fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

لیو ٹالسٹائی کا افسانہ : محبت خدا ہے (Where Love Is, God Is)

اردو ترجمہ : عقیلہ منصور جدون

کسی شہر  میں مارٹن ایوڈیچ نامی ایک موچی رہتا تھا۔  اس کے پاس تہہ خانے میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا ۔جس کی ایک چھوٹی سی کھڑکی باہر  سڑک پر کھلتی تھی ۔ جس سے باہر سڑک پر گزرنے والوں کے بس پاؤں ہی نظر آتے تھے ۔لیکن مارٹن لوگوں کو ان کے جوتوں سے پہچان لیتا تھا ۔ وہ بہت عرصے سے اس جگہ کا رہائشی  تھا  ۔ اس لئے اس کی  بہت سارے لوگوں سے شناسائی تھی ۔ اس علاقے میں شاید ہی کوئی بوٹوں کا جوڑا ہو جو ایک یا دو دفعہ اس کے ہاتھوں سے نہ گزرا ہو ،اس لئے اسے  کھڑکی سے عموماً  اپنے ہاتھ کا کام ہی دیکھائی دیتا  تھا ۔کچھ اس نے دوبارہ بیچے تھے ، کچھ کو اس نے پیوند لگاۓ تھے ۔ کچھ کی سلائی کی تھی اور کچھ کا اوپر والا حصہ اس نے نیا بنایا تھا ۔اس کے پاس کام کی بہتات تھی کیونکہ وہ بہت اچھا کام کرتا تھا ۔اچھا مواد استعمال کرتا ،بہت زیادہ معاوضہ بھی نہیں مانگتا تھا ۔ اور اس پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا اگر وہ کوئی کام  دن میں ہی کرسکتا تو وہ ہامی بھر لیتا اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی جھوٹی امیدیں نہ دلاتا او ر سچ بتا دیتا ۔اس لئے وہ مشہور تھا اور اس کے پاس بہت کام تھا ۔

مارٹن ہمیشہ سے ہی ایک اچھا انسان تھا ۔لیکن بڑھاپے میں وہ  اپنی روح کے بارے میں اور خدا کے قریب ہونے کے لئے  سوچ بچار زیادہ کرنے لگا تھا  ۔ پہلے وہ مالک کے لئے کام کرتا تھا ۔ اپنا ذاتی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی بیوی مر چکی تھی، جس سے اس کا تین سالہ بیٹا تھا اس سے پہلے اس کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہا تھا ۔ وہ سب شیر خوارگی میں ہی مر گئے تھے ۔ پہلے پہل اس نے بیٹے  کو اپنی ہمشیرہ کے پاس بھیجنے کا سوچا لیکن پھر بچے سے علیحدگی پر وہ غمگین ہو گیا اور سوچا  کہ میرے چھوٹے کاپٹان کا  اجنبی خاندان کے ساتھ  رہنا بہت  مشکل ہو گا اس لئے اسے اپنے ساتھ ہی رکھنے کا فیصلہ کر لیا ۔ مارٹن نے مالک کو چھوڑ دیا اور اپنے بیٹے کے ساتھ کراۓ کی رہائش گاہ پر آ گیا ۔ ۔لیکن وہ بچوں کے حوالے سے بد قسمت انسان تھا ۔جوں ہی بچہ اس عمر کو پہنچا جہاں وہ باپ کا ہاتھ بٹاتا اور اس کا بازو بنتا، جس سے باپ کو خوشی ملتی تو وہ بیمار ہو گیا ۔ایک ہفتے تک شدید بخار میں تپتے رہنے کے بعد وہ مر گیا ۔ ۔مارٹن نے اسے دفن کر دیا لیکن ساتھ ہی اسے مایوسی کا ایسا دورہ پڑا کہ وہ خدا کے خلاف بڑبڑانے لگا ۔ اپنی دعاؤں میں وہ بار بار اپنے مرنے کی دعائیں مانگنے لگا ۔خدا پر  بیٹے کو، جس سے وہ محبت کرتا تھا،اکلوتا بیٹا  چھین لینے کا الزام لگانے لگا ۔ جب کہ وہ خود بوڑھا زندہ بچ گیا ۔ اس کے بعد مارٹن نے چرچ جانا چھوڑ دیا ۔

ایک دن مارٹن کے آبائی گاؤں سے ایک بوڑھا جو پچھلے آٹھ سالوں سے زیارات کے لئے گیا ہوا تھا  ٹرائسٹا  خانقاہ سے واپسی پر اسے ملنے آ گیا ۔ مارٹن نے اپنا دل کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا

اور اسے اپنے دکھوں کے بارے میں بتایا ۔

"اے مقدس انسان ،میں اب زندہ رہنا نہیں چاہتا ،میری اب خدا سے ایک ہی التجا ہے کہ میں جلد مر جاؤں ۔  مجھے اب اس دنیا سے کوئی امید نہیں ہے۔ ”

بوڑھے نے جواب دیا ،” مارٹن، تمہیں ایسی باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ہم خدا کے فیصلوں پر راۓ زنی نہیں کر سکتے ۔ہماری عقل نہیں بلکہ  خدا کی مرضی فیصلے کرتی ہے ۔ اگر خدا کی مرضی یہی تھی کہ تمہارا بیٹا مر جاۓ اور تم زندہ رہو تو تو یہی بہترین ہے ۔ جہاں تک تمہاری مایوسی کا تعلق ہے تو وہ اس لئے ہے کہ تم صرف اپنی خوشی کے لئے زندہ رہنا چاہتے ہو ۔”

"تو پھر انسان کس لئے زندہ رہتا ہے؟” مارٹن نے پوچھا ۔

” خدا کے لئے ،مارٹن” بوڑھے نے جواب دیا ۔ ” اس نے تمہیں زندگی عطا کی اور تمہیں اسی کے لئے زندہ رہنا ہے ۔جب تم اس کے لئے جینا سیکھ جاؤ گے تو پھر تم مزید غمزدہ نہیں رہو گے ۔اور تمہارے لئے سب آسان ہو جاۓ گا۔” مارٹن کچھ دیر کے لئے خاموش رہا اور پھر پوچھا : "لیکن خدا کے لئے زندہ کیسے رہا جاتا ہے ؟”  بوڑھے نے جواب دیا ،” خدا کے لئے کیسے زندہ رہا جاتا ہے اس کا جوابب مِسیح ہمیں دے چکے ہیں ۔کیا تمہیں پڑھنا آتا ہے ؟ پھر انا جیل  ( نئےعہدنامے میں شامل چار کتابیں )  خریدو اور انہیں پڑھو وہاں سے تمہیں معلوم ہوگا کہ خدا کے لئے کیسے زندہ رہا جاتا ہے ۔سب کچھ ان میں لکھا ہے “۔

شروع میں اس کا پروگرام صرف چھٹی والے دن پڑھنے کا تھا ۔ لیکن جب ایک دفعہ اس نے پڑھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کا دل اتنا ہلکا پھلکا ہو گیا ہے کہ اس نے روزانہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ بعض اوقات وہ پڑھنے میں اتنا غرق ہوتا کہ اپنے آپ کو پڑھنا ختم کرنے پر مجبور کرنے تک لیمپ میں سارا تیل ختم ہو جاتا ۔ اس نے ہر رات پڑھنا جاری رکھا ۔اور جتنا زیادہ وہ پڑھتا گیا اتنا ہی اسے سمجھ آنے لگی کہ خدا اس سے کیا چاہتا ہے اور وہ کیسے خدا کے لئے زندہ رہ سکتا ہے ۔اور اس  کے دل  کا بوجھ ہلکا ہوتا چلا گیا ۔ پہلے ،جب وہ بستر پر جاتا تھا تو اس کا دل بیٹے کی یاد میں بوجھل ہوتا تھا  ۔ لیکن اب وہ بار بار دہراتا ،”کبریائی تیرے لئے ہے ،بڑائی تیرے لئے ہےتیری رضا برتر ہے۔”

اس دن سے مارٹن کی زندگی بدل گئی ،اس سے پہلے وہ چھٹی والے دن شراب خانے چلا جاتا تھا اور ایک دو گلاس ووڈکا کے پینے سے انکار بھی نہیں کرتا تھا ۔ بعض اوقات کسی دوست کے ساتھ مل کر پینے کے بعد وہ شراب خانے سے صرف مدہوش نہیں بلکہ مزے لے کر نکلتا اور بےوقوفانہ حرکتیں کرتا ،آدمیوں پر  چینختا یا انہیں گالیاں  دیتا تھا ۔  اب یہ سب کچھ اس سے چھوٹ گیا ۔اس کی زندگی پرسکون اور پر مسرت ہو گئی ۔ وہ صبح کام شروع کرتا اور جب دن کا کام ختم کر لیتا تو دیوار سے لیمپ اٹھاتا اسے میز پر رکھتا ،شیلف سے کتاب اٹھاتا ،اسے کھولتا اور پڑھنا شروع کر دیتا ۔ جتنا زیادہ پڑھتا اتنا ہی سمجھنے لگتا اور دماغ واضح اور شادمان ہوتا جاتا ۔

ایک دفعہ کیا ہوا کہ مارٹن دیر تک بیٹھا کتاب میں محو  رہا ۔ وہ لو کا کی انجیل پڑھ رہا تھا اور اس کے چھٹے باب میں وہ اس آیت پر پہنچا “ جو آپ کے ایک گال پر مارے اسے دوسرا بھی پیش کر دو ؛ اور جو آپ کا چوغہ/ چادر  لے جاۓ اسے اپنا کوٹ بھی دے دو ،جو سوال کرے اسے دے دو ،اور جو کوئی سامان لے جاۓ اس سے  واپس مت مانگو اور جیسا تم چاہتے ہو کہ دوسرا تم سے سلوک کرے ویسا تم اس سے کرو “

اس نے وہ آیت بھی پڑھی  جہاں ہمارا خدا  فرماتا ہے ،” اور تم کیوں مجھے پکارتے ہو ،خدا ،خدا  ،اور جو میں  کرنے کے لئے کہتا ہوں کرتے نہیں ہو ۔ ؟ جو کوئی میرے پاس آتا ہے اور میرا فرمان سنتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے تو میں تمہیں  دکھا دوں گا کہ وہ کس کی طرح ہے ۔ وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا ،گہرا کھودا اور گہرائی میں چٹان پر بنیادیں رکھیں اور جب سیلاب آیا اور لہریں  اس مکان سے زوروشور سے ٹکرائیں لیکن اسے ہلا نہ سکیں ،کہ وہ چٹان پر کھڑا تھا ۔لیکن جو سنتا ہے اور  عمل نہیں کرتا  اس آدمی جیسا ہے جس نے بغیر بنیادوں کے زمین پر  گھر بنایا اور جب لہریں اس سے ٹکرائیں تو وہ فورا” گر گیا اور اس گھر کا ملبہ بہت زیادہ تھا ۔ “

جب مارٹن یہ الفاظ پڑھ رہا تھا ،اسکی روح اس  کے اندر خوش تھی ۔اس نے عینکیں اتار کر کتاب پر رکھیں اپنی کہنیاں میز پر ٹکا کر جو کچھ پڑھا تھا اس پر غور کرنے لگا ۔ان الفاظ کے مطابق اپنی زندگی کا محاسبہ کرنے لگا ۔پھر اپنے آپ سے پوچھا ،”کیا میرا گھر چٹان پر بنا ہوا ہے یا ریت پر ؟ ۔اگر چٹان پر ہے تو پھر ٹھیک ہے ۔جب ایک شخص میری طرح اکیلا بیٹھا ہے تو سب کچھ آسان ہے اور وہ سوچتا ہے کہ وہ خدا کے حکم کے مطابق چل رہا ہے لیکن جب بھی میں زرا غفلت برتوں تو میں گناہ کر بیٹھتا ہوں ۔پھر بھی میں ثابت قدم رہوں گا ۔اس سے  کتنی خوشی ملتی ہے۔میری مدد کر یا خدا ۔”

اس نے یہ سب سوچا اور سونے کے لئے جانے لگا لیکن کتاب چھوڑنے پر اس کا دل   راضی نہیں ہو رہا تھا ۔ ،اس لئے وہ ساتواں باب پڑھنے لگا جو سینچورین( سو سپاہیوں کا کماندار )، بیوہ کے بیٹے اور جان کے شاگردوں کے سوالات کے جوابات  کے بارے میں تھا — جب وہ اس حصے تک پہنچا جہاں ایک فریسی ( ریاکار ) خدا  کو اپنے گھر بلاتا ہے ۔اور اس نے پڑھا کہ کیسے ایک گناہگار عورت اس کے  پاؤں کا مسح ( مذہبی رسم تیل کی مالش) کرتی ہے اور اپنے آنسوؤں سے انہیں دھوتی ہے اور کیسے وہ اس کو جائز قرار دیتا ہے ۔چوالیسویں آیت پر پہنچ کر اس نے پڑھا :

“ اور عورت کی طرف مڑتے ہوۓ اس نے سائمن( ریاکار میزبان)  سے کہا , تم نے مجھے میرے پیروں کے لئے پانی نہیں دیا لیکن اس نے اپنے آنسوؤں سے میرے پاؤں گیلے کر  ڈالے، اور انہیں اپنے بالوں سے پونچھا۔ تم نے مجھے بوسہ نہیں دیا لیکن اس عورت نے جب سے میں آیا ہوں میرے پاؤں چومنے سے نہیں رکی ۔تم نے میرے سر پر تیل سے مالش نہیں کی لیکن اس نے میرے پاؤں پر مرہم سے مالش کی ہے ۔ “

اس نے یہ آیات پڑھیں اور سوچا ،” اسنے “اس “کے پاؤں کے لئے پانی نہیں دیا ، بوسہ نہیں دیا ،اس کے سر پر تیل سے مالش نہیں کی ۔۔۔۔۔” مارٹن نے دوبارہ چشمہ اتار کر کتاب پر رکھا اور غور کرنے لگا ۔

“ وہ ریاکار  ضرور میرے جیسا ہو گا ۔وہ بھی صرف اپنے بارے میں سوچتا ہو گا ،چاۓ کا کپ کیسے حاصل کروں ؟ کیسے گرم اور آسودہ رہوں ؟ ،کبھی اپنے مہمان کا نہیں سوچا ۔وہ صرف اپنی فکر کرتا رہا لیکن اپنے مہمان کی فکر نہیں کی ۔مہمان کون تھا ؟ خود   خدا ! اگر وہ میرے پاس آۓ تو کیا میں ایسا رویہ اپناؤں گا ؟ “

تب مارٹن نے اپنا سر اپنے دونوں بازؤوں پر رکھا اور اسے  پتہ ہی نہیں لگا کب  وہ سو گیا ۔

“مارٹن! “ اس نے اچانک آواز سنی ،ایسے جیسے کسی نے یہ لفظ اس کے کان میں سرگوشی کی ہو ۔اس نے  نیند میں ہی پوچھا  ۔” کون ہے؟ “ آس نے ارد گرد دیکھا اور دروازے کو دیکھا ؛ وہاں کوئی۔ بھی نہیں تھا ۔اس نے دوبارہ پکارا ۔ تب مارٹن  نے بہت واضح سنا : “ مارٹن ،مارٹن ! کل باہر گلی میں دیکھنا ، میں آؤں گا ۔”

مارٹن نے اپنے آپ کو جگایا ،اپنی کرسی سے اٹھا اور اپنی آنکھیں رگڑیں لیکن پھر بھی نہ سمجھ سکا کہ اس نے وہ الفاظ نیند میں سنے یا جاگتے ہوے ۔اس نے لیمپ بجھایا اور سو گیا ۔

اگلے دن وہ روشنی پھیلنے سے پہلے ہی اٹھ گیا ، اپنی عبادت کے بعد اس نے آگ جلائی ،اپنا گوبھی کا سوپ بنایا اور اناج کا دلیہ ۔پھر اسنے سماوار گرم کیا ،ایپرن باندھا اور کھڑکی کے پاس کام کرنے بیٹھ گیا ۔ تب اس نے پچھلی رات جو کچھ ہوا اس پر سوچنا شروع کر دیا ۔بعض دفعہ اسے وہ خواب لگتا اور بعض دفعہ وہ سوچتا کہ اس نے حقیقت میں آواز سنی تھی ۔ ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں”  ،اس نے سوچا  .

وہ کھڑکی کے پاس بیٹھا بہ نسبت کام کرنے کے کھڑکی  کے باہر زیادہ دیکھ رہا تھا  ۔ اور جب بھی کوئی نامانوس جوتوں کے ساتھ گزرتا تو وہ جھک کر اوپر کی طرف دیکھتا تاکہ وہ نہ صرف جوتے بلکہ گزرنے والے کا چہرہ بھی دیکھ سکے ۔ گھریلو چوکیدار نئے نمدے کے بوٹوں کے ساتھ گزرا ،پھر ایک سقہ / ماشکی  گزرا ۔پھر ایک نکولس کے زمانے کا پرانا سپاہی بیلچہ ہاتھ میں پکڑے کھڑکی کے پاس آیا ۔ مارٹن نے اسے اس کے بوٹوں سے پہچان لیا ۔وہ پرانے بوسیدہ نمدے کے بوٹ پہنے ہوۓ تھا ۔ جن پر چمڑے  کے موزے چڑھے تھے ۔ اس بوڑھے کو سٹیپنیچ / Stepanitch بلاتے تھے ۔ایک تاجر ہمسایہ اسے آپنے گھر میں خیرات کے طور پر رکھے ہوے تھا ۔ اور اس کا کام گھریلو چوکیدار  کی مدد کرنا تھا ۔ اس نے مارٹن کی کھڑکی کے پاس سے برف ہٹانی  شروع کی ۔مارٹن نے اسے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔

“  میں عمر کے ساتھ خبطی ہوتا جا رہا ہوں “ ۔ مارٹن نے اپنی خوش فہمی پر ہنستے ہوے کہا ۔

“ سٹیپنچ برف ہٹانے آیا  ہے اور میں سوچ رہا ہوں کے مسیح مجھے ملنے آۓ ہیں ۔  میں سٹھیایا ہوا بوڑھا ہوں ۔”

درجن بھر ٹانکے لگانے کے بعد اسے  دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے کی طلب ہوئی ۔تو اس نے دیکھا کہ سپینٹچ نے اپنا بیلچہ دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے اور خود یا تو سستا رہا ہے یا پھر تھوڑا گرم ہونا چاہتا ہے ۔ وہ  تھکا ماندہ بوڑھا تھا اور اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ برف ہٹا سکے ۔

“ اگر میں  اسے اندر بلا لوں اور چاۓ پیش کروں تو کیسا رہے گا؟ ،” مارٹن نے سوچا ، سماوار بس ابلنے والا ہے ۔”

اس نے سؤا اپنی جگہ رکھا اور کھڑا ہو گیا ،سماوار میز پر رکھا ،چاۓ بنائی ،پھر کھڑکی کو اپنی انگلی سے بجایا ۔سٹیپنیچ مڑا اور کھڑکی کی طرف آیا۔ مارٹن نے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا اور خود دروازہ کھولنے گیا ۔

“ اندر آ جاؤ اور تھوڑا اپنے آپ کو گرم کر لو ۔مجھے معلوم ہے تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے ۔ “

“ خدا تم پر مہربان ہو ! “ سٹیپنیچ نے جواب دیا ۔ “ میری ہڈیاں درد کر رہی ہیں ۔” وہ اندر آ گیا پہلے اپنے اوپر سے برف جھٹکی اور پھر اس ڈر سے کہ فرش پر نشان نہ پڑ جائیں اس نے اپنے پاؤں صاف کرنے شروع کر دئے ۔ ایسا کرنے کے دوران وہ لڑکھڑا یا اور تقریباً” گرنے ہی لگا تھا

“ پاؤں صاف کرنے کی تکلیف نہ کرو ،” مارٹن نے کہا ؛ “ میں بعد میں فرش صاف کر لوں گا – یہ سارے دن کا کام ہے ۔آ جاؤ ،دوست ، بیٹھ جاؤ اور چاۓ پیو ۔”

اس نے دو گلاسوں میں  چاۓ بھری   ،ایک مہمان کو پیش کی اور اپنے والی  پرچ میں انڈیل کر پھونکیں مارنے لگا ۔

سٹیپنیچ نے نے گلاس خالی کر کے اسے اوندھا کرکے  رکھ دیا اور اپنی بچی ہوئی شکر اس کے اوپر رکھ دی ۔وہ  شکریہ ادا کرنے لگا لیکن صاف ظاہر تھا کہ اسے  مزید چاۓ پی کر خوشی ہو گی  ۔

“ ایک گلاس اور پیو،” مارٹن نے کہا ،ساتھ ہی دونوں گلاس دوبارہ بھر دئے ۔اس دوران جب مہمان چاۓ پی رہا تھا مارٹن مسلسل باہر گلی میں دیکھتا رہا ۔

“ کیا تمہیں کسی کا انتظار ہے ؟ “ مہمان نے پوچھا ۔

“ کیا میں کسی کا انتظار کر رہا ہوں؟  ،ٹھیک ہے ، مجھے اب یہ بتاتے ہوۓ شرم آ رہی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ میں کسی کا انتظار کر رہا ہوں ،لیکن میں نے رات کو کچھ سنا جسے میں اپنے دماغ سے نکال نہیں پا رہا ۔ یا تو یہ مشاہدہ تھا یا محض میرا گمان ،میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ ایسے ہوا میرے دوست ،کہ میں کل رات  انجیل میں خداوند مسیح  نے جو  ازیتیں برداشت کیں ان کے بارے میں پڑھ رہا تھا. اور یہ بھی کہ کیسے وہ زمین پر چلتا تھا ،میں یہ پوچھنے کی جرات کر سکتاۂوں ،کہ تم نے کسی نہ کسی سے سنا ہوگا ۔  “

“ جی ،میں نے سنا ہے”سٹیپنیچ نے جواب دیا ۔“لیکن میں جاہل آدمی ہوں اور پڑھ نہیں سکتا ۔”

“ بہر حال ،میں پڑھ رہا تھا کہ وہ کیسے زمین پر  چلتا تھا ۔ میں جب اس حصے تک پہنچا ، تم جانتے ہو جب وہ ریاکار کے پاس گیا جس نے اس کا دل سے استقبال نہیں کیا ۔تو ،دوست میں جب یہ پڑھ رہا تھا تو میں  نے سوچا کیسے اس نے خداوند مسیح کو مناسب تعظیم نہیں دی ؟ ۔سوچو اگر ایسا میرے جیسے شخص کے ساتھ  پیش آۓ تو میں سوچتا ہوں میں کیا کچھ اس کے استقبال کے لئے نہیں کروں گا ! لیکن اس آدمی نے اسے بلکل اہمیت نہیں دی ،تو دوست ایسا سوچتے ہوۓ میں اونگھ گیا ۔اس اونگھ کے دوران میں نے کسی کو اپنا نام پکارتے  سنا ۔میں اٹھ گیا اور سوچا کہ کوئی سرگوشی کر رہا ہے ،”  منتظر رہنا ،میں کل آؤں گا ۔” دو بار ایسا ہوا ۔ اور تمہیں سچ بتاؤں یہ ایسے میرے دماغ میں بیٹھ گیا کہ اگرچہ دل میں شرمندہ ہوتے ہوے بھی میں اس کا انتظار کر رہا ہوں ۔پیارے خداوند کا! “

سٹیپنیچ نے خاموشی سے سر ہلایا ،اپنا گلاس ختم کیا،  اسے ایک طرف رکھا : لیکن مارٹن نے اسے اٹھا کر پھر بھر دیا ۔

سنو ، ایک گلاس اور پیو تم پر رحمت ہو ! اور میں سوچ رہا تھا کیسے وہ زمین پر چلتا تھا اور کسی کو بھی حقیر نہیں سمجھتا تھا بلکہ زیادہ تر عوام کے درمیان رہتا تھا۔سادہ لوگوں کے ساتھ گھومتا اور ہمارے جیسوں سے اس نے  اپنے شاگرد منتخب کیے ،ہم جیسے جسمانی مشقت کرنے والے گنہگار  کاریگروں میں  سے ۔”وہ جو اپنے آپ کو اعلی سمجھتا ہے “ اس “ نے کہا،  اس  کو عاجز کیا جاۓ گا اور جو  عاجزی اپناتا ہے اسے اونچا کیا جاۓ گا ۔ “

“ تم مجھے خدا  کہتے ہو ،”اس” نے کہا ، “ اور میں تمہارے پاؤں دھوؤں گا “ وہ جو پہلے آۓ گا ،” “ اس “ نے کہا “ اسے سب کا خدمت گار بننے دو؛  کیونکہ “اس”  نے کہا ، “ رحمت کی گئی غریبوں پر ۔عاجز وں پر ،مسکین اور رحمدل پر ۔”

سٹیپنیچ چاۓ پینا بھول گیا ۔وہ بوڑھا تھا جلد رونے لگتا ،اور یہ  سنتے  ہوے  آنسو اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے ۔

“ آؤ تھوڑی اور پی لو ،” لیکن سٹیپنیچ نے اپنے اوپر کراس بنایا شکریہ ادا کیا اپنا گلاس پرے کیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔

“ شکریہ ،مارٹن ایڈیچ “ اس نے کہا،”  تم نے مجھے دونوں جسم اور روح کے لئے کھانا اور آسودگی پہنچائی ۔”

” آپ کا خیر مقدم ہے ، پھر کبھی آنا ، مجھے مہمانوں کے آنے سے خوشی ملتی ہے ۔” مارٹن نے کہا ۔

سٹیپنیچ چلا گیا اور مارٹن نے جو چاۓ  بچ گئی تھی گلاس میں ڈالی اور پی گیا ۔ پھر اس نے چاۓ کا سامان علیحدہ رکھا اور کام میں مشغول ہو گیا ۔ بوٹ کے پچھلے حصے کی سلائی کرنے لگا ۔اس دوران وہ کھڑکی کے باہر بھی دیکھتا رہا اور مسیح کا انتظار کرتا رہا ، اسکے اور اسکے کاموں کے بارے میں سوچتا رہا  ۔اس کا دماغ مسیح کے فرمانوں/ احکامات  سے بھرا رہا۔

دو سپاہیوں کا گزر ہوا : ایک سرکاری بوٹوں میں اور دوسرا زاتی بوٹوں میں ؛ اس کے بعد ایک ہمسایہ ما لک مکان جس کے جوتوں پر چمکدار غلاف  چڑھے  تھے۔پھر ایک نانبائی،  ایک  ٹوکری اٹھاۓ ہوے ۔   یہ سب گزر گئے اس کے بعد ایک عورت پرانی  جرابیں اور کسانوں کے بناۓ گئے جوتے پہنے گزری ۔وہ کھڑکی سے گزر کر دیوار کے ساتھ رک گئی ۔مارٹن نے کھڑکی سے اسے دیکھا کہ وہ کوئی اجنبی تھی ۔غریبانہ کپڑوں میں ملبوس اور اس کے بازوؤں میں بچہ تھا ۔ وہ دیوار کے پاس کھڑکی کی طرف پشت کر کے کھڑی ہو گئی ۔ وہ بچے کو لپیٹنے  کی کوشش کر رہی تھی جب کہ اس کے پاس بچے کو لپیٹنے کے لئے کچھ نہیں تھا ۔عورت،   گرمیوں  کے لباس میں تھی ،وہ بھی پھٹے پرانے تھے ۔کھڑکی سے مارٹن کو بچے کے رونے اور عورت کے اسے پرسکون کرنے کی کوشش سنائی دی ۔ مارٹن اٹھا دروازے سے باہر نکلا ایک سیڑھی چڑھا اور اسے پکارا ۔

“ میری پیاری ، میں نے کہا ،میری دلاری  ! “

عورت نے سنا پیچھے مڑی ۔ “ تم اتنی ٹھنڈ میں بچے کے ساتھ کیوں کھڑی ہو ؟ اندر آ جاؤ ۔تم اسے گرم جگہ میں بہتر گرم کر سکتی ہو ۔ادھر سے آ جاؤ !”

عورت ایک بوڑھے کو ایپرن پہنے دیکھ کر حیران ہوئی،جس کی ناک پر عینک دھری تھی ،اسے پکار رہا تھا ۔ وہ اس کے پیچھے چل پڑی ۔

وہ سیڑھیوں سے نیچے اترے ،چھوٹے  سے کمرے میں داخل ہوے اور بوڑھا اسے سیدھا بستر پر لے گیا ۔

“ یہاں بیٹھ جاؤ چولھے کے پاس اپنے آپ کو گرم کرو اور بچے کو دودھ پلاؤ “

“ دودھ نہیں ہے ،میں نے خود صبح سے کچھ نہیں کھایا ،” عورت نے کہا ،اس کے باوجود عورت نے بچے کو چھاتی سے لگا لیا ۔

مارٹن نے سر ہلایا ،اس نے ایک برتن اور کچھ روٹی نکالی ۔پھر چولھے کا دروازہ کھولا،گوبھی کا کچھ  سوپ برتن میں انڈیلا۔ اس نے دلیے کا برتن بھی نکالا ،لیکن دلیہ ابھی تیار نہیں ہوا تھا ۔اس لئے اس نے میز پر کپڑا پھیلایا اور صرف سوپ اور روٹی ہی پیش کر دی ۔

“ بیٹھ جاؤ اور کھاؤ ،میں بچے کا خیال رکھتا ہوں ۔ میرے اپنے بھی بچے تھے ،میں  بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہوں  ۔”

عورت نے اپنے اوپر کراس بنایا اور کھانے کے لئے بیٹھ گئی ،اس دوران مارٹن نے بچے کو بستر پر لٹایا اور اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔

اس نے منہ سے مختلف آوازیں نکالنے کی کوشش کی لیکن دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہتر آوازیں نہ نکال سکا اور بچہ روتا رہا ۔ تب مارٹن نے انگلی سے اسے گدگدانے کی کوشش کی ۔ اپنی انگلی سیدھی اس کے منہ کی طرف لے گیا پھر تیزی سے واپس کر لی ،اس طرح بار بار کیا ۔لیکن بچے کو اس کی انگلی منہ میں لے جانے نہیں دی کیونکہ اس کی انگلی پر موچیوں والی کالی موم لگی تھی ۔ پہلے تو بچہ  انگلی کو دیکھتے ہوۓ پرسکون ہوا ،  لیکن بعد میں ہنسنے لگا ،جس سے مارٹن کو خوشی ہوئی ۔

عورت بیٹھی کھاتی اور باتیں کرتی رہی ۔مارٹن کو بتایا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے ۔

“ میں ایک سپاہی کی بیوی ہوں ،” اس نے بتایا ،” انہوں نے آٹھ ماہ قبل میرے خاوند کو کہیں دور بھیج دیا ۔تب سے مجھے اس کے بارے میں کوئی اطلاع  نہیں ۔بچے کی پیدائش تک میں ایک جگہ خانساماں کی ملازمت کرتی رہی ۔لیکن بچے کے ساتھ وہ مجھے رکھنے پر تیار نہیں ہوۓ ۔اب تین مہینوں سے میں کوشش کر رہی ہوں ،لیکن کوئی جگہ نہیں مل رہی ،میرے ہاس جو کچھ تھا وہ میں  کھانے پر خرچ کر چکی ہوں ،میں نے کراۓ پر دودھ پلانے کی ملازمت کی کوشش بھی  کی لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔ان کا کہنا تھا کہ میں بہت فاقہ زدہ اور دبلی ہوں ۔ اب میں ایک تاجر کی بیوی سے ملنے گئی تھی  ( ہمارے گاؤن کی ایک عورت اس کے پاس ملازم ہے ) اور اس نے ملازمت کا وعدہ کیا تھا  ۔ میں سمجھی ،چلو آخر کار سب ٹھیک ہو جاۓ گا ،لیکن وہ اب کہتی ہے کہ اگلے ہفتے آنا ۔اس کی جگہ بہت دور ہے ۔اور میں اب تھکن سے چور ہوں اور بچہ بھی بھوکا ہے ۔خوش قسمتی سے ما لکہ مکان مہربان ہے اور ہمیں مفت رہنے دے رہی ہے ،وگرنہ نہ جانے میں کیا کرتی ۔”

مارٹن نے آہ بھری اور پوچھا ، “ کیا تمہارے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں ؟ “

“ میں گرم کپڑے کہاں سے لوں ؟ میں نے اپنی گرم شال کل ہی چھ پینس میں گروی رکھ دی ۔ “ اس کے بعد عورت نے بچہ اٹھا لیا اور مارٹن بھی کھڑا ہو گیا ۔ اس نے دیوار پر لٹکتی کچھ چیزوں کو جا کر ٹٹولا اور ایک پرانا چوغہ اتار لایا ۔

“ اگرچہ یہ بوسیدہ ہے لیکن یہ بچے کو لپیٹنے کے کام آ سکتا ہے ۔ “

عورت نے  چوغہ دیکھا ،پھر بوڑھے کو دیکھا  اور پھر اسے پکڑتے ہوۓ  رو پڑی ۔ مارٹن دوسری طرف مڑ گیا ۔ اور بستر کے نیچے ٹٹولنے کے بعد ایک چھوٹا سا صندوق نکالا ۔اس کے اندر جلدی جلدی کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔ اور پھر عورت کے سامنے بیٹھ گیا اور عورت بولی ، “ خدا تم پر رحم کرے ، ،مسیح نے ہی مجھے تمہاری کھڑکی پر بھیجا ہے ،نہیں تو بچہ  تو منجمد ہو جاتا ،جب میں روانہ ہوئی تھی تو موسم معتدل تھا ،لیکن اب کتنی ٹھنڈ پڑ چکی ہے ۔ بلکل یہ مسیح ہی ہے جنہوں نے تمہیں کھڑکی سے جھانکنے اور ہمارے اوپر ترس کھانے  کا خیال دیا ۔”

مارٹن نے مسکرا کر کہا ،” یہ بلکل سچ ہے اسی نے۔ مجھ  سے یہ سب کروایا ہے ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے ۔ “

پھر اس نے عورت کو اپنا خواب سنایا اور بتایا ، کیسے اس نے خداوند   کی آواز سنی کہ اس نے  دن  میں ملاقات کا وعدہ کیا ۔”

“ کون جانتا ہے ؟ ،سب کچھ ممکن ہے “ عورت نے کہا ،وہ اٹھی ،چوغہ اپنے کندھوں پر ڈالا اپنے اور بچے کے گرد لپیٹا پھر مارٹن کے آگے تعظیما” جھکی اور شکریہ ادا کیا ۔

“ مسیح کے واسطے یہ لے لو ،” مارٹن نے کہا اور اسے چھ پنس شال کو گروی چھڑوانے کے لئے دئے ۔ عورت نے اپنے اوپر کراس بنایا اور مارٹن نے بھی ایسا ہی کیا ۔ اور پھر اس نے اسے باہر تک  رخصت کیا ۔

جب عورت چلی گئی ،تو مارٹن نے کچھ گوبھی کا سوپ پیا چیزیں سنبھالیں اور دوبار کام شروع کر دیا ۔ وہ بیٹھا کام کرتا رہا ،لیکن کھڑکی  کو نہیں بھولا ۔جب بھی کھڑکی پر سایہ پڑتا وہ فورا” اوپر دیکھتا کہ کون گزر رہا ہے ۔ اس کے واقف کار اور اجنبی گزرتے رہے لیکن کوئی قابل زکر بات  نہیں ہوئی ۔

کچھ دیر بعد مارٹن نے ایک سیب بیچنے والی عورت کو اس کی کھڑکی کے پاس رکتے دیکھا ۔اس کے پاس ایک بڑی ٹوکری  تھی لیکن اس میں بہت کم سیب رہ گئے تھے ۔ لگتا تھا وہ آپنا  زیادہ مال بیچ چکی تھی ۔ اس کی پشت پر چپس  کا بھرا ہوا تھیلا تھا ۔ جو وہ گھر لے کر جا رہی تھی ۔ بے شک اس نے وہ کسی ایسی جگہ سے اکٹھے کیے تھے جہاں کوئی عمارت زیر  تعمیر تھی ۔ اس تھیلے سے اس کو بلاشبہ تکلیف پہنچ رہی تھی اور وہ اسے ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر بدلنا چاہتی تھی اس لئے اس نے اسے نیچے فٹ ہاتھ پر رکھا ۔ اپنی ٹوکری  ایک کھمبے پر رکھی ،تھیلے کے چپس کو ہلانے لگی ۔جب وہ یہ سب کرنے میں مصروف تھی تو ایک پھٹی ہوئی ٹوپی پہنے  لڑکا دوڑتا ہوا آیا ،باسکٹ سے ایک سیب چرایا اور بھاگنے کی کوشش کی ،لیکن بوڑھی عورت نے دیکھ لیا ،مڑ کر لڑکے کو آستین سے پکڑ لیا ۔لڑکے نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن بوڑھی عورت نے دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑے رکھا اس کے سر سے ٹوپی کو  اتار پھینک دی  اور اس کے بال پکڑ لئے ۔ لڑکا چینخنے لگا اور عورت ڈانٹنے لگی ۔ مارٹن نے سؤا نیچے پھینکا  ،اپنی جگہ رکھنے  کا  بھی  انتظار نہیں کیا اور بھاگ کر دروازے سے باہر نکلا ۔ سیڑھیوں پر لڑکھڑاتے چڑھا اس افراتفری میں چشمہ  کہیں گرا دیا ۔  ،دوڑ کر گلی میں پہنچا ۔بوڑھی عورت لڑکے کے بال کھینچ رہی تھی اور ڈانٹ رہی تھی اور اسے پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دے رہی تھی ۔لڑکا چھڑوانے کوشش کر رہا تھا اور احتجاج کرتے ہوۓ کہہ رہا تھا ۔میں نے نہیں اٹھایا ،مجھے کیوں مار رہی ہو ،مجھے جانے دو ۔”

مارٹن نے انہیں چھڑایا ،لڑکے کو ہاتھ سے پکڑا اور بولا ،گرینی ،اسے جانے دو ۔ مسیح کے واسطے اسے معاف کر دو”  ۔ “ میں اسے سزا دوں گی  گا تاکہ وہ ایک سال تک یہ نہ بھول سکے  میں اس بدمعاش کو پولیس کے حوالے کروں گی”  ۔ ! مارٹن بوڑھی عورت کی منت سماجت کرنے لگا ،” اسے جانے دو ،وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا ،اسے مسیح کے واسطے جانے دو ! “

عورت نے اسے چھوڑ دیا تو لڑکے نے بھاگنے کی کوشش کی ،لیکن مارٹن نے اسے روک لیا ۔ “ گرینی سے معافی مانگو ! “ اور دوبارہ ایسا مت کرنا ،میں نے خود  تمہیں سیب اٹھاتے دیکھا تھا  “

لڑکے نے  رونا شروع کر دیا اور معافی مانگنے لگا ۔

“ اب ٹھیک ہے ،یہ سیب تمہارے لئے ہے” ۔مارٹن نے باسکٹ سے ایک سیب اٹھا کر لڑکے کو پکڑایا اور کہا “، گرینی میں اس کی قیمت ادا کروں گا ۔ “

“ تم اس طرح انہیں بگاڑ دو گے ، نوجوان بدمعاش ، “ بوڑھی عورت نے کہا ، “اسے کوڑے مارنے چاہیں تاکہ ایک ہفتہ تو یاد رہے ۔”

او گرینی ، گرینی ،مارٹن بولا یہ ہمارا طریقہ کار ہے لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے ۔اگر اسے ایک سیب کی چوری پر کوڑے مارے جائیں تو پھر ہمارے گناہوں پر ہمارے ساتھ کیا کیا جانا چاہیے ۔ “ بوڑھی عورت خاموش ہو گئی ۔

مارٹن نے اس عورت کو خدا کی ایک تمثیل سنائی جب اس نے اپنے ملازم کو اس کا بہت بڑا قرضہ معاف کر دیا اور کیسے وہ ملازم باہر گیا اور اپنے مقروض کا گلا پکڑ لیا ۔بوڑھی عورت نے اور لڑکے نے بھی یہ سنا ۔

“ خدا ہمیں معاف کرنے کا حکم دیتا ہے”  ۔ مارٹن نے کہا ، “ یا پھر ہمیں بھی معافی نہیں ملے گی ۔سب کو معاف کر دو اور خصوصا” ایک بے فکرے نوجوان کو سب سے پہلے ۔ “

بوڑھی  عورت نے اپنا سر ہلایا اور آہ بھری ۔

“ یہ بلکل سچ ہے ،اس نے کہا ،لیکن یہ بہت بگڑ رہے ہیں “

“ تو پھر ہم بوڑھوں کو انہیں بہتر رستہ دکھانا چاہیے ۔

“ یہی تو میں کہہ رہی ہوں ۔” وہ بولی ۔ “ میرے اپنے سات تھے ،اب ایک  بیٹی رہ گئی ہے ۔ “ اس کے بعد وہ عورت بتانے لگی کہ وہ کہاں اور کیسے اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہے اور کتنے اس کے گرینڈ چلڈرن ( نواسے نواسیاں اور ہوتے پوتیاں ) ہیں ۔ اس نے بتایا کہ اب اس میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی لیکن میں اپنے گرینڈ چلڈرن کے لئے سخت محنت کرتی ہوں ۔وہ بہت نفیس بچے ہیں ۔میں گھر جاتی ہوں تو بچے باہر نکل کر ملتے ہیں ۔چھوٹی اینی تو کسی اور کو میرے قریب پھٹکنے ہی نہیں دیتی ،آہا “،گرینڈ مدَر آ گئی ، پیاری گرینڈ ما ،بہت ہی پیاری گرینڈ ما، “ اس سوچ پر بوڑھی عورت بلکل نرم پڑ گئی ۔

“بے شک یہ محض اس کی بچگانہ حرکت تھی ۔خدا اس کی مدد کرے “ عورت نے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا ۔

جونہی عورت نے اپنا تھیلا اپنے پشت پر لادنے کی کوشش کی ،تو لڑکا اچھل کر یہ کہتے ہوۓ  اس کے پاس پہنچا ، “ گرینی میں لے جاتا ہوں ،میں اسی طرف جا رہا ہوں ۔”

بوڑھی عورت نے ہاں میں سر ہلایا اور تھیلا لڑکے کی پشت پر لاد دیا اور دونوں اکٹھے چل پڑے ۔ بوڑھی  عورت مارٹن سے سیب کے پیسے لینا بھی بھول گئی ۔مارٹن وہیں کھڑا انہیں   آپس میں گفتگو کرتے اکٹھے جاتے دیکھتا رہا ۔

جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو مارٹن واپس گھر کی طرف مڑا ،اسے اپنے چشمہ صحیح و سالم سیڑھیوں پر مل گیا  ۔اس نے سوا )awl ( جوتے کی سلائی میں استعمال ہونے والی بڑی سوئی ) اٹھایا اور دوبارہ کام شروع کر دیا ۔تھورا ہی کام کیا تھا کہ ا سے   چمڑے کے سوراخوں میں سے سلائی والا دھاگہ گزرتا ہوا  دیکھائی دینا مشکل ہو گیا   ۔اسی وقت اس نے دیکھا کہ لیمپ روشن کرنے  والا گلی کے لیمپ روشن کرنے  کے لئے گزرا ہے ۔

” لگتا ہے لیمپ روشن کرنے کا وقت ہو گیا ہے ۔ ” اس نے سوچا ۔ اس نے لیمپ صاف کیا اسے لٹکایا اور دوبارہ کام کرنے بیٹھ گیا ۔اس نے ایک بوٹ مکمل کر لیا ،اسے ادھر ادھر سے دیکھا ۔وہ بلکل ٹھیک تھا تب اس نے اپنے اوزار اکٹھے کئے ۔کترنیں جھاڑو سے اکٹھی کیں ،دھاگہ  اور سوا  الگ رکھے ،لیمپ اتار کر میز پر رکھا ۔ پھر اس نے شیلف سے  انا جیل  اٹھائیں   ۔ اس کا ارادہ انہیں وہیں سے کھولنے کا تھا جہاں  اسنے کل چمڑے کے ٹکڑے کا  نشان رکھا تھا ،لیکن کتاب ایک اور جگہ سے کھل گئی ۔ ۔جب مارٹن نے کھولی تو اس کا  کل والا خواب اسے پھر یاد آ گیا اور جونہی اسے یہ سوچ آئی تو اسے لگا کہ وہ قدموں کی چاپ سن رہا ہے ،ایسے جیسے کوئی اس کے پیچھے حرکت کر رہا ہو ۔ مارٹن پیچھے کو مڑا تو اسے لگا کہ اندھیرے کونے میں کچھ لوگ کھڑے ہیں ،لیکن وہ پہچان نہیں پا رہا تھا کہ وہ کون ہیں ۔اس کے کان میں کسی آواز نے سرگوشی کی ،مارٹن ،مارٹن ،کیا تم مجھے نہیں جانتے ؟ ۔کون ہے ؟ مارٹن بڑبڑایا ۔ “ میں ہوں “ آواز نے کہا ۔اور اندھیرے کونے سے سٹیپنیچ برآمد ہوا ،مسکرایا اور بادل کی طرح غائب ہوگیا ۔

” میں ہوں ،”  دوبارہ آواز آئی ،اور اندھیرے سے بچے کے ساتھ عورت نمودار ہوئی ،ہنسی اور وہ بھی غائب ہو گئے ۔

” یہ میں ہوں” ،ایک دفعہ پھر آواز نے کہا ، اور بوڑھی عورت اور سیب اٹھائے لڑکا سامنے آۓ دونوں مسکراۓ اور پھر وہ بھی غائب ہو گئے ۔

مارٹن کی روح خوش ہو گئی ۔اس نے اپنے اوپر کراس بنایا ،عینکیں لگائیں اور انجیل ادھر سے ہی پڑھنی شروع کر دی ،جدھر سے وہ کھل گئی تھی ۔ صفحے کے شروع میں لکھا تھا :

“ میں بھوکا تھا ،تو تم نے مجھے گوشت دیا ،میں پیاسا تھا ، اور تم نے مجھے پینے کے لئے دیا ، میں آجنبی تھا   ،تم نے مجھے گھر بلایا ۔ “

اور صفحے کے آخر میں اس نے پڑھا ،”جیسا کہ  تم نے یہ سب کچھ میرے بھائیوں میں سے ایک سے کیا۔ یہ سب تم نے میرے ساتھ کیا ۔”    Matt xxv

 

مارٹن سمجھ گیا کہ اس کا خواب پورا ہو گیا اور یہ کہ نجات دہندہ سچ مچ / حقیقت میں اس  دن اس  کے ہاس آیا تھا ۔اور اس نے اسکا خیرمقدم کیا تھا ۔

(انگریزی سے اردو ترجمہ)

نوٹ:

یہ کہانی ایک فرانسیسی کہانی Le Pere Martin  جس کا مصنف Reuben Saillens ہے ، سے ماخوذ ہے۔

 

ترجمہ نگار کا تعارف:

پیدائش : 14 جولائی 1957 حسن ابدال ضلع اٹک ۔ میٹرک تک کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز کالج حسن ابدال سے حاصل کی ، سکول میں سوسائٹی برائے ادب کی صدر رہی ۔ ۔بعد ازاں سی بی کالج ( موجودہ ایف جی ) سے تعلیم مکمل کر کے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔1984 میں شادی ہو جانے کے بعد سے اب تک راولپنڈی میں رہائش پزیر ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کی پہلی خاتون وکیل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ عملی طور پر وکالت کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کے مختلف لاء کالجز میں قانون پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ خواتین میں بھی قانون پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ سیاست میں دلچسپی رہی ۔1994 میں انٹرنیشنل مسلم وویمن کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی اور صدر سوڈان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو ا ۔ ادب سے دلچسپی بچپن سے وراثت میں ملی ۔ سکول و کالج لائف میں روزنامہ تعمیر (جو بعد میں بند ہو گیا )کے ادبی صفحے پر تحریریں چھپتی رہیں ۔ اب عملی طور وکالت کو خیر آباد کہنے کے بعد نیٹ ہر “ عالمی ادب کے اردو تراجم “ سے متعارف ہونے کے بعد فطری ادبی لگاؤ نے تراجم کی طرف راغب کر دیا ۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب “ خدا کے نام خط “ حال ہی میں ‘سٹی بک پوائنٹ، کراچی’ سے شائع ہوئی ۔ مزید تراجم کا سلسلہ جاری ہے۔
برائے رابطہ : aqilajadoon@gmail.com

 

 

 

 

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے