اگر لوگ نظمیں نہ لکھتے ، گیت نہ کہتے تو کائینات کتنی ادھوری ہوتی۔ زندگی شاعری کے بغیر بلکل پھیکی اور بے رنگ ہے۔ کوئی اچھا شعر کوئی اچھی غزل یا نظم مجھے کئی دن اور بعض اوقات مہینوں اپنے سحر میں جکڑے رکھتے ہیں۔ یہ سحر مجھے روکتا نہیں بلکہ متحرک رکھتا ہے۔ اپنے جینے کے لیے اور خود کو آگے بڑھتا دیکھنے کے لیے اچھی شاعری پڑھنا پڑتی ہے۔ یہ میری روح کی خوراک ہے۔ دوستوں کی مشکور ہوں کہ وہ مجھے گاہے بگاہے اپنی شاعری کی کتابیں بھیجتے رہتے ہیں اور میرے جینے کا سامان مہیا کرتے رہتے ہیں۔ ازہر ندیم صاحب نے بھی ” دو پھولوں کی کائینات ” بھیجی ہے۔ اور میں کئی دنوں سے سمجھ رہی ہوں کہ کائینات دو پھولوں کی ہی ہے۔ ازہر ندیم صاحب کی پہلی نظم انٹرنیٹ پر پڑھی۔ دلگداز ، مخملی ، کومل سی نظم۔
مجھے لگتا تھا کہ مرد عورت کے حسن اور اس کے سراپے سے آگے نہیں سوچ سکتا۔ وہ اس کے درد تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ شاعری میں بس ہجر و فراق ، زلفوں ، آنکھوں ، کلائیوں ، چال ڈھال سے آگے کی بات نہیں کر سکتا۔ وہ عورت کی صفات تک نہیں پہنچتا ۔ لیکن ازہر ندیم کی کتاب دو پھولوں کی کائینات جس کا انتساب انہوں نے اپنی بیوی کے نام کیا ہے۔ پڑھ کر احساس ہوا کہ وہ عورت کو ایک عورت کی طرح سمجھتے ہیں۔ عورت ان سب چیزوں سے بڑھ کر جیسا اظہار چاہتی ہے وہ ایسا ہی اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہ اظہار بے ساختہ ہے۔ وہ اپنے محبوب کی صفات سے محبت کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کے غمگوں سے نہیں بلکہ خود سپردگی کے لطیف احساس سے مزین ہے۔ محبت کی کیفیات کو پر کیف بنا کر پیش کرنے کا ہنر ازہر ندیم کو بخوبی آتا کہ کہ پڑھتے ہوئے محبت کی اداسی کی بجائے دل محبت کی نرمی سے بھر جاتا ہے اور چہرے پر خود بخود مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ یہ پہلی شاعری کی کتاب ہے جس نے اداس کرنے کی بجائے کومل نظموں سے مجھے سرشار کر دیا۔
حواس خمسہ کی موجودگی کی قسم
تمھارے ہونے کی لطافت
شاعری کی حد انجذاب سے زیادہ ہے (ازہر ندیم )
محبت صرف دکھ نہیں دیتی خوشی بھی دیتی ہے۔ لیکن ہم۔دکھ کو اس قدر سنبھال کر رکھتے ہیں کہ محبت کی خوشی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ازہر ندیم نے خوشی کو اس قدر سنبھالا ، پالا اور سنوارا ہے کہ اسے محبوب کی دوری میں بھی اس خوشی کے ساتھ جینا اچھا لگتا ہے ۔ دو پھولوں کی کائینات سے کچھ نظمیں
اداسی استعارہ ہے
وہ ایسی نظم ہے کوئی
کسی کے سوگ میں ڈوبے ہوئے سب لفظ ہیں اس کے
وہ لمحوں میں کئی صدیاں بسر کرنے کی عادت میں
کچھ ایسی مبتلا ہے
کہ ہر ساعت کے پھیلاؤ میں دکھ کے ان گنت بکھرے زمانےدیکھ لیتی ہے
وہ جب پلکیں اٹھاتی ہے
تو موسم میں نمی کا اک تاثر پھیل جاتا ہے
ہوا غمگین راتوں کے کئی قصے سناتی ہے
وہ لڑکی جس کی باتوں پر ستارے جھلملاتے تھے
افق پر دور بیٹھا چاند ہنستا مسکراتا تھا
اب اس کی ذات جانے کیوں
دکھوں کا گوشوارہ ہے
عبارت سے کہیں آگے
وہ ایسی نظم ہے کوئی
کہ جس کی کیفیت ہراک
علامت رائیگانی کی
اداسی استعارہ ہے
دو پھولوں کی کائنات
اُسے بارش کی آواز پسند ہے
اُسے بارش کی آواز پسند ہے
اور راتوں کو دیر تک جاگنا
وہ خود کو محسوس کرنے کی کوشش میں
چاند اور بادلوں کے ہمراہ دیر تک سفر کرتی ہے
آسمان اس کے لیے کم پڑ جاتا ہے
پھول، پرندے اور درخت
اس کی رفاقت کے طلب گار رہتے ہیں
وہ گیتوں میں اپنے لہجے کو ضم کرتی ہے
تو فضا نغمگی سے بھر جاتی ہے
شاعری کا موسم مسکرانے لگتا ہے
وہ اس سکوت کو بھی سن لیتی ہے
جس میں صدیوں کی گمبھیرتا سانس لیتی ہے
برکھا رت کی بوندیں اس سے کلام کرتی ہیں
گھٹا اسے مسحور رکھتی ہے
اسے بارش کی آواز پسند ہے
باتیں جن کے رنگ ہزار
باتیں جن کے رنگ ہزار
آسمان کے تاروں جتنی
ایک سمندر کے اندر جتنی بھی موجیں ہوسکتی ہیں
اس دھرتی پر جتنے پھول بھی کھل سکتے ہیں
جتنے ذرے اس صحرا کی ریت کا حصہ
سب ابر ومہتاب بھی گن لو اس گنتی میں
اور مہکتے جنگل کے سارے اشجار
ان صبحوں شاموں نے اتنا جان لیا ہے
ان باتوں کو
اک جیون نا کافی ہے
شاعری اور محبت
شاعری اور محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی
ز میں کبھی پھول اگانا بند نہیں کرتی
دریا سمندروں کی طرف بہتے رہتے ہیں
ستاروں کے ٹوٹنے سے آسمان خالی نہیں ہوتا
مہتاب اپنا سفر جاری رکھتا ہے
اداسیوں کا حجم کون ماپ سکا ہے
پوری کائنات طلب اور رسد کے قانون پر عمل پیرا ہے خوبصورتی کو جذب کرنے والی آنکھ روشن رہتی ہے
آئینے حُسن کی ضرورت ہیں
فطرت قوت محرکہ ہے
آخری تجزیے میں زندگی لامحدود اور بے کراں ہے
شاعری اور محبت انسانوں کی امید کو مرنے نہیں دیتے
زندگی کی طرح
شاعری اور محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی
باقی کی خوبصورت نظمیں پڑھنے کے لیے آپ کو ازہر ندیم کی دو پھولوں کی کائینات پڑھنا پڑے گی۔ جسے بک ہوم نے پبلش کیا ہے۔