میں ایف اے میں کمپارٹمنٹ (جسے آج کل "سپلی ” کہا جاتا ہے) آنے کے بعد پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر مستقلاً گاؤں چلا گیا تھا۔ تب تک میرا ادب کے ساتھ رشتہ قائم ہو چکا تھا؛ شاید ایف اے میں ناکامی کی وجہ بھی یہی تھی ۔ میں گوجرانولہ سے ادبی رسائل منگواتا رہتا اور غالباً ” فنون” کے کسی شمارے میں بلونت سنگھ کے ناول ” رات، چور اور چاند” کا ایک باب پڑھا جو وہاں لگایا گیا تھا۔
اس باب میں ماحول ، کرداروں کی باہمی سمجھ بوجھ( دو ہی کردار تھے) اور قصہ گوئی کے انداز نے مجھے کئی دن اپنے سحر میں رکھا ۔ میں اس چھوٹے سے صحن کا حصہ بن گیا جو اس باب کا لوکیل تھا۔ پھر مجھے غالباً مکتبہ جدید کے سستے ایڈیشن میں ” جگا” خریدنے کا اتفاق ہوا۔ بلونت سنگھ کے ناول کا باب میں ابھی بھول نہیں پایا تھا کہ ” جگا” پڑھ لیا۔” جگا”مجموعے کا پہلا افسانہ تھا اور میں نے پہلی بار اینٹی ہیرو اردو میں دیکھا اور پھر جگا مجھے بلونت سنگھ کے چند ناولوں میں نظر آیا ۔
کچھ تخلیق کار فوری طور پر ہی شناخت کر لیے جاتے ہیں ۔ جس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں ان کا ذاتی تشہیر پر انحصار بھی شامل ہے ۔ بلونت سنگھ کسی بھی طرح اس طرح نہیں جانا جا سکا جیسے اس کے چند ہم عصر ادیب تھے۔ یہاں موازنہ مقصود نہیں ہے لیکن اپنی تحریروں میں وہ کسی سے بھی کم نہیں تھا۔ اگر کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کو مولانا صلاح الدین احمد نے متعارف کروایا تو بلونت سنگھ بھی انہی کا ہی متعارف کروایا ہوا تھا ۔ بلونت سنگھ شاید اپنے کام میں یقین رکھتا تھا ۔
ادبی معرکے جہاں ادب میں اپنی سوچ اور نظریے کی ترویج کے لیے ہوتے ہیں وہاں ذاتی تشہیر بھی مقصود ہوتی ہے ۔ بلونت سنگھ کسی ایسی ادبی جنگ کا حصہ نہیں رہا جو کرشن چندر ، منٹو اور بیدی اکثر لڑتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات یہ اختلاف ضروری بھی ہوتا ہے لیکن بلونت سنگھ ہمیشہ وہ بیک بینچر رہا جسے اپنا سبق تو آتا تھا لیکن استاد کے سامنے بیٹھنا پسند نہیں تھا ۔ اس کی تخلیقات کی تعداد یا معیار کسی بھی طرح کم نہیں ہے ۔
اس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ دیہہ نگار ہی تھا ۔ ایسا نہیں ہے۔ اس کے شہری ماحول کے افسانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے کیوں کہ اس پر دیہات کی چھاپ لگ چکی تھی ۔ اس کے شہری ماحول کے افسانوں میں ایک ایسی گہرائی ہے جو شاید دیہات کے ماحول میں نہیں ہے۔
وہ دیہاتی ماحول تخلیق کرتے ہوئے جزیات کو اہمیت دیتا ہے جو قاری کو ایک سحر میں مبتلا کر دیتی ہے جس کی بہترین مثال ” راستہ چلتی عورت” ہے۔ بلونت سنگھ کے ” شہری” افسانوں میں شہری زندگی کی پیچیدگیاں اور نفسیات ہمیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں ۔ وہ ایسا تخلیق کار ہے جس نے اپنی شہرت کے بجائے تخلیقی اہلیت پر انحصار کرتے ہوئے نسبتاً پس منظر میں رہنے کو ترجیح دی ۔ اب وقت ہے کہ بلونت سنگھ کو ” ری وزٹ” کیا جائے اور ‘ جگا’ کے نفسیاتی اور جنسی پہلوؤں کو شناختا جائے۔
وہ ایک فراموش شدہ فکشن نگار ہے۔