو بھی کردیتی ہے کافور

****

وطن کی خاک کبھی مشک کبھی ہے عنبر

یہ آب گرم مرا برف زار ہے بہتر

دل حزیں مجھے تو نے بنا دیا تنکا

طمانچے کھاتا ہوں موجوں کے میں ادھر سے اُدھر

****

شگفتہ گل ثنا کرتا ہے کتنی خوش بیانی سے

فسردہ کوئی اپنے اختتامِ زندگانی سے

گل سوسن کو دیکھو کیا زباں پائی ہے قدرت سے

سدا تعریف کرتی ہے زبان بے زبانی سے

****

پیری رہی جوانی گئی کچھ بچا نہیں

اب مقصدِ حیات بھی کوئی رہا نہیں

دنیا میں اب تمہاری نہیں قدر و منزلت

اب تم ہنسو کہ روؤ کوئی پوچھتا نہیں

****

خوشحال اس زمانے کا مت اعتبار کر

کہتا ہوں بار بار نہ دل کو فگار کر

مقسوم میں کمی ہے نہ بیشی یقین رکھ

حاصل حصول کچھ نہیں خود کو نہ خوار کر

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے