سعادت حسن منٹو کی زندگی کے آخری ایام بڑی تیزی سے گزر گئے ۔ وہ دیکھتے دیکھتے اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ شراب ان کی زندگی کا جزو بن چکی تھی۔ وہ ہر روز ایک افسانہ لکھتے ، اُسے ” نقوش سویرا یا ادب لطیف“ کے دفتر میں فروخت کرتے اور اپنے ہم پیالہ دوستوں کی معیت میں تانگے میں بیٹھ کر وائن شاپ کی طرف روانہ ہو جاتے۔ میرے سامنے اُنہوں نے بیس بیس روپوں میں افسانے بیچے ہیں۔ شراب کے لیے انہیں روپوں کی ہر وقت ضرورت رہتی تھی۔ دوست ان سے کترانے لگے تھے۔
گرمیوں کی ایک دو پہر کا ذکر ہے۔ میں ، نواز ، شہرت بخاری، انجم رومانی، قیوم نظر اور محمود ٹی ہاؤس میں سیڑھیوں کے برابر والی میز پر بیٹھے گپ شپ لگارہے تھے۔ محمود کا میں پورا نام بھول گیا ہوں ۔ صاف ستھرے چہرے والا یہ نوجوان ساہیوال کا تھا اور گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کر رہا تھا۔ وہ خود بھی افسانے لکھتا تھا اور سعادت حسن منٹو کا گرویدہ تھا۔ اچانک ٹی ہاؤس کے جالی دار دروازے میں سے منٹو صاحب اندر جھانکتے دکھائی دیے۔
"ارے منٹو آ گیا ؟”
ایک مشہور شاعر کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کے ساتھ ہی دو شاعر باتھ روم میں جا کر چھپ گئے ۔ اب منٹو صاحب اندر آ چکے تھے۔ وہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے ہماری میز پر آگئے۔ اُنہوں نے حسبِ معمول سفید بے داغ کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا۔ موٹے شیشوں والی عینک کے عقب میں نسواری آنکھوں کے پپوٹے بو جھل ہو رہے تھے۔ اُنہوں نے محمود سے پوچھا!
"اوئے تیرے کول پیسے ہیں؟“”
محمود نے جیب سے بٹوہ نکال کر کھولا اور منٹو صاحب کے آگے میز پر رکھ دیا اور پھر بڑےادب سے بولا :
"پورا بٹوہ حاضر ہے۔ منٹو صاحب !”
بٹوے میں دس دس روپے کے پندرہ میں نوٹ تھے۔
منٹو صاحب نے بیس روپے نکال کر جیب میں رکھے اور چپ چاپ با ہر نکل گئے ۔ باہر تا نگے میں ان کا ایک ہم پیالہ یار نشے میں چور ان کا منتظر تھا۔ منٹو صاحب تانگے میں بیٹھے اور تانگہ چل پڑا۔
روزنامہ منشور لاہور سے جاری ہوا۔ مظفر احسانی اس کے ایڈیٹر اور مولا دا د صاحب اس کے مدیر مسئول تھے ۔ مظفر احسانی صاحب میرا بڑا خیال رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ روزنامہ منشور میں لے آئے۔ میں سنڈے ایڈیشن کا انچارج بن گیا۔ یہ دفتر ایک بوسیدہ عمارت کی دوسری منزل پر تھا اور اس کی نیم روشن سیڑھیوں میں ہر وقت ہی ہینگ کی بُو پھیلی رہتی تھی۔ کاتبوں کے پاس کبھی کبھی بلڈنگ کا کُبڑا چوکیدار آ کر بیٹھا کرتا۔ اس کا کھوٹ کھلا ہوا تھا۔ خوش نویس اپنے کام میں مگن ہوتے اور کبڑا چوکیدار زرد مسطر پر اُن کی انگلیوں کو چلتے دیکھا کرتا۔ ایک روز اُٹھا تو ایک خوش نویس نے پوچھا۔
"کہاں چلے چاچا ؟“
دو پہر کا وقت تھا۔ کبڑے چوکیدار کو نیند آ رہی تھی بے اختیار بول اُٹھا:
"یار ذرا کمر سیدھی کر آؤں۔“
ایک دن میں دفتر آیا تو مظفر احسانی نے مجھے افسانہ دیا اور کہنے لگے۔
یہ افسانہ سعادت حسن منٹو کا ہے۔ سنڈے ایڈیشن کے لیے دے گئے تھے۔ آج معاوضہ ادا کرنا ہے۔ ذرا پڑھ لو اسے کہیں کوئی "خطرناک "بات تو نہیں ہے؟
منٹو صاحب اُن دنوں بڑی کھل کر بات لکھ جایا کرتے تھے اس لیے اخبار والے ان کے افسانوں کے بارے میں بڑے محتاط تھے۔ میں بھلا منٹو کے افسانے پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے والا کون تھا؟ میں نے ان کے افسانے پڑھ کر تو لکھنا سیکھا تھا۔ میں صرف اس خیال سے افسانہ پڑھنے لگا کہ اس میں "خطرناک” بات تو نہیں ہے۔
افسانہ بہت کھل کر لکھا گیا تھا۔ ویسے افسانہ بہت اچھا تھا اور منٹو صاحب کا رنگ جگہ جگہ چمک رہا تھا۔ مظفر احسانی صاحب نے مجھ سے رائے پوچھی۔ مولا داد صاحب بھی پاس بیٹھے تھے۔
"حمید صاحب ! پوری ایمانداری سے رائے دیں۔”
میں نے کہا۔
"ظفر صاحب افسانہ بہت اچھا ہے لیکن اگر یہ اخبار کے سنڈے ایڈیشن میں چھپ گیا تو اخبار کی ضمانت ضبط ہو جائے گی ۔”
اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا۔ وہ افسانہ واقعی اخبار کی ضمانت ضبط کرانے والا تھا۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک سب ایڈیٹر نے آکر کہا:
"نیچے منٹو صاحب تانگے میں بیٹھے ہیں اور کہانی کا معاوضہ مانگ رہے ہیں ۔”
مظفر احسانی بڑے پریشان ہو گئے ،شریف اور وضع دار آدمی تھے۔ ادیبوں ، شاعروں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ مولا داد اور مظفر احسانی دونوں ہی سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا کیا جائے ؟ مظفر احسانی نےکہا:
"میرا خیال ہے منٹو صاحب سے کوئی دوسرا افسانہ لے لیا جائے اور یہ واپس کر دیا جائے۔“
تجویز بڑی معقول تھی۔ میں نے کہا:
"یہ پیغام آپ خود منٹو صاحب کو دیں۔ میں اُنہیں یہ نہیں کہہ سکتا ۔”
ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ منٹو پروفیسر اثر صاحب کی معیت میں او پر تشریف لے آئے۔ وہ ابھی گیلری میں ہی تھے کہ میں اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ منٹو صاحب نے آتے ہی معاوضے کا مطالبہ کیا۔ مظفر احسانی نے کہا:
"تشریف رکھیں منٹو صاحب۔”
ان مکالموں کی آواز میں دوسرے کمرے میں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ منٹو صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔
"اس کی ضرورت نہیں مولا دا د صاحب ! کیشیئر سے افسانے کا معاوضہ منگوادیں ۔”
مولا داد صاحب نے ذرا کھنکارتے ہوئے کہا۔
"بات یہ ہے منٹو صاحب کہ۔۔۔۔۔۔”
"کیہ گل اے؟“
اب مظفر احسانی نے کھنکارتے ہوئے کہا۔
"منٹو صاحب ! اگر آپ برا نہ مانیں تو دوسرا افسانہ لکھ دیں ۔“
"کیوں؟ اینوں کیہ اے؟“
"ذرا فحش ہے؟”
منٹو صا حب آگ بگولا ہو گئے ۔
"کون کہتا ہے یہ افسانہ فحش ہے؟“
مظفر احسانی نے میرا نام لیا تو منٹو صاحب اور زیادہ آگ بگولا ہو گئے ۔
"اوئے اوکون اے؟ اوہنوں کیہ پستہ افسانہ کی ہندا اے؟ کتھے اے، اے حمید ؟”
اب وہ مقام آ گیا تھا کہ میں بھاگ جاؤں ۔ چنانچہ میں دفتر کی گلی والی سیٹرھیاں اُتر کربھاگ گیا۔
شراب نے منٹو صاحب کی قابل رشک صحت کو گھن کی طرح کھانا شروع کر دیا تھا۔ اُن کے گھر والوں نے سرتوڑ کر کوشش کی کہ کسی طرح منٹو صاحب کو شراب ایسی مہلک شے سے بچا لیا جائے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ انہیں ذہنی امراض کے شفا خانے بھجوادیا جائے ۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں چونکہ حفاظتی اقدامات سخت ہوتے ہیں لہذا منٹو صاحب ام الخبائث سے محفوظ رہ سکیں گے۔ چنانچہ ایک روز پتہ چلا کہ منٹو صاحب کو زبردستی ذہنی امراض کے شفا خانے میں پہنچا دیا گیا ہے۔ کوئی مہینہ ڈیڑھ مہینہ وہاں رہنے کے بعد وہ واپس آئے تو واقعی اُن کی صحت اچھی ہوگئی تھی ۔ چہرے کی سرخی پلٹ آئی تھی۔ بڑے مزے لے لے کر پاگلوں کی باتیں بیان کیا کرتے۔ ایک پاگل وہاں منٹو صاحب کا خاص یا ر بن گیا تھا۔ ایک روز منٹو صاح صاحب کا جانگیہ گم ہوگیا۔ وہ پاگل بڑا پریشان ہوا۔
"جانگیہ کون لے گیا ؟ کیوں لے گیا ؟ ہمارے ہوتے ہوئے لے گیا ہے؟“
منٹو صاحب کہتے ہیں کہ وہ اُن کے ساتھ مل کے سارے پاگل خانے میں دن بھر جانگیہ ڈھونڈتا رہا۔ معلوم ہوتا تھا جیسے اُس کا اپنا جانگیہ گم ہو گیا تھا۔ شام کو جب وہ اور منٹو صاحب تلاشِ ناکام سے تھک ہار کر بیٹھ گئے تو وہ پاگل اچانک اُٹھ کھڑا ہو گیا اور اپنا کرتہ اوپر اٹھا کر بولا:
"کہیں یہ تمہارا جانگیہ تو نہیں ہے؟“
اور وہ منٹو صاحب کا جانگیہ تھا جسے اس پاگل نے پہن رکھا تھا اور جس کی تلاش میں وہ منٹو صاحب کے ساتھ مل کر دن بھر یہاں وہاں سرگرداں رہا تھا۔
بادہ نوشی سے اجتناب کا یہ وقفہ نا پائیدار ثابت ہوا اور منٹو صاحب پھر پرانی ڈگر پر چل نکلے۔ پبلیشر ان کے افسانے کوڑیوں کے مول خرید خرید کر اپنے جھولے بھرتے رہے اور منٹو صاحب لکھتے رہے اور پیتے رہے، پیتے رہے اور لکھتے رہے۔
چینیز لنچ ہوم میں ایڈل بی وائن شاپ کے ایک پرانے ملازم سے منٹو صاحب کی ہاتھا پائی ہوگئی ۔ منٹو صاحب کے مداحین نے فوراً اُن کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ ان کا رنگ غصے سے لال ہور ہاتھا اور وہ بار بار مکا لہرا ر ہے تھے۔ اب ان کی نشست کرنل بلڈنگ میں ایک دوکان کے عقبی کمرے میں لگا کرتی ۔ ان کی صحت ایک بار پھر بڑی تیزی سےگرنے لگی۔ ان حالات میں بھی وہ بڑی معیاری اور کمال کی کہانیاں لکھ رہے تھے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ انہوں نے حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ جلسے میں پڑھی۔ میں بھی وہاں پر موجود تھا۔ اس معرکہ آرا کہانی کو سنتے ہوئے سامعین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لکھنے کے لیے بادہ آشامی اور بادہ آشامی۔
ایک روز خبر آئی کہ منٹو صاحب میو اسپتال میں ایڈمٹ ہو گئے ہیں۔ میں ان کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچا۔ دوسری منزل پر ویسٹ سرجیکل وارڈ میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب پلنگ پر لیٹے تھے۔ بے حد نحیف اور کمزور ہو گئے تھے۔ چہرے کا رنگ جو کبھی سرخ و سفید ہوا کرتا تھا اب خاکستری ہورہا تھا۔ ان کی ہمشیرہ صاحب انہیں ایک ایک چمچ چوزے کی یخنی پلا رہی تھیں۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر ادب سے سلام کیا اور خموشی سے بینچ پر ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ منٹو صاحب میری طرف دیکھ کر ذرا مسکرائے۔ اس مسکراہٹ میں بے بسی اور خودداری کا احساس تھا۔ اُن کی مسکراہٹ مجھے ساری زندگی یاد رہے گی۔ اس وقت بھی جب میں یہ سطر لکھ رہا ہوں یہ مسکراہٹ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس مسکراہٹ میں ایک شکست خوردہ سپاہی کا بھر پور عزم تھا۔ ایک بار پھر جنگ آزما ہونے کا عزم ! کبھی شکست تسلیم نہ کرنے کا عزم !
اور پھر ایک روز لاہور میں یہ اندوہناک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ اُردو کا نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو انتقال کر گیا۔ لکشمی مینشن میں منٹو صاحب کے گھر کے باہر ان کے پرستاروں کا ہجوم سوگوار تھا۔ سر جھکے ہوئے تھے ، لب خاموش تھے۔ کسی وقت کوئی آہ! کوئی سسکی سنائی دے جاتی۔
منٹو ہم سب سے جدا ہو گئے ۔ اُردو کا منفرد اور عظیم افسانہ نویس ہم سے جدا ہو گیا۔ نریش کمار شاد دِلی سے لاہور آیا تو منٹو صاحب کی قبر پر جاکر بہت رویا ۔ وہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کا بہت عاشق تھا۔ کہنے لگا:
” خدا مسلمانوں کو خوش رکھے، ہمارے پیاروں کا نشان ( قبر ) تو بنا دیتے ہیں ۔“
(یہ تحریر اے حمید کی کتاب "یادوں کے چراغ ” سے لی گئی ہے۔ جس کی تازہ اشاعت اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی نے کی ہے۔)