بندرگاہ کے پاس دیوار پہ دو بچے بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ ایک شخص ایک یادگار کے زینوں پہ شمشیر بکف ہیرو کے سائے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی فوارے سے اپنے ٹب میں پانی بھررہی تھی۔ ایک پھول فروش اپنے سامان کے برابر میں لیٹا ہوا تھا اور سمندر کو دیکھ رہا تھا۔ عقب میں، نزدیک، ایک کیفے میں کھلی کھڑکی اور، نیم وا، دروازے میں سے دو اشخاص کو خاموشی سے شراب پیتے دیکھا جاسکتا تھا۔ کیفے کا مالک سامنے والی میز کے متقابل کرسی پہ بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ ایک ناؤ ہلکے سے کھسک کر چھوٹی بندرگاہ میں داخل ہوئی، جیسے پانی کی لہریں اُسے اُٹھا کر لائی ہوں۔ نیلے رنگ کی جیکٹ پہنے ایک شخص کشتی سے نکل کر زمین پہ کود گیا اور سیاں لوہے کے کڑوں سے گزارنے کے بعد کس کر باندھنے لگا۔ اُس کے پیچھے دو مزید اشخاص ، گہرے سیاہ رنگ کے کوٹ پہنے، جن پہ نقرئی بٹن لگے تھے، ارتھی اُٹھائے کشتی سے اُترے، جس پہ جھالر والے پھولدار بڑے سے ریشمی سکارف کے نیچے واضح طور پر ایک آدمی لیٹا تھا۔
کسی نے بھی بندرگاہ پہ اُترنے والے، ان نوواردوں پہ توجہ نہیں دی، حتٰی کہ تب بھی نہیں جب اُنھوں نے ملاح کے انتظار میں، جو ابھی تک رسیاں باندھ رہا تھا، ارتھی کو نیچے رکھا۔ کوئی بھی اُن کے پاس نہ آیا، کسی نے بھی اُن سے کوئی سوال نہ کیا، کسی نے بھی اُن کو بالکل قریب سے دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔
ملاح وہاں بکھرے بالوں والی ایک عورت کے ساتھ مزید کچھ دیر تک کے لیے رک گیا، جس نے اپنی چھاتی سے بچہ لگا کر اُٹھایا ہوا تھا، جو اب کشتی کے عرشے پہ نمودار ہوئی تھی۔ تب ملاح، عین بائیں جانب پانی کے قریب ایستادہ ایک دوہری منزل کی عمارت پہ اشارہ کرتے ہوئے، آگے بڑھا۔ دونوں نے ارتھی کو پھر سے اُٹھایا اور اپنے بوجھ سمیت کم اونچائی کے دروازے کی جانب گئے جو نفیس سے ستونوں پہ لگا ہوا تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے کھڑکی کو کھولا، جلدی سے جائزہ لیا کہ کیسے وہ جتھہ گھر میں غائب ہورہا تھا، اور سرعت کے ساتھ کھڑکی کو پھر سے بند کردیا۔ گھر کا دروازہ بند ہوگیا۔ دروازہ شاہ بلوط کی سیاہ لکڑی پہ کیے گئے نفیس کام کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔ فاختائیں دروازے پہ جمع ہوگئیں، جیسے گھر کے اندر اُن کے رنگ بہت چمکیلے تھے، جیسے ان کا بہت خیال رکھا گیا ہو، تنومند پرندے۔ کشتی والی عورت نے بازو کو خوب پھیلا کر مٹھی بھر دانے اُن کی جانب پھینکے۔ انھوں نے سب کچھ کھالیا اور عورت کی جانب اُڑ گئیں۔
ایک شخص سر پہ ہیٹ پہنے، جس پہ ماتھی پٹی لگی تھی، چھوٹی تنگ سی، تیز ڈھلوان کی راہداری سے نیچے آیا، جو بندرگاہ کو جاتی تھی۔ اُس نے ہوشیاری سے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا۔ پورے ماحول نے اُسے پریشان کردیا۔ کونے میں پڑے کچرے کو دیکھتے ہی وہ چونکا۔ یادگار کے زینوں پہ پھلوں کا چھلکا پڑا تھا۔ جیسے ہی وہ اُس کے قریب پہنچا اُس نے اپنی چھڑی سے اُسے ایک طرف ہٹایا۔ اُس نے گھر کے دروازے پہ دستک دی، اور ساتھ ہی سیاہ رنگ کے دستانوں والے اپنے دائیں ہاتھ سے ہیٹ اُتارنے لگا۔ دروازہ فوراً کھل گیا، اور پچاس کے قریب چھوٹے بچوں نے، جو دو قطاروں میں کھڑے تھے، ایک ساتھ جھک کر اُسے سلام کیا۔
ملاح نیچے اُترا، آنے والے صاحب سے ملا، اُسے اوپر کی منزل پہ لے گیا۔ وہاں پہلی منزل پہ ملاح کچھ دیر کے لیے ٹیرس پہ لگی نفیس سی بالکونی کے قریب اُس صاحب کی ہمراہی میں رکا رہا، اور لڑکے اُن کے پیچھے ایک مناسب فاصلے پہ تمیز کے ساتھ جمع ہو کر کھڑے رہے۔ وہ دونوں حضرات پیچھے کی طرف بنے بڑے سے ٹھنڈے کمرے میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے بیٹھ کر سوائے سرمئی مائل سیاہ رنگ کی پتھریلی دیوار کے علاوہ آپ گھر کا کچھ بھی اور نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ، جو دو اشخاص ارتھی اُٹھا کر لائے تھے اب کمرے میں چیزیں درست کرنے اور ارتھی کے سرہانے بڑی بڑی قندیلیں روشن کرنے میں مصروف تھے۔ مگر ان قندیلوں سے کوئی روشنی نہیں مل رہی تھی۔ ان کی وجہ سے محض پہلے سے موجود سائے دیوار پہ اچھل کود کرنے لگ گئے اور جھلملانے لگے۔ ارتھی پر سے چادر ہٹا دی گئی۔ اُس پہ پڑا شخص، بکھرے ہوئے، بے ترتیب اُلجھے بال، ویسی ہی الجھی داڑھی، بھوری رنگت ۔۔۔ کسی شکاری کے جیسا معلوم ہوتا تھا۔ وہ بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا، بظاہر سانس بھی نہیں چل رہی تھی، آنکھیں بند، البتہ اُس کے گرد و پیش سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ کوئی لاش ہوسکتی تھی۔
وہ صاحب ارتھی کے پاس گیا، اپنا ہاتھ لیٹے ہوئےشخص کی پیشانی پہ رکھا، پھر اکڑوں بیٹھ گیا اور دعا کی۔ ملاح نے ارتھی اُٹھانے والوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ لوگ باہر نکلے اور لڑکوں کو دور بھگایا، جو دروازے کے سامنے جمع ہوگئے تھے، اور دروازہ بند کر دیا۔ بظاہر خاموش، صاحب، اس تخلیہ سے بھی مطمئن نہیں تھا۔ اُس نے ملاح پہ نظر ڈالی۔ ثانی الذکر سمجھ گیا اور بغلی دروازہ سے دوسرے کمرہ میں چلا گیا۔ ارتھی میں پڑے شخص نے ایک دم آنھیں کھول دیں، درد بھری مسکراہٹ کے ساتھ اُس نے اپنا رخ اجنبی کی طرف موڑا، اور کہا، "آپ کون ہیں؟” بغیر کسی حیرت کے وہ صاحب اُٹھ کھڑا ہوا اور جواب دیا، "ریو (Riva) قصبے کا مئیر ہوں۔”
ارتھی پہ پڑے آدمی نے سر کو ہلایا اور نقاہت کے ساتھ اپنا بازو اُٹھا کر کرسی کی جانب اشارہ کیا، اور جب مئیر نے اُس کی دعوت قبول کرلی تو اُس نے کہا، "میں یہ جانتا تھا محترم! مگر جب مَیں پہلی بار آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھتا ہوں تو ہمیشہ سب کچھ بھول جاتا ہوں۔۔۔ ہر شے میرے اردوگردکاٹنے لگتی ہے، میرے لیے یہی بہتر ہوتا ہے کہ مَیں چیزیں پوچھ لیا کروِ اگرچہ ہر شے مجھے پہلے سے معلوم بھی ہو، تب بھی پوچھ لیا کروں۔ غالباً آپ بھی جانتے ہیں مَیں شکاری گریشز ہوں۔”
"یقیناً مَیں جانتا ہوں۔” مئیر نے کہا "مجھے یہ خبر آج ہی ملی، آج رات میں۔ ہمیں سوئے ہوئے کچھ وقت گزرا تھا، کہ آدھی رات کے قریب میری بیوی نے مجھے آواز دی، ‘سلواٹور (Salvatore) ‘ ۔۔۔ سلواٹور میرا نام ہے۔۔۔’کھڑکی میں بیٹھی فاختہ کو دیکھو!’ واقعی فاختہ وہاں بیٹھی تھی، مگر کسی پالتو مرغے کے جتنی بڑی فاختہ۔ وہ اُڑ کر میرے کان کے قریب آگئی اور کہا، "کل متوفی، گریشز، آرہا ہے۔ شہر کے نمائندہ کی حیثیت سے اُس کا استقبال کرو۔”
شکاری نے سرہلایا اور اپنی زبان کی نوک کو اپنے ہونٹوں کے درمیان میں آگے دھکیلا۔
"ہاں، فاختائیں میرے سامنے اُڑتی رہتی ہیں۔ مگر آپ کو یقین ہے مئیر صاحب! کہ مجھے ‘ریوا’ میں رہنا ہوگا؟”
"اس بارے میں ابھی مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا۔” مئیر نے جواب دیا، "کیا آپ مرچکے ہیں؟”
"ہاں” شکاری نے کہا، "جیسا کہ آپ دیکھ بھی سکتے ہیں۔ بہت سال پہلے۔۔۔ واقعی بہت زیادہ برس پہلے کی بات ہے۔۔۔ سیاہ جنگل میں، جب مَیں سانبھڑ کا تعاقب کر رہا تھا، تو ایک چٹان سے گرگیا تھا۔۔۔ یہ سیاہ جنگل جرمنی میں ہے۔ جب سے ہی مَیں مرا ہوا ہوں۔””ایک حد تک” شکاری نے کہا، "کسی حد تک مَیں زندہ بھی ہوں۔ میری کشتی مرگ راستہ کھوچکی ہے۔۔۔ سٹیرنگ کا کوئی غلط موڑ، ایک ایسے لمحے میں جب ملاح کی اس پہ توجہ نہیں تھی، اپنے شاندار وطن سے جدائی کا باعث بن گیا۔۔۔ مَیں نہیں جانتا یہ کیا تھا۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں زمین پہ رہا اور یہ کہ میری کشتی زمینی پانیوں پہ سفر کرتی ہری۔ پس مَیں۔۔۔مَیں جو صرف اپنے پاڑوں میں رہنا چاہتا تھا۔۔۔ پس مَیں اب اپنی موت کے بعد زمین پہ ملکوں، ملکوں، سفر پہ رہتا ہوں۔”
"آپ کا اگلے جہانوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے؟” مئیر نے اپنی بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا۔
"میں ہر وقت اُس عظیم سیڑھی پہ رہتا ہوں جو اُدھر کو جاتی ہے۔ مَیں اس کے لامحدود وسیع زینوں پہ گھومتا رہتا ہوں، کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی دائیں، تو کبھی بائیں، ہر وقت متحرک رہتا ہوں۔ ایک شکاری سے مَیں اب ایک تتلی بن چکا ہوں۔ ہنسو مت۔”
"نہیں، مَیں ہنس نہیں رہا،” مئیر نے کہا۔
"آپ کا بے حد مشکور ہوں۔” شکاری نے کہا، ” َیں ہر وقت چلتا رہتا ہوں، مگر جب بھی مَیں اوپر کی عظیم منزل کی طرف متحرک ہوتا ہوں، اور دروازہ عین میرے اوپر چمک ہی رہا ہوتا ہے، کہ مَیں اپنی اس پرانی کشتی میں، جو کہیں پھیلے ہوئے کچھ زمینی پانی پہ، بے کیف، مصیبت میں گرفتار ساکت کھڑی ہوتی ہے، جاگ اُٹھتا ہوں۔ میری قبل از وقت مرنے کی غلطی میرے برابر بالیں پہ بیٹھی میرے اوپر ہنس رہی ہوتی ہے۔ ملاح کی بیوی، جولیا، کیبن کو کھٹکھناتی ہے اور مجھے ارتھی پہ صبح کا مشروب لاکردیتی ہے، اُسی ملک کا مشروب جس کے ساحلوں سے ہم اُس وقت گزررہے ہوتے ہیں۔ میں لکڑی کے اس تختے پہ لیٹا رہتاہوں، غلیظ کفن پہنے۔۔۔ مجھے اس پہ نظر ڈالنے کا کوئی شوق نہیں۔۔ میرے بال، میری داڑھی، کالے اور چاندی جیسے ملے جلے، ایک دوسرے میں بری طرح سے اُلجھ چکے ہیں، میری ٹانگیں بڑی سی ریشمیں چادر سے ڈھکی رہتی ہیں، پھولدار چادر کے کنارون پہ جھالر لٹکتی رہتی ہے۔ میرے سرہانے کی جانب رکھی چرچ کی روشن قندیل میرے اوپر روشنی کرتی ہے۔ میرے متقابل دیوار پہ ایک چھوٹی تصویر لگی ہے، جہاں ایک جنگلی، نمایاں طور پر، بھالا تان کر، میرا نشانہ باندھے کھڑا ہے اور حتی المقدور اپنے چہرے کو شاندار نقش و نگار والی ڈھال کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ جہاز کے سفر پہ متعدد واہیات تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں مگر یہ تصویر ان میں واہیات ترین قرار دی جاسکتی ہے۔ میری ارتھی کے پنجرے میں مرے گردو پیش البتہ سب کچھ خالی ہے۔ پہلو والی دیوار میں موجود سوراخ سے جنوب سے دکھن کی گرم ہوا راتوں کو آتی رہتی ہے، اور میں پرانی کشتی پہ پانی کی لہروں کو ٹکراتے سنتا رہتا ہوں۔
مَیں اس پہ تب سے پڑا ہوا ہوں جب مَیں ۔۔۔ زندہ شکاری گریشز تھا۔۔۔ ایک سانبھڑ کا، سیاہ جنگل میں، اُس کے گھر کی جانب پیچھا کررہا تھا، اور گرگیا۔ ہر شے ویسی ہوتی گئی جیسے ہونا چاہیے تھا۔ میں تعاقب میں تھا، گرگیا، کھائی میں پڑے خون بہتا گیا، مرگیا، اور اس کشتی نے مجھے اُٹھا کر دوسرے جہاں لے جانا تھا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مَیں نے خود کو اس تختے پہ پہلی بار کیسے خوشی خوشی دراز کیا تھا۔ اُن پہاڑوں نے مجھے کبھی اتنا اچھا گاتے ہوئے نہیں سنا ہوگا جتنا خوبصورت انداز میں ان چار نیم تاریک دیواروں نے سنا۔
مَیں زندہ بھی خوش رہاتھا اور مرکر بی خوش تھا۔ جہاز پہ جانے سے پہلے، مَیں نے خوشی خوشی، کارتوس، تھیلے کا کچرا، چیٹھڑے وغیرہ اور حتیٰ کہ بندوق بھی، جسے مَیں ہمیشہ فخر سے اُٹھائے پھرتا تھا ایک طرف پھینکا، اور ایک نوجوان لڑکی کے جیسے، جب وہ عروس کا جوڑا پہنتی ہے، فوراً کرن میں گھس گیا۔ وہاں مَیں لیٹ گیا اور انتظار کرتا رہا۔ پھر یہ حادثہ ہوگیا۔”
"فحش بدبختی” مایوسی کے انداز میں اپنا ہاتھ اُٹھاتے ہوئے، مئیر نے کہا، "اور کیا اس کا الزام آپ پہ کسی بھی طور نہیں ہے؟”
"نہیں،” شکاری نے کہا، "میں ایک شکاری تھا کیا اس میں کوئی جرم ہے؟ سیاہ جنگل میں میری پرورش ایک شکاری کے طور پر ہوئی، جہاں، اُس وقت تک ابھی بھیڑیے بھی پائے جاتے تھے۔ مَیں انتظار میں لیٹا رہتا۔ گولی چلاتا، نشانہ صحیح جالگتا، وہیں اُس کی کھال اُتارتا۔۔۔اس میإ کوئی جرم ہے؟ میرے کام میں برکت پڑی، ‘سیاہ جنگل کا عظیم شکاری’ کہلایا، کیا اس میإ کوئی برائی ہے؟”
ۤاس پہ فیصلہ مَیں نے نہیں دینا” مئیر نے کہا، "مگر مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ اس میں کوئی جرم نہیں ہے۔ مگر پھر قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے؟”
"ملاح کو” شکاری نے کہا۔ جو کچھ یہاں مَیں نے لکھا اسے کوئی بھی نہیں پڑھے گا، کوئی میری مدد کو نہیں آئے گا۔ اگر لوگوں کو میری مدد کی ذمہ داری بھی سونپ دی جائے، تمام گھروں کے تمام دروازے بند رہیں گے، تمام کھڑکیاں بند کردی جائیں گی، وہ تمام تر بستروں میں پڑے نیند میں ہونے کا جھوٹ بولتے رہیں گے، سرتاپا چادروں میں چھپے رہیں گے، پوری دنیا رات بھر ہاسٹل کا منظر پیش کرے گی۔۔ اور یہ بات عقلمندانہ بھی ہے، کیوں کہ کوئی بھی مجھے نہیں جانتا، اور اگر کوئی جانتا بھی ہو تو اُسے یہ معلوم نہیں ہوگا کہ میں کہاں ہوں اور اگر یہ بھی جان لے، تو پھر بھی اُنہیں یہ نہیں معلوم کہ مجھے اپنے ہاں کیسے رکھا جائے گا، پس کوئی بھی یہ جانتا کہ میری مدد کیوں کر کی جاسکتی ہے۔ میری مدد کرنے کا خیال دل میں بسانا ایک بیماری ہے اور بیمار کو بستر پہ آرام دے کر تندرست کیا جانا چاہیے۔۔۔ مجھے یہ سب معلوم ہے، اور اسی لیے مَیں مدد مانگنے کے لیے شور نہیں کرتا، حتیٰ کہ اُس وقت بھی مدد کے لیے نہیں چلاتا جب میرا خود پہ اختیار بھی نہیں رہتا، جیسے مثال کے طور پر عین اس وقت، حالاں کہ اس بارے میں مِیں سنجیدگی سے غور بھی کررہا ہوتا ہوں۔ مگر اس کی بجائے، ان خیالاتسے جان چھڑانے کے لیے، مَیں اپنے گردونواح میں دیکھنا شروع کردیتا ہوں اور یاد کرتا ہوں کہ مَیں کہاں ہوں اور ۔۔۔۔ اور یہ شے بھرپور اعتماد کے ساتھ مَیں خود کو باور کراتا ہوں۔۔۔۔ اور صدیوں سے کہاں رہ رہا ہوں۔”
"یہ انتہائی حیران کن ہے،” مئیر نے کہا، "واقعی حیران کن۔ اور اب آپ یہاں ہمارے ساتھ ریوامیں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟”
"میرے کوئی ارادے نہیں ہیں،” شکاری نے مسکراتے ہوئے کہا، اور اپنے بے تکلف لہجے کو مزید طاقت دینے کے لیے، اُس نے اپنا ہاتھ مئیر کے گھٹنے پہ رکھ دیا۔ "میں اس وقت یہاں ہوں۔ مجھے اس سے زیادہ نہیں معلوم۔ اس سے زیادہ مَیں کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ میری کشتی بغیر پتوار کے ہے۔۔۔ یہ ہوا کے رحم وکرم پہ رہتی ہے، ہوا، ہوا۔۔۔ جو موت کے انتہائی نشیب میں چلتی ہے۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
انگریزی میں عنوان:
The Hunter Gracchus
اصل عنوان:
Der Jäger Gracchus
مصنف:
Franz Kafka
انگریزی متن :
https://www.kafka-online.info/the-hunter-gracchus.html
***************
شکاری گریشز
افسانہ نگار : فرانز کافکا (پراگ، موجودہ چیک ریپبلک)
مترجم : منظور احمد (ملتان)