اکثر شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی!
میرا بچین جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں گزرا۔ ابّا مشرقی پنجاب کے مہاجر تھے۔ بس جانے اور آباد ہو جانے کی خواہش میں انہوں نے ایک بڑا پیارا گاؤں بسایا تھا، شجاع والا ، جہاں کچی اینٹوں گارے اور لپائی اور آم کی لکڑی کے رندے لگے دروازوں والے دس بیس کوارٹرز تھے جن میں ملازمین رہائش پذیر تھے۔ ایک پختہ حویلی انہوں نے اپنے ننہال کے دلّی والے گھر کی طرز پر بنوائی تھی۔ صحن، دلان کوٹھڑیاں، در کوٹھڑیاں پر چھتیاں وغیرہ وغیرہ۔ باغ لگوائے قسم ہا قسم کے پھول اگائے۔ مویشی پالے فصلیں کاشت کیں۔ ٹیوب ویل لگوائے ملک میں نظام ِمصطفیٰ نافذ کروانے کے لیے . مارے مارے پھرے، جیلیں کاٹیں، اپنی سات بیٹیوں کو کم وسائل کے باوجود شہزادیوں کی طرح پالا اور پھر اپنے نظریوں کو ٹوٹتے اپنے لگائے ہوئے پودوں کو سوکھتے اور اپنے بنائے ہوئے گھر کی دیواروں میں آجانے والی درزوں اور ہاتھ ہاتھ بھر کی دراڑوں کو دیکھتے دیکھتے ہمت ہار بیٹھے۔ اب شدید قسم کے کلینکل ڈپریشن کا شکار ہو گئے۔
بیتے ہوئے اچھے دنوں میں وہ دن بھی تھے جب کہرے سے ڈھکے درختوں کے نیچے جنگلی کھمبیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی لال آنکھوں والے سرمئی خرگوش سے مڈ بھیڑ بھی ہو جایا کرتی تھی۔ خرگوش ہمیں دیکھ کر اور ہم اسے دیکھ کر چیخیں مارتے ہوئے الٹے پیروں بھاگ جاتے تھے۔ باغ میں اتنے پھول کھلتے تھے کہ ان کا شمار ممکن نہ تھا۔ موتیے موگرے اور چنبیلی کی کلیاں ٹوکروں کے حساب سے روزانہ اتر کر آئیں اور صحن میں بکھری اوائل شام کی چاندنی میں ان کلیوں سے بالے بھرے جاتے گجرے بنتے اور بنانے والے تھک جاتے لیکن پھول ختم نہ ہوتے ۔
سفید چادروں پر ٹھنڈی چاندنی تلے بیت بازی ہوتی ، بڑی لمبی لمبی ادبی اور تاریخی بخشیں ہوتیں اور اکثر ان کے ختم ہونے سے پہلے ہی نیند آ جاتی۔ ایک خواب میں اکثر دیکھا کرتی تھی کہ میں کوٹھے کی منڈیر پہ ایک بیٹے کی سائیکل چلا رہی ہوں۔ وہ سائیکل دھم سے نیچے گرتی اور میری آنکھ کھل جایا کرتی۔ صحن میں پچھلی تاریخوں کی چاندنی کا غبار ہوتا اور کھیتوں میں گیدڑوں کی ہلکی ہکی ہو ہو۔
ان ہی اچھے دنوں میں جب زمین ابھی بڑی رنگین اور دنیا بڑی دلچسپ جگہ تھی، کچھ دلچسپیاں ایسی تھیں جو آج کل کے بچے سن ہی لیں تو ان کے اوسان خطا ہو جائیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں روشندانوں پر چھتیوں اور الماریوں کے اوپر گھس گھس کر چھپکلیوں کے انڈے جمع کرنا یقیناً کوئی قابل ذکر مشغلہ نہیں ہے لیکن اس زمانے میں جب ٹیلی وژن بالسا کی لکڑی کے پردوں میں مستور چار ٹانگوں پر کھڑا ایک شجر منوعہ تھا، جس میں الف لیلیٰ کے نام پر ایک دھندلی سی تمثیل دکھائی جاتی تھی اور ریڈیو ایک خرافاتی بڑھا تھا جو باغی سی آواز میں صدر صاحب کے پھیکے شب و روز بیان کرتا تھا۔ تو ایسے میں یقینا ً چھپکلیوں کے انڈے جمع کرنا بے حد دلچسپ مشغلہ تھا۔
جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ایک بے حد معقول مولوی صاحب انہی دنوں اس دور افتادہ گاؤں میں نئی روشنی سکول کے استاد مقرر ہو کر آئے ۔ مولوی صاحب کو فوراً مجھے پڑھانے پر مامور کر دیا گیا اور خدا ان کی بخشش فرمائے انہوں نے اتنی شفقت سے پڑھایا کہ آج بھی کوئی آیت کوئی حرف نہیں بھولتا خدا ان کے درجات بلند کرے۔
اساتذہ کے معاملے میں میں ہمیشہ خوش نصیب رہی ہوں۔ ہمارے ابا کے ماموں مرحوم، دلّی یونیورسٹی کے رجسٹرار تھے اور ابا کے چچاکے سالے مرزا اجمل بیگ جوابّا کے بے حد اصرار پہ ہمارے پاس رہتے تھے۔مرحوم مرزا موصوف نہ صرف ادب نواز تھے بلکہ ماضی میں سٹیج سے بھی ان کو خاصا شغف رہا تھا چونکہ شرفاء میں اس وقت بھی یہ کام بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیے دادا اجمل نے کبھی کسی سے ماسوائے میرے یہ ذکر نہ کیا مرحوم پطرس بخاری کے دوست تھے اور کبھی کبھار اپنے مخصوص تیز تیز لہجے میں مجھے بمبئی سٹیج کے قصے سنایا کرتے تھے ان کے صندوقوں میں بڑی نادر و نایاب کتا بیں اور رسائل بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ ”نقوش“ ۔ سویرا، ادب لطیف، ان سب ادبی پرچوں کے اولین شمارے میں نے ان ہی کے پاس دیکھے تھے۔
اردو زبان و ادب تو ان مرحومین کے طفیل کم عمری ہی میں پڑھنا، سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ ڈرامے سے بھی دلچسپی تھی۔ میوزک سے شغف تو تھا لیکن وہ دور اس قسم کے مشاغل رکھنے والوں کے لیے خاصا پر آشوب تھا۔ میری مزید خوش نصیبی تھی کہ اس دور افتادہ علاقے میں ایک استانی بیاہ کر آئیں۔ معظمہ نہایت ذہین ادب نواز اور خود بھی ادیب تھیں۔
شومئی قسمت سات سال کی تھیں کہ پھسل کر گر پڑیں، کمر میں ایسی چوٹ لگی کہ قد وہیں رک گیا۔ شاید یہ سب ہمارے حال پر اللہ کے کرم کے سلسلے کی ہی ایک کڑی تھی۔ ورنہ ایسی قابل استاد ہمیں کہاں میسر آئیں؟ ان کا چھوٹا قد، ہم سے کتنے ہی بالشتیوں کو سر بلند کر گیا۔ ہزاروں بچوں کو انہوں نے نہایت نستعلیق انگریزی سکھائی۔ کلاسیک ادب پڑھایا اور میوزک بھی سکھوایا۔
شہر کے ایک جید میراثی ( جواب خیال آتا ہے کہ یقیناً چولستان کے کسی بنجارہ نسل سے تعلق رکھتے ہوں گے ) کو میڈیم شمع نے مجھ جیسے چند شوقین بچوں کو ہارمونیم اور ڈرم بجانا سکھانے پر رکھ لیا۔
یہ سب باتیں آج کے جدید لاہور کے الحمراء میں کھڑے ہو کے کہنا کچھ عجیب نہیں، لیکن اس دور میں اتنے دور افتادہ مقام پر ایسی تعلیم اور تربیت میسر آنا یقیناً میری خوش نصیبی تھی۔
ڈرامے کے لیے میرا شوق دیکھتے ہوئے میڈم شمع نے ایک ڈرامیٹک سوسائٹی بنائی۔ ڈرامے زیادہ تر وہ خود لکھتی تھیں۔ کبھی کبھار میں ان کو ڈائریکٹ کرتی تھی۔ سرخ رنگ کے بھونپو پہ مصنوعی رعب دار آواز میں ہدایات دینا اس وقت میری سب سے بڑی کامیابی تھی۔
مہینے کی آخری جمعرات کو ڈرامہ ہوتا تھا۔ لکڑی کی تلواریں ریشمی فراک، نقلی موتیوں کے ہار بندے، چھپکے، تاج، مکٹ، راجستھانی لباس، ڈانڈیاں، ہارمونیم ،نقارے داڑھی مونچھ اور جانوروں کے ماسک ۔
سکول کے اس ننھے سے سٹیج پہ ہم نے کیا کیا ڈرامے نہ کیے۔ اب سوچیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ وہ دوست وہ سنگتیں، وہ لمحے، وہ فرصتیں، وہ بے فکریاں، سب آخری کرٹن کال تک تھیں۔ پردہ گرا کھیل ختم، سٹیج صاف کرو، دوسرا ڈرامہ آتا ہے۔ تماشائی تھک جاتے ہیں۔ لیکن کھیل چلتے رہتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک آج ہم لائم لائٹ میں کل کوئی اور پرسوں کوئی اور کوئی اور کوئی اور رہے نام اللہ کا !!
ان بیتے دنوں کا ہی ایک کردار ہمارا تا نگا کھیچنے والی گھوڑی رانی بھی تھی۔ رانی سرخ رنگ کی ایک بے حد حلیم الطبع اور خوبصورت گھوڑی تھی ۔ ماتھے پہ ایک خوبصورت سفید دھبا تھا۔ بڑی بڑی محبت بھری آنکھیں اور چمکتی ہوئی جلد ابّا خود اپنے سامنے رانی کی دم اور ایالی سے دھلواتے اور جب وہ تانگا لے کر سبز کھیتوں کے سلسلے سے گزرتی تو لگتا آسمانی رتھ لیے بادلوں کے درمیان اڑی جارہی ہے۔
بچوں کی ڈیوٹی پہ ہونے کی وجہ سے رانی کچھ زیادہ ہی حساس ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں گدھ ابھی کی سے زیادہ نا پیدا نہیں ہوئے تھے ( راجہ گدھ بھی نہیں لکھا گیا تھا) چیلیں بھی شہروں میں صدقے کا گوشت کھانے کے لیے نہیں آئی تھیں اور کوے تو خیر ہابیل قابیل کے زمانے ہی سے زمین پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ تو جب کسی کا کوئی مویشی مر جاتا تھا تو اسے نہر کے پاس ایک بڑے سے خالی میدان میں پھینک دیا جاتا تھا۔ گدھ چیلیں اور دیگر مردار خور گھنٹوں ہی میں اسے چٹ کر جاتے تھے۔
رانی موصوفہ کی حس شامہ اتنی تیز تھی کہ کئی میل دور سے مردار کی بو سونگھ لیتی تھیں۔ اب کو چوان لاکھ ہش ہش کرتا یہ کنوتیاں کس، دانت پر دانت جما جو گھر کی طرف تا نگا کھینچتی ہوئی دوڑتی تو کسی کے روکے نہ رکتی۔ بستوں سے کتابیں گر جاتیں ۔ بہادر کے ایک پین اور مشکلوں سے خریدے رنگین خوشبودار ربڑ ہاتھوں سے پھسل جاتے لیکن رانی صاحب کو کیا پروا۔ اپنے تھان پر آکے دم لیتی۔ اپنی دانست میں وہ ہم لوگوں کو خطرے کے چنگل سے چھڑا کے جائے امان میں لے آتی تھی۔
رانی جب بہت بوڑھی ہو گئی تو اسے تانگے کی مشقت سے آزاد کر دیا گیا اور اب وہ سارا دن برسیم کے کھیتوں اور مالٹے کے باغوں میں گھوما کرتی۔ ہاں شام کو جب میں اپنا ہوم ورک کر رہی ہوتی تھی تو وہ سلاخوں والی کھڑکی کے پاس، جو پچھلے باغ میں کھلتی تھی ، آ کے ایک مسروری "پھرار”کرتی تھی۔ جس کے جواب میں میں اسے گڑ کی ایک بھیلی دیتی تھی۔
ایک روز جب میں ” جنگل بک” کے "باکھیر” کا خاکہ لکھ رہی تھی تو مقررہ وقت کو بہت دیر ہو گئی لیکن رانی نہ آئی۔ ایک فائر کی افتادہ آواز آئی لیکن میں نے کوئی توجہ نہ دی۔ گڑ کی بھیلی کھڑکی کے سامنے رکھی رہی ۔ رات کو معلوم ہوا کہ رانی زخمی ہو گئی تھی اور بجائے اس کے کہ وہ سسک کے مرتی، اسے مارنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ "مرسی کلینگ” کا یہ پہلا واقعہ بے حد اندوہ ناک تھا۔ اب میرے خوابوں میں ایک پہیے والی سائیکل کی جگہ رانی ہوتی ہے اور گولی لگتے ہی منڈیر سے نیچے گر جاتی ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو نہ وہ صحن ہوتا ہے نہ چاندنی، نہ موتیے اورچنبیلی کی کلیاں نہ ابو نہ کوئی اور ۔